QR CodeQR Code

قیام امام حسین علیہ السلام اور امام سجاد علیہ السلام کا کردار

31 Jul 2024 10:31

اسلام ٹائمز: واقعہ کربلا میں امام سجاد علیہ السلام اور جناب زینب سلام اللہ علیہا کے کردار کا جائزہ لینے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان کا کردار دنیا کے دانشوروں اور سیاست دانوں سے یکسر مختلف تھا۔ دنیا کا یہی طریقہ ہے کہ ہر حالت میں اپنا تحفظ اور فلاح کی راہ نکال لینا عقلمندی کہلاتا ہے۔ مگر جن لوگوں کی نظر میں عقبىٰ کا تحفظ اور آخرت کی فلاح ہوتی ہے۔ ان کا کوئی کلمہ خلاف حق نہیں ہوتا۔ چنانچہ امام سجاد علیہ السلام اور جناب زینب سلام اللہ علیہا نے جو کردار ادا کیا، وہ دنیاوی سیاست کے لحاظ سے غلط اور پیغمبرانہ سیاست کے عین مطابق ہے۔


تحریر: سید آصف نقوی
 
خالق کائنات نے اس زندگی کے حامل انسان کو اپنی تمام مخلوقات میں سے سب سے زیادہ اسرار کی حامل مخلوق بنایا اور آدم علیہ السلام کے سب سے بہترین فرزند حضرت محمدﷺ پر بے انتہاء درود کہ آپ ؐنے بھٹکی ہوئی انسانیت کو اس عالم نور و سعادت کی راہ دکھائی، جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہے اور آپ ؐکے 12 جانشینوں پر سلام، جن میں سے ہر ایک نے انسانیت کو تباہی کے خطرناک راستوں پر جانے سے بچایا۔ سلام ہو خصوصاً آپ ؐکے ہونہار فرزند امام حسین ابن علی علیہ السلام پر، جنھوں نے ظالموں کے خلاف جنگ کو اس کى انتہاء تک پہنچایا۔ کربلا تاریخ انسانى کا ایک فقید المثال واقعہ ہے۔ محرم الحرام 61 ہجری کی دسویں تاریخ کو ابو عبداللہ امام حسین علیہ السلام نے جو عظیم الشان قربانی پیش کی اور جس صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا، وہ ہر اس شخص کے لیے مشعلِ راہ ہے، جو اپنی تحریک پر کامل یقین رکھتا ہو اور اس کی کامیابی کا خواہاں ہو۔ آپ ؑنے تمام عواقب کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اعزہ و اقربا، احباب و رفقاء اور خود اپنی جان و مال غرضیکہ سب کچھ داؤ پر لگا دیا اور اپنے عزم و استقلال کی بدولت بنی نوعِ انسان کو رہتی دنیا تک ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔

پسِ منظر
امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے جب حکومت اپنے ہاتھ میں لی تو ان کے خلاف جنگوں اور شر انگیزیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور پھر علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد شام کے حکمران کی طرف سے ایسی حکومت قائم ہوئی، جس میں کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں تھا۔ شام کی یہ حکومت 40 سے کچھ زیادہ برسوں تک قائم رہی۔ جس نے اپنی ریشہ دیوانیوں کے سیاہ ادوار کے ساتھ ساتھ آخری برسوں میں ایک اور بُرا قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا اور یہ ولی عہدی کا مسئلہ تھا، جو سابقہ خلفاء کی سنت کے بهى صریحًا خلاف تھا۔ یہ موضوع حکمرانِ وقت کے شخصی رجحانات کا نتیجہ تھا۔ ایک گورنر نے اپنے پائے اقتدار کو متزلزل دیکھ کر اپنی حکومت کو مستحکم بنانے کے لیے یہ نیا مسئلہ کھڑا کیا تھا۔ حکومت اسلامی کے قوانین کی رو سے ولی عہدی کا کوئی جواز نہیں تھا، لیکن صرف اس دلیل کی بنیاد پر کہ حکمران اپنے فرزند سے بہت محبت کرتا ہے۔ خلافت و حکومت اسلامی کا بلند منصب اپنے بیٹے یزید کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

