QR CodeQR Code

نسل کشی کے حامی

11 Aug 2024 18:29

اسلام ٹائمز: امریکی نیوز چینل سی این این نے بھی اپنی رپورٹ میں اعلان کیا تھا کہ امریکی کانگریس نے اپریل میں اسرائیل کو 14 ارب ڈالر اسلحہ فراہم کرنے کا بل منظور کر لیا ہے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ مشرق وسطی میں بڑھتے تناو اور غزہ جنگ پھیل جانے کے خوف کے باعث نیز تہران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ اور بیروت میں حزب اللہ کے کمانڈر فواد شکر کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد ایران اور حزب اللہ لبنان کی جانب سے ممکنہ انتقامی کاروائی کے پیش نظر اسرائیل خود کو فوجی لحاظ سے مضبوط بنانے کے درپے ہے۔ امریکی حکومت کی جانب سے صیہونی مجرمانہ اقدامات کی بھرپور حمایت خود امریکہ کے اندر ہی اس پر شدید تنقید سامنے آنے کا باعث بنی ہے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران امریکہ میں حکومت کی جانب سے اسرائیل کی غیر مشروط حمایت ختم کرنے کیلئے وسیع عوامی احتجاج انجام پا چکا ہے۔


تحریر: علی محمدی
 
غزہ میں صیہونی جنگی جرائم شروع ہوئے دس ماہ گزر چکے ہیں اور اس دوران 40 ہزار کے قریب بے گناہ اور نہتے فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی شامل ہے لیکن مغربی ممالک نے نہ صرف اس بربریت اور مجرمانہ اقدام کی روک تھام کیلئے کوئی موثر اقدام انجام نہیں دیا بلکہ الٹا اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کی بھرپور سیاسی، اخلاقی، مالی، فوجی اور سفارتی حمایت اور مدد کرنے میں مصروف ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک حتی بین الاقوامی اداروں میں بھی جرائم پیشہ صیہونی حکمرانوں کو تحفظ دے رہے ہیں اور یوں انہیں غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کیلئے مزید شہہ دینے میں مصروف ہیں۔ اگرچہ مغربی حکومتیں اس افسوسناک رویے پر مصر ہیں لیکن عالمی رائے عامہ اس صورتحال کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے اور بعض عالمی شخصیات نے بھی اعتراض کا اظہار کیا ہے۔
 
فلسطین سے متعلق امور کیلئے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے فرینچسکا البانیزے نے اس بارے میں سوشل میڈیا ایکس پر اپنے پیغام میں لکھا: "غاصب صیہونی رژیم امریکہ اور یورپ سے حاصل کردہ اسلحہ کی مدد سے تمام مہذب ممالک کی خاموشی کے سائے تلے غزہ میں نسل کشی میں مصروف ہے"۔ انہوں نے غزہ کو اکیسویں صدی کی سب سے بڑی اور شرمناک مہاجرین جیل قرار دیا اور لکھا: "اسرائیل ہر محلے میں، ہر اسپتال میں، ہر اسکول میں، ہر پناہ گزین کیمپ میں فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی میں مصروف ہے"۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے اہل غزہ سے معافی مانگتے ہوئے مزید لکھا: "مجھے امید ہے کہ فلسطینی ہمیں ان کی حفاظت کرنے میں اجتماعی کوتاہی اور ناکامی پر معاف کر دیں گے۔" دوسری طرف امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ اسرائیل کو 3.5 ارب ڈالر کا اسلحہ فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
 
اس سے پہلے امریکی نیوز چینل سی این این نے بھی اپنی رپورٹ میں اعلان کیا تھا کہ امریکی کانگریس نے اپریل میں اسرائیل کو 14 ارب ڈالر اسلحہ فراہم کرنے کا بل منظور کر لیا ہے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ مشرق وسطی میں بڑھتے تناو اور غزہ جنگ پھیل جانے کے خوف کے باعث نیز تہران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ اور بیروت میں حزب اللہ کے کمانڈر فواد شکر کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد ایران اور حزب اللہ لبنان کی جانب سے ممکنہ انتقامی کاروائی کے پیش نظر اسرائیل خود کو فوجی لحاظ سے مضبوط بنانے کے درپے ہے۔ امریکی حکومت کی جانب سے صیہونی مجرمانہ اقدامات کی بھرپور حمایت خود امریکہ کے اندر ہی اس پر شدید تنقید سامنے آنے کا باعث بنی ہے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران امریکہ میں حکومت کی جانب سے اسرائیل کی غیر مشروط حمایت ختم کرنے کیلئے وسیع عوامی احتجاج انجام پا چکا ہے۔
 
