QR CodeQR Code

معرفت ِحضرت امام علی زین العابدین علیہ السلام

31 Jul 2024 10:40

اسلام ٹائمز: حضرت امام سجاد ؑ کی زندگی مصائب و آلام کیساتھ ساتھ ظلم کیخلاف جدوجہد سے بھرپور عبارت ہے۔ جب کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں امام سجاد ؑ کو لایا گیا تو یزیدی حکمرانوں کا خیال تھا کہ اہلبیت ؑ کی تذلیل ہوگی اور لوگ اہلبیت ؑ سے متنفر ہوکر دور ہو جائیں گے اور اہلبیت ؑ عبرت کا نشان بن جائیں گے۔ لیکن ان بازاروں اور درباروں میں امام سجاد ؑ کے خطبات نے لوگوں کی آنکھیں کھول دیں۔ لوگ امام حسین ؑ کے انقلاب کی حقیقت سے روشناس ہوئے۔ لوگوں کے سامنے یزیدی مظالم بے نقاب ہوئے اور ان خطبات کے سبب امام حسین ؑ کے حامیوں اور یزید کے مخالفین میں اضافہ ہونے لگ گیا۔ اہلبیت ؑ کا قافلہ مظلومیت کے باوجود یہ کامیابی سمیٹ کر جب مدینہ پہنچا تو امام سجاد ؑ نے اپنے خطبات جاری رکھے، جسکے سبب عوامی ہمدردی میں اضافہ ہوا۔


تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
izharbukhari5@hotmail.com

یوں تو آئمہ اثناء عشر کے تمام ستارے آسمان ِ ولایت و امامت پر یکساں روشنی فراہم کر رہے ہیں اور اہل زمین ان کی منفعت خیز روشنی سے استفادہ کر رہے ہیں۔ لیکن جیسے ہر پھول کی اپنی خوشبو اور اپنا حُسن ہے، ویسے ہی ہر ستارے کی اپنی روشنی اور اپنا مقام ہے۔ نبی اکرم ختمی مرتبت ؐ کے بارہ جانشینوں کی فہرست دیکھی جائے تو امیرالمومنین امام علی ؑ سے لے کر امام زمانہ حضرت مہدی ؑ تک ہر امام کی اپنی منزلت اور مقام ہے۔ اسی طرح ہر امام کی اپنی انفرادیت اور امتیاز بھی ہے، جو دیگر اماموں سے انہیں منفرد کرتا ہے۔ جیسے امام علی ؑ ہی امیرالمومنین ہیں، باقی گیارہ امام اس منصب کے حامل نہیں ہیں۔ اسی طرح اگرچہ سارے امام (امام زمانہ کے علاوہ) شہید ہیں، لیکن حضرت امام حسین ؑ کی شہادت ممتاز ہے۔ ایسے ہی اگرچہ تمام امام علوم و عرفان کے حامل ہیں، لیکن امام جعفر صادق  ؑ اس حوالے سے ممتاز ہیں۔

اسی تسلسل میں حضرت امام علی ؑ ابن الحسین ؑ کے بھی کئی امتیازات ہیں، جن میں دو امتیاز زیادہ مشہور ہیں۔ ایک زین العابدین اور دوسرا سیدالساجدین۔ عبادت تو ہر امام نے اور اہل بیت ؑ کے ہر ہر فرد نے کی ہے، لیکن حضرت علی ابن الحسین ؑ نے جس طرح شبانہ روز عبادت ِ الہیٰ میں بسر کئے ہیں، اسی سبب ان کا نام زین العابدین یعنی تمام عبادت گذاروں کی زینت سے متعارف ہوگیا۔ آج لوگ انہیں علی ابن الحسین سے زیادہ امام زین العابدین کے نام سے جانتے ہیں۔ خدائے وحدہ لاشریک کے سامنے سجدہ ریزی تو ہر امام نے کی ہے اور ایک ہی اللہ کے سامنے سارے زندگی سجدے ادا کئے ہیں، لیکن امام علی ابن الحسین ؑ نے اللہ کی سرزمین پر اللہ کو اتنے زیادہ سجدے کئے ہیں کہ وہ سیدالساجدین، یعنی سجدہ کرنے والوں کے سردار کے لقب سے معروف ہوگئے۔ اسی کے ساتھ جڑا ہوا لفظ سجاد ہے، یعنی سجدہ کرنے والا۔ اب بھی انسانوں میں وہ امام زین العابدین کے ساتھ امام سجاد ؑ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔

