QR CodeQR Code

کیا اسرائیل لبنان پر حملہ کرنے والا ہے؟

29 Jul 2024 16:49

اسلام ٹائمز: حزب اللہ بھی بالکل تیار ہے، جون میں سید حسن نصر اللہ نے کہا تھا کہ اگر جنگ شروع ہوئی تو اسرائیل میں کوئی جگہ محفوظ نہیں رہے گی۔ ہمارے پاس اب نئے ہتھیار آچکے ہیں، لیکن میں یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ ہتھیار کون سے ہیں۔ انکے بقول، ہمارا دشمن اچھی طرح جانتا ہے کہ ہم خود کو بدترین حالات کیلئے تیار کرچکے ہیں۔ حزب اللہ کے نائب رہنما شیخ نعیم قاسم نے جون میں الجزیرہ کیساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ تنازع کو وسعت دینے کیلئے اسرائیل کے کسی بھی اقدام کا نتیجہ اسرائیل میں تباہی اور نقل مکانی ہوگا۔


تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

اسرائیلی وزیراعظم امریکہ کے دورے پر تھا، یوں لگتا ہے جیسے پوری امریکی ریاست اس کے سامنے دست بستہ ہے۔ ہر ریاستی ادارہ اس کے پروٹوکول میں کھڑا تھا۔ حد ہے، مودوی کی گجرات کی  وزارت اعلیٰ کے دور میں وہاں فسادات ہوں اور عام لوگوں شہید کر دیئے جائیں تو اس پر امریکی نظام حرکت میں آتا ہے اور مودی پر مقدمے تک بات کی جاتی ہے۔ نیتن یاہو کے غزہ میں انسانیت کے قتل کو پوری انسانیت نے دیکھا اور جدید دور کا بڑا قتل عام تھا، جسے لائیو دیکھا گیا۔ یہ مفادات کا کھیل ہے کہ اب وہی مودی بھی امریکہ کا یار ہے اور وہ اسرائیلی وزیراعظم جس پر بین الاقوامی عدالت انصاف میں انسانیت کے خلاف جرائیم کا مقدمہ ہونا چاہیئے تھا اور جس سے  غزہ کے ہزاروں معصوموں کے قتل عام پر باز پرس ہونی چاہیئے تھی، وہ امریکہ میں ایک ہیرو کے طور پر دورہ کر رہا ہے۔ اس سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا میں کوئی اخلاقی قدر وجود نہیں رکھتی، اصل چیز یہ ہے کہ اگر تم امریکہ اور مغرب کے تابعدار ہو اور تمہاری انہیں ضرورت ہے تو تمہیں لاکھوں لوگوں کا خون بھی معاف ہے۔

بین الاقوامی میڈیا پر خبریں گرم ہیں کہ اسرائیلی وزیراعظم دراصل غزہ کی رپورٹ پیش کرنے اور حزب اللہ پر حملے کی اجازت لینے کے لیے امریکہ آئے تھے۔ اسی دوران مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں پر کیے گئے ایک راکٹ حملے میں  کم از کم 12 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں۔ اس حملے میں شامی گولان کی پہا‌ڑیوں پر واقع علاقے مجدل شمس کے دروز نامی قصبے میں فٹ بال کے ایک میدان کو نشانہ بنایا گیا۔ حزب اللہ نے اسے اسرائیل کے اپنے نظام کی ناکامی قرار دیا، جس کی وجہ سے ان عام لوگوں کی جان گئی۔ اسرائیل نے اپنی نااہلی کا الزام حزب اللہ پر لگا دیا کہ یہ حملہ حزب اللہ نے کیا۔ اسرائیل اس پر شدید ردعمل کی بڑھکیں مار رہا ہے۔ گولان ہائٹس میں مقیم دروز برادری کے اب بھی شام سے قریبی تعلقات ہیں۔

خود اسرائیلی اخبارات کے مطابق گولان ہائٹس کے چار علاقوں میں رہنے والے دروز باشندوں کی کُل تعداد تقریباً 21 ہزار ہے۔ اسرائیل کی وزارتِ داخلہ کے مطابق ان میں سے صرف 4 ہزار 300 افراد نے اسرائیل کی شہریت اختیار کی ہے۔ ان لوگوں نے بھی مجبوری میں اسرائیل کی شہریت قبول کی ہے، یہاں کی اکثریت ہر موقع پر اسرائیل کے ناجائز قبضے کے خلاف مظاہرے کرتی رہتی ہے۔ جب ڈوبلڈ ٹرمپ نے اس علاقے کو اسرائیل کا حصہ ماننے کا اعلان کیا تو یہاں کے باشندوں نے اس پر شدید احتجاج کیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حزب اللہ ایسے علاقے کے لوگوں پر کیوں حملہ کرے گی، جو اس کے نظریاتی حمایتی ہیں؟ جو اسرائیل کے خلاف ہیں؟ جو علاقے میں بین الاقوامی پالیسیوں کے بھی خلاف ہیں؟ یہ سب اسرائیلی اور امریکی پروپیگنڈا ہے۔

