QR CodeQR Code

حماس کا آگے کی جانب ایک قدم

9 Aug 2024 19:50

اسلام ٹائمز: طوفان الاقصیٰ نے غاصب صیہونی رژیم پر سیاسی، فوجی، سکیورٹی اور حیثیتی لحاظ سے ایسی کاری ضرب لگائی تھی، جسکا ازالہ صیہونی حکمران گذشتہ دس ماہ سے جاری قتل و غارت اور نسل کشی کے ذریعے بھی نہیں کر پائے۔ اس ذلت آمیز شکست نے صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو شدید مخمصے کا شکار کر دیا ہے اور وہ اس دردناک صورتحال سے باہر نکلنے کیلئے سرتوڑ کوشش میں مصروف ہے۔ لبنان میں حزب اللہ کے اعلی سطحی کمانڈر فواد شکر اور تہران میں حماس کے سابق سربراہ اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ انہی کوششوں کا حصہ ہے۔ لیکن اس ریاستی دہشتگردی کے باوجود بنجمن نیتن یاہو اس دلدل سے نکل نہیں پائے گا، جس میں وہ بری طرح پھنس چکا ہے۔ دوسری طرف شہید اسماعیل ہنیہ کی جگہ یحیی السنوار کا حماس کے نئے سربراہ کے طور پر چنا جانا بنجمن نیتن یاہو کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔


تحریر: مہدی بختیاری

شاید اگر آج اسرائیل کو دوبارہ شہید عباس موسوی کی ٹارگٹ کلنگ کا موقع میسر آتا تو ایہود براک ہرگز 16 فروری 1992ء والا فیصلہ نہ کرتا۔ جب اسرائیل کے چیف آف آرمی اسٹاف (بعد میں اسرائیلی وزیراعظم) نے آخری لمحات میں حزب اللہ کے سابق سیکرٹری جنرل کو اغوا کرنے کے منصوبے کو ان کی ٹارگٹ کلنگ کے منصوبے میں تبدیل کر دیا تو بہت کم ایسے لوگ تھے، جو اس خطرے سے آگاہ تھے کہ ممکن ہے شہید عباس موسوی کی جگہ کوئی ایسا شخص حزب اللہ لبنان کا نیا سیکرٹری جنرل بن جائے، جو اسرائیل کیلئے کئی گنا زیادہ خطرناک ثابت ہو۔ ایسا ہی ہوا اور اس وقت کی صیہونی حکومت نے کچھ مشیروں کی وارننگ کے باوجود شہید عباس موسوی کو بیوی بچوں سمیت میزائل حملے کا نشانہ بنا دیا۔ اس کے بعد سید حسن نصراللہ حزب اللہ کے نئے سیکرٹری جنرل بنے اور غاصب صیہونیوں کیلئے درپیش چیلنجز میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔

اب 33 سال بعد صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے دوبارہ اسی غلطی کو دہرا دیا ہے۔ تہران میں اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ اگرچہ بے بس صیہونی وزیراعظم کیلئے مختصر کامیابی سمجھی جا رہی ہے اور وہ اندرونی مخالفین کو کچھ حد تک مطمئن کرنے میں کامیاب ہوا ہے، لیکن ان کی جگہ یحییٰ السنوار کو حماس کے سیاسی شعبے کا نیا سربراہ مقرر کیا جانا غاصب صیہونی رژیم کیلئے کئی گنا زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہے۔ یحییٰ السنوار جن کی عمر 61 سال ہے، وہ غزہ میں پناہ گزین کیمپ خان یونس میں پیدا ہوئے اور جوانی میں ہی اسلامی مزاحمت کی تحریک حماس میں شامل ہوگئے۔ حماس تشکیل پانے سے پہلے یحییٰ السنوار دو بار غاصب صیہونی رژیم کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور تقریباً 14 ماہ جیل میں رہے۔ اس کے بعد 1988ء میں انہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا اور چار بار عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔

یحییٰ السنوار نے اپنی عمر کے 23 برس اسرائیلی جیل میں گزارے، جس دوران انہوں نے عبری زبان پر مکمل عبور حاصل کیا۔ 2011ء میں حماس نے اسرائیل سے قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کیا اور ایک اسرائیلی فوجی گیلعاد شالیط کے بدلے 1027 فلسطینی قیدی آزاد کروائے، جن میں یحییٰ السنوار بھی شامل تھے۔ یحییٰ السنوار آزادی کے بعد فلسطینیوں میں خاص محبوبیت کے حامل بن گئے اور زمانے کے بدلتے ہوئے حالات نے انہیں شہید اسماعیل ہنیہ کے بعد حماس کے سیاسی شعبے کا سربراہ بنا دیا۔ اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس دو اہم شعبوں پر مشتمل ہے۔ ایک سیاسی جبکہ دوسرا ملٹری شعبہ ہے۔ حماس کی جانب سے عظیم سیاسی اور جہادی تجربات کے حامل شخص یحییٰ السنوار کو سیاسی شعبے کا سربراہ بنا دینا دراصل ایک قدم آگے کی جانب بڑھانے کے برابر ہے۔ حماس ایسی تنظیم ہے، جس نے مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف مسلح جدوجہد کو اپنی اصلی حکمت عملی بنا رکھا ہے۔

