QR CodeQR Code

حضرت بی بی فضہ سلام اللہ علیہا۔۔ حیات و خدمات

3 Aug 2024 07:51

اسلام ٹائمز: حضرت فضہ جہاں ایک صحابیہ کی حیثیت رکھتی ہیں، وہیں یہ آخری رسول ؐ پر ہونیوالی وحی کی گواہ ہیں۔ حضور اکرم ؐ روزانہ وحی کے بعد جب بھی گھر تشریف لاتے تو موصول ہونیوالی وحی کا مکمل تذکرہ سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا سے فرماتے۔ اس دوران اکثر اوقات حضرت فضہ موجود ہوتی تھیں۔ حضرت فضہ اپنے حافظے اور یادداشت کی خداداد صلاحیت کے سبب یہ وحی یاد کر لیتی تھیں۔ کمال یہ ہے کہ اسی یاداشت کی وجہ سے انہیں قرآن کی آنیوالی اکثر آیات ازبر ہو جاتی تھیں اور وہ ساتھ ساتھ حفظ کرتی چلی جاتی تھیں۔ یہی وجہ کہ تکمیل قرآن کے بعد جب دیگر صحابہ اپنے اپنے حفظ قرآن کی تکمیل کی طرف متوجہ ہو رہے تھے اور کوشاں تھے، تب حضرت فضہ قرآن کریم کو اپنے قلب و دماغ میں سما چکی تھیں اور اپنی آقا زادی سیدہ فاطمہ ؑ کے ساتھ بیٹھ کر تلاوتِ قرآن کی سعادتیں حاصل کرچکی تھیں۔


تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
izharbukhari5@hotmail.com

حبش کا ملک جسے آج کل ایتھوپیا کہا جاتا ہے، پہلے زمانے میں غلاموں کی منڈی شمار ہوتا تھا۔ حبش کو تاریخ میں حبشہ بھی کہا گیا ہے۔ اسی افریقی خطے میں ایک چھوٹا شہر ”نوبیہ “ واقع ہے۔ بعض تواریخ میں یہ شہر سوڈان کے جنوب میں اور بعض تواریخ میں مصر کے جنوب میں واقع ہے۔ نوبیہ کی وجہ شہرت حبشہ کے ملک کی شہزادی حضرت فضہ کے آبائی شہر کی وجہ سے ہے۔ اتنے بڑے ملک کی شہزادی اور ملکہ نے اپنے آپ کو آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت ؑ کی غلامی میں دے دیا۔ کریم آقاؐ کی کریمی دیکھیے کہ انہوں نے ایک حبشی کالی لڑکی کو اپنی بیٹی کی بہن بنا لیا اور بیٹی (سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا) نے اپنے بچوں یعنی حسنین کریمین ؑ کی ماں بنا دیا۔ اگرچہ ساری زندگی حضرت فضہ نے اپنے آپ کو حسنین کریمین ؑ کی غلام کہا، لیکن حسنین کریمین ؑ نے حضرت فضہ کو ہمیشہ اپنی ماں کہہ کر پکارا۔

حضرت فضہ اپنے زمانے کی تعلیم یافتہ اور باشعار خاتون شمار ہوتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے خاندان ِ نبوت میں رہ کر فقط گھریلو کام کاج نہیں کیے بلکہ قرآنی اور نبوی تعلیمات سے خوب آشنائی حاصل کی۔ مخدومہ کائنات سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کی براہِ راست شاگردی اور دوستی کے سبب حضرت فضہ نے منفرد علوم کسب کئے۔ آپ نے جس طرح قرآن کریم حفظ کیا اور پھر اس کی تلاوت کا شرف حاصل کیا، ایسے حفظ پر بڑے بڑے اکابر صحابہ بھی حیرت زدہ رہتے تھے۔ حضرت فضہ واحد صحابیہ ہیں، جو نہ صرف قرآن کریم کی حافظ تھیں بلکہ قرآن کی محافظ اور عالم بھی تھیں۔ انہیں یہ امتیاز حاصل تھا کہ وہ زندگی کے اکثر معاملات قرآن کریم سے دیکھتی تھیں۔ اکثر ایسا ہوا ہے کہ کسی صحابی یا صحابیہ نے حتی کہ کسی اور سائل نے بھی کبھی کوئی سوال کیا ہو تو حضرت فضہ نے اسے قرآن کریم کی آیات سے جواب دیا۔ یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ فضہ قرآن سے بولتی ہے، قرآن کے علاوہ کہیں سے نہیں بولتیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ زندگی کے آخری بیس سال میں تو شاید ہی فضہ نے قرآن کے علاوہ کوئی اور بات کی ہو۔

