QR CodeQR Code

علامہ اقبال کے کلام میں امام حسینؑ اور تحریک کربلا (2)

15 Aug 2024 19:49

اسلام ٹائمز: یہی وجہ ہے کہ غزہ میں دس مہینوں سے ڈھائے جانے والے مظالم پر تمام مسلم ممالک امریکی حکام کے خوف سے خاموش تماشائی ہیں جبکہ امام حسینؑ کے عزادار امام حسینؑ اور تحریکِ کربلا سے الہام لیتے ہوئے حزب اللہ، الحشد الشعبی، انصار اللہ یمن اور جمہوری اسلامی ایران کی شکل میں حماس کی ہر طرح سے مدد کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ حق اور مظلومین کے ساتھ وہی کھڑا ہوسکتا ہے جو تحریک کربلا سے جڑا ہو اور ڈاکٹر اسرار صاحب مرحوم کے بقول واقعاً شیعہ قوم کے اندر کربلا کو زندہ رکھنے کی وجہ سے قربانی کا جذبہ موجود ہے جو سنیوں میں نہ ہونے کے برابر ہے۔


تحریر: منظوم ولایتی
(گزشتہ سے پیوستہ)


شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال  رحمۃ اللہ علیہ کی اہلبیت رسول (ص) خاص طور پر امام حریت، سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام سے عشق و عقیدت غیر معمولی اور شگفتہ آور ہے۔ اب اسی تسلسل میں آج کی دوسری قسط ملاحظہ کیجیے:

3۔ راکبِ دوشِ رسولؐ:
بہر آن شہزادۂ خیر الملل
دوش ختم المرسلین نعم الجمل

بہترین امت مسلمہ کے اس شہزادے حضرت امام حسین علیہ السلام کے لیے حضور ختم المرسلین (ص) کا دوش مبارک، سواری تھی اور کیا اچھی سواری تھی۔ (رموزِ بے خودی)۔ اِس شعر میں اُس معروف واقعے کی طرف اشارہ ہے کہ مدینے میں جب حضرت ابوبکر نے دیکھا ہے کہ حضور نبی اکرمؐ نے حضرات حسنینؑ کریمین علیہما السلام کو اپنی پشت مبارک پر اٹھایا ہوا ہے تو کہا کہ کیا اچھی سواری ہے! جس پر حضورؐ نے فرمایا کہ سوار بھی تو اچھے ہیں!

4۔ امام  حسین علیہ السلام مثلِ قرآن:
درمیان امت ان کیواں جناب
ہمچو حرف قل ہو اللہ در کتاب

یہ بلند مرتبت شخصیت (امام حسینؑ) امت کے درمیان وہی مقام رکھتی ہیں جیسے قرآن پاک میں سورۃ الاخلاص نمایاں اور فضیلت رکھتی ہے۔ بقول مفتی منیب الرحمان صاحب کے اقبال کے بقول امت کے درمیان امام عالی مقامؑ کی مثال کتابِ الہی میں "قل ھو اللہ احد" کے کلمات جیسی ہے" (رموز بے خودی)

5۔ یادِ امام حسین علیہ السلام ایمان کو زندہ کرنے کا موجب:
امامِ حسین علیہ السلام قلوب و اذہان پر ہمیشہ سے نقش ہیں اور رہیں گے۔ اِس حوالے سے شیعہ مصادر کے اندر حضورؐ سے ایک حدیث بھی نقل ہے کہ (میرے بیٹے) حسین علیہ السلام کے قتل سے مومنین کے دلوں میں ایسی حرارت اور گرمی اٹھے گی جو کبھی بھی ٹھنڈی نہیں ہوگی۔

حضرت علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
شوکتِ شام و فر بغداد رفت
سطوت غرناطہ ہم از یاد رفت

شام و بغداد کی شان و شوکت چلی گئی، سطوتِ غرناطہ کی یاد بھی ذہنوں سے محو ہوئی۔
تار ما از زخمہ اش لرزاں ہنوز
تازہ از تکبیر او ایمان ہنوز

