QR CodeQR Code

جاگتے رہنا بھائیو

6 Aug 2024 18:12

اسلام ٹائمز: ایران سے ہمارا یا کسی اور کا کچھ لینا دینا نہیں ہے، بات صرف اتنی سی ہے کہ مستضعفین اور مظلومین کی ایک مشترکہ زبان ہے، یہ فطری زبان جو بھی بولے گا، پاک دلوں کو اپنی جانب کھینچے گا، اسی لئے شہید سنی لیڈر کی شجاع بیٹی کو شیعہ حکومت کے دارالحکومت کو اسلامی دارالحکومت کہتے کوئی عار محسوس نہیں ہوا، جو دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گھورنا سیکھ لے، پھر وہ ان غیر حقیقی مذہبی تعصبات اور نفرتوں کو گھاس بھی نہیں ڈالتا۔


تحریر: ڈاکٹر محب رضا

دشمن کا اسماعیل ہانیہ کو ایران میں شہید کرنا، اس چومکھی لڑائی کی بہت عیارانہ چال تھی۔ ایک عالمی سنی لیڈر کو شیعہ مذہبی حکومت کے مہمان ہوتے، اس کے دارالحکومت میں ٹارگٹ کرنا بہت سے پہلو لیے ہوئے ہے۔ ایرانی حکومت کی انٹیلی جنس پر سوال اٹھانے لیکر درپردہ اسرائیل سے ملے ہونے تک، یا شیعہ سنی خلیج پیدا کرنے سے لیکر غزہ میں جاری بربریت کو پس پردہ لے جانے تک، وہ چند مقاصد تھے جو دشمن حاصل کرنا چاہ رہا تھا۔ اسی لیے ایک طرف تو اس نے اس دہشت گردی سے اپنا کوئی تعلق ہونے پر بالکل چپ سادھ لی، بلکہ اگر کسی سرکاری بیانیہ میں غلطی سے ایسا کوئی اشارہ ہوا بھی تو اسے فوری طور پر درست کروا دیا گیا۔ دوسری طرف کچھ ایسے بیانیے جاری کئے کہ واقعہ کے حقائق مبہم ہو جائیں اور مذہبی تعصب کو ہوا مل سکے۔ فی الواقع اس تمام معاملے میں دو نکتے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔


پہلا نکتہ یہ کہ اس شہادت کا کرتا دھرتا ایرانی حکومت کو قرار دینے کی کوشش کی گئی، ابھی اندرونی تحقیقات مکمل نہیں ہوئی تھیں کہ امریکہ اور برطانیہ کے نام نہاد معتبر اخباری ذرائع نے نامعلوم ایرانی ذرائع کے توسط سے دعویٰ کر دیا کہ یہ شہادت ایک بم کے نتیجے میں ہوئی جسے پہلے سے پلانٹ کیا ہوا تھا، حیرت انگیز طور پر اس بم پلانٹ کرنے ویڈیو ہونے کا دعویٰ بھی کیا گیا، جو کبھی بھی دکھائی نہیں گئی، نہیں معلوم دیگر ممالک کے میڈیا ہاؤسز نے کس دلیل کی بنیاد پر اسی دعویٰ کو اپنی شہ سرخیوں میں جگہ دی اور عوامی رائے کو اصل موضوع سے ہٹا کر مذہبی تعصب کا رنگ دے دیا جبکہ جائے وقوع کی مکانی کیفیت اور دیگر شواہد یہ کہتے ہیں کہ یہ حملہ میزائل کے ذریعے کیا گیا، جس کی دیگر تفصیلات ایرانی میڈیا نے جاری بھی کر دی ہیں، اس کے علاوہ شہید ہانیہ کی فیملی، شہید کے ہمراہ موجود ساتھیوں اور حماس کے ذرائع نے بھی کسی ایسے امکان کی نفی کی اور براہ راست اسرائیل کو ہی اس دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ مغربی میڈیا کی اس روایتی غیر ذمہ داری کی بدولت سوشل میڈیا پر ایک غوغا برپا ہو گیا اور چند احباب کو بھڑاس نکالنے کا بھرپور موقع ملا۔

شہید اسماعیل ہانیہ پر اس سے قبل بھی چند مرتبہ قاتلانہ حملہ ہوا، سوال یہ ہے کہ اس خود ملامتی والی سوچ کے تحت کیا وہ حملے بھی ان حکومتوں کی سازش تھی جہاں یہ حملے ہوئے؟ یا یہ حملے بھی ایران نے ہی کئے تھے یا آج بھی ان حملوں کے پیچھے اسرائیل ہی ہے، جیسے اس سے قبل بھی تھا۔ ایک تعجب انگیز اور حیران کردینے والی منطق یہ ہے کہ ایران درپردہ اسرائیل اور امریکہ سے ملا ہوا ہے اور اس طرح کی حرکتیں خود کرتا ہے، اس واقعے کی توجیہ بھی اسی منطق کے تحت کی جارہی ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں، چند ماہ قبل اسرائیل پر ایرانی میزائل حملے کے بعد بھی اسی قسم کی باتیں سننے کو ملی تھیں کہ یہ ایک بناوٹی حملہ تھا اور ملی بھگت سے اطلاع دیکر ایسا وار کیا گیا کہ اسرائیل کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور ایران کی عزت بھی رہ جائے کہ اپنی ایمبیسی پر حملے کا بدلہ لے لے۔ اسی طرح اس سے پہلے امریکہ پر عین الاسد کے حملے کے وقت بھی یہی طرز بیان رہا تھا۔