مشہور یہی ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد امام سجاد ؑ کے گریہ و زاری کے ساتھ عبادت و ریاضت میں بھی اضافہ ہوا تھا۔ حالانکہ امام سجاد ؑ اپنے بچپن سے ہی عبادت و ریاضت اور مناجات و ادعیہ کی طرف متوجہ بلکہ عادی تھے۔ مشہور تاریخ میں واقعہ کربلا کے وقت امام سجاد ؑ کی عمر مبارک پینتیس سال سے زیادہ تھی۔ کربلا سے پہلے والی زندگی بھی عبادت و ریاضت اور تقوی الہیٰ سے مزین تھی۔ تب بھی وہ زین العابدین بھی تھے اور سیدالساجدین بھی تھے اور اللہ کے سامنے گریہ بھی فرماتے تھے۔ البتہ واقعہ کربلا کو بچشم خود دیکھنے اور کوفہ و شام کے بازاروں میں ہونے والے مظالم برداشت کرنے کے بعد ان کے گریہ اور عبادت و ریاضت اور دعاؤں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ واقعہ کربلا کے سبب امام سجاد ؑ کی آنکھوں سے خون کے آنسو جاری رہتے تھے۔ 61 ھجری سے اپنی شہادت تک انہوں نے زندگی کا ہر لمحہ روتے ہوئے یا اللہ کے سامنے سجدہ ریزی و دعا میں بسر کیا۔

امام سجاد ؑ واقعہ کربلا کے بعد اپنے نانا کے قرب میں مدینۃ المنورہ میں مستقر ہوگئے، یہاں سے بیٹھ کر جہاں اپنے آپ کو اللہ تعالےٰ کی عبادت کے لیے وقف کر دیا، وہاں اہل اسلام کو اللہ کے قریب کرنے کا فریضہ بھی انجام دیتے رہے۔ اللہ کی قربت کا سب سے پہلا اور بہترین ذریعہ خود اللہ تعالےٰ کے مطابق بھی دعا کا ذریعہ ہے۔ اس لئے امام سجاد ؑ نے دعا کو اپنا ہتھیار بنایا۔ جس کے ذریعے نہ صرف عبادت کو زینت دینے کا کام لیا بلکہ وقت کے ظالم اور جابر لوگوں بالخصوص حکمرانوں کے خلاف محاذ کے لیے بھی دعاؤں کو ڈھال بنایا۔ عمومی اور عوامی طور پر تو یہ تاثر ہوتا ہے کہ صرف دعاؤں سے حکومتوں اور ظالموں کا کیا بگڑ جائے گا، لیکن امام سجاد ؑ کی دعاؤں نے ثابت کیا کہ دعا ہی ہے، جس سے حالات کبھی بھی کوئی رُخ اختیار کرسکتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ امام سجاد ؑ کے دعاؤں سے خود وقت کے حکمران اتنے پریشان اور خوفزدہ تھے کہ انہوں نے کئی بار امام سجاد ؑ کو بیماری کے حالت کے باوجود گرفتار کیا اور سالوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے اذیت ناک حالت میں رکھا اور بالآخر اسی حالت میں شہید کر دیا۔

اسلام میں حضرت امام زین العابدین ؑ کے علاوہ کوئی ایسی شخصیت نہیں ہے، جس نے دعاؤں اور مناجات کا اتنا بڑا ذخیرہ لوگوں کے حوالے کیا ہو۔ صحیفہ کاملہ سجادیہ  اور رسالۃ الحقوق اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یزید کے زمانے میں خانہ کعبہ سمیت مکہ مکرمہ اور روضہ رسول ؐ سمیت مدینۃ المنورہ کی بے حرمتی پر مبنی واقعہ حرہ بھی امام سجاد ؑ کے دور میں پیش آیا، جس کے بعد امام سجاد ؑ نے یزیدی حکومت کے خلاف ذہن سازی فرمائی۔ اسی طرح تحریک توابین بھی آپ ؑ کے دور میں شروع ہوئی، جس میں امام حسین ؑ کا ساتھ نہ دے سکنے پر پچھتانے والے اور اس گناہ پر توبہ کرنے والے لوگ شامل تھے، جنہوں نے یزیدی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ امام سجاد ؑ کے زمانے میں تیسرا بڑا واقعہ حضرت امیر مختار کا قیام ہے، جنہوں نے ایک صبر آزما جدوجہد کے بعد قاتلان امام حسین ؑ کو چن چن کر تلاش کیا۔ ان سے کربلا میں ہونے والے مظالم کی تاریخ اور روداد محفوظ کی اور پھر سب قاتلان کو قتل کرکے عبرت ناک انجام سے دوچار کیا۔ امیر مختار کے اس کارنامے پر امام سجاد ؑ کربلا کے سانحے کے بعد پہلی بار مسکرائے اور مختار کے لیے دعائیہ کلمات فرمائے۔