حضرت فضہ جہاں ایک صحابیہ کی حیثیت رکھتی ہیں، وہیں یہ آخری رسول ؐ پر ہونے والی وحی کی گواہ ہیں۔ حضور اکرم ؐ روزانہ وحی کے بعد جب بھی گھر تشریف لاتے تو موصول ہونے والی وحی کا مکمل تذکرہ سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا سے فرماتے۔ اس دوران اکثر اوقات حضرت فضہ موجود ہوتی تھیں۔ حضرت فضہ اپنے حافظے اور یادداشت کی خداداد صلاحیت کے سبب یہ وحی یاد کر لیتی تھیں۔ کمال یہ ہے کہ اسی یاداشت کی وجہ سے انہیں قرآن کی آنے والی اکثر آیات ازبر ہو جاتی تھیں اور وہ ساتھ ساتھ حفظ کرتی چلی جاتی تھیں۔ یہی وجہ کہ تکمیل قرآن کے بعد جب دیگر صحابہ اپنے اپنے حفظ قرآن کی تکمیل کی طرف متوجہ ہو رہے تھے اور کوشاں تھے، تب حضرت فضہ قرآن کریم کو اپنے قلب و دماغ میں سما چکی تھیں اور اپنی آقا زادی سیدہ فاطمہ ؑ کے ساتھ بیٹھ کر تلاوتِ قرآن کی سعادتیں حاصل کرچکی تھیں۔

حضرت فضہ ؑ کا ایک امتیاز جہاں قرآن کریم کے علوم پر گہری دسترس ہے، وہاں کیمیا گری میں لاجواب مہارت بھی آپ کا امتیاز ہے۔ تاریخ میں کئی ایک واقعات ملتے ہیں کہ حضرت فضہ نے اپنی اس صلاحیت کا اظہار کیا اور ثبوت دیا۔ حالانکہ وہ خود ایک مالدار اور صاحب ثروت و مملکت خاتون تھیں، لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس صلاحیت کو منفی انداز تو درکنار محض اپنی مالی منفعت کے طور پر بھی استعمال نہیں کیا۔ وہ فرمایا کرتی تھیں کہ مجھے ایسے مال اور منصب سے زیادہ فاطمہ ؑ اور اس کے بچوں کی غلامی میں رہ کر غربت برداشت کرنا زیادہ بڑا منصب نظر آتا ہے۔ وہ فرمایا کرتی تھیں کہ مجھے حبش کی بادشاہی سے زیادہ اہل بیت ؑ کی نوکری پر فخر ہے، کیونکہ حبش کی بادشاہی نے مجھے دنیا میں فائدہ دینا ہے، لیکن اہل بیت ؑ کی نوکری نے میری دنیا اور آخرت دونوں میں مجھے کامیاب کرنا ہے۔

حضرت فضہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہیں سیدہ فاطمہ ؑ کی کنیزی میں دینے کے لیے بھی اللہ تعالےٰ نے اپنے پیارے نبی ؐ پر وحی فرمائی۔ ”قل لھما قول میسورا“ والی آیت کے نزول کے بعد رسول اکرم ؐ نے حضرت فضہ کو سیدہ فاطمہ ؑ کے گھر میں کنیزی کے لیے بھیجا، لیکن سیدہ ؑ کا لطف و کرم یہ کہ انہوں نے فضہ کو بطور کنیز نہیں بلکہ بطور بہن قبول فرمایا۔ گھر کے سارے کام اپنی کنیز فضہ کے ذمے نہیں کئے بلکہ فضہ اور اپنے درمیان گھر کے سارے کام تقسیم کر دیئے۔ اسی تقسیم کے مطابق ایک دن سیدہ ؑ کام کرتی تھیں اور فضہ آرام کرتی تھیں اور ایک دن فضہ کام کرتی تھیں اور سیدہ ؑ آرام فرماتی تھیں۔ حالانکہ فضہ اس بات پر افسردہ ہوتی تھیں کہ سیدہ ؑ کام کریں اور وہ آرام کرے، لیکن سیدہ ؑ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر لیتی تھیں اور خود میں فخر و مباہات کرتی تھیں کہ اللہ نے مجھے ایسی رحیم و کریم آقا زادی ؑ عطا فرمائی ہے۔

