دلدل ہی دلدل
2 Sep 2024 14:12
اسلام ٹائمز: فلسطینی گروپوں نے صیہونی حکومت کے ساتھ جنگ بندی کے مذاکرات میں اپنے جائز مطالبات پر زور دیا ہے اور فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی اور غزہ سے قابضین کا مکمل انخلاء ان کی اہم شرائط میں شامل ہے۔ جنگ بندی کے مذاکرات کو متعدد بار روک دینے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ صیہونی حکومت زیادہ تر اندرونی بحران سے نکلنے کے لیے مذاکرات میں وقت ضائع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
تحریر: احسان شاہ ابراہیم
مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں مظاہروں میں اضافے نیز صیہونی حکومت کے وزیراعظم اور مخالفین کے درمیان اختلافات بڑھنے سے تل ابیب میں کشیدگی اور اندرونی بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ حماس کے ساتھ جنگ بندی کے مذاکرات میں نیتن یاہو کی بے حسی اور کمزوری کے حوالے سے مقبوضہ علاقوں میں مظاہروں میں اضافہ ہوا ہے۔ کابینہ کے بعض مخالفین صیہونی حکومت کے وزیراعظم پر غزہ کی جنگ کو سنبھالنے میں بری طرح ناکام ہونے کا الزام بھی لگاتے ہیں۔ صیہونی حکومت کے قیدیوں کے اہل خانہ نے اتوار کے روز اعلان کیا ہے کہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو قیدیوں کو مکمل بھول گئے ہیں۔ اس بیان میں کہا گیا ہے: ہم تمام لوگوں سے کہتے ہیں کہ اسرائیل میں معمولات زندگی میں خلل ڈالیں، جس سے حکومت کل سے مکمل طور پر ہل جائے گی۔ صیہونی حکومت کی کابینہ کی اپوزیشن جماعتوں کے سربراہ یائر لاپد نے بھی X سوشل نیٹ ورک (سابق ٹویٹر) پر اپنے صارف اکاؤنٹ پر ایک پیغام میں لکھا ہے کہ نیتن یاہو دھوکے اور فریب دہی میں مصروف ہے۔
دوسری جانب مقبوضہ علاقوں میں کابینہ کے خلاف سڑکوں پر مظاہرے زیادہ وسیع ہوگئے ہیں۔ دراین اثنا صیہونی حکومت کے وزیراعظم کے دفتر نے بچوں کو قطرے پلانے کی وجہ سے غزہ میں ممکنہ جنگ بندی کے قیام کی تردید کی ہے۔ گزشتہ ہفتے بھی مقبوضہ علاقوں کے مختلف شہروں میں نیتن یاہو اور حماس کے ساتھ جنگ بندی کے مذاکرات کے لیے ان کی نااہلی کے خلاف مظاہرے جاری رہے اور تل ابیب میں صیہونی حکومت کی پولیس نے مظاہرین پر حملہ کیا اور انہیں زدوکوب کیا۔ صہیونی آباد کاروں نے تل ابیب میں بھی مظاہرہ کیا اور غزہ میں فلسطینی مزاحمتی گروپوں کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر فوری دستخط کرنے کا مطالبہ کیا۔
7 اکتوبر 2023 یعنی طوفان الاقصی" آپریشن کے آغاز کے بعد سے، نیتن یاہو اور ان کی کابینہ کے انتہا پسند ارکان حماس کو تباہ کرنے اور فلسطینی مزاحمتی گروپوں کو بے دخل کرنے کا وعدہ کرکے جنگ کو ہوا دینے اور کشیدگی بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حماس اور فلسطینی عسکری گروہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ صہیونیوں کا مقابلہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ غزہ کی جنگ ایسے حالات میں جاری ہے کہ جب صیہونی حکومت کو امریکہ اور مغربی حکومتوں کی طرف سے ہمیشہ کی طرح مالی،فوجی اور سیاسی معاونت حاصل ہے، لیکن یہ امداد مقبوضہ علاقوں میں داخلی بحران کو کم نہ کر سکی اور جنگ کے جاری رہنے سے حالات مزید خراب ہوگئے ہیں صیہونی حکومت پر پہلے سے زیادہ تنقید ہو رہی ہے۔
دوحہ اور قاہرہ میں کئی مہینوں تک جاری رہنے والے جنگ بندی کے مذاکرات کے دوران نیتن یاہو نے پروپیگنڈے اور فریب سے اپنی کارکردگی کو درست ثابت کرنے اور جانچنے کی کوشش کی، لیکن تل ابیب میں کابینہ کی اپوزیشن نے ان کے اقدامات پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ فلسطینی گروپوں نے صیہونی حکومت کے ساتھ جنگ بندی کے مذاکرات میں اپنے جائز مطالبات پر زور دیا ہے اور فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی اور غزہ سے قابضین کا مکمل انخلاء ان کی اہم شرائط میں شامل ہے۔ جنگ بندی کے مذاکرات کو متعدد بار روک دینے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ صیہونی حکومت زیادہ تر اندرونی بحران سے نکلنے کے لیے مذاکرات میں وقت ضائع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
نیتن یاہو کے خلاف کشیدگی کا نتیجہ صہیونی پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کی جماعتوں کا کابینہ پر عدم اعتماد ہے اور حزب اختلاف قبل از وقت انتخابات کرانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اس صورت حال میں صیہونی حکام کی جارحیت کے تسلسل سے مقبوضہ علاقوں میں اندرونی بحران شدت اختیار کرے گا اور نیتن یاہو کو انتہا پسند اور متحارب صہیونیوں کے تصادم کی قیمت چکانا پڑے گی۔
خبر کا کوڈ: 1157623