بنگلادیش کی طلبہ تحریک اور عالمی حالات
12 Aug 2024 11:47
اسلام ٹائمز: اسرائیل کی حمایت میں یورپی ممالک کے صف اول کے صیہونی حکومت کے ساتھی برطانیہ کے اندر ان دنوں جو انتشار پھیلا ہوا ہے، وہ بھی مظلوم اور ظالم کی وجہ سے خدا کی طرف سے تنبیہ ہے۔ وہاں پر تارکین وطن کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ بے شک حکومت فسادیوں کو سپیڈی ٹرائل کورٹس کو 24 گھنٹے کھلا رکھ کر سزائیں دے رہی ہے لیکن فسادیوں اور بلوائیوں کو کنٹرول میں رکھنے میں ناکام ہے۔
تحریر: منیر حسین گیلانی
اس وقت کرہ ارض پر بنی نوع انسان کو ختم کرنا اور ابتلا میں ڈالنا، آج کی فطرت انسانی کا حصہ بن چکا ہے۔ لیکن افسوسناک پہلو اس کا یہ ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں سے یہ سوچ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے۔ مختلف ممالک میں حکمران اپنی مرضی سے عوام پر حکومت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں تو سب سے پہلے امریکہ جیسے طاقتور ملک کی طاقت کے مرکز وائٹ ہاوس کی بات کرتا ہوں، جہاں گذشتہ صدارتی انتخابات کے بعد اقتدار کی منتقلی کو میدان جنگ بنا کر روکنے کی کوشش کی گئی اور اس پر ایک گروہ نے ایسا کنٹرول حاصل کر لیا کہ جس کی وجہ سے پارلیمنٹ کے ممبران اور طاقتور بیوروکریسی اپنی جان بچانے کیلئے تہہ خانوں میں چھپتے ہوئے نظر آئی۔ امریکہ کی سپرمیسی پر یہ نہ مٹنے والا سیاہ دھبہ ہے۔
اس کے بعد خدائے ذوالجلال نے حکمرانوں کے ظالمانہ انداز پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ایک وبا سے بڑی بڑی طاقتوں کو بے بس ہوتے ہوئے بھی دکھایا۔ اس وبا "کورونا" نے بڑی طاقتور حکومتیں، چاہے وہ آمرانہ تھیں یا جمہوری، مظلوم اور ظالم دونوں کو سڑکوں پر لاشوں کی صورت میں دیکھا۔ اس وبا نے ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کیلئے نہ ویزہ، نہ پاسپورٹ اور نہ ہی کسی حکومت سے اجازت نامے کی ضرورت محسوس کی۔ امیر و غریب، حاکم و محکوم، کالا گورا کی تفریق سے بالاتر ہو کر اس نا انصاف معاشرے میں ایسی تباہی مچائی کہ ہسپتالوں میں داخلے کی گنجائش ختم ہوگئی۔ جنازوں کو دفن کرنے کے لیے وسائل ختم ہوگئے۔ بے بس مجبور انسان سڑکوں پر سسکتا اور مرتا ہوا نظر آیا، لیکن پھر بھی ظالم حکمرانوں کو احساس نہیں ہوا کہ ان سے بھی کوئی بڑی طاقت ہے، جس سے یہ سب بے بس ہیں۔ روس اور یوکراین کی دو سال سے جاری جنگ بھی عالمی تباہی کا باعث بن رہی ہے۔ ابھی تک اس تباہی کا بھی کوئی حل نہیں نکالا جا سکا۔
میں اتنی لمبی تمہید سے اپنا فکری استفادہ کرنے کی خواہش نہیں رکھتا بلکہ برصغیر کی صورتحال پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب پاکستان کا ایک حصہ مغربی پاکستان سے جدا ہو کر بنگلہ دیش کی صورت میں معرض وجود میں آیا اور اس کے خالق بابائے بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمن کی حکومت بنی تو کچھ ہی عرصے بعد ایک فوجی بغاوت میں شیخ مجیب الرحمان، اس کے خاندان کے تمام افراد اور ساتھیوں کو قتل کر دیا گیا۔ اس کی چھوٹی بیٹی حسینہ اور اس کی ہمشیرہ بنگلہ دیش سے باہر ہونے کی وجہ سے زندہ بچ گئیں تو ہندوستان کے کندھوں پر سوار ہوکر ملک کی وزیراعظم بنیں۔ تقریباً 15 سال تک ایوان اقتدار میں سیاہ و سفید کی مالک بنی رہیں۔ اس نے پاکستان کی حمایت کرنیوالی سیاسی قوتوں کو چن چن کر تختہ دار پر لٹکا دیا۔ خاص طور پر جماعت اسلامی کے رہنماوں کو پھانسیاں دیکر حب الوطنی کی سزا دی گئی۔
پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ بنگلہ دیش میں نوجوانوں کی ایک تحریک چلی، جس کی وجہ سے اقتدار چھوڑ کر انڈیا کے قریبی شہر "اگر تلا" میں پناہ لی۔ یہاں بھی وہ خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہوئے برطانیہ، امریکہ یا کسی دوسرے ملک میں سیاسی پناہ لینے کی خواہش رکھتی ہیں، مگر تادم تحریرابھی تک کامیاب نہیں ہوسکیں۔ انہی ایام میں اسرائیل نے نومنتخب ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں مدعو حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو تہران میں شہید کروا دیا۔ واقعہ سے احساس ہوتا ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑانے کے ساتھ انسانی اخلاقی سیاسی اقدار سے بھی نابلد ہے۔ اسرائیل نے ایران پر جو حملہ کیا، اس کی وجہ سے ملت اسلامی جمہوریہ ایران نے اسرائیل سے بدلہ لینے کا تہیہ کرکے دباو ڈالنے کیلئے سڑکوں پر نکل آئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایران کی بدلہ لینے کی خواہش سے کرہ ارض پر تیسری عالمی جنگ بھی ہوسکتی ہے اور اگر ایسا ہوا تو ہر طرف سے ایٹمی اسلحہ کو بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ایران کی حکومت نے بڑی عقلمندی اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ابھی تک کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا کہ جس کے ردعمل میں اسرائیل، امریکہ اور مغربی سامراج ایران کی حدود کو کراس کرکے دنیا میں بدامنی پھیلانے کا ذریعہ بن جائیں۔ بہرحال اسرائیل کی صیہونی حکومت کیخلاف اسرائیلی عوام ختم نہ ہونیوالی جنگ کیخلاف صیہونی عوام سڑکوں پر نکل آئی ہے۔ دوسری طرف ایران کے خوف سے اسرائیل کو بچانے کیلئے امریکہ اپنے تمام تر اسلحے کیساتھ "بحر احمر" میں آچکا ہے، تاکہ صہیونی حکومت کو تحفظ دیا جا سکے، لیکن ایران نے ابھی تک اسرائیل پر ڈائریکٹ حملہ نہیں کیا۔ البتہ اپنی پراکسیز حزب اللہ، حماس، حوثی مجاہدین کی تنظیم انصاراللہ، شامی اور عراقی عسکری تنظیموں کو اس خطے سے امریکہ کو نکالنے، اسرائیل کو ختم کرنے کے دعوے کی تیاری میں لگا ہوا ہے۔
اسرائیل کی حمایت میں یورپی ممالک کے صف اول کے صیہونی حکومت کے ساتھی برطانیہ کے اندر ان دنوں جو انتشار پھیلا ہوا ہے، وہ بھی مظلوم اور ظالم کی وجہ سے خدا کی طرف سے تنبیہ ہے۔ وہاں پر تارکین وطن کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ بے شک حکومت فسادیوں کو سپیڈی ٹرائل کورٹس کو 24 گھنٹے کھلا رکھ کر سزائیں دے رہی ہے، لیکن فسادیوں اور بلوائیوں کو کنٹرول رکھنے میں ناکام ہے۔ میں یہاں پر یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اسرائیل کا بڑا سرپرست کسی قسم کی مشکلات میں پھنسنے والا ہے۔ کیونکہ امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت نوشتہ دیوار نظر آرہی ہے۔ یہ بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے تارکین وطن کو ملک کے اندر پناہ نہیں دی جا سکے گی۔ اس لئے برطانیہ جیسے حالات امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک میں بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔
میں قانون قدرت کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ بادلوں کو ہوا کے دوش پر سوار کرکے ایک منٹ میں ایک ملک سے دوسرے ملک، ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں بھیجتا ہے۔ جس ملک کی فضا میں بارش ہونے کے امکانات ہوتے ہیں تو وہاں بارش بھی آجاتی ہے۔ یہ بارش ابر رحمت بن کر آتی ہے اور اگر زیادہ بارش ہو جائے تو طوفان اور سیلاب بھی ہو جاتا ہے، جس سے مالی جانی اور اقتصادی نقصانات بھی ہوسکتے ہیں اور بارش ابر رحمت کی بجائے زحمت بھی بن سکتی ہے۔ میری بات خطے کے تمام ممالک کیلئے ہے کہ کوشش کریں کہ موسمی تغیرات میں حفاظتی بندوبست کر لیا جائے۔ بنگلہ دیش سے تبدیلی کے بادل بارڈر کراس کرکے ہندوستان بھی جا سکتے ہیں اور اس کے ارد گرد کے ممالک میں ہمارا اپنا پیارا ملک پاکستان بھی ہے، کیونکہ یہاں بھی بادلوں کے بننے اور برسنے کیلئے فضا سازگار ہے۔ لیکن الحمدللہ! افواج پاکستان متحرک ہیں، ملکی سلامتی پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گی۔ اس حوالے سے محترم آرمی چیف جناب سید عاصم منیر نے قومی علماء و مشائخ کانفرنس میں کہہ چکے ہیں ہم کسی طرح سے بھی بدامنی ،فساد فی الارض کی اجازت نہیں دیں گے اور کسی بھی دہشت گردی کو کچل دیں گے۔
خبر کا کوڈ: 1153476