QR CodeQR Code

علامہ مفتی جعفر حسین اور علامہ عارف حسین الحسینی کے درمیان مماثلتیں

29 Aug 2024 12:02

اسلام ٹائمز: 6 جولائی 1980ء کو علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم نے حکومت سے معاہدہ اسلام آباد کیا، جبکہ شہید علامہ عارف حسین الحسینی (رح) نے چھ جولائی کو قومی دن قرار دیتے ہوئے چھ جولائی 1985ء کو حکومت سے مفتی صاحب قبلہ کے ساتھ معاہدہ پر عمل درآمد کرنے کے لیے احتجاجی اجتماع منعقد کیے اور سانحہ کوئٹہ پیش آیا اور چھ جولائی 1987ء کو مینار پاکستان پر قرآن و سنت کانفرنس برپا کرکے آزادی اور نجات کا منشور پیش کیا۔


تحریر: سید نثار علی ترمذی
 
 علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم نے اپنی سپریم کونسل میں علامہ عارف حسین الحسینی رح) کو بطور رکن شامل کیا۔ شہید کی سپریم کونسل کے اراکین کے ساتھ تصویر روزنامچہ آفتاب ملتان میں شائع ہوئی تھی۔ قبلہ مفتی صاحب جب پارہ چنار کے دورے پر گئے تو شہید حسینی (رح) نے ان کے استقبال و جلسوں کے انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ چار، پانچ اور چھ جولائی اسلام آباد کنونشن اور مرکزی سیکرٹریٹ کے سامنے دھرنا میں شہید کا کردار نمایاں ہے۔ یہی دو قائد ہیں کہ جن کے نقش قدم پر چل کر یہ ملت اپنی منزل تک پہنچ سکتی ہے۔ اس مضمون میں ان عظیم قایدین کے درمیان مماثلتوں کو دریافت کیا گیا ہے۔ اہل نظر مزید بھی مماثلتیں تلاش کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔

مماثلتیں
1۔ دونوں کو قیادت کا شوق نہیں تھا بلکہ ذمہ داری سمجھ کر قبول کیا۔ سید ثاقب اکبر، سابقہ مرکزی صدر امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن راوی ہیں کہ علماء میں قیادت کے حوالے سے کسی ایک پر اتفاق نہیں ہو رہا تھا۔ انہوں میٹنگ کے کمرے کے سارے دروازے بند کر دیئے اور کہا کہ جب تک آپ اتفاق نہیں کرتے، اس کمرے سے باہر نہیں جا سکتے۔ بالآخر علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم پر اتفاقِ ہوگیا۔ اسٹیج پر جب اعلان ہؤا تو اسٹیج پر بیٹھے ہوئے علامہ بشیر انصاری مرحوم اٹھ کھڑے ہوئے اور علامہ مرزا یوسف حسین مرحوم کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ یہ بزرگ عالم دین ہیں، انہیں قائد بنایا جائے۔ ابھی انہوں نے یہ بات ختم ہی کی تھی کہ ثاقب بھائی ڈائس پر آئے اور یہ نعرہ لگایا۔ "ایک ہی قائد ایک ہی رہبر، مفتی جعفر مفتی جعفر" ان نعروں کا جواب پورے مجمع نے پورے جوش و خروش کے ساتھ دیا۔ جب حکومت کے ساتھ چھ جولائی 1980ء کو معاہدہ طے پاگیا تو مفتی صاحب قبلہ کا یہ موقف تھا کہ جس مطالبہ کے لیے یہ تحریک شروع کی گئی تھی، وہ پورا ہوگیا ہے، اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔

2۔ شہید علامہ عارف حسین الحسینی (رح) کا بطور قائد انتخاب ایک لحاظ سے مجبوری کی صورت میں ہوا۔ جب کوئی آمادہ نہیں تھا تو یہ تاج قیادت آپ کے سر پر سجایا گیا۔ سید ذوالفقار حسین نقوی شہید راوی ہیں کہ جب علامہ سید صفدر حسین نجفی مرحوم بھکر کے لیے روانہ ہوئے تو وہ اس گاڑی میں ساتھ تھے۔ مولانا صفدر نجفی مرحوم نے کہا کہ ہمیں سرگودھا سے ہو کر جانا ہے۔ انہوں نے اس کی وجہ دریافت کی تو بتایا کہ علامہ حامد علی الموسوی کے استاد علامہ نصیر حسین نجفی، پرنسپل جامعہ محمدیہ سرگودھا سے مل کر انہیں قائل کرنا ہے کہ وہ قیادت سنبھالیں، تاکہ ملت متحد رہے۔ موصوف ان کی تجویز سے راضی نہ ہوئے بلکہ انہیں مشورہ دیا کہ وہ راولپنڈی جائیں اور علامہ حامد علی الموسوی کی حمایت کریں۔ اس مشن میں ناکامی کے بعد شہید ذوالفقار حسین نقوی نے دریافت کیا کہ اب کس کو قائد کے لیے تجویز کریں گے تو جواب دیا کہ علامہ مفتی عنایت علی شاہ کا نام دے دیں گے۔ اس گاڑی میں قہقہہ گونجا۔ سب نے اسے نامناسب سمجھا۔ اب نجفی صاحب گویا ہوئے کہ فیر عارف حسین نوں بنا دیاں گے۔ اوہ آپے ہی لڑدا بھڑدا پھرے گا (پھر عارف حسین کو بنا دیں، وہ خود ہی لڑتا رہے گا) شہید علامہ عارف حسین الحسینی (رح) آخری چوائس تھی۔

3۔ قیادت نے ان دونوں شخصیات کا قد کاٹھ نہیں بڑھایا بلکہ انہوں نے قیادت کا مقام اور مرتبہ بڑھایا۔
4۔ دونوں قائدین نے 1973ء کے آئین کی بحالی کا مطالبہ کیا اور مارشل لا کے مخالف رہے اور اس کے خلاف جدوجہد کی۔
5۔ دونوں قائدین اتحاد و وحدت امت کے قائل تھے اور دونوں قائدین نے اپنی شناخت کو برقرار رکھ کر اتحاد کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
6۔ دونوں قائدین نے نہ تو حکومت سے کوئی فائدہ حاصل کیا اور نہ ہی قیادت سے کوئی منفعت حاصل کی۔
7۔ دونوں قائدین نے اپنے اپنے مدرسے بنائے۔
8۔ دونوں قائدین نے امام خمینی (رح) اور انقلاب اسلامی کی حمایت کی اور امام خمینی (رح) سے ملاقات بھی کی۔

9۔ چھ جولائی 1980ء کو علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم نے حکومت سے معاہدہ اسلام اباد کیا، جبکہ شہید علامہ عارف حسین الحسینی (رح) نے چھ جولائی کو قومی دن قرار دیتے ہوئے چھ جولائی 1985ء کو حکومت سے مفتی صاحب قبلہ کے ساتھ معاہدہ پر عمل درآمد کرنے کے لیے احتجاجی اجتماع منعقد کیے اور سانحہ کوئٹہ پیش آیا اور چھ جولائی 1987ء کو مینار پاکستان پر قرآن و سنت کانفرنس برپا کرکے آزادی اور نجات کا منشور پیش کیا۔
10۔ دونوں قائدین کو اپنے ہم عصر علماء کرام سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، مگر دونوں شخصیات نے ان کے خلاف ایک لفظ بھی اپنے منہ سے نہیں نکالا بلکہ اپنے مشن اور اپنے مقصد کی طرف گامزن رہے۔

11۔ دونوں قائدین انتہائی سادہ لباس اور سادہ بود و باش رکھتے تھے اور اپنی ذاتی نمود و نمائش سے پرہیز کرتے تھے۔
12۔ دونوں قائدین پر کوئی ایک شخص بھی مالی بددیانتی یا مالیات کا اپنی ذات پر مصرف کا الزام نہیں لگا سکا۔
13۔ دونوں قائدین تقویٰ اور روحانیت کی معراج پر تھے۔ اس حوالے سے ان دونوں قائدین کے واقعات بطور مثال پیش کیے جا سکتے ہیں۔
14ـ ان دونوں قائدین نے اتحاد بین المسلمین کے ساتھ ساتھ اتحاد بین المومنین کے لیے بھی کام کیا۔


خبر کا کوڈ: 1156880

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1156880/علامہ-مفتی-جعفر-حسین-اور-عارف-حسین-الحسینی-کے-درمیان-مماثلتیں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com