یحییٰ السنوار کے گذشتہ تجربات اور حد درجہ عوامی محبوبیت کے علاوہ بھی ان کی سربراہی کے نتیجے میں حماس کے سیاسی اور ملٹری شعبوں میں مکمل ہم آہنگی پیدا ہوئی ہے۔ اسی طرح ایک اور اہم بات یہ ہے کہ حماس کی مرکزی قیادت اب غزہ میں موجود ہے۔ اسماعیل ہنیہ سمیت حماس کے بہت سے اعلیٰ سطحی سیاسی رہنماء مختلف وجوہات کی بنا پر غزہ سے باہر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوچکے تھے۔ لیکن اب یحییٰ السنوار غزہ میں موجود ہیں اور وہ فلسطین کے اندر رہ کر تنظیم کے بارے میں بہترین فیصلہ سازی کرسکتے ہیں۔ یحییٰ السنوار اسلامی جمہوریہ ایران اور حزب اللہ لبنان سے بھی انتہائی قریب تصور کئے جاتے ہیں۔ 2001ء میں یحییٰ السنوار ایران کا دورہ بھی کرچکے ہیں اور شہید اسماعیل ہنیہ کے ہمراہ ولی امر مسلمین امام خامنہ ای مدظلہ العالی سے ملاقات بھی انجام دے چکے ہیں۔

یحییٰ السنوار نے کچھ عرصہ قبل اپنی ایک تقریر میں فلسطین میں اسلامی مزاحمت مضبوط بنانے میں ایران کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا: "ہم نے سینکڑوں کلومیٹر سرنگیں کھود لی ہیں اور ہزاروں میزائل کے مالک بن چکے ہیں۔ اگر ایران نہ ہوتا تو ہم ہرگز یہاں تک نہ پہنچ پاتے۔ عرب بھائیوں کے برعکس، ایران نے ہمیں پیسہ، اسلحہ اور ٹریننگ فراہم کی۔ عرب حکومتوں نے ہم پر تمام دروازے بند کر دیئے اور ہمیں کہنے لگے کہ جائیں پہلے امریکی حکمرانوں سے مذاکرات کریں۔" یحییٰ السنوار کا شمار حماس کے دیگر اعلیٰ سطحی رہنماوں جیسے شہید اسماعیل ہنیہ، شہید صالح العاروری، محمد الضیف اور محمد السنوار (یحیی السنوار کے بھائی) کے ساتھ 7 اکتوبر 2023ء کے دن انجام پانے والے طوفان الاقصیٰ آپریشن کے ماسٹر مائنڈز میں ہوتا ہے۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن اسرائیل کے خلاف فلسطینی قوم کی مسلح جدوجہد کی تاریخ کا ایک فیصلہ کن موڑ تھا۔

طوفان الاقصیٰ نے غاصب صیہونی رژیم پر سیاسی، فوجی، سکیورٹی اور حیثیتی لحاظ سے ایسی کاری ضرب لگائی تھی، جس کا ازالہ صیہونی حکمران گذشتہ دس ماہ سے جاری قتل و غارت اور نسل کشی کے ذریعے بھی نہیں کر پائے۔ اس ذلت آمیز شکست نے صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو شدید مخمصے کا شکار کر دیا ہے اور وہ اس دردناک صورتحال سے باہر نکلنے کیلئے سرتوڑ کوشش میں مصروف ہے۔ لبنان میں حزب اللہ کے اعلیٰ سطحی کمانڈر فواد شکر اور تہران میں حماس کے سابق سربراہ اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ انہی کوششوں کا حصہ ہے۔ لیکن اس ریاستی دہشت گردی کے باوجود بنجمن نیتن یاہو اس دلدل سے نکل نہیں پائے گا، جس میں وہ بری طرح پھنس چکا ہے۔ دوسری طرف شہید اسماعیل ہنیہ کی جگہ یحییٰ السنوار کا حماس کے نئے سربراہ کے طور پر چنا جانا بنجمن نیتن یاہو کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔


خبر کا کوڈ: 1152946

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1152946/حماس-کا-آگے-کی-جانب-ایک-قدم

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com