QR CodeQR Code

امام موسی صدر کا اغوا علاقائی سازش تھی

1 Sep 2024 20:15

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر یعقوب نے اپنی گفتگو میں مزید کہا کہ امام موسی صدر نے میرے والد کے ساتھ عرب حلقوں میں ایک اہم کردار ادا کیا، ان کے لیبیا جانے سے مہینوں پہلے مرحوم صدر کے جمال عبدالناصر کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور وہ الجزائر کے صدر ہوری بومادین کے ساتھ بھی رابطے میں تھے۔ وہ معمر قذافی اور امام صدر کے درمیان رابط تھے اور انکے ذریعے دعوت دلائی گئی تھی۔ ڈاکٹر یعقوب کے مطابق یہ دعوت نامہ الجزائر کے صدر حوری بومیدین کی درخواست پر بھیجا گیا تھا، جنہوں نے قذافی سے رابطہ قائم کرکے اس دعوت نامہ کی کوشش کی تھی۔


ترتیب و تنظیم: علی واحدی

شیخ ڈاکٹر محمد یعقوب فاؤنڈیشن کے سربراہ نے کہا ہے کہ امام موسی صدر کو غائب کرنے کی سازش خطے کا نقشہ بدلنے کی علاقائی سازش تھی، کیونکہ امام موسی صدر اور شیخ ڈاکٹر محمد یعقوب کو لیبیا میں سرکاری طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر "علی یعقوب" نے العالم نیوز نیٹ ورک پر "ضیف و حوار" نامی پروگرام کو انٹرویو دیتے ہوئے مزید کہا ہے کہ  امام موسی صدر اور میرے والد شیخ ڈاکٹر محمد یعقوب کے اغوا کا معاملہ 46 سال پرانا ہے اور یہ ایک اہم بین الاقوامی مسئلہ ہے، کیونکہ یہ صرف  لبنانیوں کے لیے نہیں بلکہ پوری عرب اور اسلامی قوم کے لیے ایک دھچکا ہے۔ اس لیے کہ ان دونوں شخصیات کا مقصد لبنان اور امت مسلمہ سے محرومیوں کو دور کرنا تھا۔

امام صدر کی گمشدگی سب سے زیادہ مبہم مقدمات میں سے ایک ہے۔ انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ان دونوں شخصیات کی گمشدگی کا معاملہ سب سے زیادہ مبہم اور طویل کیسوں میں سے ایک ہے۔ شیخ علی کا کہنا تھا کہ 46 سال گزرنے کے بعد بھی ہمیں لاپتہ  افراد کی تقدیر کے بارے کوئی علم نہیں اور اس ابہام کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ یہ کیس بدستور جاری ہے. انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ  ایک ایسی سازش ہے، جس سے لبنان اور خطے کے خلاف سازش کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ خاص طور اس لئے کہ یہ واقعہ ایک حساس دور میں ہوا تھا۔

امام صدر کی گمشدگی اور صیہونی حکومت کے مستقبل کے درمیان تعلق
شیخ علی یعقوب نے نشاندہی کی کہ ان دونوں کی گمشدگی کے چند روز بعد کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہوا اور اس وقت کے مصری صدر "انور سادات" نے مقبوضہ فلسطین کا سفر کرکے اس معاہدے پر دستخط کیے، لہذا ہم اس گمشدگی کو صیہونی حکومت کی کوششوں اور سازشوں کا نتیجہ قرار دے سکتے ہیں۔ ہم اس واقعہ کو صیہونی حکومت کی بقا سے مربوط سمجھتے ہیں۔

امام صدر کے غائب ہونے سے پہلے اور بعد کے واقعات
ڈاکٹر علی یعقوب نے اس گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ امام صدر کی گمشدگی سے 5 یا 6 ماہ قبل مارچ 1978 میں لبنان میں خانہ جنگی شروع ہوئی اور اس کے چند دن بعد کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہوا۔ صدر اور شیخ یعقوب، ایران کے اسلامی انقلاب کی فتح کی بنیاد بنانے کے دو اہم عوامل ہیں۔ انہوں نے کہا: صدر اور شیخ یعقوب کی گمشدگی 1979 میں ایران کے اسلامی انقلاب کی فتح سے چند ماہ قبل ہوئی، جس نے خطے کا چہرہ بدل کر رکھ دیا۔ صدر انقلاب اور امام خمینی (رح) سے رابطے میں تھے۔