شام کا حکمران جب دنیا سے رخصت ہوا تو اس کے ولی عہد یزید نے حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھال لی۔ یزید لہو و لعب اور عیش و عشرت کا دل داده تھا۔ وہ اپنے باپ کی جگہ بیٹھ کر خود کو خلیفۃ المسلمین کہنے لگا۔ اب حسین علیہ السلام کی مہم کا آغاز ہوا، یزید کی سلطنت کے پہلے دن کو ہم حسین علیہ السلام کی تحریک کا پہلا دن کہہ سکتے ہیں۔ یزید نہ صرف بر سرِ اقتدار آنے سے پہلے ہی بے راه رویوں کا شکار تھا۔ وه شراب پیتا تھا، جوا کھیلتا تھا اور بیت المال کے وسائل میں خود برد کرتا تھا۔ وہ خلیفہ کی حیثیت سے بھی ان تمام غلط کاریوں کو جاری رکھنا چاہتا تھا۔ اگر مملکت اسلامی کا مردِ اول خلیفہ اور مسلمانوں کا رہبر على الاعلان اسلامی مقدسات کو پشِ پشت ڈال دے تو ایسی صورت میں دوسرے عام لوگوں کا کیا حال ہوگا۔؟ اگر غلط کام اسی صورت میں انجام پاتے رہیں اور اس پر ایک مدت گزر جائے اور کوئی مخالفت نہ اٹھے تو پھر ان کاموں کو قانونی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے اور اسلامی مقدسات کا احترام یکے بعد دیگرے ختم ہو جاتا ہے۔

ان حالات میں کیا حسین علیہ السلام اور حسین علیہ السلام جیسے لوگ خاموش بیٹھ سکتے ہیں؟ کیا ان کے لیے ممکن ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے سقوط کو بیٹھے دیکھتے رہیں؟ ان حالات میں قیام کے سوا کوئی چارہ نہ تھا اور مقابلے کے سوا کوئی راہ باقی نہیں رہی تھی۔ یہ تھا قیام حسینی علیہ السلام کا راز اور اصل سبب۔ حسین ابن علی علیہ السلام نے قیام کیا، تاکہ اسلام اور مسلمانوں کو سقوط سے بچایا جا سکے۔ انھوں نے مقابلہ کیا، تاکہ اسلامی قوانین محفوظ رہ سکیں۔ حسین ابن علی علیہ السلام اٹھے، تاکہ لوگ یہ نہ کہہ سکیں کہ شراب خوری، قمار بازی اور جنسی بے راہ روی اسلام میں جائز ہے۔ حسین ابن علی علیہ السلام نے قیام کیا، تاکہ ہر روز ایک نیا رہبر اپنی خواہش کے مطابق اسلامی اصولوں کے ساتھ کھیلنا شروع نہ کر دے اور دین خدا کو زیر و زبر کرنے کی کوشش نہ کرنے لگے۔ حسین ابن علی علیہ السلام نے قیام کیا، تاکہ دنیا یہ کہہ سکے کہ مسلمانوں کا رہبر اور خلیفہ ایک ایسا شخص ہونا چاہیئے، جو سو فیصد اسلامی احکام اور مقدسات کی پابندی کرے۔

کربلا آمد
2 محرم 61 ہجری کو امام حسین علیہ السلام نواحِ نینوا میں کربلا کے مقام پر پہنچے۔ اگلے دن عمر ابن سعد لعین چار ہزار کی اضافی نفری کے ساتھ کوفہ سے آپہنچا اور امام کے بالمقابل پڑاؤ ڈال دیا۔ شب عاشور امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ خدا تم سب کو جزائے خیر دے۔ اب اس لشکر سے ہماری جنگ کا وقت آگیا ہے۔ میں تم سب کو اجازت دیتا ہوں کہ یہاں سے چلے جاؤ۔ تم سب آزاد ہو۔ کسی پر کوئی پابندی نہیں۔ رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاؤ۔ مگر مورخین میں سے کسی نے بھی یہ نہیں لکھا کہ آپ علیہ السلام کے اصحاب میں سے کوئی آپ علیہ السلام کو چھوڑ کر چلا گیا ہو بلکہ اصحاب امام علیہ السلام کی طرف سے جاں نثاری اور استقامت و استقلال کا اظہار کیا گیا۔ امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ پیغمبر کے نواسے کو اس حالت میں قتل کیا گیا کہ وہ تشنہ لب اور بھوکے پیٹ تھے۔ مورخین کے مطابق امام حسین علیہ السلام کے اصحاب میں سے 72 اشخاص شہید ہوئے۔ عمر ابن سعد کے حکم سے تمام شہداء کے سر کاٹ کر نیزوں پر بلند کر دیئے گئے اور اسی وقت ابن زیاد کی طرف روانہ کر دیئے گئے۔(مقتل لہوف، ص ۷۰، ۷۱)
 