ہماری زندگی کے تار ابھی تک امام حسین علیہ السلام کے زخم (تار کو بجانے والا آلہ) سے لرزاں ہیں۔ انہوں نے دس محرم الحرام سنہ 61 ہجری روز عاشور میدانِ کربلا میں تلواروں اور شمشیروں کے سائے میں جو تکبیر بلند کی تھی، اسی کی یاد مسلسل  ہمارے ایمان کو زندہ کر رہی ہے۔ (رموزِ بے خودی)

6۔ امام حسین علیہ السلام کی یاد میں گریہ:
امامِ حسین علیہ السلام کا یہ مقام ہے کہ ان کی یا د میں اشک بہائے جائیں اور جو رونا حرام سمجھتے ہیں وہ سن لیں:
اے صبا اے پیک دور افتادگان
اشک ما بر خاک پاک او رسان

اے صبا! اے دُور بسنے والوں کی پیغام رساں؛ ان کی خاک پاک پر  ان کے غم میں بہائے گئے ہمارے آنسوؤں کا تحفہ پہنچا دے۔ (رموزِ بے خودی)

7۔ حق و باطل کا ابدی معیار:
امام حسین علیہ السلام رب کائنات کی طرف سے حق و باطل میں امتیاز کے لیے ابدی معیار ہیں۔ بالِ جبریل میں ہے کہ:
حقیقتِ ابدی ہے مقامِ شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی


8۔ فقرِ حسینیؑ مسلمان کی میراث:
ہر نوعیت کے فقر کی کرامات مختلف ہیں لیکن فقرِ حسینیؑ کی میراث مسلمانی ہے۔ بالِ جبریل میں ہے کہ
اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری
اک فقر سے کھلتے ہیں اسرارِ جہاں گیری

اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری
اک فقر سے مٹی میں خاصیتِ اکسیری

اک فقر ہے شبیری، اس فقر میں ہے میری
میراثِ مسلمانی، سرمایہء شبیری

ان شعار کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر سرمایہ شبیری ایک مومن کے دامن میں محفوظ ہے تو پھر پوری دنیا کے اسرار اس کے پاس گویا جمع ہیں چونکہ یہی وہ اکسیر ہے جس کے فقر میں میری و دنیا کی سربراہی رموز پوشیدہ ہیں۔

9۔ رسمِ شبیری کی ادائیگی: دین کی بقاء:
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری

رسم شبیری، وہ رسم بلکہ وہ رزم کہ جو حضرت امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں ادا کی یعنی حق کا ساتھ اور باطل کی مخالفت، باطل کے خلاف آواز بلند کرنا اور اِس راہ میں سب کچھ لٹانا۔

فقر خانقاہی سے مراد موجودہ پیری مریدی ہے جس میں قیام اور مقاومت کی روح مفقود ہے اور فقط اندوہ و دلگیری سے مراد صرف رنج و ملال ہے جس میں انسان ایامِ عزا میں امام حسینؑ کی عظیم قربانی کو یاد کرکے گریہ تو کرے لیکن عصر حاضر کے یزیدوں سے پنجہ آزمائی کیلیے تیار نہ ہو۔

یہی وجہ ہے کہ رہبر انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا فرمان ہے کہ ہمارے پاس کوئی سیکولر عزاداری نہیں ہے، یعنی ایسی مجلس و عزاداری جس میں صرف رونا ہو اور بس، اس لیے کہ یاد امام حسینؑ ہی مقاومت اور استقامت کا نام ہے۔

یہی وجہ ہے کہ غزہ میں دس مہینوں سے ڈھائے جانے والے مظالم پر تمام مسلم ممالک امریکی حکام کے خوف سے خاموش تماشائی ہیں جبکہ امام حسینؑ کے عزادار امام حسینؑ اور تحریکِ کربلا سے الہام لیتے ہوئے حزب اللہ، الحشد الشعبی، انصار اللہ یمن اور جمہوری اسلامی ایران کی شکل میں حماس کی ہر طرح سے مدد کر رہے ہیں۔

