QR CodeQR Code

عاشورائی مقاتل الطالبین

23 Jul 2024 18:00

اسلام ٹائمز: امام زین العابدین علیہ السلام کی نظر عبیداللہ ابن عباس پر پڑی تو آنکھوں سے اشک جاری ہوئے اور فرمایا: "خداوند عباس پر رحمت نازل فرمائے، انھوں نے ایثار اور خود فراموشی کا مظاہرہ کیا اور امتحان الہیٰ سے کامیابی سے نکلے۔ اپنے بھائی کیلئے ایسی فداکاری کی کہ دونوں ہاتھ بدن سے جدا ہوگئے، خداوند کریم نے انھیں ان بازوں کے بدلے دو پر عطا کیے، جنکے ذریعے وہ فرشتوں کے ہمراہ بہشت میں پرواز کرتے ہیں، جیسا کہ جعفر بن ابی طالب کو عطا کیے۔ یقیناً عباس کا خدا کے نزدیک وہ مقام ہے کہ روز محشر تمام شہداء اس پر رشک کریں گے۔"


تحریر: سید اسد عباس

عاشورہ حسینی کی مناسبت سے ہماری محافل، مجالس، اشعار اور نوحوں میں بعض شخصیات کا تذکرہ تو بہت زیادہ کیا جاتا ہے، تاہم بعض شخصیات کو ایسے فراموش کیا جاتا ہے، جیسے ان کا وجود سرے سے تھا ہی نہیں۔ وہ شخصیات جن کا تذکرہ ہمارے عاشورائی ادب میں ہوتا ہے، اس میں بھی واقعات کو خلط ملط کر دیا گیا ہے یا من گھڑت روایات شامل ہیں۔ جہاں تک میرے علم میں ہے، امام حسین علیہ السلام کا قیام شعور، آگہی، ہوشمندی، حق کو باطل سے جدا کرنے والا قیام تھا۔ امام علیہ السلام نے لشکر عمر سعد سے خطاب کرتے ہوئے متعدد مقامات پر کہا کہ غور و فکر کرو، ہوش میں آؤ، سچائی کو پہنچانو، میری بات پر غور کرو، لیکن لشکر عمر سعد آنکھیں بند کیے اسی ڈگر پر رہا، جس پر اسے جمع کیا گیا تھا۔ معدودے چند افراد کے اس لشکر میں کسی کی آنکھیں نہ کھلیں، کسی کو دکھائی نہ دیا کہ ہم سے کون خطاب کر رہا ہے۔؟ اس کی بات درست ہے یا غلط ۔؟ اس کا اسلام میں مقام و منزلت کیا ہے۔ امام علیہ السلام نے ایک مقام پر بہت سخت جملہ کہا کہ تم جو میری بات کو سنا ان سنا کر دیتے ہو، اس کی بنیادی وجہ وہ لقمہ حرام ہے، جو تمھارے شکموں کے اندر ہے۔ لقمہ حرام تم کو سچ اور حق کی پیروی سے روکتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ محبان اہل بیت ؑ کو انتہائی بیدار، آگاہ اور حق پرست ہونا چاہیئے۔ ہم کو روایات اور سنی سنائی چیزوں کے بجائے حقائق کا متلاشی رہنا چاہیئے۔ جہاں تک ہماری مجالس، محافل، نوحوں، مرثیوں اور اشعار کے تذکروں کا تعلق ہے تو جہاں ان میں بہت سے حقائق بیان کیے جاتے ہیں، وہیں بہت سی بے بنیاد باتیں بھی کی جاتی ہیں۔ میں اس سلسلے میں عوام کو قصوروار نہیں ٹھہراتا، عوام تو وہی کچھ بیان کرتے ہیں، جو انھوں نے اردو کتابوں میں مطالعہ کیا ہے۔ علماء کو چاہیئے تھا کہ کربلا کے حوالے سے ہونے والی مختلف جدید تحقیقات کا مطالعہ کرکے ان کا اردو ترجمہ کرکے عوام تک پہنچاتے، تاکہ وہ یہ تذکرے بھی عاشورہ کے تذکروں میں شامل کرتے۔ جب متن موجود ہو تو پڑھنے والا اسے بیان کرنے کا ڈھنگ ڈھونڈ ہی لیتا ہے، تاہم اگر متن ہی موجود نہ ہو تو کوئی کیا اور کیسے بیان کرے۔ میں نے اپنی گذشتہ چند تحریروں میں ان کتب کا حوالہ دیا ہے، جو انصاران امام حسین ؑ کے حوالے سے تحریر ہوچکی ہیں، اسی طرح کتب مقاتل اور تاریخ موجود ہیں، جن میں سے اکثر ترجمہ ہوچکی ہیں، ان سے استفادہ کرکے عوام تک احسن انداز سے پہنچایا جانا چاہیئے۔

