QR CodeQR Code

اسرائیلی معاشرے میں شدید انتشار کی چھ وجوہات

4 Sep 2024 21:45

اسلام ٹائمز: حال ہی میں جو چھ اسرائیلی یرغمالی مارے گئے ہیں ان میں سے تین یرغمالی ایسے تھے جن کا نام قیدیوں کے تبادلے کی فہرست میں شامل تھا لیکن بنجمن نیتن یاہو نے یہ معاہدہ انجام پانے نہیں دیا۔ یہ ذہانت القدام بٹالینز کے کمانڈرز کی مہارت ظاہر کرتی ہے جنہوں نے نیتن یاہو کو رسوا کر دیا اور صیہونی معاشرے میں اختلافات کی خلیج پیدا کر دی۔ اس وقت تل ابیب میں وسیع پیمانے پر صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے خلاف شدید احتجاجی مظاہرے جاری ہیں اور صیہونی آبادکار نیتن یاہو سے اپنے عہدے سے برطرف ہو جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ صیہونی فوج غزہ سے پیچھے ہٹ جائے اور فوری طور پر حماس سے قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کیا جائے۔ اسی طرح وہ جنگ بندی کیلئے حماس کی شرائط ماننے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں تاکہ غزہ میں موجود تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو گھر واپس لایا جا سکے۔


تحریر: ڈاکٹر عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر رای الیوم)
 
ان دنوں غاصب صیہونی رژیم شدید اندرونی انتشار کا شکار ہے۔ چھ اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں ملنے کے بعد صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے خلاف جاری عوامی احتجاج میں شدت آ گئی ہے اور عوام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اسرائیلی معاشرہ اس وقت انتہائی عدم استحکام اور توڑ پھوڑ کا شکار ہے جو فوجی اور سیاسی میدانوں میں صیہونی حکمرانوں کی شکست کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان میدانوں میں صیہونی رژیم کی شکست اور اسرائیلی معاشرے کو درپیش حالات کی بنیادی وجہ اسلامی مزاحمتی بلاک کی بڑھتی مزاحمت ہے۔ یہ مزاحمت اسرائیل کے اندرونی محاذوں جیسے غزہ اور مغربی کنارے نیز بیرونی محاذوں جیسے لبنان، یمن اور عراق میں بڑھتی جا رہی ہے۔ گذشتہ 76 سالہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ عرب اور اسلامی ذہانت اور شجاعت غاصب صیہونی رژیم کے مکر و فریب پر غلبہ پا رہی ہے۔ صیہونی معاشرے میں شدید انتشار کی درج ذیل چھ وجوہات کا جائزہ لیں گے۔
 
1)۔ پہلی وجہ فلسطین کی اسلامی مزاحمت کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کیلئے دوحہ اور قاہرہ میں امریکہ کی سرپرستی میں غاصب صیہونی رژیم سے جاری مذاکرات میں اپنے شرائط پر ڈٹ جانا ہے۔ اس بارے میں اسلامی مزاحمت کا اہم ترین موقف غزہ کی پٹی خاص طور پر فلاڈیلفیا اور نتساریم سے غاصب صیہونی فورسز کا مکمل انخلاء نیز صیہونی رژیم کی جیلوں سے معروف فلسطینی رہنماوں کی آزادی اور غزہ کی تعمیر نو ہے۔
2)۔ دوسری وجہ وہ تھکا دینے والی جنگ ہے جو حزب اللہ لبنان نے مقبوضہ فلسطین کے شمالی محاذ پر شروع کر رکھی ہے۔ خاص طور پر اربعین کے موقع پر حزب اللہ نے اربعین آپریشن کے نام سے جو بڑی فوجی کاروائی انجام دی ہے اور اس میں مقبوضہ فلسطین کے مرکزی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اس نے بھی صیہونی معاشرے میں انتشار اور بے چینی کی شدت میں اضافہ ہو جانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
 
حزب اللہ لبنان نے اربعین آپریشن میں جو شہید فواد شکر کی ٹارگٹ کلنگ کے بدلے میں انتقامی کاروائی کے طور پر انجام پایا تھا، تل ابیب کے ساتھ اسرائیل کے انتہائی اہم اور اسٹریٹجک جاسوسی مراکز کو نشانہ بنایا تھا۔ یہ جاسوسی مراکز گیلالوت فوجی اڈے میں واقع ہیں۔ حزب اللہ نے بہت اعلی فوجی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے پہلے 320 سے زیادہ کیتیوشا میزائل فائر کئے جنہوں نے اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام کو مفلوج کر دیا اور اس کے بعد دسیوں خودکش ڈرون طیاروں سے مطلوبہ ٹھکانوں کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔ حال ہی میں صیہونی ملٹری انٹیلی جنس کی یونٹ 8200 کے سربراہ یوسی شیریئل کا مستعفی ہو جانا حزب اللہ لبنان کی اس انتقامی فوجی کاروائی کی کامیابی کی سب سے اہم اور بڑی دلیل ہے۔ صیہونی فوج نے اربعین آپریشن میں ہونے والے نقصانات منظرعام پر آنے سے روکنے کیلئے شدید سینسرشپ لگا رکھی ہے۔
 
