شہید قائد علامہ عارف الحسینی کی 36ویں برسی اور آج کی شیعہ قیادتیں
10 Aug 2024 13:46
اسلام ٹائمز: سوشل میڈیا کا زمانہ ہے کہ شیعہ قائدین اگر مل کر کہیں سے ایک تصویر بھی اگر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرتے ہیں تو اِس سے بھی دوست و دشمن سب کیلئے غیرمعمولی پیغام جاتا ہے۔ شیعہ علماء کے آپس میں کشمکش کا نتیجہ ہے کہ قائد شہید کی سرزمین پاراچنار کے خارجی عناصر نے حالیہ دنوں چالیس سے اوپر شیعیان حیدر کرار کو محاصرے میں ڈال کر شہید کردیا اور سینکڑوں کو زخمی کردیا۔ اس سب کچھ کے باجود ہمارے علماء کوئی ملک گیر بڑی مشترکہ کانفرنس بلاکر ایک زبردست اعلامیہ تک جاری نہ کرسکے۔
تحریر: منظوم ولایتی
شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی کے صدر مقام پاڑہ چنار سے چند کلومیٹر دور پاک افغان سرحد پر واقع گاؤں پیواڑ میں 25 نومبر 1946ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق پارہ چنار کے معزّز سادات گھرانے سے تھا، جس میں علم و عمل کی پیکر کئی شخصیات نے آنکھیں کھولی تھیں۔ سید عارف حسینی ابتدائی دینی و مروجہ تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کرنے کے بعد پاکستان کے بعض دینی مدارس جیسے جامعۃ المنتظر لاہور میں زیرتعلیم رہے اور علمی پیاس بجھانے کے لئے 1967ء میں نجف اشرف روانہ ہوئے۔ نجف اشرف میں آیت اللہ مدنی جیسے استاد کے ذریعے آپ امام خمینی سے متعارف ہوئے۔ آپ باقاعدگی سے امام خمینی کے دروس، نماز اور دیگر پروگراموں میں شرکت کرتے تھے۔
آپ کا شجرہ نسب یہ ہے: علامہ سید عارف حسین الحسینی ابن سید فضل حسین ابن میر جعفر ابن سید ابراہیم ابن سید شاہ حسن ابن سید مدد شاہ ابن سید انور شاہ ابن سید بادشاہ ابن میر عاقل ابن میر کبیر ابن سید مرتضیٰ ابن سید شاہ خلیل ابن میر امجد ابن سید حسام الدین ابن سید نظام الدین ابن سید شافی المعروف بطاہر ابن سید شاہ افضل ابن ید شاہ شرف بو علی قلندر ابن سید ابو الحسن محمد شاہ فخر الدین ابن ید حسین ابو عبد اللہ ابن سید علی ابو القاسم ابن سید محمد ابو الحسن ابن سید عبد اللہ ابو علی ابن سید علی ابو القاسم جلال آبادی ابن سید حسین ابو محمد ابن سید ابو عبد اللہ حسین ابن سید جعفر الحخۃ ابن سید حسین الاصغر ابن امام علی زین العابدین علیہ السلام۔
1974ء میں قائد شہید عارف حسین حسینی پاکستان واپس آئے لیکن ان کو واپس عراق جانے نہیں دیا گیا تو قم المقدسہ کی دینی درسگاہ میں حصول علم میں مصروف ہوگئے۔ قم المقدسہ میں آپ نے شہید استاد مرتضی مطہری، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی، آیت اللہ وحید خراسانی جیسے علمائے اعلام سے کسب فیض کیا۔ آپ علم و تقوی کے زیور سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ قم میں امام خمینی کی اسلامی تحریک سے وابستہ شخصیات سے بھی رابطے میں رہے۔ چنانچہ رہبر انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای وغیرہ کے خطبات و دروس میں بھی شامل ہوتے رہے۔ شہید قائد علامہ عارف حیسن الحسینی کی انقلابی سرگرمیوں کی وجہ سے آپ کو ایک دفعہ ایران کی شاہی خفیہ پولیس ساواک نے گرفتار کیا۔
قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی 1977ء میں پاکستان واپس گئے اور مدرسہ جعفریہ پارہ چنار میں بحیثیت استاد اپنی خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ آپ نے کرم ایجنسی کے حالات بدلنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ جب 1979ء میں انقلاب اسلامی ایران کامیاب ہوا تو آپ نے پاکستان میں اسلامی انقلاب کے ثمرات سے عوام کو آگاہ کرنے اور رہبر کبیر انقلاب حضرت امام خمینی کے انقلابی مشن کو عام کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ اِس کے ساتھ ساتھ قائد شہید علامہ عارف الحسینی نے پاکستان کی ملّت تشیّع کو متحد و منظم کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کیں اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔اگست 1983ء میں تحریک کے قائد علامہ مفتی جعفر حسین رحمة اللہ علیہ کی وفات کے بعد 1984ء میں علامہ سید صفدر حسین نجفی رحمة اللہ علیہ اور دیگر شیعہ برجستہ علمائے کرام نے پاکستان کے جیّد شیعہ علما و اکابرین کے مشورے پر علامہ عارف الحسینی کو ان کی قائدانہ صلاحیتوں، انقلابی جذبوں اور اعلیٰ انسانی صفات کی بناپر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا نیا قائد منتخب کیا۔
شہید قائد علامہ سید عارف الحسینی کا دور قیادت پاکستان میں فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت کے خلاف سیاسی جماعتوں کی جدوجہد کے دور سے مطابقت رکھتا تھا۔ چنانچہ آپ نے پاکستانی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے طویل جدوجہد کی۔ اس سے قبل پاکستانی سیاست میں اہل تشیع کا مؤثر کردار نہیں تھا، لیکن شہید قائد عارف الحسینی نے اپنے ملک گیر دوروں لانگ مارچ کے پروگراموں، کانفرنسوں اور دیگر پروگراموں کے ذریعے دین اور سیاست کے تعلق پر زور دیتے ہوئے اپنی قوم کو سیاسی اہمیت کا احساس دلایا، اس سلسلے میں جولائی 1987ء کو منعقد ہونے والی لاہور کی عظیم الشان قرآن و سنت کانفرنس قابل ذکر ہے۔ قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی رحمة اللہ علیہ پاکستان کے معروضی حالات کے دقیق تاریخی مطالعے اور سیاسی کشمکش کے بڑے غور و فکر کے بعد اِس نتجے پر پہنچے تھے کہ شیعیان پاکستان کیلیے پاکستانی شہری ہونے کے ناطے اپنے ملک کے سیاسی و اجتماعی امور میں باقاعدہ اپنے مسلک و مکتب کی شناخت اور پہنچان کے ساتھ شرکت ضروری ہے۔
مزید برآں قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی نے پاکستان میں امریکی ریشہ دوانیوں کو نقش بر آب کرنے اور قوم کو سامراج کے ناپاک عزائم سے آگاہ کرنے کے لیے بھی موثر کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں علامہ شہید عارف حسین حسینی اتحاد بین المسلمین کے عظیم علمبردار تھے، آپ فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کے شدید مخالف تھے، اس سلسلے میں آپ نے علمائے اہل سنت کے ساتھ مل کر امت مسلمہ کی صفوں میں وحدت و یک جہتی کے لیے گرانقدر خدمات انجام دیں۔ جس سے پاکستان کی تاریخ میں سنہری الفاظ میں یاد رکھا جائے گا۔
رہبر کبیر نقلاب حضرت امام خمینی نے شہید قائد کے جنازے میں شرکت کے لئے ایک وفد پاکستان روانہ کیا اور ان کی شہادت کے موقع پر پاکستان کے علماء اور قوم کے نام ایک مفصل پیغام جاری فرمایا جس میں اِن الفاظ میں شہید راہِ حق، سفیرِ ولایت علامہ عارف حسین الحسینی کی شہادت پر تعزیت اور اِن کے پاکیزہ افکار کی تائید فرمائی: پاکستان کی شریف اور مسلمان قوم، جو بےشک انقلابی اور اسلامی اقدار کی وفادار قوم رہی ہے اور ہمارے ساتھ پُرخلوص انقلابی، اعتقادی اور ثقافتی رشتوں میں منسلک ہے، (پاکستانی قوم) کو اس شہید کے افکار کو زندہ رکھنا چاہیئے اور شیطانی چیلوں کو خالص محمدی اسلام کا راستہ روکنے کا موقع نہیں دینا چاہیئے۔ میں اپنے عزیز بیٹے سے محروم ہوگیا ہوں۔ (اقتباس ازصحیفہ امام ج-21، ص-119تا121)