ارددو زبان میں مقتل مقرم، مقتل شیخ صدوق، مقتل مجلسی، نفس المہوم (شیخ عباس قمی)، کتاب ارشاد (شیخ مفید)، مقتل لہوف (سید ابن طاؤس)، خطبات امام حسین مدینہ تا کربلا، حماسہ حسینی (شہید مرتضیٰ مطہری)، حدیث کربلا (علامہ طالب جوہری)، شہید انسانیت (علامہ علی نقن)، ذبح عظیم (اولاد حسین فوق بلگرامی)، تاریخ طبری، حضرت امام حسین (طاہر القادری)، تفسیر قیام حضرات حسنین (آیت اللہ محمد فضل اللہ)، مدینہ سے مدینہ تک (آیت اللہ سید محمد جواد ذہنی تہرانی)، اصحاب الیمین (مولانا حسین بخش جاڑا) قابل ذکر ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایران اور عراق میں واقعہ کربلا کے حوالے سے ہونے والی جدید تحقیقات کا اردو ترجمہ کیا جائے، جیسا کہ "انصارالحسین ؑ الثورہ و الثوار"، علامہ سماوی کی ترجمہ شدہ کتاب "سلحشوران طف، ترجمہ ابصار العین فی انصار الحسین"، حدائق الورود، تنقیح المقال، محمدی ری شہری کی کتاب اصحیح من مقتل سید الشھداء و اصحابہ" وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

کتب بہت سی ہیں، جن کا اردو میں ترجمہ کیا جانا چاہیئے، تاکہ واقعہ کربلا کو حقائق کے تناظر میں دیکھا جاسکے۔ بعض کتب تاریخی روایات پر مشتمل ہیں، بعض کتب میں اس قیام کے فلسفہ اور حکمت پر بحث کی گئی ہے۔ ہر دو طرح کی کتابوں کا مطالعہ کیا جانا چاہیئے، تاکہ کربلا اپنے حقیقی منظر اور حالات کے ساتھ ہمارے سامنے منکشف ہو اور ہم اپنے حالات کو ان حالات و واقعات سے منطبق کرسکیں۔ مجھے اپنے مطالعات کے دوران جو دو کتابیں بہت پسند آئیں، ان میں ایک محمد علی الحلو کی تحقیق انصار الحسین ہے اور دوسری کتاب علامہ سماوی کی کتاب ابصار العین ہے۔ محمد علی الحلو نے علامہ سماوی کی کتاب کا جگہ جگہ حوالہ دیا ہے اور ان دونوں نے امام مامقانی کی کتاب نتقیح المقال کے حوالے پیش کیے ہیں۔ اسی طرح مقتل ابی مخنف، تاریخ طبری، رجال شیخ طوسی، مقاتل الطالبین جیسی کتب سے بھی حوالے دیئے گئے ہیں۔ علامہ ری شھری کی کتاب میری نظر سے نہیں گزری، تاہم وقت کی قلت کے باعث انہی دونوں منابع سے میں اپنی گذارشات کو قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔

