سانحہ کالا باغ کا ذمہ دار کون؟
1 Sep 2024 21:07
اسلام ٹائمز: اگر رب نواز ہاتھیخیل تک ایسی اطلاعات موجود تھیں تو مقامی سرکاری ادارے کہاں تھے؟ اور اگر ایک ذمہ دار شخصیت نے اس حوالے سے نہ صرف اپنے خدشات کا اظہار کیا بلکہ مستند اطلاعات اداروں کو دیں تو ان اطلاعات پر کوئی پیشگی اقدامات کیوں نہیں کئے گئے؟ اگر جلوس کے راستے میں ٹکراؤ کا خطرہ تھا تو مشی کے جلوس کو صبح 9 بجے سے ماڑی انڈس کے مقام پر روکے رکھنے کے باوجود 1:30 بجے بغیر سکیورٹی کے جانے کی اجازت کس نے دی۔؟
رپورٹ: سید عدیل زیدی
چہلم شہدائے کربلاؑ کے موقع پر ضلع میانوالی کے شہر کالا باغ میں تکفیری شرپسندوں نے غم امام حسینؑ سے سرشار پرامن عزاداروں پر حملہ آور ہوتے ہوئے وحشیانہ پتھراو اور فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں درجنوں عزادار زخمی اور دو شہید ہوگئے۔ اس واقعہ کے حوالے سے مقامی ذرائع نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ کو بتایا ہے کہ اس تمام تر ہنگامہ آرائی میں پولیس اور انتظامیہ کا کردار انتہائی مشکوک اور شرمناک رہا ہے، تکفیری عناصر کو جان بوجھ کر پرامن عزاداروں پر حملہ کرنے کا موقع فراہم کیا گیا اور یہ تمام تر منصوبہ بندی پہلے ہی سے کی جاچکی تھی۔ یہ معلوم ہوا ہے کہ علاقہ کی معروف سیاسی شخصیت رب نواز ہاتھیخیل نے متعلقہ ڈی ایس پی سمیت ضلعی انتظامیہ کے ذمہ داران کو واقعہ سے ایک روز قبل ہی بتایا تھا کہ ’’مجھے مصدقہ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ علاقہ کی لوہار برادری سمیت چند شرپسند چہلم امام حسینؑ کے موقع پر مشی کے جلوس کو روکنے اور عزاداروں پر پتھراؤ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ شرپسندوں نے حملہ کیلئے غلیل، پتھر اور اینٹیں اپنی دکانوں اور گھروں کی چھتوں پر جمع کر رکھی ہیں اور مزید یہ بھی آگاہ کیا کہ اگر جلوس پر ایک پتھر بھی برسا تو امن برباد ہو جائے گا، لہذا مہربانی کرکے اس معاملہ کو کنٹرول کریں، شرپسندوں کی اس منصوبہ بندی کو بے نقاب کرکے فساد کو روکا جائے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اگر رب نواز ہاتھیخیل تک ایسی اطلاعات موجود تھیں تو مقامی سرکاری ادارے کہاں تھے؟ اور اگر ایک ذمہ دار شخصیت نے اس حوالے سے نہ صرف اپنے خدشات کا اظہار کیا بلکہ مستند اطلاعات اداروں کو دیں تو ان اطلاعات پر کوئی پیشگی اقدامات کیوں نہیں کئے گئے؟ اگر جلوس کے راستے میں ٹکراؤ کا خطرہ تھا تو مشی کے جلوس کو صبح 9 بجے سے ماڑی انڈس کے مقام پر روکے رکھنے کے باوجود 1:30 بجے بغیر سکیورٹی کے جانے کی اجازت کس نے دی؟ یاد رہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے مشی کا جلوس کالا باغ سے گزرتا رہا ہے، اس دوران بازار مکمل طور پر کھلے رہتے تھے۔