یہ منطق اتنی پیچیدہ ہے کہ ایک عرصہ تک سر ٹکرانے کے بعد بھی اوپر سے ہی گزر جاتی ہے، آخری امکان یہی بچتا ہے کہ شاید اصل مشکل، منطق کی پیچیدگی کے بجائے ہماری اپنی کم مائیگی ہو۔ اگر ایران کا گزشتہ حملہ اسرائیلی ملی بھگت کی بدولت تھا تو اسرائیل کا ایرانی ایمبیسی پر حملہ کس کی ملی بھگت تھی؟ ایران ایسی ملی بھگت کرتا ہی کیوں ہے، جس کا نتیجہ اس کو اتنا بھاری اقتصادی پابندیوں کی شکل میں ملے جبکہ اسرائیل ایسا گٹھ جوڑ کیوں کرتا ہے جس سے اسکا بظاہر مضبوط عالمی چہرہ، کمزور نظر آئے؟ مکڑی کے جالے سے ذیادہ کمزور اسرائیل کی تو بقا ہی اس میں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ناقابل تسخیر منوائے؟ آئیے ذرا اس منطق کی مزید تحلیل کیجئے، بقول انکے ایران درپردہ اسرائیل و آمریکا کا حامی ہے!! مگر ایران ہی اسرائیل و آمریکا پر حملے کرتا ہے، مگر ایران ہی ہر قسم کے مذہبی تعصب سے بالاتر ہوکر مظلوم کی مدد کرتا نظر آتا ہے، شام و فلسطین و عراق کی مثال سامنے ہے، مگر ایران ہی اپنے اصولوں، استقلال اور قوم کی عزت کا کوئی سودا کرتا دکھائی نہیں دیتا۔

دوسری جانب دیگر کئی اسلامی ملک علی الاعلان ان دونوں ممالک کے حامی ہیں جبکہ آمریکا کے فوجی اڈے اور اسرائیل سے تجارتی روابط بھی انہی کے ہیں، جو شہید ہانیہ کی شہادت کی فقط مذمت کرنے میں تردد کا شکار ہوتے ہیں، اس سب کے باوجود ان نام نہاد سپر پاورز کا ان ممالک سے رویہ تک انتہائی ذلت آمیز ہے، پیچیدگیوں اور تناقضات کی ایک لمبی فہرست ہے، پر جو کھلم کھلا ان دو شیاطین کے ساتھ ہے، اس پر کوئی حرف نہیں، لیکن جو اپنی سلامتی کو داؤ پر لگا کر، ان شیاطین کے مفاد پر ضرب لگاتا ہے، وہ دراصل منافقت کرتا ہے؟ لبنان، یمن، شام، عراق تو ایران کی پراکسیاں ہیں جبکہ وہ خود کہتے ہیں کہ ہم اپنے فیصلے مستقل ہو کر کرتے ہیں، مگر یہ دیگر ممالک کسی کی پراکسیاں نہیں ہیں؟؟ عقل سمجھنے سے قاصر ہے، ایران منافقت کرتا ہے یا جو ایران کے طرز عمل کو کھینچ تان کر منافقت قرار دیتا ہے، وہ منافقت کرتا ہے! ان تمام باتوں کے باوجود ایران، ان ممالک پر کوئی احسان نہیں جتاتا، فقط ایک برادر اسلامی ملک ہونے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتا ہے اور اسی پر عمل کرتا ہے۔

کچھ سادہ لوح، امریکی و صہیونی پروپیگنڈہ سے متاثر ہوکر اس مسئلے کو مذہبی چادر پہنا دیتے ہیں، بے بنیاد تہمتوں کا ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ ظالموں کی بربریت اور جنایت کہیں پیچھے رہ جاتی ہے اور وہ ظالم مسکراتے ہوئے، اپنے اس گھناؤنے کھیل سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ فرض کیجئے، اس منطق کو مان لیتے ہیں، ایرانی گٹھ جوڑ کرتے ہیں۔ ملے ہوئے ہیں، بہت خوب، انکو سائیڈ پر کر دیجئے، لائیے کوئی اور سورما جو ظاہری طور پر ہی سہی، لیکن ان مظالم پر آواز اٹھائے؟ جو اپنی سالمیت و اقتصاد کو داؤ پر لگا کر، ایسا منافقانہ کھیل ہی سہی، پر کھیلے تو سہی، جو پابندیوں میں جکڑا جائے، پر بقول شخصے اپنے مفاد کو ہی بچانے، مگر آگ اور خون سے کھیلے، کڑوا سچ تو یہ ہے کہ اگر ایران اور اسکی عوام اس وحشت و جنون کے آگے کھڑی نہ ہوتی تو ناصرف اسرائیل کا ناپاک وجود، اپنی پیش کردہ مکمل شکل میں، خنجر کی مانند ہمارے قلب میں گھسا ہوتا بلکہ داعش کی شکل میں ایک کلنک کا ٹیکہ، ہمارے ماتھے پر بھی سجا ہوتا..