وائٹ ہاؤس نے ایک منٹ نہیں لگایا اور مجدل شمس کے حملے کا ذمہ دار حزب اللہ کو ٹھہرایا ہے۔ امریکہ کی نائب صدر اور ڈیموکریٹس کی ممکنہ صدارتی امیدوار کاملا ہیرس نے اپنے قومی سلامتی کے مشیر کے ذریعے کہا کہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے ان کی حمایت فولاد کی طرح مضبوط ہے۔ یاد رہے یہ وہی محترمہ ہیں، جو چند دن پہلے جنگ مخالف امریکیوں کی حمایت کے لیے اسرائیل کو جنگ بندی کا کہہ رہی تھیں اور اب نئی جنگ کے لیے تھپکی دے رہی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ تمام شواہد ہفتے کے روز گولان کی پہاڑیوں پر ہونے والے مہلک راکٹ حملے میں حزب اللہ کے ملوث ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے بغیر تحقیق کے سارا الزام حزب اللہ پر عائد کیا جا رہا ہے۔ یہ وہی امریکہ اور اس کے ترجمان ہیں، جو اسرائیلی طیاروں کی غزہ پر بمباری میں سینکڑوں بچوں کے جل کر شہید ہونے جانے پر یہی ردعمل دیتے ہیں کہ ہم تحقیقات کر رہے ہیں۔ اکثر حملوں پر الزام الٹا حماس پر لگا دیتے ہیں کہ یہ قتل عام حماس نے خود کیا۔

اقوام متحدہ کے نمائندوں نے دونوں فریقوں سے "زیادہ سے زیادہ تحمل سے کام لینے" کی اپیل کی ہے، کیونکہ یہ خدشہ بڑھتا جا رہا ہے کہ اس حملے سے خطے میں وسیع پیمانے پر جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی انتہائی مناسب بیان دیا ہے کہ اسرائیل نئی مہم جوئی سے گریز کرے۔عملی طور پر دیکھا جائے تو کیا اسرائیل میں یہ صلاحیت ہے کہ حزب اللہ پر حملہ کرے۔؟ اسرائیل ایک دہائی سے اسرائیلی محاصرے میں موجود غزہ کی پٹی پر تو اتنی مدت ہوگئی قبضہ کر نہیں کرسکا، آج بھی انہیں ہر جگہ مزاحمت کا سامنا ہے، ان حالات میں یہ لوگ لبنان پر حملہ کیسے کریں گے۔؟ غزہ کی مزاحمت کو ایک سال ہونے کو ہے اور حزب اللہ کی مزاحمت تو ان کی جمع تفریق سے بہت زیاد ہ ہے۔ ۲۰۰۶ء کی جنگ میں مسلسل ۳۳ روز تک اسرائیل کی ساری چالیں ناکام بنا دی تھیں۔ اس جنگ نے اسرائیل کو یہ بتا دیا تھا کہ اصل مزاحمت کا سامنا کرنا کتنا مشکل ہے۔ تنخواہ دار فوج کی طرح کی لڑائی نہیں ہوتی۔

اس کے ساتھ ساتھ ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق اسرائیل میں 60 ہزار افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ اسکول اور صحت کے مراکز بند ہیں۔ اب اگر بڑے پیمانے پر جنگ ہوتی ہے تو بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوگی اور نقل مکانی اسرائیلی ریاست کی فالٹ لائن ہے۔ حزب اللہ بھی بالکل تیار ہے، جون میں سید حسن نصر اللہ نے کہا تھا کہ اگر جنگ شروع ہوئی تو اسرائیل میں کوئی جگہ محفوظ نہیں رہے گی۔ ہمارے پاس اب نئے ہتھیار آچکے ہیں، لیکن میں یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ ہتھیار کون سے ہیں۔ ان کے بقول، ہمارا دشمن اچھی طرح جانتا ہے کہ ہم خود کو بدترین حالات کے لیے تیار کرچکے ہیں۔ حزب اللہ کے نائب رہنما شیخ نعیم قاسم نے جون میں الجزیرہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ تنازع کو وسعت دینے کے لیے اسرائیل کے کسی بھی اقدام کا نتیجہ اسرائیل میں تباہی اور نقل مکانی ہوگا۔


خبر کا کوڈ: 1150758

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1150758/کیا-اسرائیل-لبنان-پر-حملہ-کرنے-والا-ہے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com