کیا ایران انتقام لے گا؟
8 Aug 2024 11:17
اسلام ٹائمز: یہ بہترین وقت ہے کہ اسرائیل اور اسکے پشت پناہوں کو خطے میں ایسا جواب دیا جائے، جسکے اثرات واضح اور دیرپا ہوں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مزاحمتی محاذ کا جواب جنگی، تزویراتی اور زمینی فوائد کا حامل ہونا چاہیئے۔ یہ ایک پیچیدہ اور طویل جنگ ہوسکتی ہے، تاہم یہی اس غاصب ریاست اور اسکے پشت پناہوں کا جواب ہے۔ شام میں امریکی قبضے میں موجود آئل ریفانری کو حاصل کرنا اور شام سے اسکے انخلاء، عراق سے امریکی افواج کے مکمل انخلاء، گولان کی پہاڑیوں کی واپسی، یمن کے پانیوں سے امریکیوں کی بے دخلی میرے خیال میں وہ اہداف ہیں، جو مزاحمتی محاذ کے جواب کے ذریعے حاصل کیے جانے چاہییں۔ میرے خیال میں یہ اسرائیل اور اسکے پشت پناہوں کیلئے ایک خاطر خواہ جواب ہوگا۔
تحریر: سید اسد عباس
اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ اسرائیل کو اس کے جرائم کا جواب دینے کے علاوہ کوئی دوسرا راہ حل موجود نہیں ہے۔ اگر اسرائیل کو کھلی چھوٹ دے دی جائے کہ وہ کسی بھی ملک کی خودمختاری، علاقائی سالمیت اور حاکمیت اعلیٰ کو چیلنج کرتے ہوئے اس ملک کے سفارتی مہمانوں کو قتل کردے تو پھر دنیا کے کسی بھی ملک کی آزادی اور استقلال باقی نہیں رہے گا۔ ایران جس نے اپنی آزادی، استقلال، خود مختاری، علاقائی سالمیت اور حاکمیت اعلیٰ کے لیے بلا مبالغہ لاکھوں انسانوں کی قربانی دی ہے۔ جو مسلسل چار دہائیوں سے فقط انہی اقدار کے تحفظ کے لیے مغرب کی معاشی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے، کیسے آسانی سے ان اقدار کا سودا کرسکتا ہے۔ حماس کی سیاسی بیورو کے سربراہ، ایران کے مہمان اسماعیل ہنیہ کے تہران میں بہیمانہ قتل کا جواب ضرور دیا جائے گا۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ تہران نے اس مرتبہ میزائل ٹیکنالوجی کے بجائے تحمل اور دانشمندی کے ہتھیار کو استعمال کرکے سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی کے ساتھ جواب دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
گذشتہ دنوں میں نے ایران کے اخبار خراسان کی ایک تحریر دیکھی، جس میں لکھا گیا تھا کہ اسماعیل ہنیہ کا قتل ایک خفیہ آپریشن کا نتیجہ ہے، اس کا جواب اسی سطح کا حملہ ہوسکتا ہے۔ خراسان اخبار نے لکھا میزائل مارنا اس مسئلہ کا حل نہیں ہے، خراسان اخبار کے مطابق ہمیں خود کو ایک دفاعی آپشن تک محدود نہیں کر لینا چاہیئے، عین ممکن ہے کہ کل کو ہم عالمی دباؤ، تکنیکی پیچیدگیوں یا کسی اور وجہ سے اپنے اس آپشن کو استعمال کرنے کے حوالے سے مشکلات سے دوچار ہو جائیں۔ خراسان اخبار کے مطابق اسرائیل کو جواب حتمی ہے، تاہم اس کو داخلی اور بیرونی عوامی افکار کے مطابق نہیں بلکہ قومی مفادات اور مزاحمتی محاذ کے مفاد کے مطابق ہونا چاہیئے۔ خراسان اخبار کے مطابق اس جواب کی کیفیت کا تعین کرنا فوجی کمانڈرز کا کام ہے۔ یہ جواب صہیونی سرزمین کے اندر، استشہادی حملے، کثیر الجہتی حملے ہوسکتے ہیں۔