حضرت امام سجاد ؑ کی زندگی مصائب و آلام کے ساتھ ساتھ ظلم کے خلاف جدوجہد سے بھرپور عبارت ہے۔ جب کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں امام سجاد ؑ کو لایا گیا تو یزیدی حکمرانوں کا خیال تھا کہ اہل بیت ؑ کی تذلیل ہوگی اور لوگ اہل بیت ؑ سے متنفر ہو کر دور ہو جائیں گے اور اہل بیت ؑ عبرت کا نشان بن جائیں گے۔ لیکن ان بازاروں اور درباروں میں امام سجاد ؑ کے خطبات نے لوگوں کی آنکھیں کھول دیں۔ لوگ امام حسین ؑ کے انقلاب کی حقیقت سے روشناس ہوئے۔ لوگوں کے سامنے یزیدی مظالم بے نقاب ہوئے اور ان خطبات کے سبب امام حسین ؑ کے حامیوں اور یزید کے مخالفین میں اضافہ ہونے لگ گیا۔ اہل بیت ؑ کا قافلہ مظلومیت کے باوجود یہ کامیابی سمیٹ کر جب مدینہ پہنچا تو امام سجاد ؑ نے اپنے خطبات جاری رکھے، جس کے سبب عوامی ہمدردی میں اضافہ ہوا۔ اموی حکومتوں نے جب ان خطبات کے اثرات اپنے خلاف دیکھے تو امام سجاد ؑ کو کئی بار زندان میں ڈالا اور کئی بار نکالا، لیکن امام سجاد ؑ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ جاری رکھا، یہاں تک کہ شہادت کے درجے پر فائز ہوگئے۔

حضرت امام زین العابدین ؑ کے علم و فضل سے بھی ہر مسلمان آگاہ ہے۔ آپ کو علوم قرآنی اور احادیث نبوی پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ مکتب تشیع میں تو امام زین العابدین سے مروی احادیث کا بیشمار ذخیرہ موجود ہے، لیکن اہل سنت نے بھی آپ ؑ سے کئی احادیث کو نقل کیا ہے۔ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع الصحیح، ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ سمیت مسند ابن حنبل میں بھی آپ ؑ سے احادیث نقل کی گئی ہیں۔ بخاری نے اپنی کتاب میں تہجد، نماز جمعہ، حج اور بعض دیگر ابواب میں امام سجاد ؑ سے احادیث لی ہیں۔ اس کے علاوہ مسلم بن حجاج قشنیری نیشاپوری نے اپنی کتاب کے ابواب الصوم، الحج، الفرائض، الفتن، الادب اور دیگر تاریخی مسائل کے ضمن میں امام سجاد ؑ سے احادیث نقل کی ہیں۔

جہاں احادیث کا ذخیرہ امام سجاد ؑ کو ہمارے درمیان موجود رکھتا ہے، وہاں دعاؤں کا ذخیرہ بھی امام سجاد ؑ کو ہمارے ساتھ شامل رکھتا ہے۔ آج بھی اگر کوئی انسان اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے، اپنی دنیا و آخرت میں کامیابی چاہتا ہے اور اپنی عبادت و ریاضت میں اخلاص و یقین پیدا کرنا چاہتا ہے، یا وقت کے ظالموں کے ساتھ نبرد آزما ہونے کے لیے مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتا ہے تو اسے سیرت ِ امام زین العابدین ؑ کا مطالعہ اور صحیفہ سجادیہ سے استفادہ کرنا پڑے گا۔


خبر کا کوڈ: 1151088

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1151088/معرفت-حضرت-امام-علی-زین-العابدین-علیہ-السلام

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com