بنی ہاشم کے چند شہداء کا تذکرہ ہم اپنی محافل، مجالس، اشعار، مرثیہ اور نوحہ میں بہت سنتے ہیں۔ ان شخصیات کے لیے عاشورہ کے ایام مختص ہیں اور باقی شہداء کا تذکرہ بہت کم سننے کو ملتا ہے۔ علامہ سماوی نے اولاد ابو طالب کے شہداء کی تعداد امام حسین ؑ کے علاوہ سترہ لکھی ہے، جبکہ محمد علی الحلو نے اپنی تحقیق انصار الحسین الثورۃ و الثوار کے اندر بنی ہاشم کے امام حسین ؑ کے علاوہ شہداء کی تعداد پندرہ تحریر کی ہے۔ میں دونوں کتب کے شہداء اور ان کے حوالہ جات کو تحریر کروں گا۔

مسلم بن عقیل بن أبی طالب علیهم السّلام
آپ کی والدہ علیہ ایک کنیز تھیں، حضرت مسلم امام حسین ؑ کے سفیر کی حیثیت سے کوفہ گئے، جہاں تقریباً سولہ ہزار افراد نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ مسلم بن عقیل کے ساتھ کوفہ میں بیتنے والے واقعات اور خیانت کا تذکرہ کتب تاریخ اور مقاتل میں موجود ہے۔ مسلم بن عقیل جب اعداء کے نرغے میں آئے تو یہ اشعار پڑھے:
أقسمت لا اقتل الّا حرّاو إن رأیت الموت شیئا نکرا
کل امرئ یوما ملاق شرّااو یخلط البارد سخنا مرّا

"میں نے قسم کھائی ہے کہ آزادی سے قتل ہوں گا، اگرچہ میں موت کو ایک ناپسندیدہ چیز سمجھتا ہوں، تاہم ہر شخص کو ایک نہ ایک دن سرد گرم اور ناگوار چیزوں سے گزرنا پڑتا ہے۔" (سلحشوران طف ترجمہ ابصار العین ، سماوی ، ص ۱۰۴)

عبد اللہ بن ابی سفیان بن حارث بن عبد المطلب
تاریخ دمشق کے مطابق عبد اللہ روایان حدیث میں سے تھے اور صحابی رسول ؐ تھے۔ ان کا تذکرہ " کربلا کے شہید، اصحاب رسول ؐ" میں گزر چکا ہے۔ تاریخ دمشق کے مطابق عبد اللہ بن ابی سفیان، امام حسین ؑ کے ہمراہ واقعہ طف میں شہید ہوئے۔صحیح بخاری میں ان سے روایت کردہ حدیث حسب ذیل ہے: "روى ابراهيم ابن سَعْدٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سُفْيَان مولى  ابْن أَحْمَد ، سمع دَاوُد بْن حصين: عَنْ أَبِي سُفْيَان  عَنْ ام عامر رضى الله عنها قَالَ: بَايَعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"

عون بن جعفر طیار

 ان کا تذکرہ " کربلا کے شہید، اصحاب رسول ؐ" میں گزر چکا ہے۔ اکثر کتب نے عون بن جعفر طیار کا تذکرہ نہیں کیا، تاہم مقتل حسین الخوارزمی میں ان کی شہادت کا واقعہ اور رجز درج ہے۔
ان تنکرونی فانا بن جعفر شہید صدق فی الجنان ازہر
یطیر فیہا بجناح اخضر کفی بہذٰا شرفاً فی المحشر 

"اگر تم میرا انکار کرتے ہو تو جان لو کہ میں جعفر کا بیٹا ہوں، جو سچا شہید اور جنت میں اپنے سبز پروں سے پرواز کرتا ہے اور میرے لیے روز محشر یہی شرف کافی ہے۔"(مقتل الحسینؑ، خوارزمی، ج 2، ص 31)