خراسان اخبار کے مطابق یہ بہترین وقت ہے کہ ہم اپنے یک جہتی دفاعی آپشن سے نکلیں اور سیکرٹ مشنز کے ذریعے ایک محکم جواب دیں، بالکل ویسے ہی جیسے دمشق میں ہمارے سفارت خانے پر حملہ کیا گیا، اسماعیل ہنیہ کو شہید کیا گیا۔ ان واقعات کا جواب اسی سطح کے حملے ہیں۔ ہمیں مزاحمتی محاذ کو میزائل اور ڈرون کی عادت سے نکال کر نئے طریقوں کا تعین کرنا چاہیئے۔ میرے خیال میں خراسان اخبار کی یہ تحریر نہایت دانشمندانہ تحریر ہے۔ جہاں تک میں نے گذشتہ چند دنوں میں اسرائیلی اور مغربی میڈیا چینلز کو دیکھا ہے، وہ یقیناً ایران کی جانب سے حملوں کے حوالے سے خاصے پریشان ہیں۔ جس کے اثرات امریکا کی سٹاک ایکسچینج پر دیکھنے کو ملے، جس میں سے ایک دن میں 1.93 ٹریلین ڈالر نکال لیے گئے۔ سٹاک ایکسچینج جہنم کا منظر پیش کر رہی تھی۔
میرے خیال میں ایک سرمایہ دارانہ نظام پر استوار ریاست کے لیے یہ بہت بڑا دھچکا ہے۔ امریکا کو اپنے بحری بیڑوں کو ممکنہ ایرانی حملوں سے بچنے کے لیے مختلف جگہ پر تعینات ہونا پڑا، یہ بھی ایک اضافی خرچ تھا۔ اسرائیل کی آبادی نے تو گذشتہ ہفتہ بنکرز میں ہی گزارا ہے۔ حملوں کے اس خوف نے اسرائیلی معیشت کو بھی خاطر خواہ نقصان پہنچایا ہے۔ دنیا کے تقریباً سبھی پرو اسرائیل ممالک ایران کی منتیں کر رہے تھے کہ وہ حملہ نہ کرے، حوصلے سے کام لے۔ ایران نے سفارتی سطح پر ایک مرتبہ پھر پوری دنیا کو باور کروایا ہے کہ وہ جواب کا حق رکھتا ہے، ایران نے یہ بھی بتایا کہ اگر مغربی ممالک اسرائیل کی پشت پناہی نہ کریں تو اس کو اتنی جرات نہ ہو کہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی بھی ملک کی ارضی سالمیت، حاکمیت اعلیٰ اور خود مختاری کو پامال کرتے ہوئے اس ملک میں حملے انجام دے۔
ایران کے صدر ڈاکٹر پزشکیان نے فرانس کے صدر میکرون کو واضح الفاظ میں کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ خطے میں امن ہو تو آپ کو غزہ میں فی الفور جنگ بندی کرنی ہوگی۔ مغربی ممالک کو اسرائیل کی غیر مشروط حمایت پر نظر ثانی کرنا ہوگا۔ عالمی سطح پر اور اسلامی ممالک میں ایران کے جوابی حملے کے حق کو تسلیم کیا جا رہا ہے، ان تمام سفارتی، اخلاقی اور موقف کی فتوحات کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ اسرائیل کو خاطر خواہ جواب دیا جانا ضروری ہے۔ اسرائیل سات اکتوبر سے اب تک ڈرون اور میزائل حملوں میں حزب اللہ کے چار سو کے قریب اہم کمانڈرز اور جنگجوؤں کو شہید کرچکا ہے۔ جن میں سب سے اہم شہادت حزب اللہ کی مرکزی شوریٰ کے رکن فواد علی شکر کی ہے۔ حزب اللہ نے بھی انتقام کا اعلان کیا ہے، حشد الشعبی، انصار اللہ اور دیگر مزاحمتی گروہ بھی اس وقت اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کے خلاف اقدام کے لیے آمادہ ہیں۔
یہ بہترین وقت ہے کہ اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کو خطے میں ایسا جواب دیا جائے، جس کے اثرات واضح اور دیرپا ہوں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مزاحمتی محاذ کا جواب جنگی، تزویراتی اور زمینی فوائد کا حامل ہونا چاہیئے۔ یہ ایک پیچیدہ اور طویل جنگ ہوسکتی ہے، تاہم یہی اس غاصب ریاست اور اس کے پشت پناہوں کا جواب ہے۔ شام میں امریکی قبضے میں موجود آئل ریفانری کو حاصل کرنا اور شام سے اس کے انخلاء، عراق سے امریکی افواج کے مکمل انخلاء، گولان کی پہاڑیوں کی واپسی، یمن کے پانیوں سے امریکیوں کی بے دخلی میرے خیال میں وہ اہداف ہیں، جو مزاحمتی محاذ کے جواب کے ذریعے حاصل کیے جانے چاہییں۔ میرے خیال میں یہ اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کے لیے ایک خاطر خواہ جواب ہوگا۔
خبر کا کوڈ: 1152758