قائد ملت جعفریہ علامہ سید محمد دہلوی
20 Aug 2024 11:08
اسلام ٹائمز: آپ نے خطابت میں وہ مقام حاصل کیا کہ خطیب اعظم کا لقب پایا۔ سادات بارہ کے لیے انہی سے ایک شان دار بورڈنگ بنوایا۔ بمبئی میں قیصر باغ جیسی تعمیر آپکی پرخلوص جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ دہلی ہال اور جھنگ کا یتم خانے آپکے جذبوں کا ترجمان ہے۔ 1931ء سے انجمن وظیفہ سادات و مومنین کے رکن تھے اور اس ادارے کی بہتری کے لیے کام کیا۔ لکھنؤ کے تاریخی ایجی ٹیشن میں بے مثال خدمات انجام دیں۔ ستر برس کی عمر میں اپنی جواں ہمتی اور بہادرانہ پامردی کے ساتھ ایک ان تھک سپاہی، ایک بے پروا مجاہد اور ایک نڈر قائد کی طرح پوری قوم کی قیادت فرمائی۔
تحریر: سید نثار علی ترمذی
ادارہ تحفظ حقوق شیعہ (مارچ 1948ء) میں اس ادارہ کی ضرورت اس وقت محسوس کی گئی، جب چند روایتی رہنماؤں نے ”آل پاکستان شیعہ کانفرنس” کے پلیٹ فارم سے ایک قرارداد منظور کروائی، جس کا مفہوم کچھ اس طرح سے تھا کہ ”ہم شیعان حیدر کرار کے پاکستان میں وہی حقوق ہیں، جو دوسرے اہل سنت برادران کے ہیں اور دیگر مسلمانوں سے الگ ہمارے کوئی حقوق نہیں ہیں۔” لہذا جب اس کی خبر حضرت علامہ مفتی جعفر حسین قبلہ اور علامہ حافظ کفایت حسین قبلہ کو ملی تو انہوں نے دور اندیشی کے ساتھ انتہائی سخت ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ ”یہ غلط ہے کہ ہمارے دوسرے مسلمانوں سے الگ کوئی اور حقوق نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دوسرے مسلمانوں سے ہماری کچھ الگ خصوصیات اور حقوق ہیں کہ جن کے تحفظ سے ہم دست بردار نہیں ہوسکتے ہیں۔” مذکورہ قرارداد کے چند روز بعد ”ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان” کا لاہور میں قیام عمل میں آیا اور علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم پہلے صدر، حافظ کفایت حسین مرحوم نائب صدر، خطیب آل محمد سید اظہر حسین زیدی مرحوم جونیئر نائب صدر، پروفیسر صادق حسین قریشی مرحوم جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔
1949ء میں علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم تعلیمات اسلامیہ بورڈ کے رکن نامزد ہوگئے۔ اکتیس علماء کے بائیس نکات اور تحریک ختم نبوت میں اسی پلیٹ فارم سے حصہ لیا گیا۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ اور دیگر تنظیمیں بھی روائیتی ہوتے چلے گئے، جبکہ مسائل بڑھتے گئے۔ پہلے تو اقتدار کی چومکھی دوڑ جاری رہی، پھر ایوب خان کا مارشل لاء آگیا، عائلی قوانین آگئے، سارے اوقاف پر حکومت نے قبضہ کر لیا۔ 1963ء میں سانحہ ٹھیڑھی، سندھ میں پیش آیا، اس پر کوئی خاص احتجاج و دادرسی نہ ہوسکی۔ درسی کتب میں دل آزار مواد شامل ہوگیا۔ دینیات کے نام پر ایک خاص نکتہ نظر کو پڑھایا جانے لگا۔ عزاداری کی راہ میں روکاوٹیں کھڑی ہونی شروع ہوگئیں۔ شیعہ افسران سے تعصب برتا جانے لگا، انہیں اہم ذمہ داریوں سے علیحدہ کیا جانے لگا۔ غرض یہ کہ مسائل بڑھتے چلے گئے۔ ان حالات میں علامہ سید محمد دہلوی مرحوم کی دعوت پر 5، 6، 7 جنوری 1964ء کو کراچی میں پاکستان کی تاریخ کا پہلا منظم اجتماع امام بارگاہ شاہ کربلا، رضویہ کالونی، کراچی میں منعقد ہوا، جس میں دو سو سے زیادہ علماء کرام اور ممتاز شیعہ رہنماؤں نے شرکت کی۔
