QR CodeQR Code

کرم کے تنازعات: حکومتی نظم و ضبط، جرگہ نظام کی ناکامی اور دوبارہ بھڑکنے والا تشدد

20 Aug 2024 22:41

اسلام ٹائمز: کرم کے حالیہ تنازعات نے صوبائی حکومت کی ناکامیوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ خیبر پختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کرم میں ہونے والی حالیہ جھڑپیں صرف قبائلی تنازعات کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ یہ حکومتی نظم و ضبط کی ناکامی کا بھی ثبوت ہیں۔ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد، توقع تھی کہ یہ علاقہ بہتر قانونی اور انتظامی ڈھانچے سے مستفید ہوگا لیکن بدقسمتی سے یہ عمل بدانتظامی کا شکار رہا۔


تحریر: حمیرا عنبرین

وادی کرم، خیبر پختونخوا کا ایک تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے نہایت اہم علاقہ، ایک بار پھر شدید فرقہ وارانہ کشیدگی اور تنازعات کا شکار ہے۔ حالیہ برسوں میں یہ علاقہ مسلسل تنازعات کی زد میں رہا ہے، جن کی جڑیں زیادہ تر زمین کے مسائل اور قبائلی اختلافات میں پائی جاتی ہیں۔ ان تنازعات نے نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ پورے صوبے کے لیے ایک سنگین مسئلہ پیدا کر دیا ہے۔ جولائی 2024ء کے واقعات، جن میں 49 افراد جاں بحق اور 200 سے زائد زخمی ہوئے، نے کرم کی نازک صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ 18 اگست 2024ء کو دوبارہ بھڑکنے والے تشدد نے اس بحران کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، اور امن کی بحالی کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔

تنازع کی جڑیں اور پس منظر
کرم ضلع، خیبر پختونخوا کے دیگر قبائلی علاقوں کی طرح، ایک طویل عرصے سے زمین کے تنازعات اور قبائلی جھگڑوں کا شکار رہا ہے، ان تنازعات کو روایتی طور پر جرگہ نظام کے ذریعے حل کیا جاتا تھا جو کہ مقامی سطح پر نظم و نسق اور تنازعات کے حل کے لیے ایک مؤثر ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ جرگہ سسٹم میں قبائلی مشران مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالتے ہیں اور علاقے میں امن و امان قائم رکھتے ہیں۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اس نظام کی مؤثریت میں کمی آتی گئی اور اب یہ نظام ان پیچیدہ مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہوتا نظر آ رہا ہے۔

جولائی 2024ء میں بوشہرہ گاؤں میں بوشہرہ (سنی) اور مالی خیل (شیعہ) قبائل کے درمیان زمین کے تنازع نے پورے کرم میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو جنم دیا۔ یہ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب دونوں فرقوں کے درمیان اختلافات نے فرقہ وارانہ تصادم کی شکل اختیار کر لی۔ 24 جولائی کو شروع ہونے والا یہ تنازع چھ دن تک جاری رہا، جس دوران پورے علاقے میں شدید تصادم اور خونریزی کا سلسلہ جاری رہا۔

جولائی 2024ء کے واقعات اور نتائج
جولائی 2024ء کے دوران ہونے والے اس تصادم میں 49 افراد جان بحق ہوئے اور 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ ان ہلاکتوں اور زخمیوں نے علاقے کی روزمرہ زندگی اور معیشت کو مفلوج کر دیا۔ اہم شاہراہوں پر ٹریفک معطل ہو گئی، مقامی کاروبار بند ہو گئے، اور اسکولوں کی تعلیم متاثر ہوئی۔ ہسپتالوں میں زخمی اور مردہ افراد کی بڑی تعداد میں آمد نے انسانی بحران کو مزید سنگین بنا دیا۔ اس دوران علاقے میں بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا، جن میں لانگ رینج میزائل، مارٹر اور پہاڑی توپ خانہ شامل تھے۔

خاص طور پر 81 ملی میٹر مارٹر کا استعمال بڑے پیمانے پر کیا گیا، جس نے تصادم کی شدت میں مزید اضافہ کیا اور عوامی املاک کو شدید نقصان پہنچایا۔ اہم سڑکوں کی بندش، جیسے ٹل-پاراچنار روڈ، نے زخمیوں کو ہسپتالوں تک پہنچانے میں شدید مشکلات پیدا کیں، جس سے انسانی بحران مزید بڑھ گیا۔ اس صورتحال کو خیبر پختونخوا اسمبلی میں ایم پی اے علی ہادی اور ایم این اے شفیع اللہ جان نے سختی سے مذمت کی، اور صوبائی حکومت کی ناکامی کو اجاگر کیا کہ وہ اس تصادم کے دوران بنیادی خدمات کو برقرار رکھنے میں ناکام رہی۔

