سفیر وحدت امت مولانا محمد اسحاق
28 Aug 2024 13:58
اسلام ٹائمز: جو لوگ کفر کے فتوے صادر کرتے ہیں، انکو ان باتوں پر غور کرنا چاہیئے۔انھوں نے اسے وقت کی ضرورت قرار دیا کہ ایسے ادارے بنائے جائیں، جہاں سے طالب علم کھلے ذہن لے کر نکلیں۔ وہ فسادی لوگوں کے آلہ کار نہ بنیں۔ اگر اس جانب توجہ نہ دی گئی تو دینی ادارے فساد کے اڈے بنے رہیں گے۔ آخر میں اپنی بات مکمل کرتے ہوئے فرمایا: "آج دنیا بھر کی طاغوتی قوتیں اسلام کے خلاف محاذ آراء ہیں۔ کئی خطوں میں مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے۔ خون مسلم کی ارزانی پر ہر آنکھ اشکبار ہے۔ ایسی صورت میں اتحاد وقت کی پکار ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مسلمان کفار کی فریب کاریوں کا شکار ہو کر آپس میں برسر پیکار ہے۔ یوں دانستہ اور نادانستہ طور پر کفار کے عزائم کی تکمیل ہو رہی ہے۔ تبلیغی مساعی بے ثمر ثابت ہو رہی ہیں۔ خدا را ہوش میں آئیں۔ فرقہ بندی کرکے مسلمان امت کو کمزور نہ کریں۔ جو بھی کلمہ گو ہے اس کا احترام کریں۔
تحریر: سید نثار علی ترمذی
جدید وسائل ابلاغ کی دستیابی نے ایک نئے جہان علم و دانش سے بھی آشنائی دی۔ اس کے سبب ہم بہت سے ایسے اہل علم سے بھی روشناس ہوئے، جو اتحاد امت کے جذبے سے سرشار ہیں۔ ان میں سے ایک علمی شخصیت جن سے راقم متعارف ہوا، وہ تھے مولانا محمد اسحاق آف فیصل آباد۔ آپ کی تقاریر کے ویڈیوز سن کر ان کی شخصیت و افکار کے کئی پہلو آشکار ہوئے۔ انھیں کئی حوالوں سے منفرد پایا۔ ان کا انداز گفتگو انتہائی دلنشین اور درد امت لیے ہوتا تھا۔ وہ امت محمدی ؐکو متحد اور طاقتور دیکھنا چاہتے تھے۔ انھوں نے اختلاف امت کو حل کرنے کے نئے انداز دیئے۔ انھوں نے اختلافات کو برداشت کرتے ہوئے اسے سلسلۂ تاریخ کا جبر قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی کی لڑائی میں آج کے دور کا نہ تو کوئی فرد شامل تھا اور نہ کسی پر اس کی ذمہ داری آتی ہے۔ لہٰذا وہ آج کے مسلمانوں کو صلح کا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیتے رہے۔
پھر یہ ہوا کہ ’’البصیرہ‘‘ نے لاہور میں ایک سیمینار کے انعقاد کا اعلان کیا، جس کے مہمان خصوصی مرحوم مولانا محمد اسحاق تھے۔ انھوں نے لاہور میں مجھ ناچیز کے غریب خانے کو شرف میزبانی بخشا۔ انھوں نے برادر مولانا نعیم الحسن نقوی کی اقتداء میں با اصرار نماز جماعت ادا کی اور تناول ماحضر بھی کیا۔ پھر یہاں سے الحمرا ہال تشریف لے گئے، جہاں البصیرہ کے زیراہتمام نبی رحمتؐ اور اتحاد امت کے حوالے سے ایک سیمینار منعقد کیا گیا اور جس میں شرکت کے لیے وہ پیرانہ سالی کے باوجود خاص طور پر فیصل آباد سے تشریف لائے تھے۔ ان کے ملنے کا انداز والہانہ اور محبت بھرا تھا، جو ہمیشہ یاد رہے گا۔ ان کی رحلت پر جہاں دنیا بھر میں ان کے چاہنے والے غم زدہ ہوئے اور اسے امت کا نقصان قرار دیا، وہاں ان کی یاد میں البصیرہ نے پریس کلب لاہور میں ایک تعزیتی ریفرنس منعقد کیا، جس میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام نے شریک ہوکر انھیں خراج تحسین و عقیدت پیش کیا۔