اس مسئلے نے ڈیموکریٹک پارٹی کے گذشتہ صدارتی امیدوار جو بائیڈن کی سیاسی پوزیشن کو بھی شدید متاثر کیا تھا۔ اب ڈیموکریٹ سیاسی رہنما اس بات پر پریشان ہیں کہ اسرائیل کی بھرپور حمایت کہیں ڈیموکریٹک پارٹی کی نئی صدارتی امیدوار کملا ہیرس کی پوزیشن بھی کمزور نہ کر دے کیونکہ اگرچہ اسرائیل کی حمایت امریکہ میں سرگرم صیہونی لابیوں کی حمایت حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے لیکن اس کی وجہ سے امریکی معاشرے خاص طور پر مسلمان شہریوں میں محبوبیت میں بہت زیادہ کمی واقع ہونے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اخبار فارن پالیسی نے اپنی رپورٹ میں جو بائیڈن حکومت کی جانب سے غزہ جنگ میں صیہونی رژیم کی غیر مشروط حمایت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ پالیسی مشرق وسطی میں امریکی مفادات سے تضاد رکھتی ہے۔
 
فارن پالیسی تاکید کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ امریکہ کو اپنی قومی سلامتی کے تحفظ نیز خطے میں جنگ کا دائرہ پھیلنے سے روکنے کیلئے بنجمن نیتن یاہو پر دباو ڈالنے کیلئے اپنے ہتھکنڈے بروئے کار لانے ہوں گے۔ فارن پالیسی نے لکھا: "امریکی وزارت خارجہ جان بوجھ کر ان بنیادی تبدیلیوں سے چشم پوشی اختیار کر رہی ہے جو امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کے نتیجے میں پیدا ہو رہی ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت میں بہت سے افراد نے ایسی پالیسی اختیار کر رکھی ہے جس کے بارے میں وہ خود بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ غلط اور غیر قانونی ہے۔ جو بائیڈن، بلینکن، قومی سلامتی کے مشیر جک سیلیوان اور وائٹ ہاوس میں مشرق وسطی کے کوآرڈینیٹر میک گورک سمجھتے ہیں کہ امریکہ اس پالیسی پر عملدرآمد کر سکتا ہے اور ساتھ ہی اس کے دور رس نتائج سے بچ بھی سکتا ہے۔"
 
فارن پالیسی اس بارے میں مزید لکھتا ہے: "لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکی حیثیت اور اعتبار کیلئے اس کے ناقابل تلافی نقصانات ظاہر ہوں گے جبکہ اس پالیسی نے امریکہ کو مشرق وسطی میں ایک بڑی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے اور یہ وہی چیز ہے جو بنجمن نیتن یاہو چاہتا ہے۔" اخبار فارن پالیسی امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی حمایت پر مبنی پالیسی کے بارے میں لکھتا ہے: "جو بائیڈن حکومت اسرائیل کی مالی اور فوجی امداد جاری رکھ کر اور غزہ میں نہتے شہریوں پر اس کے حملوں نیز انسانی حقوق کی دیگر واضح خلاف ورزیوں جیسے غذائی اشیاء، پینے کے پانی اور ادویہ جات غزہ میں داخل ہونے سے روکنے وغیرہ کا دفاع کر کے امریکہ کی حیثیت ختم کر چکی ہے اور امریکہ کی قومی سلامتی کو بھی کمزور کر ڈالا ہے۔"


خبر کا کوڈ: 1153315

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1153315/نسل-کشی-کے-حامی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com