جب بھی مشی کے شرکاء اس علاقہ سے گزرے تھے تو کیا کبھی کسی دکاندار، ریڑھی بان یا کسی راہگیر کا کسی قسم کوئی نقصان ہوا۔؟ کیا اس دوران کوئی متنازعہ نعرہ بازی ہوئی۔؟ مقامی ذرائع نے مزید بتایا کہ مین بازار میں ہر 100 فٹ کے فاصلہ کے بعد چھتوں پر موجود مختلف شرپسند گروپوں کی طرف سے مشی کے جلوس پر فائرنگ، پتھراؤ، آگ اور گرم پانی پھینکا جا رہا تھا، اس دوران پولیس خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی۔ اس واقعہ میں دو عزادار شہید ہوئے، جن کی اگلے روز نماز جنازہ ادا کی گئی جبکہ درجنوں شرکائے مشی زخمی بھی ہوئے۔ اس افسوسناک سانحہ کے بعد صوبائی صدر مجلس وحدت مسلمین پنجاب علامہ سید علی اکبر کاظمی ایک وفد کے ہمراہ کالا باغ میانوالی پہنچ گئے، اس موقع پر انہوں نے مذکورہ جلوس کے بانی اور لائسنسدار سید کرم حسین شاہ اور فرزند علامہ سید افتخار حسین نقوی، سید انتصار مہدی کے ساتھ ملاقات کی اور کالا باغ میں پرامن جلوس عزاء پر تکفیری عناصر کے حملہ کے تناظر میں گفتگو کی۔
علامہ علی اکبر کاظمی کو کالا باغ کے حالات پر بریفنگ دی گئی اور اس سانحہ کا ذمہ دار ڈی پی او میانوالی اور ڈی ایس پی داود خیل کو قرار دیا گیا۔ اس موقع پر علاقہ عمائدین کا کہنا تھا کہ ضلعی انتظامیہ نے اہل تشیع کو روکے رکھا اور شرپسندوں کو تیاری کا پورا موقع دیا گیا۔ مقامی عمائدین کا کہنا تھا کہ سید انتصار حسین نقوی اور بانی جلوس کی بہترین حکمت عملی کی وجہ حالات قابو میں رہے اور مومنین کو کنٹرول کیا گیا، ورنہ بہت زیادہ فسادات کا خطرہ تھا۔ گذشتہ روز سانحہ کالا باغ کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے تعزیتی اجتماع منعقد ہوا، جس میں بزرگ عالم دین علامہ سید افتخار حسین نقوی، شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی نائب صدر علامہ عارف حسین واحدی، مجلس وحدت مسلمین کے علماء ونگ کے مرکزی رہنماء علامہ اصغر عسکری اور دیگر نے شرکت کی۔ اس موقع پر علمائے کرام کا کہنا تھا کہ تشیع اس ملک میں ایک طاقت ہے، ہم پرامن اور محب وطن قوم ہیں، تاہم ہماری امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ اس ملک کے بنانے میں ہمارا بنیادی کردار ہے، جو اس ملک کے امن و استحکام کو تباہ کرنے کی ناپاک سازش اور کوشش کرے گا، ہم قربانیاں دے کر ملک کو بچائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس یزیدی سوچ کا ہر میدان میں مقابلہ کرتے رہیں گے، اس ملک میں چار دیواری کے اندر سیاسی، سماجی پروگرامز، ناچ گانے اور ڈانس کے کنسرٹ کرانے کی تو اجازت ہے مگر ذکر امام حسین علیہ السلام کے لئے اجازت لینے کی ضرورت ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عزاداری ہماری عبادت ہے، نواسہ رسولؑ کی یاد ہے، ترویج و تبلیغ اسلام کا بابرکت وسیلہ اور ذریعہ ہے، جب شریعت مصطفٰیؐ اور آئین پاکستان مجھے اپنی عبادات بجا لانے کی کھلم کھلا اجازت دیتا ہے تو کسی کی مجال نہیں کہ مجھے اپنی عبادت بجا لانے سے روک سکے۔ انہوں نے کہا کہ امام حسین علیہ السلام کے چہلم کے ایام میں کراچی، کالاباغ، وزیر آباد، پنڈی گھیب اٹک، جھنگ اور دیگر مقامات پر مراسم عزاداری میں رکاوٹیں ڈالنے، مقدمات قائم کرنے، حتیٰ خواتیں پر ایف آئی آرز درج کرنے اور پولیس کی دراندازی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ: 1156745