انھوں نے اپنا علمی ذخیرہ تقاریر اور شاگردوں کی صورت میں چھوڑا۔ ان کی بعض تقاریر کو لاہور کے ایک ناشر نے شائع کیا، مگر اس نے پسند اپنی اپنی کے مطابق انتخاب کیا، جس سے مرحوم کے ایک یا دو پہلو ہی اجاگر ہوسکے۔ ان کی اصل فکر جو کہ امت کے درمیان اتحاد و وحدت کے جذبے کو فروغ دینے سے عبارت تھی، اس کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ ان کے خطبہ جمعہ پر مشتمل ایک کتاب ’’وحدت امت‘‘ ان کی زندگی میں شائع ہوئی، جس کی آپ نے اصلاح و نظرثانی بھی کی۔ یوں ان کا یہی تحریری مواد دستیاب ہوسکا۔ زیر نظر مضمون اسی کتاب سے اخذ کیا گیا ہے۔ طوالت کے پیش نظر روایات اور واقعات سے صرف نظر کرتے ہوئے مرحوم کے حقیقی افکار کو پیش کیا ہے۔ وہ امت کے مسائل کا درمندانہ اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’سب سے زیادہ تباہ کن اور شرمناک مظہر، مختلف حوالوں سے ہماری، آپس میں محاذ آرائی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اس گھر کو جو آگ لگی ہے تو گھر کے چراغ ہی سے لگی ہے۔ دشمن کا کام ہی دشمنی کرنا ہے، اس سے کیا گلہ اور شکایت۔ غضب تو یہ ہے کہ ہم خود دشمن کی گیم کھیل رہے ہیں، یہاں پر بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے اور ہماری اپنی تلوار کا حال تو ہے کہ بقول شاعر
جب چلی اپنوں کی گردن پر چلی
چوم لوں منہ میں تری تلوار کا
ہماری اندرونی محاذ آرائی کا سب سے افسوسناک پہلو، مذہب یا مسلک کے حوالے سے تفرق بین المسلمین ہے۔ ہمارے ہاں اپنے علاوہ دیگر اہل قبلہ کی تکفیر ایک دل پسند مشغلہ ہے اور فقہی اختلافات کی بنا پر مخالفتیں اور دشمنیاں پالنا ہمارا روز مرہ کا معمول ہے۔ (پیش لفظ وحدت امت سے اقتباس) قرآن مجید کی روشنی میں اس تفرقہ بازی کو وہ مذاہب کی بدترین مشکل قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا خطہ اس وقت بدترین عذاب میں مبتلا ہے۔ انھوں نے ثبوت کے طور پر سورہ انعام کی آیت ۶۵ کا حوالہ دیا ہے: "اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ بَعْضٍ"، "یا تمھیں فرقہ فرقہ کر دے اور ایک کو دوسرے (سے لڑا کر آپس کی) لڑائی کا مزہ چکھا دے۔"(مترجم: مولانا فتح محمد جالندھری) اس آیت کی تفسیر علامہ پیر محمد کرم شاہ الازہری سے مستعار لیتے ہوئے بیان کرتے ہیں: ’’اس کے علاوہ سخت تر عذاب یہ ہے کہ آپس میں انتشار اور بے اتفاقی کی وبا پھوٹ پڑتی ہے۔ ایک قوم کے فرزند، ایک ملت کے افراد مختلف ٹولیوں اور فرقوں میں بٹ جاتے ہیں۔ کہیں مذہب وجہ فساد بن جاتا ہے اور کہیں سیاست باعث انتشار۔ اپنوں کی عزت اپنے ہاتھوں خاک میں ملا دینا بڑا کارنامہ تصور کیا جاتا ہے۔ اوروں کو رہنے دیجیے اپنے گھر کا حال دیکھیے، جب سے ہم نے صراط مستقیم سے انحراف کیا ہے، ہم کن پستیوں میں دھکیل دیئے گئے ہیں۔ ایک خدا، ایک رسول، ایک کتاب اور ایک کعبہ پر ایمان رکھنے والے کس نفاق اور انتشار کا شکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حالِ زار پر رحم فرمائے۔‘‘(تفسیر ضیاء القرآن،جلد اول، ص ۵۶۶)
آپ اس تفسیری پیرے کے بعد تحریر کرتے ہیں: ’’بدقسمتی سے پاکستان میں عذاب کی یہ گھڑی آچکی ہے۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے چشم بینا دی ہے، وہ اس لمحہ بہ لمحہ شدید تر ہوتے عذاب کی ہولناکیوں کو دیکھ رہے ہیں اور اس کے جہنمی شعلوں کی تپش کو اپنے دل دردمند میں محسوس کررہے ہیں۔‘‘ مولانا اسحاق مرحوم نے اپنی کتاب ’’وحدت امت‘‘ ہے: ۱۔ مختلف اسلامی فرقوں کو نہ تو ایک دوسرے کی تکفیر کرنا چاہیے۔ ۲۔ نہ ہی محض فقہی اختلافات کی بنا پر ایک دوسرے کی اقتداء میں نماز باجماعت سے احتراز کرنا چاہیئے۔ انھوں نے مزید وضاحت کی کہ جو گروہ ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتے اور کسی مدعی نبوت کے قائل ہیں، وہ اسلامی فرقوں میں شمار نہیں ہوتے اور جو گمراہ ہیں، انھیں گمراہ قرار دیا جائے، کافر کہنے سے گریز کیا جائے۔ اپنے مسلک کی وضاحت کرتے ہوئے کہا بقول ثناء اللہ امرتسری ہمارا اس بات میں مسلک وہی ہے، جو امام ابو حنیفہؒ کا ہے۔ لا نکفر اہل القبلۃ۔ اختلافات کا ماضی بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: ’’امت مسلمہ میں فروعی اختلافات ایک دو روز کا قصہ نہیں، حضور نبی اکرمؐ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد ہی اختلافات نمودار ہوگئے تھے، لیکن اس دور میں اختلافات وجہ انتشار نہیں بنے۔ ان بزرگوں نے اتحاد کو برقرار رکھا، لیکن آج اختلافات کی فتنہ گری نے امت مسلمہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا ہے۔‘‘
وہ فتنۂ تکفیر کے مضمرات اور ہولناکیوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں: ’’یاد رکھیئے کہ مسلمان ایک ملت ہیں اور کلمہ طیبہ پڑھ لینے والے سب لوگ ایک بدن کے اعضاء کی طرح ہیں، لہٰذا کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ دوسرے کو اسلام سے خارج کرے یا اسلام کا ٹھیکیدار بن کر لوگوں پر کفر کے فتوے لگائے۔ تکفیر وہ جرم ہے، جس کے مقابلہ میں قتل کرنا، ڈاکے ڈالنا اور زنا کرنا ہلکے جرائم ہیں، چونکہ یہ جرم سرزد ہو رہا ہے، لہٰذا ان کا مقصد امت مسلمہ کو اتحاد کی دعوت دینا ہے۔‘‘ انھوں نے بالصراحت اس بات کی تردید کی کہ اسلام تہتر فرقوں کی وجہ سے ناپید ہوچکا ہے، برباد ہوچکا ہے۔ وہ اسے اسلام کے دشمنوں کا پھیلایا ہوا مذموم پراپیگنڈا قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: اسلام بالکل محفوظ ہے، امت مسلمہ قرآن پر قائم ہے۔ لوگ رسول خداؐ کے منکر نہیں ہیں۔ انھوں نے اسے نادان دوستوں کی نادانی سے تعبیر کیا اور اسے حماقت قرار دیا کہ کافروں کے بجائے ہم خود ہی اقرار کر رہے ہیں کہ کلمہ مٹ گیا اور ہم سب کافر ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’توبہ! توبہ! خدا کے پیغمبرؐ کی امت بالکل صحیح و سالم ہے اور اسلام بھی تاقیامت قائم و دائم رہے گا۔‘‘
آپ نے اسلام کو ایک درخت سے تشبیہ دی اور کہا: ’’آپ درخت کو دیکھتے ہیں، اس کی جڑ ہوتی ہے۔ ایک تنا ہوتا ہے۔ شاخوں میں سے اوپر جا کر کوئی مشرق کی طرف نکل جاتی ہے، کوئی مغرب کی طرف۔ کیا اب وہ درخت کی شاخیں نہیں رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ہر فرد کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی ہے اور وہ اپنی بساط کے مطابق مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘ یعنی شاخوں کا تعلق درخت سے رہتا ہے اور یہی اس کے سرسبز اور ثمر آور ہونے کا باعث بنتا ہے۔ شاخوں کا علیحدہ ہونا اختلاف کا باعث نہیں ہے بلکہ درخت کے پھیلائو اور زرخیز ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ کسی شاخ کو درخت سے کاٹ دے یا درخت کا حصہ ماننے سے انکار کر دے۔ یہی صورت حال دین اسلام اور مسالک کی ہے۔
کفر و اسلام میں وجہ امتیاز