العباس بن علی بن أبی طالب علیهما السلام
محمد علی الحلو کی تحقیق کے مطابق، ابو الحسن اصفہانی اپنی تصنیف مقاتل الطالبین میں تحریر کرتے ہیں: "عباس انتہائی وجیہ اور خوبصورت مرد تھے، جب وہ ایک تنومند گھوڑے پر سوار ہوتے تو ان کے قدم زمین پر خط کھینجتے تھے۔ لوگ انھیں قمر بنی ہاشم کہتے تھے۔" (مقاتل الطالبین ۔ ص ۹۰) سید مقرم کے بقول قمر بنی ہاشم کے پانچ فرزند تھے، عبیداللہ، فضل، حسن، قاسم۔ ابن شہر آشوب کے مطابق ایک فرزند محمد واقعہ طف میں شہید ہوئے۔ (العباس علیه السلام، سید عبد الرزاق المقرم،۳۵۰) ابو الفضل العباس ؑ کی والدہ ام البنین سے امیر المومنین ؑ کا واقعہ تاریخ میں ثبت ہے۔ امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں: "کان عمنا العباس بن علی نافذ البصیرہ صلب الایمان، جاهد مع أبی عبد اللّه علیه السّلام و أبلی بلاء حسنا و مضی شهیدا"، "ہمارے چچا عباس انتہائی بابصیرت، راسخ الایمان انسان تھے۔ ابا عبداللہ کے ہمراہ جہاد اور جنگ کی امتحان سے احسن طریقے سے نبرد آزما ہوئے اور شہادت سے سرفراز ہوئے۔" (عمدہ الطالب، ص ۳۲۳)( سلحشوران طف ترجمہ ابصار العین، سماوی، ص ۷۲)

امام زین العابدین علیہ السلام کی نظر عبیداللہ ابن عباس پر پڑی تو آنکھوں سے اشک جاری ہوئے اور فرمایا: "رحم اللّه العبّاس فلقد آثر و أبلی، و فدی أخاه بنفسه حتّی قطعت یداه، فأبدله اللّه عزّ و جلّ منهما جناحین یطیر بهما مع الملائکه فی الجنّه کما جعل لجعفر بن أبی طالب علیه السّلام و أنّ للعباس عند اللّه تبارک و تعالی منزله یغبطه بها جمیع الشهداء یوم القیامه"، "خداوند عباس پر رحمت نازل فرمائے، انھوں نے ایثار اور خود فراموشی کا مظاہرہ کیا اور امتحان الہیٰ سے کامیابی سے نکلے۔ اپنے بھائی کے لیے ایسی فداکاری کی کہ دونوں ہاتھ بدن سے جدا ہوگئے، خداوند کریم نے انھیں ان بازوں کے بدلے دو پر عطا کیے، جن کے ذریعے وہ فرشتوں کے ہمراہ بہشت میں پرواز کرتے ہیں، جیسا کہ جعفر بن ابی طالب کو عطا کیے۔ یقیناً عباس کا خدا کے نزدیک وہ مقام ہے کہ روز محشر تمام شہداء اس پر رشک کریں گے۔" (سلحشوران طف ترجمہ ابصار العین، سماوی، ص ۶۳)

علی بن حسین بن علی بن أبی طالب علیه السّلام
علامہ سماوی کی تحقیق کے مطابق یہ سید زادہ خلیفہ سوئم کی خلافت کے اوائل میں دنیا میں تشریف لایا۔ (سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین، ص:۶۲) شیخ مفید  اپنی کتاب ارشاد میں تحریر کرتے ہیں کہ علی ابن الحسین ؑاپنے جد امام علی ؑ کی شہادت کے دو برس بعد پیدا ہوئے۔ (ارشاد ،ج۲ ،۱۳۷)۔ آپ کی والدہ ام لیلیٰ بنت ابو مرۃ بن عروہ بن مسعود ثقفی ہیں۔ علامہ سماوی کی تحقیق کے مطابق علی ابن الحسین اخلاق، شمائل، گفتگو اور شباہت میں اپنے جد رسول اللہ ؐ سے مشابہت رکھتے تھے۔ علامہ سماوی کہتے ہیں کہ آپ کی کنیت ابو الحسن اور لقب اکبر تھا، کیونکہ امام حسین ؑ کے تین بیٹوں جن کے نام علی تھے، میں آپ سب سے بڑے تھے۔ (سلحشوران طف ترجمہ ابصار العین، سماوی، ص ۶۳)