3)۔ تیسری وجہ مغربی کنارے میں دوسرے مسلح انتفاضہ کا آغاز ہے۔ صیہونی رژیم نے مغربی کنارے کے شمال اور جنوب میں وسیع فوجی جارحیت کا آغاز کر رکھا ہے جس کے باعث وہ بڑی تعداد میں فورسز غزہ سے باہر نکال کر مغربی کنارے کی جانب بھیجنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ مغربی کنارہ ایک بڑا محاذ ہے جو غاصب صیہونی رژیم کی موجودیت کیلئے خطرہ بنا ہوا ہے۔
4)۔ چوتھی وجہ فتح آرگنائزیشن سے وابستہ نئی اور پرانی اسلامی مزاحمتی بٹالینز کا میدان جنگ میں واپس آ جانا ہے۔ یہ دراصل فلسطین اتھارٹی اور اس کے سربراہ کی واضح نافرمانی اور بغاوت ہے۔ ہم یہاں شہدائے الاقصی اور شہید ابو علی ایاد بٹالینز کی بات کر رہے ہیں۔ اس تبدیلی کا مطلب فلسطین اتھارٹی اور اس کے سربراہان کی نابودی ہے جبکہ فلسطین اتھارٹی کی مزید سکیورٹی فورسز کا مغربی کنارے میں اسلامی مزاحمت سے ملحق ہو جانے کا زمینہ بھی فراہم ہو گیا ہے۔ 2000ء میں پہلے انتفاضہ کے موقع پر بھی ایسا ہی ہوا تھا۔
 
5)۔ صیہونی معاشرے میں پائے جانے والے انتشار کی پانچویں وجہ تمام اسلامی مزاحمتی گروہوں کی جانب سے غزہ کی پٹی میں غاصب صیہونی رژیم کی وحشیانہ جارحیت اور خواتین اور بچوں کے قتل عام کے ردعمل میں مقبوضہ فلسطین میں شہادت پسندانہ کاروائیاں دوبارہ شروع کرنے کا متفقہ فیصلہ ہے۔ مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل کے علاقے ترقومیا میں شہادت پسندانہ کاروائی جس میں 3 صیہونی فوجی ہلاک ہو گئے ایسی مزید مزاحمتی کاروائیوں کا نقطہ آغاز ہے۔
6)۔ چھٹی وجہ اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے ملٹری ونگ شہید عزالدین قسام بٹالینز اور اس کے کمانڈرز کی ذہانت ہے جس کے باعث صیہونی فوج غزہ کی پٹی میں اپنے ہی یرغمالیوں کا قتل عام کر رہی ہے۔
 
حال ہی میں جو چھ اسرائیلی یرغمالی مارے گئے ہیں ان میں سے تین یرغمالی ایسے تھے جن کا نام قیدیوں کے تبادلے کی فہرست میں شامل تھا لیکن بنجمن نیتن یاہو نے یہ معاہدہ انجام پانے نہیں دیا۔ یہ ذہانت القدام بٹالینز کے کمانڈرز کی مہارت ظاہر کرتی ہے جنہوں نے نیتن یاہو کو رسوا کر دیا اور صیہونی معاشرے میں اختلافات کی خلیج پیدا کر دی۔ اس وقت تل ابیب میں وسیع پیمانے پر صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے خلاف شدید احتجاجی مظاہرے جاری ہیں اور صیہونی آبادکار نیتن یاہو سے اپنے عہدے سے برطرف ہو جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ صیہونی فوج غزہ سے پیچھے ہٹ جائے اور فوری طور پر حماس سے قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کیا جائے۔ اسی طرح وہ جنگ بندی کیلئے حماس کی شرائط ماننے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں تاکہ غزہ میں موجود تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو گھر واپس لایا جا سکے۔


خبر کا کوڈ: 1158057

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1158057/اسرائیلی-معاشرے-میں-شدید-انتشار-کی-چھ-وجوہات

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com