آپ نے اس موضوع پر مفصل وضاحت دی ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’جو آدمی دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے، وہ اعلان کرتا ہے کہ محمدؐ خدا کے سچے پیغمبر ہیں۔ ایمان نام ہے نبی کو اللہ کا سچا پیغمبر تسلیم کر لینے کا۔ یہ اقرار اسے دائرہ اسلام میں لے آتا ہے اور یہی اقرار اسے کافر سے الگ کر دیتا ہے۔ اگر کوئی بدنصیب دائرہ اسلام کو پھلانگ کر اعلان کرتا ہے کہ وہ محمدؐ کو رسول نہیں مانتا تو وہ اس بنا پر کافر ٹھہرے گا، جو اقرار اسے دائرہ اسلام میں لایا تھا، اس کا انکار اسے اسلام سے خارج کر دے گا اور وہ مسلمان نہیں رہے گا۔‘‘ اس مختصر تعریف اور وضاحت کے بعد وہ اپنا موقف بیان کرتے ہیں، جس کا وہ پوری زندگی برملا اعلان کرتے رہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’جو لوگ حضرت محمدؐ کو نبی آخر زمان مانتے ہیں، میں ان سب کو اپنا دینی بھائی تصور کرتا ہوں۔ ہاں جن مسائل کو میں غلط سمجھتا ہوں، ان کی اعلانیہ تردید کرتا ہوں، مگر کسی کو کافر نہیں کہتا۔ لوگ مساجد میں اذانیں دیتے ہیں۔ نمازیں ادا کرتے ہیں۔ رسول خداؐ پر درود بھیجتے ہیں۔ یہ سب مسلمان ہیں اور کسی کلمہ گو مسلمان کو کافر کہنا ایک بہت بڑا جرم ہے۔ جو لوگ کسی مسئلے میں اختلاف کی بنا پر کسی کو کافر گردانتے ہیں، وہ دراصل اسلام کے دشمن ہیں، دین کے خادم نہیں۔ کفار کی ایجنٹی کرنے والے ایسے ملا یقیناً سزا کے مستحق ہیں۔‘‘
اس مسئلہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کن اختلاف کی بنا پر کوئی شخص دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا: ’’اگر وہ قرآن کو مانتا ہے، نبی کریمؐ کو سچا اور آخری نبی تسلیم کرتا ہے۔ حدیثوں پر بھی یقین رکھتا ہے تو کسی حدیث کی صحت اور عدم صحت کے بارے میں اختلاف کی بنا پر وہ کافر نہیں ٹھہرے گا۔ ایک آدمی کسی حدیث کی صحت کے بارے میں شک کا اظہار کرتا ہے اور اس کے مقابلے میں دوسرے راوی یا روایت کو صحیح سمجھتا ہے تو ایسا شخص اسلام کا سچا خادم ہے، کیونکہ وہ اپنی صلاحیت کے مطابق حصولِ علم کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ ایک فرقہ ایک خاص حدیث کو صحیح سمجھتا ہے، دوسرا ضعیف سمجھ کر رد کر دیتا ہے تو اسے کفر اور اسلام کا جھگڑا کیسے کہا جاسکتا ہے، کیونکہ کوئی بھی اسلام کو رد نہیں کر رہا ہوتا۔ آدمی کافر اس وقت ہوگا، جب پیغمبرؐ کا انکاری ہوگا۔ حدیث کی تفہیم کے لیے سعی کرنے والا غلطی کرسکتا ہے، لیکن کفر کے دائرے میں نہیں آتا۔ لہٰذا بلاوجہ کسی کو کافر کہتے رہنا کسی طور پر درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔‘‘
انھوں نے واضح کیا کہ حدیثوں کے بارے میں اختلافات تو خود صحابہ کرامؓ کے درمیان بھی تھے۔ یہاں انھوں نے بخاری و مسلم سے مثالیں بھی دیں۔ انھوں نے کہا کہ اختلاف کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ صحابی تک کوئی حدیث پہنچی ہی نہ ہو۔ یا صحابہ کرامؓ میں اختلاف کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ صحابہ کرامؓ نے حضور اکرمؐ کو ایک عمل کرتے دیکھا، لیکن اس عمل کی حیثیت کے تعین میں اختلاف ہوگیا۔ بعض نے رسول اللہؐ کے اس فعل کو کار ثواب خیال کیا اور بعض نے ایک امر جائز سمجھا۔ اسی طرح آپ نے نشاندہی کی کہ بظاہر اصحابؓ کے درمیان انتہائی بعد کے باوصف کسی نے ایک دوسرے کو کافر تو کجا گمراہ اور جاہل بھی نہ کہا۔ جب کہ آج کل نقطہ نظر یا فہم کے معمولی اختلاف پر فوراً کفر کے فتویٰ لگا دیا جاتا ہے۔ مولانا محمد اسحاق مرحوم، جس طرح سادہ زیستی کے قائل تھے، اس طرح سادہ الفاظ میں دل میں اتر جانے والی گفتگو کیا کرتے تھے۔ انھوں نے اپنے بیان کے تسلسل میں کہا کہ اللہ تعالیٰ کو اسلامی وحدت پسند ہے اور اس وحدت کو برقرار رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے خود ہی انتظام کیا، تاکہ ملت ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو، کیونکہ اس امت کو قیامت تک رہنا ہے۔
انھوں نے علامہ اقبال کے اشعار کو بطور دلیل پیش کرتے ہوئے کہا:
بر رسولِ ما رسالت ختم کرد
تا نہ ایں وحدت زدستِ ما رود
ہستی ما با ابد ہمدم شود
لانبی بعدی ز احسانِ خدا است
پردہ ناموس دین مصطفیٰ است
حق تعالیٰ نقشِ ہر دعویٰ شکست
تا ابد اسلام را شیرازہ بست
اللہ نے اپنا آخری نبی بھیج کر تکفیر کا دروازہ بند کر دیا۔ اب کوئی یہ دعویٰ نہیں کرے گا کہ اُس کا نہ ماننے والا کافر ہوگا، کیونکہ اب کوئی بھی اللہ کا نیا پیغام لے کر نہیں آئے گا۔ یہی اللہ کا احسان عظیم ہے کہ اس نے رسول اللہؐ پر سلسلہ نبوت ختم کرکے تکفیر کے باب کو بند کر دیا ہے۔ محمد رسولؐ کو آخری نبی ماننے والے سب لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہیں۔ انھوں نے ایک اور دلیل دی کہ قانون ساز صرف حکم دیتا ہے۔ قانون کی وجہ یا ضرورت کی وضاحت وہ خود نہیں کرتا بلکہ اس کے بارے میں ہم غور و فکر کرتے ہیں۔ ہماری سوچ غلط بھی ہوسکتی ہے اور دوسرے کو اس سے اختلاف بھی ہوسکتا ہے، مگر اس اختلاف کی بنا پر کوئی کافر نہیں ہو جاتا۔
یہاں پر مولانا ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے اور نہ پڑھنے کے اثرات پر بات کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: ’’حکم یہ ہے کہ جو شخص قرآن و حدیث کے مطابق نماز پڑھا رہا ہے، اس کی اقتدا میں نماز ادا کرو اور اپنا اتحاد برقرار رکھو۔ ممکن ہے کہ پڑھانے والے کی نماز قبول نہ ہو اور تمھاری ہو جائے۔ یا پڑھانے والے کی تو قبول ہو جائے اور تمھاری نہ ہو۔ صحابہ کرامؓ تو ظالم لوگوں کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ اتحاد پارہ پارہ نہ ہو۔ ہمیں خدا اور رسولؐ نے یہ نہیں کہا کہ تمھاری نماز امام کے ساتھ نتھی کر دی گئی ہے اور اس کی قبول نہ ہو تو تمھاری بھی قبول نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہر آدمی کی نماز الگ دیکھتا ہے۔‘‘ انھوں نے صحابہ کرامؓ کے دور کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اس دور میں جھگڑے اور فتنے پیدا ہوئے، جیسے خوارج کا مگر جب ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کے بارے میں اختلاف پیدا ہوا تو شیطان نے عید منائی کہ وہ کامیاب اور کامران ہوا۔ مسلمانوں میں اتحاد کا وسیلہ ٹوٹ گیا۔ اب تو نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ مختلف فرقوں کے لوگ اپنے نفس کی پیروی میں بہت متشدد ہوگئے ہیں اور ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ کیا یہ ایک المیہ نہیں ہے۔