علامہ سماوی نے وہ معروف واقعہ بھی تحریر کیا، جس میں امام حسین ؑ نے کلمہ استرجاع پڑھا اور حضرت علی اکبر نے امام سے پوچھا کہ ایسا کیوں۔؟ جس پر امام نے جواب دیا کہ یہ قافلہ موت کی جانب جا رہا ہے۔ حضرت علی اکبر کا وہ سنہری جملہ بھی علامہ سماوی نے ذکر کیا: "یا ابت لا أراک اللّه سوءا ألسنا علی الحق" امام علیہ السلام نے جواب دیا ہاں۔ جس پر حضرت علی اکبر نے کہا: "یا ابت إذن لا نبالی نموت محقّین:"، "بابا اگر موت حق ہے تو پھر موت سے کیسا ڈر۔" ابو الفرج اصفہانی مقاتل طالبین میں تحریر کرتے ہیں کہ انصار امام حسین ؑ کی شہادت کے بعد بنی ہاشم میں سے شہید ہونے والے پہلے فرد علی اکبر تھے۔ (مقاتل الطالبین، ۱۱۵)علی اکبر کے وداع کے جملے اکثر ہم مجالس اور کتب میں سنتے اور پڑھتے ہیں، یہاں میں ان کے تذکرے سے اجتناب برتتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہوں، تفصیلات کے لیے کتب مقاتل کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ امام ؑ نے حضرت علی اکبر کی شہادت پر جو جملہ کہا، وہ ضرور ذکر کرنا چاہوں گا۔ "علی الدّنیا بعدک العفا"، "تیرے بعد اس دنیا میں کچھ نہیں رکھا۔"(لھوف ،۱۷۶)

عبداللّه بن حسین بن علی بن أبی طالب علیه السّلام
علامہ محمد سماوی کی تحقیق کے مطابق عبداللہ مدینہ یا کربلا میں متولد ہوئے۔ ان کی والدہ رباب دختر امراء القیس بن عدی اوس بن جابر بن کعب بن علیم بن جناب بن کلب تھیں۔ (سلحشوران طف ترجمہ ابصار العین، سماوی ، ص ۶۸)طبری، اصفہانی اور مسعودی نے عبداللہ بن حسین کے تیر لگنے سے شہادت کا تذکرہ کیا ہے۔ (مقاتل طالبین، ۹۴)(طبری ج۳، ص۳۳۲)

عبداللّه بن علی بن أبی طالب علیهم السّلام
علامہ سماوی کی تحقیق کے مطابق عبداللہ اپنے بڑے بھائی حضرت عباس سے آٹھ برس چھوٹے تھے۔ عبداللہ کی والدہ ام البنین ہیں۔ انصار کی شہادت کے بعد حضرت ابو الفضل العباس نے اپنے بھائیوں کو عمر کے لحاظ سے میدان جہاد میں بھیجا۔ عبداللہ میدان جہاد میں آئے تو یہ رجز پڑھا:
أنا ابن ذی النجده و الأفضال ذاک علیّ الخیر فی الأفعال
سیف رسول اللّه ذو النکال فی کلّ یوم ظاهر الأهوال

"میں اس مرد دلاور کا بیٹا ہوں، جو علی نیک کاموں کا حامل ہے، جو رسول اللہ کی ایسی شمشیر ہے، جو درد آور ہے اور ہر روز خوف ایجاد کرتا ہے۔"(مقاتل الطالبین ، ۸۸)

عثمان بن علی بن أبی طالب علیهم السّلام
علامہ سماوی کی تحقیق کے مطابق عثمان اپنے بھائی عبداللہ سے تقریباً دو برس بعد پیدا ہوئے۔ عثمان کی والدہ بھی ام البنین ہیں۔ امیر المومنین سے روایت ہے کہ میں نے اس کا نام اپنے بھائی عثمان بن مظعون کے نام پر رکھا۔ (مقاتل الطالبین ،۸۹) عثمان بن علی اپنے بھائی عبد اللہ بن علی کی مانند میدان میں آئے اور یہ رجز پڑھا:"إنی أنا عثمان ذو المفاخرشیخی علیّ ذو الفعال الطاهر"، "میں عثمان صاحب افتخار ہوں، میرا آقا علی ہے، جو نیکوکار اور پاکیزہ ہے۔"(مقاتل الطالبین ،۸۹)

