QR CodeQR Code

بیلجیئم کے نوجوانوں کی طرف سے شکریہ کا خط

24 Jul 2024 08:57

اسلام ٹائمز: اسلام کو بنیادی اور اصلی مآخذ اور درجۂ اول کے منابع کی روشنی میں پہچان لیں۔ اسلام سے قرآن اور اسکے نبی اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات و سیرت کے راستے سے متعارف ہو جائیں۔ میں یہاں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آج تک آپ نے مسلمانوں کے "قرآن" سے براہ راست رجوع کیا ہے۔؟ کیا آپ نے آج تک ذرائع ابلاغ کے علاوہ کسی اور ذریعے سے اسلام کا پیغام وصول کیا ہے؟ کیا آپ نے کبھی اپنے آپ سے پوچھا ہے کہ اسی اسلام نے، کن اقدار کی بنیاد پر کئی صدیوں کے دوران دنیا کی عظیم ترین علمی اور فکری تہذیب و تمدن کو پروان چڑھایا اور برترین و اعلیٰ ترین علماء اور مفکرین کی پرورش کی؟ میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ کسی کو بھی یہ موقع نہ دیں کہ اہانت آمیز اور گھٹیا تصویر کشی کے ذریعے "آپ اور حقیقت" کے درمیان جذباتی دیوار کھڑی کرے اور آپکو غیر جانبدارانہ فیصلہ دینے سے باز رکھے۔


ترتیب و تنظیم: علی واحدی

بیلجیئم کے نوجوانوں نے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی جانب سے یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں کے طلبہ کے نام لکھے گئے خط کے جواب میں غزہ کے بارے میں یورپی اور امریکی طلبہ کے موقف کی حمایت پر ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ اس خط میں ان نوجوانوں نے لکھا ہے کہ عدل و انصاف اور حقیقت کی جستجو کے بارے میں ہم آپ کے خط سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ غزہ کے بارے میں آپ غیر متزلزل اور ٹھوس موقف رکھتے ہیں، جو دنیا کے لیے انتہائی متاثر کن ہے۔ آپ نے دنیا کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے انتھک کوششیں کی ہیں۔ بیلجیئم کے ان نوجوانوں نے اپنے خط میں مزید لکھا ہے کہ ہم اسلام کے بارے میں گہرائی سے مطالعہ کرنے کا پختہ ارادہ رکھتے ہیں۔

ان نوجوانوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ یورپ اور امریکہ میں طلبہ کی طرف سے غزہ کے حق میں مظاہرہ کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مغربی نوجوان طبقہ دنیا میں رائج غیر منصفانہ نظام سے آگاہ ہوچکا ہے اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے ایک دوسرے سے تعاون اور تعمیری گفتگو کے لئے تیار ہے۔ بلیجیئم کے نوجوانوں کا خط LETTER4LEADER کے ہیش ٹیگ کے ساتھ سوشل میڈیا پر فارسی، انگریزی، عربی اور فرانسیسی کے علاوہ مختلف زبانوں میں گردش کر رہا ہے۔ LETTER4LEADER ہیش ٹیگ کے ساتھ شائع ہوا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کا امریکی یونیورسٹیوں کے طلباء کے نام پیغام
 رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے امریکی یونیورسٹیوں کے بیدار ضمیر اور فلسطینی عوام کے حامی طلباء کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ تاریخ اپنے اوراق پلٹ رہی ہے اور آپ صحیح سمت میں کھڑے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اپنے پیغام میں فلسطین کے حامی امریکی یونیورسٹی طلباء کے ساتھ مکمل ہمدلی اور یک جہتی کا اظہار کیا ہے۔ آپ نے فلسطین کے حامی امریکی یونیورسٹیوں کے طلباء کو استقامتی محاذ کا حصہ قرار دیا ہے اور مغربی ایشیاء کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ تاریخ اپنے اوراق پلٹ رہی ہے اور آپ صحیح سمت میں کھڑے ہیں۔ امریکا کے یونیورسٹی طلباء کے نام رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے پیغام کا متن مندرجہ ذیل ہے۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں یہ خط ان جوانوں کو لکھ رہا ہوں، جن کے بیدار ضمیر نے انھیں غزہ کے مظلوم بچوں اور عورتوں کے دفاع کی ترغیب دلائی ہے۔ ریاستہائے متحدہ امریکا کے عزیز نوجوان اسٹوڈنٹس! یہ آپ سے ہماری ہمدلی اور یکجہتی کا پیغام ہے۔ اس وقت آپ تاریخ کی صحیح سمت میں، جو اپنا ورق پلٹ رہی ہے، کھڑے ہوئے ہیں۔ آج آپ نے مزاحمتی محاذ کا ایک حصہ تشکیل دیا ہے اور اپنی حکومت کے بے رحمانہ دباؤ کے باوجود، جو کھل کر غاصب اور بے رحم صیہونی حکومت کا دفاع کر رہی ہے، ایک شرافت مندانہ جدوجہد شروع کی ہے۔ مزاحمت کا بڑا محاذ آپ سے دور ایک علاقے میں، آپ کے آج کے انہی احساسات و جذبات کے ساتھ، برسوں سے جدوجہد کر رہا ہے۔ اس جدوجہد کا ہدف اُس کھلے ہوئے ظلم کو رکوانا ہے، جو صیہونی کہے جانے والے ایک دہشت گرد اور سفاک نیٹ ورک نے برسوں پہلے فلسطینی قوم پر شروع کیا اور اُس کے ملک پر قبضہ کرنے کے بعد اُسے سخت ترین دباؤ اور ایذا رسانیوں کا شکار بنا دیا۔