ان لوگوں کو غور کرنا چاہیئے، جو مختلف فقہی مسالک کا بہانہ بنا کر ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے اور انتشار کو ہوا دیتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ سے زیادہ دینی فہم رکھنے والا کون ہوسکتا ہے؟ ان کی عظمت تسلیم کرنے کے باوجود آج لوگ اس راستے پر چلنے سے اجتناب کیوں کرتے ہیں، جس راہ پر چل کر انھوں نے وحدت ملت کو پارہ پارہ ہونے سے بچایا۔ اگر وہ اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھ لینے میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے تو آج فقہی مسالک کے اختلافات کو ہوا دے کر دین کی کونسی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ کاش سب لوگ اس پر غور کریں۔انھوں نے فرقہ واریت کے بداثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کا اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ یہاں ایک جماعت موجود ہے، اس جماعت سے منسلک لوگ باتیں اچھی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ صرف وہی حق پر ہیں، لیکن جب دوسرے مسلمانوں سے ملتے ہیں تو السلام علیکم نہیں کہتے۔ اگر السلام علیکم کہہ دیا جائے تو جواب میں وعلیکم کہیں گے، جیسے کسی کافر کو کہا جاتا ہے۔ مسجد میں آتے ہیں، لیکن جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے۔ انھیں اپنے اس طرز پر خود غور کرنا چاہیئے کہ آیا وہ اس طرح اسلام کی خدمت کررہے ہیں۔
یہاں انھوں نے متعدد مثالوں سے اپنے بیان کو واضح کیا۔ ان میں سے ایک کو ہم قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں: ’’علامہ البانیؒ فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ حجاز مقدس میں رمضان کے دوران وتر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا نہیں کرتے اور بہانہ یہ بناتے ہیں کہ امام دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیتا ہے(یعنی تینوں ایک سلام سے پڑھتے ہیں) اس ضمن میں عوام الناس کا تو ذکر ہی کیا، بڑے بڑے علماء اور زعماء کا یہی عمل ہے۔‘‘ ’’علامہ البانی لکھتے ہیں کہ ان لوگوں کو غور کرنا چاہیئے کہ رسول اللہؐ نے جو فرمایا ہے کہ عید باقی مسلمانوں کے ساتھ کر لو۔ خواہ تمھارے حساب سے اس روز ابھی روزہ ہے اور اگر امت نے فیصلہ کر لیا، قاضی نے حکم دے دیا ہے تو اپنی رائے چھوڑ کر باقی مسلمانوں کے ساتھ روزہ رکھو۔ اگرچہ تمھیں یقین ہے کہ ابھی رمضان کا چاند نظر نہیں آیا۔ آخر اس میں کیا مصلحت تھی۔ جواب بالکل واضح ہے رسول اللہؐ کو امت میں انتشار بالکل پسند نہ تھا۔ وہ امت کو جسد واحد کی مانند دیکھنے کے آرزو مند تھے۔ لہٰذا مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ ان باتوں سے اجتناب کریں، جو امت میں انتشار پھیلانے کا باعث بنتی ہیں۔ کوشش یہ ہونی چاہیئے کہ لوگوں کو جوڑا جائے۔ توڑا نہ جائے۔‘‘
مرحوم مولانا اپنے مخصوص انداز میں اپنا درد دل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’بدقسمتی سے مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے کے لیے یہود و نصاریٰ نے ہماری صفوں میں اپنے ایجنٹ شامل کر دیئے ہیں۔ اسماء رجال کی کتب پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہود و نصاریٰ کے یہ ایجنٹ لمبی لمبی داڑھیاں رکھ کر ساری عمر درس دیتے رہے۔ حدیثیں پڑھاتے رہے۔ عالم اور درویش بنے رہے، لیکن یہ یہود و نصاریٰ اسلام برباد کرتے رہے اور عمر بھر مسلمانوں میں فساد پھیلاتے رہے۔ بدقسمتی سے آج بھی ایسے نام نہاد علماء کی کمی نہیں ہے، جو یہ دھندہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور دھڑا دھڑ کفر کے فتوے لگا رہے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی پرستش کرتے ہیں۔ رسول اللہؐ کو آخری نبی مانتے ہیں۔ قرآن کو تسلیم کرتے ہیں۔ قبلہ کا احترام کرتے ہیں۔ تمھارے پاس انھیں اسلام سے خارج کرنے کی کیا دلیل ہے؟ خدارا! اب یہ دھندے چھوڑو۔ امت مسلمہ کو برباد نہ کرو اور جگ ہنسائی کا سبب نہ بنو۔‘‘