جعفر بن علی بن أبی طالب علیهم السّلام
علامہ محمد سماوی کی تحقیق کے مطابق جعفر بن علی اپنے بھائی عثمان بن علی کے دو برس بعد دنیا میں تشریف لائے۔ جعفر بھی ام البنین کے فرزند تھے۔ جعفر کا نام امیر المومنین ؑ نے اپنے بھائی جعفر طیار کے نام پر رکھا۔ (مقاتل الطالبین، ۸۸) اپنے بھائیوں عبداللہ، عثمان کے بعد جعفر بن علی میدان جہاد میں گئے اور یہ رجز پڑھا:"إنّی أنا جعفر ذو المعالی ابن علیّ الخیر ذی الأفضال"، "میں جعفر ابن علی ہوں، صاحب علو و صاحب فضائل۔" (سلحشوران طف ترجمہ ابصار العین، سماوی، ص۸۸)

ابو بکر بن علی بن أبی طالب علیهم السّلام
علامہ محمد سماوی نے ان کا نام محمد اصغر یا عبداللہ تحریر کیا ہے اور ان کی والدہ لیلیٰ دختر مسعود بن خالد بن مالک بن ربعی بن سلم (سلمی) بن جندل بن نهشل بن دارم بن مالک بن حنظله بن زید مناه بن تمیم تھیں۔ (مقاتل طالبین،۸۸) "شیخی علیّ ذو الفخار الأطول من هاشم و هاشم لم تعدل"، "میرے آقا علی بے انتہا افتخارات کے حامل ہیں، وہ بنو ہاشم سے ہیں اور بنو ہاشم کے پائے کا کوئی نہیں۔" (مقاتل طالبین، ۹۱)

ابو بکر بن حسن بن علی بن أبی طالب علیهم السّلام
علامہ سماوی کی تحقیق کے مطابق ابو بکر بن حسن کی والدہ کنیز تھیں۔ عبداللہ بن عقبہ بن غنوی نے ابو بکر بن حسن کو شہید کیا۔ (سلحشوران طف، ترجمہ ابصار العین، سماوی، ص۹۰) اس شخصیت سے متعلق مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

قاسم بن حسن بن علی بن أبی طالب علیهم السّلام
علامہ محمد سماوی کی تحقیق کے مطابق قاسم اور ابوبکر کی والدہ ایک ہی تھیں اور ان کا نام رملہ تھا۔ ابو مخنف حمید بن مسلم سے روایت کرتا ہے کہ جب قاسم زخمی ہوئے اور امام علیہ السلام کو ندا دی تو امام ؑ ایک شکاری باز کی مانند حضرت قاسم کی مدد کو پہنچے اور ان کے جسد پر فرمایا: "بعدا لقوم قتلوک، و خصمهم فیک یوم القیامه رسول اللّه صلّی اللّه علیه و آله وسلّم"، "وہ قوم جس نے تجھے قتل کیا، رحمت خدا سے دور ہو جائے، رسول خدا اس قوم سے روز قیامت دشمنی کریں۔" پھر فرمایا: "عزّ (و اللّه) علی عمّک أن تدعوه فلا یحیبک، او یجیبک فلا تنفعک إجابته، یوم کثر واتره و قلّ ناصره"، "خدا کی قسم تیرے چچا کے لیے انتہائی دشوار ہے کہ تو مدد کے لیے پکارے اور میں مثبت جواب نہ دے سکوں اور اگر جواب دوں تو اس کا کوئی فائدہ نہ ہوں۔ آج میرے قاتل زیادہ اور مددگار کم ہیں۔" (سلحشوران طف، ترجمہ ابصار العین، سماوی، ص۹۱)