آج اپارتھائيڈ صیہونی حکومت کے ہاتھوں جاری نسل کشی، پچھلے دسیوں سال سے چلے آرہے، شدید ظالمانہ برتاؤ کا ہی تسلسل ہے۔ فلسطین ایک خود مختار سرزمین ہے، جو طویل تاریخ رکھنے والی اس قوم کی ہے، جس میں مسلمان، عیسائی اور یہودی سب شامل ہیں۔ صیہونی نیٹ ورک کے سرمایہ داروں نے عالمی جنگ کے بعد برطانوی حکومت کی مدد سے کئی ہزار دہشت گردوں کو تدریجی طور پر اس سرزمین میں پہنچا دیا، جنھوں نے فلسطین کے شہروں اور دیہاتوں پر حملے کیے، دسیوں ہزار لوگوں کو قتل کر دیا یا انھیں پڑوسی ممالک کی طرف بھگا دیا، ان کے گھروں، بازاروں اور کھیتوں کو ان سے چھین لیا اور غصب کی گئی فلسطین کی سرزمین پر اسرائيل نام کی ایک حکومت تشکیل دے دی۔

اس غاصب حکومت کی سب سے بڑی حامی، انگریزوں کی ابتدائی مدد کے بعد، ریاستہائے متحدہ امریکا کی حکومت ہے، جس نے اس حکومت کی سیاسی، معاشی اور اسلحہ جاتی مدد لگاتار جاری رکھی ہے، یہاں تک کہ ناقابل معافی بے احتیاطی کرتے ہوئے ایٹمی ہتھیار بنانے کی راہ بھی اس کے لیے کھول دی اور اس سلسلے میں اس کی مدد کی ہے۔ صیہونی حکومت نے پہلے ہی دن سے نہتے فلسطینی عوام کے خلاف جابرانہ روش اختیار کی اور تمام انسانی و دینی اقدار اور قلبی احساس کو پامال کرتے ہوئے اس نے روز بروز اپنی سفاکیت، قاتلانہ حملوں اور سرکوبی میں شدت پیدا کی۔ امریکی حکومت اور اس کے حلیفوں نے اس ریاستی دہشت گردی اور لگاتار جاری ظلم پر معمولی سی ناگواری تک کا اظہار نہیں کیا۔ آج بھی غزہ کے ہولناک جرائم کے سلسلے میں امریکی حکومت کے بعض بیانات، حقیقت سے زیادہ ریاکارانہ ہوتے ہیں۔