واقعہ کربلا اور امام زین العابدین علیہ السلام
دسویں محرم 61 ہجری سے امام سجاد علیہ السلام کا دور امامت شروع ہوا، جس کی کیفیت یہ ہے کہ عصر کے وقت امام حسین علیہ السلام نے آپ ؑکو ہوش میں لاکر فرائض امامت آپ ؑ کے سپرد کر دیئے۔ اس کے بعد پھر آپ ؑپر بے ہوشی طاری ہوگئی اور اس وقت ہوش آیا، جب لشکر یزید کی طرف سے فتح کے نقارے بج رہے تھے اور خیموں میں آگ لگائی جا رہی تھی۔ جناب زینب سلام اللہ علیہا نے آپ سے پوچھا کہ ہماری تکلیف کیا ہے؟ جل کر مر جائیں یا باہر نکل جائیں۔ امام سجاد علیہ السلام نے باہر نکل جانے کا حکم دیا تو نبی زادیاں جلتے ہوئے خیموں سے مجمع عام میں نکل آئیں۔ خیموں کو تو پہلے ہی لوٹ چکے تھے، اس لیے بے ردا تھیں۔ جب رات ہوئی اور وہ بھیانک رات جس کی چھٹکی ہوئی چاندنی میں لاشہ ہائے شہداء خاک و خون میں غلطاں چاروں طرف پڑے تھے۔ خوف و دہشت سے مائیں بچوں کو سینوں سے لگائے ہوئے تھیں۔ ادھر امام سجاد علیہ السلام نے سجدے میں سر رکھا اور کہا: "لا إلهَ إلَّا اللهُ‏ حَقّاً حَقّاً، لا إلهَ إلَّا اللهُ‏ إیماناً و تَصْدیقاً، لا إلهَ إلَّا اللهُ‏ عُبُوْدیَّةً وَرِقّاً۔۔۔"(امام زین العابدین ع کی سیاسی زندگی، ص ۲۸)

یہ سجدہ اتنا طویل تھا کہ سفیدی سحری نمودار ہوگئی تو امام علیہ السلام نے سر اٹھایا، یہ دنیا میں پہلا اور آخری سجدہ تھا۔ جو خاندان رسالت کے ایک نوجوان نے زمین پر کیا۔ ملائکہ نے دیکھا کہ کروڑوں برس سجدہ میں سر رکھنے کے باوجود وہ ایسا ایک سجدہ نہ کرسکے۔ چشم فلک نے مشاہدہ کیا کہ جب سے فرش زمین بچھا، خدا کی بارگاہ میں بے شمار سجدے کیے گئے، مگر ایسا سجدہ کوئی نہ کرسکا۔ ازل سے ابد تک ثقلین کی عبادت ایک طرف اور سید الساجدین علیہ السلام کا یہ سجدہ ایک طرف، دادا کی ضربت افضل من عبادت ثقلین اور پوتے کا ایک سجدہ افضل من سجود الثقلین۔

اسیران کربلا کی کوفہ آمد
قافلہ آگے بڑھا، گلی کوچوں سے گزرتا ہوا دربار ابن زیاد ملعون میں پہنچا۔ آگے آگے امام سجاد علیہ السلام اور ان کے پیچھے مخدرات عصمت و طہارت گرد کی چادر میں لپٹی خاموش کھڑی تھیں اور امام حسین علیہ السلام کا سر سامنے رکھا تھا اور ابن زیاد ناشتہ میں مشغول تھا، جب تک وہ فارغ نہیں ہوا اور توجہ نہیں کی تو امام زین العابدین علیہ السلام نے دل میں کہا کہ خداوند اس وقت تک مجھے دنیا سے نہ اٹھانا، جب تک میں یہ نہ دیکھ لوں کہ میرا دسترخوان بچھا ہے اور ابن زیاد کا سر سامنے رکھا ہے۔ (امالی طوسی , مدینتہ المعاجز) امامؑ کی اس قلبی کیفیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ اتنا کچھ ہو جانے کے بعد بھی انھیں شکست قبول نہیں، وہ آئندہ اموی سیاست کو شکست دینے کا عزم رکھتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق میں ہم نے بڑے بڑے سورماؤں کو دیکھا ہے کہ جب دشمن کے شکنجے میں آئے ہیں تو ساری آن بان رخصت ہوگئی۔ گڑگڑانے اور رحم کی درخواست کرنے کے علاوہ کچھ نہ بن پڑا، لیکن امام وقت ؑ کی ہمت کسی حالت میں بھی شکست قبول نہیں کرتی۔ وہ نہ فوج کی محتاج ہے، نہ خزانہ کی۔ حق پر قائم رہنا اس کا محاذ ہے اور اس سے نہ ہٹنا اس کی کامیابی ہے۔