جرگہ نظام کی ناکامی: روایتی حکمت کا زوال
کرم میں روایتی جرگہ نظام کو ہمیشہ سے قبائلی تنازعات کے حل کے لیے ایک مستند ذریعہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ جرگہ، قبائلی مشران کی وہ مجلس ہوتی ہے جہاں اجتماعی دانش کے ذریعے مسائل کا حل نکالا جاتا ہے اور علاقے میں امن و امان کا قیام یقینی بنایا جاتا ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں یہ نظام اپنی مؤثریت کھو چکا ہے۔ جولائی 2024 کے تنازع کے دوران متعدد جرگے منعقد کیے گئے، جن میں مقامی مشران، علماء اور حکومتی نمائندے شامل تھے۔ ان جرگوں کا مقصد امن و امان کی بحالی اور تنازع کے مستقل حل کی تلاش تھا۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہ جرگے کسی بھی پائیدار حل تک پہنچنے میں ناکام رہے۔

جرگہ نظام کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے فیصلوں کو نافذ کرنے کے لیے کوئی مؤثر اور منظم طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ قبائلی روایات کے مطابق، جرگے کے فیصلے کو تمام فریقین کی جانب سے تسلیم کیا جانا ضروری ہوتا ہے، لیکن موجودہ تنازعات میں یہ اصول اپنا وزن کھو چکا ہے۔ مزید برآں، جرگے کے ارکان اور امن عمل میں شامل دیگر افراد پر حملوں کی وجہ سے اعتماد کی فضا مزید خراب ہو چکی ہے۔ جب جرگہ کی رٹ ہی کمزور ہو جائے تو اس کے فیصلے بھی مؤثر نہیں رہتے۔ اس کے نتیجے میں، جرگہ کا کردار محدود ہو کر رہ گیا ہے، اور قبائلی نظام میں موجود دانش کی روشنی میں مسائل کا حل نکالنے کی صلاحیت کمزور ہو چکی ہے۔

حکومتی نظم و ضبط کی ناکامی اور انتظامیہ کے مسائل
کرم کے حالیہ تنازعات نے صوبائی حکومت کی ناکامیوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ خیبر پختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کرم میں ہونے والی حالیہ جھڑپیں صرف قبائلی تنازعات کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ یہ حکومتی نظم و ضبط کی ناکامی کا بھی ثبوت ہیں۔ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد، توقع تھی کہ یہ علاقہ بہتر قانونی اور انتظامی ڈھانچے سے مستفید ہوگا لیکن بدقسمتی سے یہ عمل بدانتظامی کا شکار رہا۔

صوبائی حکومت کی جانب سے فاٹا کے انضمام کے بعد زمین کے تنازعات کو حل کرنے میں ناکامی نے تشدد کو بڑھاوا دیا ہے۔ ایک مضبوط قانونی ڈھانچے کے بغیر ان تنازعات کو مؤثر طریقے سے سنبھالا نہیں جا سکا، جس کی وجہ سے یہ تنازعات مزید شدت اختیار کر گئے۔ حکومت کی نااہلی اور سست ردعمل نے حالات کو مزید خراب کر دیا ہے۔ فاٹا کے انضمام کے بعد علاقے میں گورننس کا فقدان محسوس کیا جا رہا ہے، جس کا فائدہ اٹھا کر شرپسند عناصر نے اپنی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں۔ مقامی سطح پر انتظامی ڈھانچے کی عدم موجودگی اور قانونی سقمات نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔

18 اگست 2024ء کے تازہ تصادم
ابھی جولائی کے زخم بھرے بھی نہیں تھے کہ 18 اگست 2024ء کو ایک بار پھر کرم میں فرقہ وارانہ تصادم بھڑک اٹھا۔ اس بار بھی زمین کے تنازع نے فرقہ وارانہ رنگ اختیار کیا اور دونوں فرقوں کے درمیان خونریز جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ اس تازہ تشدد نے ایک بار پھر علاقے میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کر دی ہے اور مقامی آبادی شدید ذہنی دباؤ اور عدم تحفظ کا شکار ہوگئی ہے۔ تشدد کی نئی لہر نے علاقے کی معیشت، تعلیم، اور عام زندگی کو مزید مفلوج کر دیا ہے۔

امن کی بحالی کی ناکام کوششیں
مقامی سطح پر امن کی بحالی کے لیے مختلف کوششیں کی گئیں لیکن یہ تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ جرگہ نظام جو کہ ایک وقت میں قبائلی تنازعات کے حل کا اہم ذریعہ تھا، اس تنازعے میں مکمل طور پر غیر مؤثر ثابت ہوا ہے۔ ان جرگوں کے دوران کئی بار امن معاہدے کیے گئے، لیکن ان معاہدوں پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے تنازع مزید بڑھتا گیا۔ حکومتی سطح پر بھی امن کے قیام کے لیے کئی اقدامات کیے گئے، لیکن ان میں سے کوئی بھی پائیدار ثابت نہ ہوا۔