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
یہاں مولانا فقہی اختلافات کے سلسلے میں مسلک اہل حدیث کے عالم حافظ محمد گوندلوی کا نقطہ نظر بیان کرتے ہیں: ’’یہاں یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ اگر تبدیلی ممکن نہیں تو پھر اختلاف کیسے ظہور پذیر ہوا، جو آج ہم دیکھتے ہیں۔ مسلمان مختلف مکاتب فکر کے پیرو ہیں۔ اسی نماز ہی کو دیکھ لیں، اس میں کوئی آمین بالجہر کا قائل ہے تو کوئی آہستہ کہنے پر مصر ہے۔ کسی نے حالت نماز میں ہاتھ سینے پر باندھ رکھے ہیں، کسی نے زیر ناف ہاتھ باندھنا ضروری قرار دیا ہے اور کسی نے سرے سے ہاتھ باندھنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی، کچھ ایسے ہیں کہ رفع الیدین کرتے ہیں اور کچھ دوسرے نہیں کرتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سارے کام نفلی ہیں اور سنت سے ثابت ہیں۔ باہمی فقہی اختلافات کے باوجود کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ نماز میں ہاتھ باندھنا فرض ہے اور پھر سنت بھی اس قسم کی ہے کہ اس کے ترک سے نماز ہو جاتی ہے۔ انور شاہ صاحب نے بھی اسے تسلیم کیا ہے۔ اسی طرح اذان، اقامت کے مسائل ہیں۔ ان تمام مسائل میں اختلاف جواز کا نہیں بلکہ اختیار کا ہے اور دونوں طرح جائز ہے۔ کوئی اس طرح کرے اور کوئی اس طرح کرے۔‘‘بحوالہ: درس صحیح بخاری، مرتبہ: منیر احمد سلفی، طبع اول ۱۹۹۲ء، اسلامک پبلشنگ ہائوس، لاہور
آپ نے اس ضمن میں بزرگان دین کی بہت سی عبارتیں نقل فرمائی ہیں، جن میں ان کے موقف کی ترجمانی ہوتی ہے، مگر یہاں ان سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم مولانا کا اپنا بیان تحریر کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے بیان کے آخر میں فرمایا: "امت مسلمہ کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ حضورؐ کا پرچم مشرق تا مغرب لہرا رہا ہے۔ کلمہ گو امت موجود ہے۔کسی بستی میں جائیں تو فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے مسلمان بھائیوں کی بستی سمجھیں۔ سوڈان جائیں، نائیجیریا جائیں، دوسرے علاقوں میں جائیں۔ مالکی حضرات کو دیکھیں۔ ہاتھ کھلے چھوڑ کر نماز ادا کرتے ہیں، رفع یدین نہیں کرتے، کوئی برا نہیں مناتا۔ آپ انتظار کریں گے کہ سلام دونوں طرف پھریں گے، مگر وہ صرف ایک بار السلام علیکم کہہ کر نماز ختم کر دیں گے۔ ایسی صورت حال دیکھ کر پریشان نہ ہوں۔ دین اسلام میں بڑی وسعت ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ تمام فروعی مسائل کو بھلا کر تمام مسالک کا احترام کریں۔ جب تک کوئی فرد رسول اللہؐ کو اپنا ہادی اور آخری نبی مان رہا ہے، وہ آپ کا بھائی ہے۔ آپ کے خیال میں اگر کوئی فرد راہ راست سے بھٹکا ہوا ہے یا اس کے مسئلے کو آپ غلط تصور کرتے ہیں تو پیار محبت سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کریں۔ ہر فرقہ اپنے عقائد اور فقہ کی تدوین کرچکا ہے۔ کوئی ایک آدمی اپنا مسلک چھوڑ کر دوسرے مسلک کے گروہ میں شمولیت کرسکتا ہے۔ تمام کا تمام فرقہ نہیں۔