اس لیے کہ حق اور مظلومین کے ساتھ وہی کھڑا ہوسکتا ہے جو تحریک کربلا سے جڑا ہو اور ڈاکٹر اسرار صاحب مرحوم کے بقول واقعاً شیعہ قوم کے اندر کربلا کو زندہ رکھنے کی وجہ سے قربانی کا جذبہ موجود ہے جو سنیوں میں نہ ہونے کے برابر ہے۔
ترے دین و ادب سے آ رہی ہے بوئے رہبانی
یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالمِ پیری

بوئے رہبانی سے مراد ترکِ دنیا کی بو ہے۔ جو رزم  شبیریؑ ادا نہیں کرتے تو وہ بستی تباہ ہو جاتی ہے۔ آج دس ماہ سے زیادہ عرصے سے اسرائیلی درندوں کی بربریت کے سامنے مسلمانوں کی اکثریت "رہبانیت کا لبادہ" اوڑ چکی ہے جبکہ فلسطین اور غزہ سے یاللمسلمین کی صدائیں بلند ہیں۔
قلندر میل تقریری ندارد
بجز این نکتہ اکسیری ندارد
از آن کشت خرابی حاصلی نیست
کہ آب از خون شبیری ندارد

قلندر اور مرد مجاہد لمبی تقریروں کا میلان نہیں رکھتا، اسے ایک ہی نکتہ معلوم ہے، جو اکسیر کا کام کرتا ہے۔ ایسی ویران کھیتی سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا، جس کی آبیاری خون حسین علیہ السلام  سے نہ کی گئی ہو۔ (ارمغانِ حجاز)

 کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج پاکستان میں مفتی تقی عثمانی جیسے لوگ ایک طرف یہ کہہ کر کہ "ایران 'ظاہرا' حماس کے ساتھ ہے اور 'تھوڑی بہت' مدد بھی کر رہا ہے" جیسے مبہم اور افسوسناک و قابلِ مذمت بیانات دے کر مسلم دنیا کے اندر موجود  مقاومتی بلاک کی روح کو مضمحل اور کمزور کر رہے ہیں۔ چہ جائے کہ اپنے پاس موجود 'فتوے کی طاقت' کے ذریعے اِس حساس موقع پر اپنا عالمانہ و مجاہدانہ کردار ادا کرتے ہوئے کچھ 'مجاہدین'  کو مدد کیلیے غزہ بھیجیں۔ حالانکہ حماس کی قیادت نے بارہا و بارہا کہا ہے کہ شروع سے لے کر ایران ہی ہماری مدد کررہا ہے۔

راقم الحروف کا سوال یہ ہے کہ کیا چالیس ہزار فلسطینیوں کی شہادت جس میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے کے بعد، اب  بھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ مسلم دنیا علامہ اقبال کے اِس شعر پر عمل کا سوچے؟
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلیے
نیل کے ساحل سے لیکر تا بخاکِ کاشغر

مزے کی بات یہ ہے کہ مفتی تقی عثمانی صاحب نے اپنے ایک سوشل میڈیا ایکس بیان میں کہا ہے کہ شہید اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے جواب میں دیکھتے ہیں ایران کیسا ردِعمل دیتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ صرف ایران پر فرض ہے کہ وہ اسرائیل کا راستہ روکے اور اس کا مقابلہ کرے۔ باقی مسلم ممالک پر فرض نہیں؟ ظاہرا تو یہی لگتا ہے کہ یہود کے علاوہ مسلم دنیا بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ خیبر سے لے کر آج تک یہود کا مقابلہ یا تو علیؑ  کرسکتے ہیں یا پھر علیؑ والے۔ چونکہ یہاں کراریت چاہیئے فراریت کے یہ بس کا روگ نہیں۔


خبر کا کوڈ: 1154174

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1154174/علامہ-اقبال-کے-کلام-میں-امام-حسین-اور-تحریک-کربلا-2

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com