QR CodeQR Code

علامہ اقبال کے کلام میں امام حسینؑ اور تحریک کربلا (1)

12 Aug 2024 22:10

اسلام ٹائمز: علامہ اقبالؒ کی نظر میں امام حسین علیہ السلام کی انقلابی جدوجہد آفاقی اقدار کی احیاء کے لیے تھی جو بدترین ملوکیت نے زمین بوس کردی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ کلامِ اقبال میں ذکرِ امام حسین علیہ السلام کثرت سے ملتا ہے۔ علامہ اقبالؒ کے نزدیک امام حسین علیہ السلام کی کئی حیثیتیں ہیں۔ وہ امامِ حسین علیہ السلام کو کبھی امامِ عشق کہتے ہیں، کیونکہ جو کام امامِ حسین علیہ السلام نے کیا یہ اہلِ عقل کا نہیں ہو سکتا بلکہ اہلِ عشق کا ہی ہو سکتا ہے۔


تحریر: منظوم ولایتی

وطن عزیز پاکستان کا تصور پیش کرنے والے علامہ محمد اقبال رحمة اللہ علیہ دنیا بھر میں حریت و آزادی کے لئے برسر پیکار تحریکوں کے لئے امام حسین علیہ السلام اور تحریک کربلا کو نمونہ عمل قرار دے کر امام حسین علیہ السلام کی نہایت ہی منظم انقلابی تحریک کو ظلم و طاغوت کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار قرار دیتے ہیں۔

جس طرح  سے ایران کے اسلامی انقلاب کے رہبر حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا تھا کہ دنیا والے ہمیں رونے والی قوم کہہ کر ہمارا تمسخر  اڑاتے تھے لیکن انہیں آنسوؤں سے ہم نے صدیوں پر محیط امریکی پٹھو شہنشاہی نظام کا بستر لپیٹ کر اسلامی انقلاب برپا کردیا، یاد رہے کہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ کربلا و امام حسینؑ کی مرہون منت ہے۔

حضرت علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ بھی پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے کربلا اور امام حسینؑ کے قیام الی اللہ کو آئیڈیل اور سرِ مشق زندگی قرار دیتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کی نظر میں امام حسین علیہ السلام کی انقلابی جدوجہد آفاقی اقدار کی احیاء کے لیے تھی جو بدترین ملوکیت نے زمین بوس کردی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ کلامِ اقبال میں ذکرِ امام حسین علیہ السلام کثرت سے ملتا ہے۔

یاد رہے کہ علامہ اقبالؒ کے نزدیک امام حسین علیہ السلام کی کئی حیثیتیں ہیں۔ وہ امامِ حسین علیہ السلام کو کبھی امامِ عشق کہتے ہیں، کیونکہ جو کام امامِ حسین علیہ السلام نے کیا یہ اہلِ عقل کا نہیں ہو سکتا بلکہ اہلِ عشق کا ہی ہو سکتا ہے۔جس طرح سے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نمرودیوں کی جلائی گئی آگ میں عشق کے جذبے کے تحت بلا خوف و خطر کود پڑے تھے۔ بقولِ خود علامہ کے؛

بےخطر کود پڑا آتش نمرود پہ عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی


کبھی اقبال امام حسینؑ کو وارثِ علوم قرآن کہتے ہیں۔
کبھی حق و باطل کے لیے ابدی معیار قرار دیتے ہیں۔
کبھی انسانیت کو فقرِ حسینی علیہ السلام اپنانے کا درس دیتے ہیں۔
کبھی رسمِ شبیری کی ادائیگی کو رازِ حیات گردانتے ہیں۔
کبھی حسین علیہ السلام کو امت کی وحدت اجتماعی کا نمائندہ قرار دیتے ہیں۔
کبھی حیاتِ حسین علیہ السلام کو اسوۂ کامل قرار دیتے ہیں۔
کبھی حسین علیہ السلام کو حکومت الہی کی قدروں کا محافظ کہتے ہیں۔
کبھی غمِ حسین علیہ السلام میں روتے ہیں اور رلاتے ہیں۔
کبھی حسین علیہ السلام کی فکری بلندی کی بات کرتے ہیں۔
کبھی رازِ قرآن کا امام حسینؑ کو منبع قرار دیتے ہیں۔
کبھی حسین علیہ السلام کو بِنائے لاالہ قرار دیتے ہیں۔
کبھی حسین علیہ السلام کے پیروکاروں کی عظمت کو بیان کرتے ہیں۔
کبھی موت کو حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں دست بستہ کھڑا دیکھتے ہیں۔