مزاحمتی محاذ نے اس تاریک اور مایوس کن ماحول میں سربلند کیا اور ایران میں اسلامی جمہوری حکومت کی تشکیل نے اسے فروغ اور طاقت عطا کی۔ بین الاقوامی صیہونزم کے سرغناؤں نے، جو امریکا اور یورپ کے زیادہ تر ذرائع ابلاغ کے یا تو مالک ہیں یا یہ میڈیا ہاؤسز ان کے پیسوں اور رشوت کے زیر اثر ہیں، اس انسانی اور شجاعانہ مزاحمت کو دہشت گردی بتا دیا۔ کیا وہ قوم، جو غاصب صیہونیوں کے جرائم کے مقابلے اپنی سرزمین میں اپنا دفاع کر رہی ہے، دہشت گرد ہے؟ کیا اس قوم کی انسانی مدد اور اس کے بازوؤں کی تقویت، دہشت گردی کی مدد ہے۔؟ جابرانہ عالمی تسلط کے سرغنا، انسانی اقدار تک پر رحم نہیں کرتے۔ وہ اسرائيل کی دہشت گرد اور سفاک حکومت کو، اپنا دفاع کرنے والا ظاہر کرتے ہیں اور فلسطین کی مزاحمت کو جو اپنی آزادی، سلامتی اور مستقبل کے تعین کے حق کا دفاع کر رہی ہے، دہشت گرد بتاتے ہیں۔

میں آپ کو یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ آج صورتحال بدل رہی ہے۔ ایک دوسرا مستقبل، مغربی ایشیاء کے حساس خطے کے انتظار میں ہے۔ عالمی سطح پر بہت سے ضمیر بیدار ہوچکے ہیں اور حقیقت، آشکار ہو رہی ہے۔ مزاحمتی محاذ بھی طاقتور ہوگيا اور مزید طاقتور ہوگا۔ تاریخ بھی اپنا ورق پلٹ رہی ہے۔ ریاستہائے متحدہ کی دسیوں یونیورسٹیوں کے آپ اسٹوڈنٹس کے علاوہ دوسرے ملکوں میں بھی یونیورسٹیاں اور عوام اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ پروفیسروں کی جانب سے آپ اسٹوڈنٹس کا ساتھ اور آپ کی پشت پناہی ایک اہم اور فیصلہ کن واقعہ ہے۔ یہ چیز، حکومت کے جابرانہ رویئے اور آپ پر ڈالے جانے والے دباؤ کو کسی حد تک کم کرسکتی ہے۔ میں بھی آپ جوانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں اور آپ کی استقامت کی قدردانی کرتا ہوں۔ ہم مسلمانوں اور دنیا کے تمام لوگوں کو قرآن مجید کا درس ہے، حق کی راہ میں استقامت: "فاستقم کما اُمرت۔" اور انسانی روابط کے بارے میں قرآن کا درس یہ ہے: نہ ظلم کرو اور نہ ظلم سہو: "لاتَظلمون و لاتُظلمون۔" مزاحمتی محاذ ان احکام اور ایسی ہی سیکڑوں تعلیمات کو سیکھ کر اور ان پر عمل کرکے آگے بڑھ رہا ہے اور اللہ کے اذن سے فتحیاب ہوگا۔ میں سفارش کرتا ہوں کہ قرآن سے آشنائی حاصل کیجیے۔
سیّدعلی خامنه‌ ای
۱۴۰۳/۳/۵   
 
یورپ اور شمالی امریکہ کے تمام نوجوانوں کے نام
بسم‌ الله الرّحمن الرّحیم
فرانس کے حالیہ واقعات اور بعض دوسرے مغربی ممالک میں ایک جیسے واقعات نے مجھے قائل کرلیا کہ آپ سے براہ راست بات چیت کروں۔ میں آپ نوجوانوں سے براہ راست مخاطب ہو رہا ہوں؛ اس لئے نہیں کہ آپ کے والدین کو نظر انداز کرنا چاہتا ہوں، بلکہ اس وجہ سے کہ میں آپ کی قوم اور سرزمین کا مستقبل، آپ کے ہاتھوں میں، دیکھ رہا ہوں، نیز میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کے اندر حقیقت پسندی کا احساس زیادہ زندہ اور بیدار ہے۔ نیز اس مکتوب میں میرا خطاب آپ کے سیاستدانوں سے بھی نہیں ہے، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ انھوں نے جان بوجھ کر سیاست کا راستہ صداقت اور سچائی کے راستے سے الگ کرلیا ہے۔ آپ سے میری بات اسلام کے بارے میں ہے اور بطور خاص اسلام کے اس چہرے اور تصویر کے بارے میں جو آپ کو دکھائی جاتی ہے۔ گذشتہ دو عشروں "یعنی سوویت روس کی شکست و ریخت کے بعد" سے آج تک بہت زیادہ کوششیں بروئے کار لائی گئی ہیں کہ اس عظیم المرتبت دین کو ایک خوفناک دشمن کے مقام پر لاکھڑا کیا جائے۔