تمام مسائل پر تفصیلی گفتگو کے بعد مجلس عمل علمائے شیعہ پاکستان تشکیل دی گئی اور اتفاق رائے سے خطیب اعظم مولانا سید محمد دہلوی مرحوم کو اتفاق رائے سے اس کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ طے پایا کہ درج ذیل مطالبات حکومت کو پیش کئے جائیں۔
1۔ شیعہ طلباء کے لیے مدارس میں علیحدہ دینیات کا انتظام
2۔ شیعہ اوقاف کے لیے حکومت کی زیر نگرانی شیعہ بورڈ کا قیام
3۔ تحفظ عزاداری
4۔ درسی کتب سے قابل اعتراض اور دل آزار مواد کا اخراج
زیر نظر مضمون میں آپ کے دور قیادت کو ترتیب دیا گیا ہے، تاکہ اس کی ایک جھلک قارئین کے سامنے آجائے۔
5، 6، 7 جنوری 1964ء، کراچی میں علماء کا اجلاس اور مطالبات کا تعین، مجلس عمل علمائے شیعہ پاکستان کا قیام اور سربراہ کا انتخاب
23 فروری 1964ء مطالبات کے سلسلے میں ایک وفد گورنر امیر محمد خان سے ملا۔ انہوں نے غور کرنے کا کہہ کر ٹال دیا۔
3 مارچ 1964ء صدر پاکستان سے ملاقات کی، وعدہ کیا جو پورا نہ ہوا۔
14 مئی 1964ء صدر پاکستان سے کراچی میں ملاقات کی اور وعدہ یاد دلایا۔ اس نے سیکرٹری تعلیم سے ملنے کو کہا۔
13 اگست 1964ء کو سیکرٹری تعلیم سے راولپنڈی میں ملاقات کی، جو سودمند ثابت نہ ہوئی تو راولپنڈی کنونشن طلب کیا گیا۔
28، 29، 30 اگست1964ء کو راوالپنڈی میں عظیم الشان کنونشن منعقد ہوا۔ تیس ہزار سے زائد مومنین نے شرکت کی۔ پاس کردہ ریزولیوشن حکومت کو بھیجا، مگر کوئی جواب نہیں آیا۔
25 اکتوبر 1964ء آل پاکستان یوم احتجاج منایا گیا۔ حکومت کو ہر جگہ سے خطوط اور ٹیلی گرامز دیئے گئے، مگر حکومت کی طرف سے خاموشی رہی۔
30 نومبر1964ء پچاس افراد پر مشتمل علماء و زعماء نے لاہور میں صدر سے ملاقات کی اور صدر نے ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کیا۔
جنوری 1965ء قائد ملت سید محمد دہلوی نے ایک چار رکنی کمیٹی کا اعلان کیا، مگر گورنر نے اپنے دوست کا نام کمیٹی میں شامل نہ ہوئے کی وجہ سے ایک سال تک کمیٹی کا کوئی اجلاس نہیں ہونے دیا۔
27، 28 اگست 1966ء کو ملتان میں کنونشن منعقد ہوا۔ ملک بھر سے نمائندگان شریک ہوئے۔ حکومت سے پرزور مطالبہ کیا گیا کہ وہ شیعہ مطالبات کو منظور کرے، مگر حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی۔
1965ء، 1966ء میں پورے ملک میں شیعہ مطالبات کمیٹیاں قائم کر دیں گئیں۔
6 نومبر 1966ء کو جھنگ میں میں کونسل کا اجلاس منعقد کیا گیا، جس میں ملک بھر سے نمائندگان نے شرکت کی۔
11، 12 فروری 1967ء کو کراچی میں ورکرز، ممبران کونسل اور مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا مگر بے سود۔
3، 4 جون، 1967ء عظیم شان جلسے کا اعلان کیا۔ جلسہ سے قبل گورنر جنرل موسیٰ سے ایک وفد نے ملاقات کی۔ اس نے کہا کہ اگر جلسہ ملتوی کر دیا جائے تو مطالبات کی منظوری کے لیے کوشش کرے گا۔ مگر جلسہ ملتوی کرنے کے باوجود کچھ نہ ہوا۔
14، 15 جنوری 1968ء پورے ملک سے ہزاروں کی تعداد میں ٹیلی گرام و خطوط لکھ کر حکومت سے مطالبات کی منظوری کے لیے کہا گیا۔