ایران سے ہمارا یا کسی اور کا کچھ لینا دینا نہیں ہے، بات صرف اتنی سی ہے کہ مستضعفین اور مظلومین کی ایک مشترکہ زبان ہے، یہ فطری زبان جو بھی بولے گا، پاک دلوں کو اپنی جانب کھینچے گا، اسی لئے شہید سنی لیڈر کی شجاع بیٹی کو شیعہ حکومت کے دارالحکومت کو اسلامی دارالحکومت کہتے کوئی عار محسوس نہیں ہوا، جو دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گھورنا سیکھ لے، پھر وہ ان غیر حقیقی مذہبی تعصبات اور نفرتوں کو گھاس بھی نہیں ڈالتا۔ ہمارا دوسرا نکتہ یہی ہے، حکومت شیعہ کی ہو یا سنی کی، دشمن صرف مسلمان کو مارتا ہے۔ سنی لیڈر شہید ہانیہ کی ایران کے شیعہ سپریم لیڈر سے آخری ملاقات دیکھنے والی ہے، ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے چہروں کی خوشی، گلے ملنے کی گرمجوشی، ایک دوسرے کی بات کو مکمل کرنا، شہید کا یادگار جملہ کہ 'ایک سردار جاتا ہے تو دوسرا آ جاتا ہے'۔ یہ ملاقات مدتوں یاد رکھنے والی ہے کیونکہ یہ شیعہ سنی محبت، دشمن کی چھاتی پر مونگ دلتی ہے۔

کیوں ان لمحات کو پیش نہیں کیا جاتا؟ میڈیا کیوں ان پرسرور لمحات کی شہ سرخی نہیں لگاتا؟ شہید ہانیہ کیوں ایک منافق مملکت کے سربراہ سے اس طرح ملتے ہیں؟ سنی کمانڈر شہید ہانیہ، کیوں قاسم سلیمانی نامی ایک شیعہ کمانڈر کی قبر پر خط چھوڑ کر آتے ہیں کہ ملاقات نزدیک ہے؟ اس لیے کہ یہ پاک فطرت لوگ سمجھ چکے ہیں، سنی شیعہ جدائی کا فتنہ یا تو امریکہ و برطانیہ جیسے شیاطین صفتوں کا، ہمیں آپس میں لڑوانے کا ذریعہ ہے یا چند خبیث خصلت منافع پسند گروہوں کا ذاتی فائدہ اٹھانے کا۔ دست بستہ گزارش یہ ہے کہ اس فتنے کو مزید سر نہ اٹھانے دیا جائے۔ چند عشرے قبل سات سات ملکوں کو اکٹھا شکست دینے والا اسرائیل، آج چاروں طرف سے محاصرے میں ہے۔ آج اسے دیگر ممالک کی ضرورت ہے، جو اس پر ہونے والے حملے روک سکیں۔ سمندری تجارت پر منحصر معیشت رکھنے والا ملک، جس کی بندرگاہوں پر مہینوں سے کوئی جہاز نہیں پہنچ پایا۔

اس غاصب کے اندرونی حالات دیکھیں، دارالحکومت تل ابیب کی سڑکوں پر ہو کا عالم ہے، غاصب اسرائیلی غصب شدہ زمین سے بھاگنے کی کر رہے ہیں، ان پر چین کی نیند حرام ہوئی ہوئی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح رح نے اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیا تھا، جسے کبھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ فی الحال ہم فلسطین کے لیے اور کچھ نہیں کر سکتے تو اتنا تو کر سکتے ہیں کہ ان حاصل کردہ کامیابیوں کو اپنی بصیرت سے ضائع نہ ہونے دیں، ایک دوسرے کی ٹانگ نہ کھینچیں، فروعی اختلافات کو پاٹ نہ سکنے والی خلیج نہ بنائیں، ایک دوسرے کے مقدسات پر حملے نہ کریں!! سنی اور شیعہ، ایک ہی جسم کے دو بازو ہیں۔ کیا آپ نے کبھی کسی سورما کو دیکھا ہے جو صرف ایک بازو سے اپنا کامیاب دفاع کر سکے؟؟

از طرف
سنت نبوی پر چلنے اور اہلبیت نبوی کو چاہنے والا
ایک دردمند مسلمان بھائی


خبر کا کوڈ: 1152335

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1152335/جاگتے-رہنا-بھائیو

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com