افسوس کا مقام ہے کہ مغرب کی سیاسی تاریخ میں خوف و نفرت کے جذبات ابھارنے اور ان جذبات سے فائدہ اٹھانے کی تاریخ بہت طویل ہے۔ میں یہاں خوف و ہراس کی ان اشکال پر بحث نہیں کرنا چاہتا، جو مغربی اقوام پر مسلط کی گئی ہیں۔ آپ خود تاریخ کے تنقیدی مطالعات کا مختصر سا جائزہ لے کر دیکھ لیں گے کہ جدید تاریخ نویسی میں دنیا کی اقوام اور تہذیبوں کے ساتھ مغربی حکومتوں کی طرف سے روا رکھے گئے غیر دیانتدارانہ اور مکارانہ رویوں کی مذمت کی گئی ہے۔ یورپ اور امریکہ کی تاریخ غلام (پروری) کی وجہ سے شرمسار ہے، ان کا سر نوآبادیاتی دور کی بنا پر شرمندگی سے جھکا ہوا ہے اور رنگ دار نسلوں اور غیر عیسائیوں پر ظلم و ستم کی وجہ سے خجلت زدہ ہے؛ آپ کے اپنے محققین پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کے عنوان سے مذہب کے نام پر یا پھر قومیت اور ملک کے نام پر، ہونے والی خونریزیوں کے پیش نظر، گہری شرمندگی اور خجلت زدگی کا اظہار کر رہے ہیں۔

یہ بجائے خود باعث تحسین ہے اور میرا مقصد تاریخ کی ان ملامتوں کی طویل فہرست بیان کرنا نہیں ہے بلکہ میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ جا کر اپنے دانشوروں سے پوچھیں کہ مغرب میں کیوں عام لوگوں کی ضمیر کئی عشرے یا پھر کئی صدیاں، تاخیر سے بیدار ہوتی ہے۔؟ یہاں سماجی ضمیر میں نظرثانی کا تعلق دور دراز کے زمانوں سے تو ہوتا ہے، لیکن حالات حاضرہ کے مسائل کو کیوں لائق توجہ نہیں سمجھا جاتا؟ اسلامی تہذیب و ثقافت اور افکار کے ساتھ طرز سلوک کی روش جیسے اہم مسائل میں، عمومی آگہی کے معرض وجود میں آنے کے راستے میں روڑے کیوں اٹکائے جاتے ہیں۔؟ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ دوسروں کی تحقیر و تذلیل اور ان سے خوف زدہ کرنے کا رویہ، تمام تر ظالمانہ منفعت پرستیوں کا مشترکہ پیش خیمہ ہے۔

اب میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہراس انگیزی اور منافرت خیزي کا ہتھکنڈہ اس بارـ بےمثل انداز سے اسلام اور مسلمانوں کو کیوں نشانہ بنائے ہوئے ہے؟ آج کے زمانے میں طاقت کا ڈھانچہ کیوں اسلامی تفکر کو دنیا میں دیوار سے لگانے کے درپے ہے اور اس کو غیر فعال بنانا چاہتا ہے؟ اسلام میں وہ کون سے معانی اور اقدار ہیں، جو بڑی طاقتوں کی منصوبہ بندی کی راہ میں رکاوٹ ہیں؟ اور اسلام کی غلط تصویر سازی کی بنا پر (ان کے) کونسے مفادات پورے ہو جایا کرتے ہیں؟ پس میری پہلی اپیل یہ ہے کہ اسلام کے خلاف اس وسیع بدنمائی (اور اس کی بگڑی صورت پیش کرنے) کے محرکات کے بارے میں پوچھ گچھ اور تحقیق کریں۔
 
