QR CodeQR Code

جنگ غزہ اور صیہونی آبادکار

8 Sep 2024 10:36

اسلام ٹائمز: اس جنگ کے تقریباً ایک سال گزرنے کے بعد بھی صہیونی پناہ گزین ابھی تک نہیں جانتے کہ انکے ساتھ مستقبل میں کیا ہوگا اور وہ اپنے گھروں کو لوٹیں گے یا نہیں۔؟ جو چیز آباد کاروں کے تناؤ اور نفسیاتی صدمے کو بڑھاتی ہے، وہ یہ ہے کہ "بنیامین نیتن یاہو" کی کابینہ کے پاس ابھی تک نہ تو جنگ کے خاتمے کا کوئی منصوبہ ہے اور نہ ہی شمالی علاقوں سے پناہ گزینوں کی واپسی کا کوئی پروگرام ہے۔ درحقیقت صہیونی پناہ گزینوں کو بے یقینی اور کنفیوژن کا سامنا ہے اور یہ صورت حال خاص طور پر ان کے بچوں کے لیے بدتر ہے۔


تحریر: سید رضا عمادی

اس میں اب کوئی شک نہیں کہ صیہونی حکومت نے جہاں غزہ جنگ میں اپنے فوجی اہداف حاصل نہیں کیے، وہاں اس نے صیہونی آباد کاروں کے چیلنجوں میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کا بارہواں مہینہ گزر رہا ہے۔ گویا یہ جنگ اپنے ایک سال کو پہنچ رہی ہے، اس تناظر میں صیہونی آبادکاروں کے لیے اس جنگ کے نتائج گھمبیر ہوچکے ہیں۔ لبنانی حزب اللہ کے مسلسل حملوں کی وجہ سے مقبوضہ علاقوں کے شمالی علاقوں میں آباد کاروں کے چیلنجز دیگر علاقوں کی نسبت بہت زیادہ ہیں۔ اسلامی مزاحمت لبنان کے مقبوضہ فلسطین کے شمال میں حملوں کے تسلسل نے نفسیاتی مدد حاصل کرنے والے صہیونیوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔

اسرائیلی اخبار Yediot Aharnot کے مطابق، Mergliot کی صہیونی بستی کی کونسل کے سربراہ Eitan Davidi کا کہنا ہے کہ "حزب اللہ کافی عرصے سے اس بستی کو گھیرے میں لئے ہوئے ہے، حزب اللہ کے حملوں میں یہ تباہی کی حالت میں ہے اور ان حملوں سے اس کے شمالی علاقوں کے آباد کاروں پر بہت زیادہ نفسیاتی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ مقبوضہ فلسطین کے شمال میں لبنان کی حزب اللہ کی کارروائی کے آغاز کے بعد سے اس علاقے میں صیہونی آباد کاروں کی ایک بڑی تعداد اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئی ہے۔

بعض اطلاعات کے مطابق مقبوضہ علاقوں کے شمال میں دو لاکھ سے زائد صیہونی آباد کار اپنے گھروں سے بے گھر ہوچکے ہیں۔ صیہونی حکومت کی ڈیفنس اینڈ سکیورٹی ایسوسی ایشن کے مطابق آج تک تقریباً آٹھ ہزار راکٹ شمالی سرحد سے مقبوضہ علاقوں کی طرف داغے جا چکے ہیں۔ ایک ہزار سے زائد مکانات اور رہائشی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے اور سینکڑوں ہیکٹر سے زیادہ اراضی جل چکی ہے۔ مزید برآں، مقبوضہ علاقوں کی شمالی آبادیوں اور مرکزی آبادیوں کے درمیان حفاظتی اقدامات میں تفاوت خاصی مایوسی کا باعث بن رہا ہے اور شمالی مقبوضہ علاقوں کے باشندے خود کو نظر انداز اور مسترد کیے جانے کا احساس کرتے ہیں۔

اس جنگ کے تقریباً ایک سال گزرنے کے بعد بھی صہیونی پناہ گزین ابھی تک نہیں جانتے کہ ان کے ساتھ مستقبل میں کیا ہوگا اور وہ اپنے گھروں کو لوٹیں گے یا نہیں۔؟ جو چیز آباد کاروں کے تناؤ اور نفسیاتی صدمے کو بڑھاتی ہے، وہ یہ ہے کہ "بنیامین نیتن یاہو" کی کابینہ کے پاس ابھی تک نہ تو جنگ کے خاتمے کا کوئی منصوبہ ہے اور نہ ہی شمالی علاقوں سے پناہ گزینوں کی واپسی کا کوئی پروگرام ہے۔ درحقیقت صہیونی پناہ گزینوں کو بے یقینی اور کنفیوژن کا سامنا ہے اور یہ صورت حال خاص طور پر ان کے بچوں کے لیے بدتر ہے۔ مقبوضہ علاقوں کے شمال کے تین میئرز نے حال ہی میں ایک مشترکہ بیان میں اعلان کیا ہے کہ جب تک کابینہ شمال میں سکیورٹی کی بحالی کا کوئی منصوبہ پیش نہیں کرتی اور حالات میں بہتری کی ضمانت نہیں دیتی، وہ اسرائیلی کابینہ سے اپنا رابطہ منقطع کر دیں گے۔

غزہ جنگ کے تسلسل سے آباد کاروں پر جو نتائج مرتب اور ان کے جو نقصانات ہوئے ہیں، خاص طور پر مقبوضہ اراضی کے شمالی محاذ میں، وہ حالیہ دنوں میں نیتن یاہو کی کابینہ کے خلاف آباد کاروں کے مظاہروں میں ایک بار پھر اضافہ کا باعث بنیں ہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ غزہ جنگ کا خاتمہ اور ان کے حالات زندگی کو معمول پر لایا جائے۔جنگ کے خاتمے کے لیے ہونے والے مظاہرے مقبوضہ علاقوں کے دیگر شہروں بالخصوص تل ابیب تک پھیل چکے ہیں اور تل ابیب میں بھی لاکھوں افراد نے مظاہرے کرکے جنگ کے خاتمے پر زور دیا۔


خبر کا کوڈ: 1158784

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1158784/جنگ-غزہ-اور-صیہونی-آبادکار

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com