10، 11، 12 فروری 1968ء حیدرآباد میں کنونشن طلب کیا گیا۔ گورنر موسٰی نے اس کی شدید مخالفت کی۔ علماء کرام و مندوبین کی حیدرآباد میں داخلہ پر پابندی لگا دی، لیکن وزیر داخلہ کے وعدہ پر کنونشن ملتوی کر دیا گیا مگر وعدہ وفا نہ ہؤا۔
25 مارچ 1968ء کو لاہور میں ایک میٹنگ بلائی گئی۔ اس موقع پر وزیر داخلہ سے ایک وفد ملا تو اس نے بتایا کہ مطالبات حکومت کے زیر غور ہیں۔
6، 7 جولائی،1968ء کو حیدر آباد میں مجلس مشاورت کا اجلاس ہوا، جس میں مطالبات کے حصول کے لیے مختلف طریقوں پر غور ہوا۔
2، 3 نومبر 1968ء راولپنڈی میں جلسہ عام بلایا گیا۔ دس ہزار سے زائد مومنین جمع ہوگئے، جبکہ سینکڑوں علاقہ جات سے کفن بر دوش دستوں کی اطلاعات آنی شروع ہوگئیں۔ پہلا 72 افراد پر مشتمل دستہ 2 نومبر کو پہنچنا تھا کہ حکومت نے مطالبات کی منظوری کا اعلان کر دیا۔ حکومت نے مطالبات تو منظورِ کر لیے، مگر عمل درآمد میں تساہل سے کام لیتی رہی۔ علیحدہ شیعہ دینیات بھٹو کے دور میں احتجاجی دھرنے کے بعد جاری ہوئی۔ 1976ء میں میٹرک کا امتحان اسی دینیات پر ہوا۔ مگر اسے بھی برقرار نہ رکھ سکے۔ یہ ایک جھلک ہے، کس طرح پوری قوم کو منظم کرکے دن رات ایک کرکے پھرپور جدوجہد کی۔ آپ کا یہ پہلو آپ کی پہچان تو ہے، مگر اس سے کم لوگوں کو آگاہی تھی۔
پیدائش: آپ پیتن ہیڑی ضلع بجنور میں پیدا ہوئے۔
والد بزرگوار: مولوی آفتاب حسین مرحوم کو کہ بچپن میں ہی رحلت فرما گئے۔
تعلیم و تربیت: آپ شمس العلماء سید عباس حسین جارچوی، دہلی میں مولوی مرزا محمد حسن مرحوم، مولوی سید محمد ہارون زنگی پوری مرحوم، لکھنؤ مدرسہ ناظمیہ میں سید نجم العلماء، مولوی سید مقبول احمد مرحوم سے فیض علم حاصل کیا۔
قومی خدمات: آپ نے خطابت میں وہ مقام حاصل کیا کہ خطیب اعظم کا لقب پایا۔ سادات بارہ کے لیے انہی سے ایک شان دار بورڈنگ بنوایا۔ بمبئی میں قیصر باغ جیسی تعمیر آپ کی پرخلوص جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ دہلی ہال اور جھنگ کا یتم خانے آپ کے جذبوں کا ترجمان ہے۔ 1931ء سے انجمن وظیفہ سادات و مومنین کے رکن تھے اور اس ادارے کی بہتری کے لیے کام کیا۔ لکھنؤ کے تاریخی ایجی ٹیشن میں بے مثال خدمات انجام دیں۔ ستر برس کی عمر میں اپنی جواں ہمتی اور بہادرانہ پامردی کے ساتھ ایک ان تھک سپاہی، ایک بے پروا مجاہد اور ایک نڈر قائد کی طرح پوری قوم کی قیادت فرمائی۔
علمی خدمات: علامہ سید محمد دہلوی کی کتاب "نور العصر" کے مقدمے میں علامہ مرتضٰی حسین صدر الافاضل لکھتے ہیں کہ "اس کتاب میں قرآن مجید، تفسیر، حدیث، عقائد، کلام اور آسان فلسفہ دیانت، مسلمانوں کے مسلمات اور اکابر علماء اسلام کے ارشادات ہیں۔ سادہ اور عام فہم اور نتیجہ خیز دلیلیں ہیں۔ عقل کی روشنی میں مذہب شیعہ کا بیان ہے۔ آیات کے فیضان سے امامت پر استدلال ہے اور قرآنی شواہد کی امداد سے حضرت امام آخر الزماں علیہ الصلاۃ والسلام کی معرفتِ کے لیے دعوت دی ہے۔ معقول حقائق کے لیے مواد مہیا کیا ہے اور بات سمجھنے کے لیے قندیل نور روشن کی ہے۔" آپ نے کراچی میں ایک نادر کتب پر لائیبریری بنائی، جبکہ ہندوستان میں آپ کا کتب خانہ ہندو بلوائیوں نے جلا دیا تھا۔
رحلت: آپ 20 اگست 1971ء اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوگئے۔ خراسان باغ کراچی میں آسودہ خاک ہیں۔
خبر کا کوڈ: 1157089