حضرت فضہ اس لحاظ سے بھی ممتاز ہیں کہ انہوں نے دل کی گہرائی اور ایمان کی آخری حد تک جا کر نبی ؐ اور آل نبی ؑ سے محبت کی ہے۔ جب حضراتِ حسنین ؑ پر بیماری وارد ہوئی تو سیدہ فاطمہ ؑ کی طرح حضرت فضہ بھی افسردہ و پریشان تھیں۔ بچوں کی بیماری سے شفا حاصل ہونے کے لیے جب حضرت علی ؑ اور سیدہ فاطمہ ؑ نے تین روزے رکھنے کی نذر مانی تو حضرت فضہ بھی اس محبت میں پیچھے نہیں رہیں اور آپ نے بھی تین روزوں کی نذر مانی۔ اللہ تعالیٰ نے حسنین کریمین ؑ کو شفاء عطا فرمائی اور ساتھ ہی قرآن کریم میں سورہ دہر کی ساتویں اور آٹھویں آیات نازل فرمائیں۔ اس لحاظ سے حضرت فضہ بھی اس سعادت میں حضرت علی ؑ اور سیدہ فاطمہ ؑ کے ساتھ شامل رہیں۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ ورنہ کئی ایک آیات جو اہل بیت ؑ رسول کی شان میں نازل ہوئیں، ان میں حضرت فضہ بھی گواہ اور شریک ثواب ہیں۔ ان میں آیت ِ اطعام بھی شامل ہے۔

حضرت فضہ اور حضرت سلمان فارسی ؓ کی اہل بیت ؑ کے ساتھ قربت اور محبت سب سے جداگانہ ہے۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ جب سیدہ کائنات ؑ دنیا سے رخصت ہونے والی تھیں، یعنی شہادت کے بعد گھر سے جنازہ الوداع ہونے والا تھا تو حضرت علی ؑ نے جہاں اپنی اولاد یعنی حضرت حسن ؑ حضرت حسین ؑ حضرت زینب ؑ اور حضرت ام کلثوم کو پکارا کہ آؤ ماں کا آخری دیدار کرلو، وہاں ساتھ حضرت فضہ کو بھی پکارا۔ ”یا ام کلثوم یا زینب یا سکینۃ یا فضۃ یا حسن یا حسین ھلموا تزودوا من امکم“،  "اے ام کلثوم، اے زینب، اے سکینہ، اے فضہ، اے حسن، اے حسین آؤ اور اپنی ماں کو وداع کرو۔" یعنی حضرت علی ؑ نے فضہ کو بھی اولاد اور گھر میں شامل کرکے بلایا۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں حضرت فضہ کے لیے حضرت علی ؑ کا ایک مشہور قول بھی ملتا ہے، جس میں آپ فرماتے ہیں ”اللھم بارک لنا فی فضتنا

حضرت فضہ نے سیدہ فاطمہ ؑ کی شہادت کے بعد ان کی اولاد سے پہلے کی طرح بلکہ پہلے سے زیادہ محبت کا ثبوت دیا اور اپنی کنیزی ویسے ہی جاری رکھی۔ اسی محبت کے نتیجے میں سیدہ زینب ؑ اور سیدہ ام کلثوم ؑ آپ کو اماں فضہ کہہ کر پکارتی تھیں۔ یہاں تک کہ جب حضرت امام حسین ؑ نے اپنے زندگی کے آخری سفر یعنی کربلا جانے کی تیاری فرمائی تو حضرت فضہ بھی اس قافلے میں شامل تھیں۔ واقعہ کربلا کی بھی عینی گواہ تھیں۔ پھر دربارِ کوفہ و شام کی طرف سفر اور سیدہ زینب ؑ کے خطبات کی بھی عینی شاہد ہیں۔ کربلاء کے واقعے کے بعد حضرت فضہ بھی ایسے ہی غمگین رہنے لگیں، جیسے حضرت امام زین العابدین اور سیدہ زینب ؑ کی حالت تھی۔ لیکن پھر بھی سیدہ زینب ؑ کو ایک لمحے کے لیے اکیلا نہیں چھوڑا۔ جب جب سفر ہوا تو حضرت فضہ ساتھ ساتھ رہیں، یہاں تک کہ دمشق کا آخری سفر درپیش ہو کر مکمل ہوا۔ حضرت فضہ کی شہادت کی حتمی تاریخ کا ذکر تو نہیں ملتا، البتہ ان کا انتقال دمشق میں ہی ہوا اور انہیں دمشق کے باب الصغیر نامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ جہاں آج بھی ان کا ایک حجرہ نما چھوٹا سا مزار ایک گنبد اور چار سیاہ پتھر کی دیواروں کے ساتھ موجود ہے اور فضہ کی رسول ؐ اور آل رسول ؑ سے قربت و محبت اور تعلق کا اظہار کر رہا ہے۔ "اللھم بارک لنا فی فضتنا"


خبر کا کوڈ: 1151671

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1151671/حضرت-بی-فضہ-سلام-اللہ-علیہا-حیات-خدمات

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com