ابن زیاد جب ناشتہ سے فارغ ہوا اور امام ؑ کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا یہ کون ہے؟ اسے بتایا گیا کہ یہ علی بن حسین علیہ السلام ہیں۔ ابن زیاد نے کہا کہ علی بن حسین علیہ السلام کو خدا نے قتل نہیں کیا؟ تو امام ؑ نے فوراً جواب میں فرمایا کہ وہ میرے بھائی تھے۔ جنھیں تیرے آدمیوں نے قتل کیا۔ یہ سننا تھا تو ابن زیاد نے کہا کہ ابھی بھی تم میں مجھے جواب دینے کی ہمت باقی ہے۔؟ جلاد کو حکم دیا کہ گردن اڑا دے۔ جناب زینب سلام اللہ علیہا بھتیجے سے لپٹ گئیں اور فرمایا اگر انھیں قتل کرنا ہے تو پہلے مجھے قتل کر دے۔ امام سجاد علیہ السلام نے جناب زینب سلام اللہ علیہا کو خاموش رہنے کا فرمایا اور ابن زیاد کو مخاطب کرکے کہا: ’’تو مجھے موت سے ڈراتا ہے۔ قتل ہو جانا ہماری عادت اور شہادت ہمارا شرف ہے۔ ابن زیاد نے غصے میں سر جھکا لیا اور کہا کہ اسے عورتوں کے ساتھ جانے کے لیے چھوڑ دو۔ اس کے بعد قیدیوں کو زندان بھیج دیا گیا، تاکہ حکم آنے پر شام کی طرف روانہ کیا جاسکے۔‘‘ (لہوف سید ابن طاووس/۱۴۴،مقتل خوارزمی ۲/۴۳)

دربارِ یزید آمد
لٹا ہوا قافلہ جب بازاروں اور گلیوں سے ہوتا ہوا دربار یزید میں پہنچا تو امرائے شام کرسیوں پر اور یزید صدارتی کرسی پر بیٹھا شراب نوشی میں مصروف تھا۔ یزید کے سامنے جب امام حسین علیہ السلام کا سر لایا گیا اور امام سجاد علیہ السلام کو پیش کیا گیا تو یزید نے کہا کہ تمھارے والد نے قطعِ رحم کیا۔ میرے حق کو ضائع کیا اور میری خلافت کو نہ مان کر کیا دیکھا؟ امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: ’’کہ جو کچھ ہوچکا وہ مقدرات الہیٰ سے ہوا اور جو ہمیں نہیں ملا، اس سے ہم مایوس نہیں ہیں اور جو تجھے مل گیا ہے، اس سے خوش نہ ہو، خدا اس حالت کو منقلب کرسکتا ہے۔‘‘ اب یزید ایک جھٹلایا ہوا شخص تھا اور غصے میں امام حسین علیہ السلام کے سر سے بے ادبی کرنے لگا۔ (سید بن طاووس، اللہوف ، ص ۲۴۸/ابن سعد، الطبقات الکبری، ج ۱۰، ص ۴۴۸) اس کے بعد مسجد میں امام سجاد علیہ السلام کو بلوایا گیا۔ خطیب نے یزید اور اس کے خاندان کی تعریف کی اور حضرت علی علیہ السلام اور اولاد علی علیہ السلام کی برائیاں بیان کیں تو امام سجاد علیہ السلام نے خطیب کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’تو نے رضائے خدا پر رضائے مخلوق کو ترجیح دی ہے۔ خدا تیرا پیٹ آتش جہنم سے بھرے۔‘‘

