اگر ایران حملہ نہیں کرتا
19 Aug 2024 17:25
اسلام ٹائمز: برطانوی وزیراعظم، جرمن چانسلر، فرانس کے صدر اور دیگر کئی یورپی ممالک کے رہنما ایرانی قیادت کو فون کر کے بار بار کہہ رہے ہیں کہ آپ جواب نہ دیں۔ ظلم دیکھیں ان میں سے کوئی ملک بھی اسرائیل کی اس بدمعاشی کی مذمت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یہ سب اسرائیل کے تحفظ کے لیے ہر حد کراس کرنے کو تیار ہیں۔ آج اگر اسلامی جمہوریہ ایران موثر جواب نہیں دیتا تو کل اسرائیل دوبارہ حملہ کرے گا۔ ایران کا خطے میں کمزور ملک کا تاثر جائے گا جو اپنی خودمختاری کا تحفظ نہیں کر سکتا۔
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
یہ دنیا طاقت کے توازن سے چلتی ہے اور کوئی بھی ملک یا قوم جب طاقت کا توازن کھو دیتی ہے تو اس کی شناخت اور اس کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ آپ کو انڈیا کا پاکستان پر ایئر اسٹرائیک یاد ہوگیا جس میں انڈین جہاز پاکستان میں گھس آئے تھے اور چند درخت اور کووں کو مار کر نکل گئے تھے۔ پاکستان کے لیے بطور ریاست وہ دن امتحان کے دن تھے اور پوری پاکستانی قوم صدمے کا شکار تھی۔ یوں لگتا تھا گویا ہماری ہتک حرمت کی گئی ہے۔ تمام اختلافات بھلاکر ساری سیاسی قیادت ایک پیج پر آگئی تھی اور سب اس بات پر متفق تھے کہ جواب دیا جانا چاہیئے۔ پاکستان نے جواب دیا اور جوابی حملے میں آنے والے طیارے کو گرا کر اس کے پائلٹ کو زندہ گرفتار کر لیا گیا۔ اس خبر کے اعلان ہوتے ہی پورے پاکستان میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
ذرا سوچیں اگر پاکستان وہ حملہ نہ کرتا تو کیا ہوتا؟ جواب سورج کی طرح روشن ہے کہ پھر آئے روز پاکستان پر انڈیا چڑھ دوڑتا۔طاقت کا توازن جنگیں روکنے کے لیے بڑا مددگار ثابت ہوتا ہے۔ غالبا ڈاکٹر قدیر سے کسی پوچھا تھا کہ آپ نے ایٹم بم بنا کر انسانیت کے قتل عام کا اہتمام کر دیا تھا۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا میں نے ایٹم بم بنا کر جنگوں کا راستہ روک دیا ہے۔ ان کی یہ بات کئی حوالوں سے درست ہے، آج جب بھی انڈیا پاکستان میں کشیدگی بڑھتی ہے تو انڈیا اور پاکستان میں ایٹمی طاقت ہونے کا شعور اس جنگ کو روکنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس سے دنیا بھی حرکت میں آ جاتی ہے اور کشیدگی میں دھیرے دھیرے کمی آنی لگتی ہے۔ آج اگر فلسطینیوں کے پاس طاقت ہوتی تو اسرائیل کبھی بھی اس طرح وحشناک بمباری نہ کرتا۔
جب اسرائیل نے ایران کی دمشق میں واقع ایمبیسی پر حملہ کیا اور اس میں چودہ لوگ شہید ہوگئے تو اس وقت اسلامی جمہوری ایران نے سکیورٹی کونسل میں اسرائیل کی مذمت میں قرارداد لانے کے لیے مہم چلائی۔ یہ بالکل درست مطالبہ تھا جو فورا مان لیا جانا چاہیئے تھا کیونکہ اسرائیل نے بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی کی تھی۔ اس سب کے باوجود امریکہ، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک نے اسرائیل کی سادہ مذمت بھی نہیں ہونے دی۔ اس پر ایران نے ذمہ دار ملک کا ثبوت دیتے ہوئے اسرائیل پر بین الاقوامی قانون کی روشنی میں حملہ کیا۔ اس حملے سے جہاں اسرائیل اور امریکہ کا مالی نقصان ہوا، وہیں ایرن کے اسٹاک میں پڑے پرانے ڈرون استعمال ہوگئے اور ایران نے اس سے امریکہ، اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی صلاحیتوں کو اچھی طرح جانچ لیا۔ ایران کا ردعمل خطے میں آگ کے شعلے بھڑکانے والا نہیں تھا۔ اسے ایران نے اپنے حق میں استعمال بھی کیا اور اسرائیل کی جنگ بھڑکانے کی خواہش بھی پوری نہیں ہونے دی۔
اس حملے نے بڑے پیمانے پر تباہی نہیں مچائی جس سے اسرائیل کے حوصلے بلند ہوئے اور اس نے دوبارہ تمام قواعد و ضوابط کو روندھتے ہوئے تہران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو شہید کر دیا۔اسرائیل اکیلے ایسا نہیں کر سکتا۔امریکی اور یورپی مدد کے ساتھ ہی ایسا کرنا ممکن ہوا۔ا س کے ساتھ ساتھ پڑوسی ممالک کی سرزمین بھی استعمال ہوئی جس کے ذریعے یہ جدید ترین ہتھیار تہران پہنچائے گئے۔اس سے ایران کی خودمختاری بری طرح متاثر ہوئی۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بین الاقوامی مہمانوں کے لیے خاص مذاکرات کار کو یوں شہید کر دیا جائے گا۔رہبر معظم انقلاب اسلامی ایرن نے بھی معزز مہمان کے قتل کا بدلہ لینے کا اعلان کیا۔سکیورٹی کسی بھی وقت توڑی جا سکتی ہے اب سابق امریکی ٹرمپ پر حملے کے واقعہ کو ہ دیکھ لیں،مارنے والے نے تو کام کر دیا یعنی سکیورٹی سو فیصد ناکام ہو چکی تھی۔
برطانوی وزیراعظم، جرمن چانسلر، فرانس کے صدر اور دیگر کئی یورپی ممالک کے رہنما ایرانی قیادت کو فون کر کے بار بار کہہ رہے ہیں کہ آپ جواب نہ دیں۔ ظلم دیکھیں ان میں سے کوئی ملک بھی اسرائیل کی اس بدمعاشی کی مذمت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یہ سب اسرائیل کے تحفظ کے لیے ہر حد کراس کرنے کو تیار ہیں۔ آج اگر اسلامی جمہوریہ ایران موثر جواب نہیں دیتا تو کل اسرائیل دوبارہ حملہ کرے گا۔ ایران کا خطے میں کمزور ملک کا تاثر جائے گا جو اپنی خودمختاری کا تحفظ نہیں کر سکتا۔ ویسے تو روئیٹرز اور بی بی سی ہر روز ایران میں نامعلوم سورسز سے یہ بات نقل کرتے ہیں کہ اب حملہ ہوگا یا اب حملہ نہیں ہوگا۔ یہ سب ان کی پروپیگنڈا چالیں ہیں۔ دو ہفتے میں ایران نے ایک نفسیاتی جنگ اسرائیل پر مسلط کر دی ہے۔
ویسے ان یورپی ممالک اور امریکہ کو یہ معمولی سے بات معلوم نہیں ہے کہ ایران کو دفاع کا حق حاصل ہے۔ اب ایران کا جواب ایسا ہونا چاہیئے جس سے پھر کسی کو ایران پر حملے کی جرات نہ ہو۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے اس وقت نیتن یاہو کی شدید خواہش ہے کہ امریکہ اور ایران کو باہم جنگ میں الجھا کر اپنا پتہ صاف کروں۔ اس لیے اسلامی جمہوریہ ایران کی حکمت عملی بہت زبردست ہے۔ جواب بھرپور ہو اور مناسب ترین وقت پر دیا جائے۔ نیتن یاہو کی جان خلاصی اسی میں ہے کہ جنگ مزید پھیلے اور وہ زیادہ سے زیادہ عرصے تک اقتدار سے چمٹا رہے۔ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ: 1154910