 ذیل میں قارئین گرامی کے سامنے ماہنامہ منہاج القرآن ستمبر 2021ء سے اقتباس شدہ علامہ اقبال رح کے امام حسینؑ کی حیقت آفرین شخصیت اور کربلا کی انقلابی تحریک سے متعلق  اشعار کو ان کی کتب سے حوالہ کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے:

1۔ داستانِ کربلا کا مقدمہ: بیانِ عشق
علامہ محمد اقبالؒ نے داستانِ کربلا کے بیان کا مقدمہ عشق کے عنوان سے قائم کیا۔ اس باب میں انہوں نے عشق کے تقاضے، واردات، لوازمات پر بات کی اور عشق اور عقل کے تقابل پربات کی۔ اس لیے کہ وہ واقعہ کربلا کو سرتا سر مظہرِ عشق سمجھتے تھے۔
مومن از عشق است و عشق از مومنست
عشق را ناممکن ما ممکن است

مومن اللہ تعالیٰ کے عشق سے قائم ہے اور عشق کا وجود مومن سے ہے۔ وہ چیزیں جو ہمارے لیے ناممکن ہیں وہ عشق کے نزدیک ممکن ہیں۔
عقل سفاک است و او سفاک تر
پاک تر چالاک تر بیباک تر

عقل اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے دوسروں کا خون بہانے سے گریز نہیں کرتی اور عشق اللہ تعالے کی خاطر اپنی جان دینے میں اس سے بڑھ کر ہے۔ عشق کے مقاصد عقل سے زیادہ پاکیزہ اور عشق اپنے عمل میں زیادہ تیز رو اور بیباک ہے۔
عقل می گوید کہ خود را پیش کن
عشق گوید امتحان خویش کن

عقل کہتی ہے کہ اپنا مفاد پیش نظر رکھ۔ عشق کہتا ہے کہ اپنی آزمائش کر۔
عقل با غیر آشنا از اکتساب
عشق از فضل است و با خود در حساب

عقل استحصال کی خاطر دوسروں سے آشنائی پیدا کرتی ہے جبکہ عشق کا دار و مدار اللہ تعالیٰ کے فضل پر ہے اور وہ اپنا احتساب کرتا ہے۔
آن امامِ عاشقان پور بتول
سرو آزادے ز بستانِ رسول

وہ عاشقوں کے امام سیدہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا ) کے فرزند اور حضور اکرم (ص) کے باغ کے سرو آزاد تھے۔
سرخ رو عشق غیور از خون او
شوخی این مصرع از مضمون او

عشقِ غیّور ان کے خون سے سرخرو ہوا؛ مصرعۂ عشق کی شوخی اسی مضمون (واقعۂ کربلا) سے ہے۔

2: امامِ حسین علیہ السلام: ذبحِ عظیم کی عملی تفسیر

سر ابراہیم و اسمعیل بود
یعنی آن اجمال را تفصیل بود

آپ حضرت ابراہیم  علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام  کے واقعہ کے سرّ اور اس اجمال کی تفصیل ثابت ہوئے۔ (رموزِ بے خودی)
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر
معنی ذبحِ عظیم آمد پسر

ان کے والد علی مرتضیؑ کا مرتبہ بائے بسم اللہ کا سا ہے اور  سید الشہداء امام حسینؑ ذبحِ عظیم کی عملی تعبیر ہیں۔

(جاری ہے)


خبر کا کوڈ: 1153556

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1153556/علامہ-اقبال-کے-کلام-میں-امام-حسین-اور-تحریک-کربلا-1

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com