گورنر خیبر پختونخوا نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کرم میں ہونے والی حالیہ جھڑپیں حکومتی نظم و ضبط اور انتظامیہ کی ناکامی کا نتیجہ ہیں۔ صوبائی حکومت کی جانب سے فاٹا کے انضمام کے بعد زمین کے تنازعات کو حل کرنے میں ناکامی نے حالات کو مزید خراب کر دیا ہے۔ حکومت کی نااہلی اور سست ردعمل نے حالات کو مزید بگاڑ دیا ہے، اور امن کی بحالی کی تمام کوششیں ناکام ہوگئی ہیں۔

معاشی اور سماجی اثرات
کرم ضلع میں جاری تصادم کے سنگین معاشی اور سماجی نتائج سامنے آئے ہیں۔ اہم سڑکوں کی بندش نے ضروری سامان کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالی ہے، جس سے کسانوں اور تاجروں کو نمایاں مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ تشدد کی وجہ سے اسکولوں کو بند کرنا پڑا، جس سے بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی اور غربت اور عدم استحکام کے ایک دائرے میں اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ، موبائل ڈیٹا سروسز کی معطلی نے علاقے کو تنہا کر دیا ہے، جس کی وجہ سے امدادی کوششوں کو مربوط کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

دور رس نتائج
ان گورننس کی ناکامیوں کے دور رس نتائج ہیں۔ اگر صوبائی حکومت نے ان مسائل پر توجہ نہ دی تو یہ علاقہ طویل عرصے تک عدم استحکام کا شکار رہے گا۔ مسلسل تشدد اور عدم تحفظ کی فضا سرمایہ کاری اور ترقی کو روک دے گی، جس سے مقامی آبادی مزید غربت کی طرف چلی جائے گی۔ زمین کے تنازعات کو حل کرنے اور امن و امان برقرار رکھنے میں ناکامی کے نتیجے میں مزید شدید تنازعات پیدا ہو سکتے ہیں، جس سے بیرونی عناصر بھی ملوث ہو سکتے ہیں اور صورتحال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔

علاوہ ازیں، کرم میں جاری عدم استحکام کا اثر وسیع علاقے پر بھی پڑ سکتا ہے۔ اگر بنیادی مسائل کو حل نہ کیا گیا تو پڑوسی علاقوں کو بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس سے خیبر پختونخوا میں گورننس کا وسیع پیمانے پر بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ صورتحال انتہا پسند گروہوں کے لیے ایک زرخیز زمین فراہم کر سکتی ہے، جو اس طرح کے حالات کا فائدہ اٹھا کر اپنے اثر و رسوخ اور کنٹرول میں اضافہ کرتے ہیں۔

آگے کا راستہ
خیبر پختونخوا میں گورننس کی ناکامیوں کو دور کرنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ صوبائی حکومت کو زمین کے تنازعات کے حل کے لیے ایک مضبوط قانونی ڈھانچہ قائم کرنے، مقامی انتظامی ڈھانچوں کو مضبوط کرنے، اور انہیں قبائلی تنازعات کے پیچیدہ مسائل کو سنبھالنے کے قابل بنانے کو ترجیح دینی چاہیے۔ علاقے میں امن و امان کی بحالی کے لیے پولیسنگ اور سیکیورٹی کو بہتر بنانا بھی ضروری ہے۔

سیاسی جماعتوں، خصوصاً پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، کو ان مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنی ہوں گی، بجائے اس کے کہ وہ سیاسی بیان بازی میں مصروف ہوں۔ اس میں مقامی حکام کی امن و امان برقرار رکھنے کی کوششوں کی حمایت اور تنازع کے بنیادی اسباب کو حل کرنے کے لیے ضروری وسائل فراہم کرنا شامل ہے۔

کرم ضلع میں حالیہ جھڑپیں خیبر پختونخوا میں گورننس کی ناکامیوں کا واضح ثبوت ہیں۔ ان ناکامیوں کو دور کرنے کے لیے صوبائی حکومت اور سیاسی جماعتوں دونوں کی طرف سے مسلسل اور سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ صرف مؤثر حکمرانی، مضبوط قانونی ڈھانچے اور بہتر سیکیورٹی کے ذریعے ہی علاقے میں دیرپا امن اور استحکام قائم کیا جا سکتا ہے۔ بصورت دیگر، علاقے میں مسلسل تشدد، اقتصادی مشکلات اور وسیع پیمانے پر علاقائی عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔


خبر کا کوڈ: 1155178

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1155178/کرم-کے-تنازعات-حکومتی-نظم-ضبط-جرگہ-نظام-کی-ناکامی-اور-دوبارہ-بھڑکنے-والا-تشدد

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com