QR CodeQR Code

فرقہ پرست اور اہل فلسطین کیلئے قربانیاں دیتے اہل ایمان

2 Aug 2024 13:55

اسلام ٹائمز: اسماعیل ہنیہ کے بیٹے عبدالسلام نے والد کی شہادت پر کہا میرے والد ہر روز شہادت محسوس کرتے تھے، ہمیں ان پر فخر ہے اور ہم اپنا سر اونچا رکھتے ہیں، میرے والد کی وہ آرزو پوری ہوئی، جسکا انہوں نے خواب دیکھا تھا۔ کوئی ہے جس نے اس بربریت پر ایسی مذمت ہی کر دی ہو کہ اسرائیل کو لگے مذمت ہوئی ہے۔؟ اس مشکل ترین وقت پر بھی ایک آواز بیروت سے اور دوسری تہران سے بلند ہو رہی ہے۔ یہ کربلا ہے، یہاں سوال فرقہ تو چھوڑو مذہب کا بھی نہیں ہے۔ ہمیں ہر حال میں ظالم کے مخالفت اور مظلوم کی حمایت کرنی ہے۔اسماعیل ہنیہ کی بیٹی خوب ٹویٹ کیا: "کون کہتا ہے وجہ ایران ہے؟! تم عرب اپنے ملکوں میں اس کا استقبال نہیں کرتے، تم ایران سے زیادہ ہمارے قریب ہو! لیکن ایران نے آپ سے بہتر ہمارا ساتھ دیا اور اس وجہ سے آپ کو ایران کے بارے میں بات کرنے کا کوئی حق نہیں، جو آپ سے زیادہ معزز ہے، اس لحاظ سے کہ وہ اسلام کا دارالحکومت ہے!"


تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

جیسے ہی  پتہ چلا کہ اسماعیل ہنیہ کو شہید کر دیا گیا ہے،  شدید صدمے کی کیفیت طاری ہوگئی۔ رہنماء راتوں رات پیدا نہیں ہوتے، تربیت کا ایک پورا سلسلہ ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں ایسے عظیم لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ یہ مسلم تحریکوں کا حصہ ہوتے ہیں، ان کے پرعزم چہرے قوموں کو مستقبل کی امید دلاتے ہیں۔ یہ خطرات میں جان ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی وصیتیں اس راہ کے انتخاب کے ساتھ ہی کر لی ہوتی ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ انجام میں شہادت ان کی منتظر ہے اور یہ شہادت کے لیے تیار ہوتے ہیں۔قومیں ایسے بیٹوں پر فخر کرتی ہیں، وطن کی مٹی ایسے خون کو اپنی آزادی کی قیمت کے طور پر دیکھتی ہے۔ دشمن تو دشمن ہے، ہمیں احساس ہو نا ہو، دشمن امت کے قیمتی لوگوں کو جانتا ہے۔ اسے اس بات کا ادراک ہے کہ یہی لوگ ہیں، جن کے دلوں میں آزادی کی شمع روشن ہے اور انہی کے خون میں وہ گرمی ہے، جو ہمارے منصوبوں کو جلا کر راکھ کر دے گی۔

اسماعیل ہنیہ تو شہادت پیش کرکے اللہ کے حضور پیش ہوگئے۔ ان کی شہادت  پر ملت فروشوں اور فرقہ پرستوں نے اپنی زہریلی فکر کا اظہار کیا۔ فرقہ پرست اس قدر گھٹیا ہوچکے ہیں کہ اتنے بڑے سانحے کو فرقہ واریت کی نظر کرنے کے درپے ہیں۔ ان کی حماقتیں دیکھ کر تو لگتا ہے کہ یہ اسی قابل ہیں کہ لگاتار جوتے کھاتے رہیں۔ بدبختی کی انتہا دیکھیں فرقہ پرستوں نے اندر کا گند نکالا، ان کی والز پر صیہونی ریاست کی سادہ مذمت تک نہیں ہے، مگر فرقہ واریت کا زہر ضرور اگل رہے ہیں۔ دیکھیں یہ جنگ ہے جنگ، دنیا کی ٹیکنالوجی پر حکمران قوتوں کے ساتھ جنگ ہے۔ اس میں جب بھی دشمن کو موقع ملے گا، وہ ضرور حملہ کرے گا۔ اس نے کب انسانیت، قانون اور اخلاق کی پرواہ کی ہے، جو اب کرے گا۔؟ اہل فلسطین کی قربانیوں کی ایک بڑی فہرست ہے، جنہیں اسرائیل نے شہید کر دیا۔

حماس کے بانی اور تحریک کے روحانی پیشوا "الشیخ احمد یاسین" کو جو تقریباً مکمل فالج کا شکار تھے، ان کو ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے غزہ شہر کی ایک مسجد سے باہر نکلتے ہوئے میزائل حملے میں 22 مارچ 2004ء کو شہید کر دیا گیا۔ صرف اہل فلسطین ہی نہیں بلکہ اہل فلسطین کے مددگار بھی اسرائیلی بربریت کا شکار ہیں۔ حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے اپنا جوان بیٹا فلسطین پر قربان کر دیا۔ جناب عماد مغنیہ شہید کو شام میں شہید کیا گیا۔ حزب اللہ نے پوری جنگ کے رخ کو اپنی طرف موڑ لیا۔ یہ لوگ دن رات حملوں کی زد میں ہیں۔ ہر روز شہداء کی لاشیں اٹھا رہے ہیں اور یہ گھر میں بیٹھے خارجی ہر معاملے میں سازش تلاش کرتے ہیں۔ پچھے دو سال میں اسرائیل کے براہ راست حملوں میں سینکڑوں ایرانی شہید ہوچکے ہیں۔ ان بونوں کے لیے لکھ رہا ہوں، ان کی قیادت کی پوری لہر کو خود ایرانی شہید زندہ کہتے ہیں کہ ابھی زندہ ہیں، مگر موت شہادت کی ہی آئے گی۔