ذیل میں قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کے ایک بیان کو نقل کرتے ہیں تاکہ اِن سے آج ہم درس لے کر خطِ شہید قائد کو زندہ رکھ سکیں۔"برادران عزیز! میں عرض کروں گا کہ سنی ہو یا شیعہ، بریلوی ہو یا اہل حدیث، دیوبندی ہو یا اہل تصوف اے مسلمان! اے کلمہ توحید کے فرزند! میں آپ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ آپ جو یہ جھگڑے کرتے ہیں ان کے نتیجے میں کس کو فائدہ پہنچ رہا ہے نہ سنی کو؟ نہ شیعہ کو؟ نہ دیوبندی کو؟ نہ بریلوی کو؟ پس کفر کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اس لئے کہ جب ہمارے کلمات، ہماری زبانیں اور ہماری توانائیاں جن کو اسلام کی مصلحت میں کفر کے خلاف استعمال ہونا چاہیئے تھا لیکن ہم ان کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں ہم کمزور ہو کر سامراج اور استعمار کی خدمت کر رہے ہیں"۔ (سفیر نور،263)
شہید قائد کی چھتیسویں برسی کے ایام ہیں۔ ایسے میں شہید کے خط کو فالو کرنے کی ضرورت ہے جو کہ وحدت اور اتحاد کا خط ہے اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ شیعہ سنی سب نے مل کر پاکستان بنایا تھا اور اس کی بقاء باہمی اتحاد و وحدت پر ہی مضمر ہے۔ اسلیے ہم سنیوں کو بھی اپنا مسلمان بھائی سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ آج پاکستان کے اندر خود ملت تشیع کے کئی سیاسی اور اجتماعی پلیٹ فارمز پائے جاتے ہیں۔ آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہمیں آپس میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور آپس میں دست و گریباں ہونے کے بجائے مراجع کرام بالخصوص رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای دامت برکاتہ کے کھینچے ہوئے خطوط پر چل کر مکتبِ تشیع کو روز بروز مضبوط کرنے کی کوشیں کرنی چاہیئے۔ بعض اوقات بڑی سطح کے شیعہ علمائے کرام کے دوسرے شیعہ علما سے متعلق نامناسب اور جذباتی بیانات سن کر بھی قلق ہوتا ہے۔
مولا علی ع کا فرمانا ہے کہ "آلةُ الریاسة سعةُ الصدر" حکمرانی کا آلہ دریا دلی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب شہید قائد کو پتہ چلا کہ معروف خطیب عرفان حیدر عابدی کوئی مشکل پیش آئی ہے تو کراچی میں بنفسِ نفیس عرفان حیدر عابدی صاحب کے گھر جاکر اُن سے ملے تھے اور احوال پرسی کی۔ آج حالت یہ ہے کہ ہمارے علماء بعض اوقات بلا کر بھی ایک دوسرے کے ملنے کو تیار نہیں۔ حالانکہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے کہ شیعہ قائدین اگر مل کر کہیں سے ایک تصویر بھی اگر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرتے ہیں تو اِس سے بھی دوست و دشمن سب کیلئے غیرمعمولی پیغام جاتا ہے۔
یاد رہے کہ یہی شیعہ علماء کے آپس میں کشمکش کا نتیجہ ہے کہ قائد شہید کی سرزمین پاراچنار کے خارجی عناصر نے حالیہ دنوں چالیس سے اوپر شیعیان حیدر کرار کو محاصرے میں ڈال کر شہید کردیا اور سینکڑوں کو زخمی کردیا۔ اس سب کچھ کے باجود ہمارے علماء کوئی ملک گیر بڑی مشترکہ کانفرنس بلاکر ایک زبردست اعلامیہ تک جاری نہ کرسکے۔ آخر میں خاص طور پر شیعہ جوانوں سے میری دست بستہ گزراش ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا مادہ اپنے اندر پیدا کریں۔ بےشک آپ ایک دوسرے پلیٹ فرام سے فعالیتیں دکھا رہے ہیں مگر کام تو مکتب اور دین کا کر رہے ہیں، خدا کیلئے ہی کر رہے ہیں۔ ایسے میں سوشل میڈیا کے اندر ایک دوسرے کے خلاف بعض اوقات توہین آمیز پوسٹ وغیرہ پڑھ کر دلی افسوس ہوتا ہے۔ دل بڑا رکھیں اور ایک دوسرے کو اختلافات سمیت قبول کریں۔ انشاءاللہ اللہ پاک پاکستان میں مکتب تشیع کو سر بلند فرمائے گا۔ آخر میں شاعر کے اِس شعر کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں:
چھری کی دھار سے کٹتی نہیں چراغ کی لو
بدن کی موت سے کردار مر نہیں سکتا
خبر کا کوڈ: 1153100