یزید کے حکم پر موذن نے اذان شروع کرکے امامؑ کی تقریر قطع کر دی۔ جب موذن نے ’’أشهد أن محمدا رسول الله‘‘ کی شہادت دی تو امام ؑنے یزید کو مخاطب کرکے فرمایا کہ یہ محمد مصطفیﷺ میرے جد تھے یا تیرے؟ تو مسجد میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ یزید مسجد سے اٹھ کر چلا گیا، ہر طرف اس ظلم پر شدید ملامت کی صدائیں بلند تھیں۔ (بحارالانوار، ج۴۵، ص۱۷۴؛ عوالم، ج۱۷، ص۴۰۹؛ نفس المہموم، ص۴۵۱؛ حیاۃ الحسین، ص۳۸۶) اہلِ بیت رسول علیہم السلام کی اسیری، ان کی تشہیر اور کئی دفعہ دربار طلبی کا مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ امام حسین علیہ السلام کی غلطی کا اعتراف اور اپنی رہائی و رحم کی درخواست کریں اور یزید انھیں معاف کرکے جائزہ و انعام دے اور وظیفہ مقرر کر دے۔ اس طرح اہل بیت رسول علیہم السلام کی سیاسی حیثیت اور قلوب پر ان کى عظمت ختم ہو جائے اور لوگ ان کی خلافت سے مایوس ہو جائیں۔

یزید کے تصور میں بھی یہ نہیں آسکتا تھا کہ اس کا مقابلہ ان لوگوں سے ہے، جو آخرت پر کامل یقین رکھتے ہیں اور دنیا کو ناپائیدار سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ حق کا ساتھ نہیں چھوڑتے۔ حق پر مرنے کی تمنا کرتے ہیں۔ موت انھیں شہد سے زیادہ شیریں معلوم ہوتی ہے۔ جب تلوار سر پر پڑتی ہے تو کہتے ہیں رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔ وہ ہر ظلم و جور پر صبر کرتے ہیں۔ جس کا یہ ایمان ہو، اسے دنیا کی کوئی چیز بھی ڈرا نہیں سکتی۔ یزید نے جو کچھ سوچا غلط سوچا۔ اس کے ہر اقدام کا نتیجہ غلط نکلا۔ واقعہ کربلا میں امام سجاد علیہ السلام اور جناب زینب سلام اللہ علیہا کے کردار کا جائزہ لینے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان کا کردار دنیا کے دانشوروں اور سیاست دانوں سے یکسر مختلف تھا۔ دنیا کا یہی طریقہ ہے کہ ہر حالت میں اپنا تحفظ اور فلاح کی راہ نکال لینا عقلمندی کہلاتا ہے۔ مگر جن لوگوں کی نظر میں عقبىٰ کا تحفظ اور آخرت کی فلاح ہوتی ہے۔ ان کا کوئی کلمہ خلاف حق نہیں ہوتا۔ چنانچہ امام سجاد علیہ السلام اور جناب زینب سلام اللہ علیہا نے جو کردار ادا کیا، وہ دنیاوی سیاست کے لحاظ سے غلط اور پیغمبرانہ سیاست کے عین مطابق ہے۔

امام زین العابدین (ع) نے شام کی سلطنت میں وہ حیرت انگیز انقلاب برپا کیا، جس کا نہ اہل شام تصور کرسکتے تھے اور نہ ہی اہل کوفہ و حجاز، 40 برسوں سے جہل و نادانی کے بھنور میں گرفتار شامیوں کو آنکھیں کھولنے پر مجبور کیا اور چالیس سالہ اموی مکر و فریب کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا۔ سلام ہو سالارِ شہیداں حسین ابن علی علیہ السلام پر، ان کے فرزندان پر، طفل شیر خوار پر، ان کے جانثار بھائیوں پر اور ان کے اصحاب پر، جنہوں نے جان نثاری اور بہادری سے دینِ اسلام کی سربلندی کے لیے قرٓان و اہل بیتؑ کے دشمنوں کے ساتھ بھوکے پیاسے لڑتے ہوئے اپنی جان قربان کر دی اور لاکھوں کروڑوں سلام ہوں، مخدرات عصمت و طہارت پر کہ جن کی ردائیں لوٹی گئیں اور بے ردا گلیوں کوچوں میں پھرایا گیا۔ لاکھوں کروڑوں سلام ہوں، امام زین العابدین ابن حسین علیہ السلام پر۔


خبر کا کوڈ: 1151085

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1151085/قیام-امام-حسین-علیہ-السلام-اور-سجاد-کا-کردار

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com