کسی بڑے انسان کو قتل کرنا مشکل ہوتا ہے، مگر ناممکن نہیں۔ جان ایف کینڈی سابق امریکی صدر کو اسی طرح  مارا گیا، سابق امریکی صدر ٹرمپ پر اتنی سکیورٹی کے باوجود حملہ ہوگیا، یہ تو نشانہ چوک گیا، ورنہ مارنے والا تو پہنچ گیا تھا۔ وطن عزیز میں لیاقت علی خان کو گولی مار دی گئی، مشرف پر حملہ ہوگیا، بے نظیر قتل کر دی گئیں اور اسامہ بن لادن کو امریکہ نے ایبٹ آباد میں آ کر مارا تھا۔ خود ایران میں سب سے بڑے سائنسدان جناب فخری زادہ کو شہید کیا گیا۔ اسی طرح ان کی پوری پارلیمنٹ منافقین نے اڑا دی تھی۔ یہ سچ ہے کہ دشمن بہت باوسائل ہے، وہ اکیلا نہیں ہے، پورا پورپ اور امریکہ اس کی پشت پر ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کا دورہ امریکہ ایسے نہیں تھا، یقیناً وہاں اسے ایران کو براہ راست جنگ میں گھسیٹنے کے احکامات ملے ہوں گے۔ اس ایک واقعہ سے انہوں نے کئی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔مقاومت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، غزہ میں عملی طور پر ہونے والی ناکامیوں کے بعد نیتن یاہو کا نام اسرائیل میں ناقابل قبول ہوچکا ہے اور اس سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ایسے میں وہ دہشتگردی پر اتر آیا ہے۔

لبتان، عراق اور ایران پر حملہ کرکے بتانا چاہتا ہے کہ ہم طاقتور ہیں۔ اتنے ہی طاقتور تھے تو غزہ کو چند دنوں میں  فتح کر لیتے، وہ تو ہوا نہیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اگر مقاومت کی جائے تو بے سروسامانی کے عالم میں بھی بڑی مزاحمت کی جا سکتی ہے۔ سعودی عرب سے لے کر تیونس تک پوری امت کی خاموش ہے۔کوئی عملی اقدام ہوا ہو تو بتائیں؟ سعودی عرب امت مسلمہ کی قیادت کا دعویدار ہے، وہ کہاں ہے؟ ترکی بھی بڑھکیں مارتا ہے، اس نے کیا کیا؟ چونتیس ممالک کی فوج بھی ہے، اس نے کیا کیا؟ عرب لیگ اور او آئی سی نے کوئی اجلاس ہی بلا لیا ہو۔؟ یہ کردار ہے اور اہل کوفہ اہل کوفہ کی رٹ لگائی ہوئی ہے۔ اہل کوفہ کے مخلص  تو امام کے ساتھ تھے اور باقی بعد میں کفارہ ادا کر گئے۔ اس وقت بھی سب نے یزید کی بیعت کر لی تھی، جیسے آج سب نے امریکی بیعت کر لی ہے، اگر ایسا نہیں ہے تو بتاو ان کا کیا کردار ہے۔؟

ذرا تہران میں دیکھو شہید کا بیٹا پہلی صف میں رہبر معظم کے پیچھے کھڑا ہے۔اسماعیل ہنیہ کے بیٹے عبدالسلام نے والد کی شہادت پر کہا میرے والد ہر روز شہادت محسوس کرتے تھے، ہمیں ان پر فخر ہے اور ہم اپنا سر اونچا رکھتے ہیں، میرے والد کی وہ آرزو پوری ہوئی، جس کا انہوں نے خواب دیکھا تھا۔ کوئی ہے جس نے اس بربریت پر ایسی مذمت ہی کر دی ہو کہ اسرائیل کو لگے مذمت ہوئی ہے۔؟ اس مشکل ترین وقت پر بھی ایک آواز بیروت سے اور دوسری تہران سے بلند ہو رہی ہے۔ یہ کربلا ہے، یہاں سوال فرقہ تو چھوڑو مذہب کا بھی نہیں ہے۔ ہمیں ہر حال میں ظالم کے مخالفت اور مظلوم کی حمایت کرنی ہے۔اسماعیل ہنیہ کی بیٹی خوب  ٹویٹ کیا: "کون کہتا ہے وجہ ایران ہے؟! تم عرب اپنے ملکوں میں اس کا استقبال نہیں کرتے، تم ایران سے زیادہ ہمارے قریب ہو!لیکن ایران نے آپ سے بہتر ہمارا ساتھ دیا اور اس وجہ سے آپ کو ایران کے بارے میں بات کرنے کا کوئی حق نہیں، جو آپ سے زیادہ معزز ہے، اس لحاظ سے کہ وہ اسلام کا دارالحکومت ہے!"


خبر کا کوڈ: 1151578

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1151578/فرقہ-پرست-اور-اہل-فلسطین-کیلئے-قربانیاں-دیتے-ایمان

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com