انھوں نے مسلمانوں کو بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں حکمت عملی اپنانے پر زور دیتے ہوئے کہا: "ضرورت اس امر کی ہے کہ وحدت امت کی خاطر ہم ایک دوسرے کی مساجد میں مل کر نماز ادا کریں۔ جنازوں میں شرکت کریں۔ آپس میں رشتے ناطے کریں، تاکہ بُعد دور ہو اور امت مسلمہ ایک جسد واحد بن جائے۔ اسی میں ہم سب کا بھلا ہے۔ یہی پیغام اسلام ہے۔ بصورت دیگر دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ آپ نے مناظروں اور مباحثوں کی موجودہ روش اور طریقہ کار کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا: "مباحثوں اور مناظروں کا طریقہ تشحیذ ذہن اور تحقیقِ مسائل کے لیے تو مفید ہوسکتا ہے، لیکن مذہبی مناظروں کا جو طریقہ کار اپنایا جاتا ہے، وہ نامناسب ہے، کیونکہ ایک دوسرے کو لعن طعن کا نشانہ بنایا جاتا ہے، درشتی کا لہجہ اختیار کیا جاتا ہے اور بعض اوقات دنگا فساد ہو جاتا ہے، جس میں قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں اور ہمیشہ کے لیے عداوت پیدا ہو جاتی ہے اور آئندہ اس منافرت و عداوت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ کچھ لوگوں نے اس طریقہ کار کو حمایت مذہب اور مدافعت اسلام کا نام دیا ہے، مگر درحقیقت اس سے خلق خدا تباہ ہوتی ہے۔ جو مذہبی پیشوا دوسرے کی اصلاح کا تمنائی ہے، اس کا فرض ہے کہ مخالف کو نرمی سے سمجھائے اور اسے نمود و نمائش اور اپنی برتری جتانے کی خاطر وجہ فساد بنانے کی کوشش نہ کرے۔
مولانا نے مشکوٰۃ شریف کی صحیح ترین حدیث کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: "بنی اسرائیل کے ایک بڑے عابد نے ایک خطاکار کے متعلق کہا ’’خدا کی قسم تو نہیں بخشا جائے گا‘‘ اس خود بینی کی بنا پر اس کی تمام نیکیاں برباد ہوگئیں اور اسے دوزخ میں ٹھونس دیا گیا۔ اس شخص نے دوسرے کو دوزخ کی وعید دے کر خود دوزخ خرید لی۔ جو لوگ کفر کے فتوے صادر کرتے ہیں، ان کو ان باتوں پر غور کرنا چاہیئے۔انھوں نے اسے وقت کی ضرورت قرار دیا کہ ایسے ادارے بنائے جائیں، جہاں سے طالب علم کھلے ذہن لے کر نکلیں۔ وہ فسادی لوگوں کے آلہ کار نہ بنیں۔ اگر اس جانب توجہ نہ دی گئی تو دینی ادارے فساد کے اڈے بنے رہیں گے۔ آخر میں اپنی بات مکمل کرتے ہوئے فرمایا: "آج دنیا بھر کی طاغوتی قوتیں اسلام کے خلاف محاذ آراء ہیں۔ کئی خطوں میں مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے۔ خون مسلم کی ارزانی پر ہر آنکھ اشکبار ہے۔ ایسی صورت میں اتحاد وقت کی پکار ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مسلمان کفار کی فریب کاریوں کا شکار ہو کر آپس میں برسر پیکار ہے۔ یوں دانستہ اور نادانستہ طور پر کفار کے عزائم کی تکمیل ہو رہی ہے۔ تبلیغی مساعی بے ثمر ثابت ہو رہی ہیں۔ خدا را ہوش میں آئیں۔ فرقہ بندی کرکے مسلمان امت کو کمزور نہ کریں۔ جو بھی کلمہ گو ہے اس کا احترام کریں۔ یہ آخری پیرا گراف پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا مولانا محمد اسحاق، اپنی وصیت نامے کا کوئی حصہ بیان کر رہے ہیں، تاکہ امت ان افکار سے روشنی پاتی رہے۔ جس جرأت و بہادری سے انھوں نے اپنا موقف بیان کیا ہے، تقاضا یہ ہے اسی قدر ہمت و حوصلہ اور خلوص سے ان کے افکار کو اپنایا جائے۔
خبر کا کوڈ: 1156685