میری دوسری اپیل یہ ہے کہ منفی تشہیری مہم اور تعصب آمیز رویوں کے سیلاب کے مقابلے میں اس دین کے بارے میں براہ راست اور بلا واسطہ شناخت و معرفت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ صحت مند منطق کا تقاضا ہے کہ کم از کم جان لیں کہ جس چیز سے وہ آپ کو بھگا رہے ہیں اور خوفزدہ کر رہے ہیں، وہ دراصل ہے کیا اور اس کی حقیقت و ماہیت کیا ہے۔؟ میں اصرار نہیں کرتا کہ اسلام کے بارے میں میرا یا کسی بھی دوسرے شخص کا تصور قبول کریں بلکہ کہنا چاہتا ہوں کہ کسی کو بھی موقع نہ دیں کہ وہ اس متحرک اور پراثر حقیقت کو، آلودہ اہداف و اغراض کی روشنی میں، آپ سے متعارف کرا دے۔ آپ موقع نہ دیں کہ مکاری اور حیلہ گری کے ساتھ ان دہشت گردوں کو اسلام کے نمائندوں کے طور پر آپ کے سامنے پیش کیا جائے جو ان کے اپنے ہی گماشتے ہیں۔

اسلام کو بنیادی اور اصلی مآخذ اور درجۂ اول کے منابع کی روشنی میں پہچان لیں۔ اسلام سے قرآن اور اس کے نبی اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات و سیرت کے راستے سے متعارف ہو جائیں۔ میں یہاں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آج تک آپ نے مسلمانوں کے "قرآن" سے براہ راست رجوع کیا ہے۔؟ کیا آپ نے آج تک ذرائع ابلاغ کے علاوہ کسی اور ذریعے سے اسلام کا پیغام وصول کیا ہے؟ کیا آپ نے کبھی اپنے آپ سے پوچھا ہے کہ اسی اسلام نے، کن اقدار کی بنیاد پر کئی صدیوں کے دوران دنیا کی عظیم ترین علمی اور فکری تہذیب و تمدن کو پروان چڑھایا اور برترین و اعلیٰ ترین علماء اور مفکرین کی پرورش کی؟ میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ کسی کو بھی یہ موقع نہ دیں کہ اہانت آمیز اور گھٹیا تصویر کشی کے ذریعے "آپ اور حقیقت" کے درمیان جذباتی دیوار کھڑی کرے اور آپ کو غیر جانبدارانہ فیصلہ دینے سے باز رکھے۔

آج، جبکہ مواصلاتی اوزاروں نے جغرافیائی سرحدوں کو توڑ کر رکھ دیا ہے، کسی کو بھی موقع نہ دیں کہ آپ کو بناوٹی اور ذہنی سرحدوں میں محصور کر دے۔ اگرچہ کوئی بھی انفرادی طور پر (طاقتوں کی) بنائی ہوئی خلیج کو پر نہیں کرسکتا، لیکن آپ میں سے ہر فرد خود آگہی اور گرد و پیش کے ماحول کو آگاہ کرنے کی غرض سے، اس خلیج اور دراڑ کے اوپر فکر اور انصاف کا پل تعمیر کرسکتا ہے۔ اسلام اور آپ نوجوانوں کے درمیان پہلے سے تیار کردہ تقابل اگرچہ ناخوشگوار ہے، لیکن یہ آپ کے متجسس اور متلاشی ذہن میں نئے سوالات کو جنم دے سکتا ہے۔ ان سوالات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش، آپ کو نئی حقیقتوں کی دریافت کے بیش قیمت مواقع فراہم کرتی ہے۔ لہذا، اسلام کی درست فہمی اور پیشگی فیصلوں سے فارغ ادراک کا یہ موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں، تاکہ شاید حقیقت کے سلسلے میں آپ کے احساس ذمہ داری کی برکت سے، مستقبل کے تاریخ نویس اسلام کے ساتھ مغرب کے رویئے کے موجودہ مرحلے کو کم آزردگی اور زيادہ آسودہ خیالی کے ساتھ رشتۂ تحریر میں لائیں۔
سیّد علی خامنہ ای
21 جنوری 2015ع‍


خبر کا کوڈ: 1149763

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1149763/بیلجیئم-کے-نوجوانوں-کی-طرف-سے-شکریہ-کا-خط

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com