خاص طور پر چونکہ شہید مصطفیٰ چمران کئی سال تک ہمارے گھر میں رہے اور بہت سے جنگجوؤں کو انہوں نے تربیت دی۔ انہوں نے کہا: امام صدر فرانس کے صدر سے بات کرنے اور امام خمینی (رہ) کے استقبال کے لیے ثالثی کرنے کے لیے پاپ آف ویٹیکن سے ملنے کے لیے روم گئے تھے۔ انہوں نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ تعاون کیا، کیونکہ اگر یہ کوششیں کامیاب نہ ہوتیں تو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو انقلاب کے حوالے سے کئی مشکلات درپیش ہوتیں۔

امام موسی صدر کی گمشدگی؛ علاقائی سازش
ڈاکٹر یعقوب کا کہنا ہے کہ امام موسی صدر کی گمشدگی کی سازش ایک علاقائی سازش ہے، کیونکہ امام صدر اور ان کے والد شیخ ڈاکٹر محمد یعقوب کو سرکاری طور پر مدعو کیا گیا تھا، اس لیے یہ خطے کا چہرہ بدلنے کی سازش تھی، خاص طور پر ان دونوں نے ایران کے اسلامی انقلاب کی حمایت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

میرے والد امام موسیٰ صدر کے رازوں کے محافظ تھے
ڈاکٹر یعقوب نے کہا: میرے والد امام موسیٰ صدر کے رازوں کے محافظ تھے اور دونوں آپس میں جڑے ہوئے تھے، کیونکہ اس سازش نے درحقیقت تاریخی راستے کو متعین کیا اور حقیقی منصوبہ بندی کی جہتوں کو واضح کیا۔ اس طرح کہ اس اغوا کے بعد لبنان کی خانہ جنگی شروع ہوگئی اور اسرائیلی حکومت نے 1982 میں لبنان پر حملہ کر دیا اور خطے میں تنازع شروع ہوگیا۔ ڈاکٹر یعقوب نے اپنی گفتگو میں مزید کہا کہ امام موسی صدر نے میرے والد کے ساتھ عرب حلقوں میں ایک اہم کردار ادا کیا، ان کے لیبیا جانے سے مہینوں پہلے مرحوم صدر کے جمال عبدالناصر کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور وہ الجزائر کے صدر ہوری بومادین کے ساتھ بھی رابطے میں تھے۔ وہ معمر قذافی اور امام صدر کے درمیان رابط تھے اور انکے ذریعے دعوت دلائی گئی تھی۔ ڈاکٹر یعقوب کے مطابق یہ دعوت نامہ الجزائر کے صدر حوری بومیدین کی درخواست پر بھیجا گیا تھا، جنہوں نے قذافی سے رابطہ قائم کرکے اس دعوت نامہ کی کوشش کی تھی۔

ڈاکٹر یعقوب نے مزید کہا ہے کہ لیبیا کے ناظم الامور امام صدر کے پاس آئے اور انہیں یکم ستمبر کی برسی کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی۔ یہ دعوت 19 یا 20 اگست کو دی گئی تھی، امام صدر اور میرے والد دونوں ستمبر انقلاب کی تقریب میں شرکت کرنا چاہتے تھے۔ مسئلہ یہ ہے کہ امام موسیٰ صدر نے لیبیا کا سفر کرنے اور اس ملک کے رہنما معمر قذافی سے ملاقات کے لیے 25 اگست کا انتخاب کیا تھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ اس سے پہلے انہیں فرانس جانا تھا، انہوں نے بیروت میں اس ملک کے سفارت خانے سے فرانس کا ویزا حاصل کیا تھا۔ ڈاکٹر یعقوب نے آخر میں کہا: ابھی تک امام صدر کی موت کی تصدیق کرنے والی کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے، اس لیے ہم ہمیشہ دعا کرتے ہیں کہ وہ زندہ ہوں اور ہمیں ان کی بازیابی کی خوشخبری ملے۔


خبر کا کوڈ: 1158016

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1158016/امام-موسی-صدر-کا-اغوا-علاقائی-سازش-تھی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com