عبداللّه بن حسن بن علی بن أبی طالب علیهم السّلام
علامہ سماوی کی تحقیق کے مطابق عبداللہ کی والدہ شلیل بن عبداللہ بجلی کی بیٹی تھیں، جو کہ جریر بن عبداللہ بجلی کے بھائی تھے۔ ان دونوں بھائیوں نے رسول اللہ ؐ کی صحبت حاصل کی۔ امام حسین ؑ جب میدان میں تنہا تھے تو عبد اللہ بن حسن امام ؑ کے پاس چلے گئے اور ان کی گود میں بیٹھ گئے۔ جب دشمن نے تلوار کا وار کیا تو عبداللہ کا بازو کٹ گیا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: "یا بن أخی اصبر علی ما نزل بک و احتسب فی ذلک الخیر، فإنّ اللّه یلحقک بآبائک الصالحین"، "اے میرے بھتیجے صبر کر اس پر جو تجھ پر گزری اور نیک جزا کا انتظار کر، خدا تجھے تیرے صالح آباء کے ہمراہ ملحق فرمائے۔" (سلحشوران طف، ترجمہ ابصار العین، سماوی، ص۹۱)

عون بن عبد اللّه بن جعفر بن أبی طالب علیهم السّلام
عون حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے فرزند ہیں، جب امام حسین ؑ مکہ کی جانب روانہ ہوئے تو عبداللہ نے اپنے فرزندوں عون و محمد کو خط دے کر بھیجا، عبداللہ چاہتے تھے کہ امام حسین ؑ کربلا نہ جائیں، ساتھ عبداللہ نے اپنے فرزندوں کو نصیحت کی کہ امام حسین ؑ سے جدا مت ہونا اور میری غیر حاضری پر معذرت کرنا۔ (سلحشوران طف، ترجمہ ابصار العین، سماوی، ص۹۵)

محمد بن عبد اللّه بن جعفر بن أبی طالب علیهما السّلام
علامہ سماوی مولف کتاب ابصار العین فی انصار الحسین کی تحقیق کے مطابق محمد بن عبد اللہ کی والدہ خوصاء بنت حفصہ بن ثقیف بن ربیعہ بن عائذ بن ثعلبه بن عکابه بن صعب بن علی بن بکر بن وائل ہیں۔ (مقاتل طالبین ۹۵) سلحشوران طف کے مطابق محمد عون سے قبل میدان میں آئے اور یہ رجز پڑھا:
أشکو إلی اللّه من العدوان فعال قوم فی الردی عمیان
قد بدّلوا معالم القرآن و محکم التنزیل و التبیان

"میں خدا سے ان دشمنوں کے سلسلے میں شکایت کرتا ہوں، جو اندھا دھند قرآن کریم کے علوم کو بدل رہے ہیں اور محکم آیات الہیٰ کو فراموش کرچکے ہیں۔" (سلحشوران طف ترجمہ ابصار العین، سماوی، ص۹۷)

عبداللّه بن مسلم بن عقیل بن أبی طالب رضوان اللّه علیهم
عبداللہ کی والدہ رقیہ دختر امیر المومنین علیہ السلام ہیں۔ عبد اللہ نے میدان کربلا میں جو رجز پڑھا، محمد علی الحلو نے اپنی تحقیق انصار الحسین میں یوں درج کیا ہے:
الیوم ألقی مسلماً وهو أبی
وعصبة بادوا علی دین النبیّ
(مقتل الحسین علیه السلام للسید المقرم: ص۲۶۲)

محمد بن مسلم بن عقيل بن ابى طالب عليه السلام
علامہ محمد سماوی کے مطابق محمد بن مسلم بن عقیل کی والدہ ام الولد تھیں۔ عبداللہ بن مسلم کی شہادت کے بعد اولاد ابو طالب نے مشترکہ حملہ کیا، جس پر امام حسین ؑ نے ندا دی کہ اے میرے چچا زاد بھائیو موت پر جلدی نہ کرو۔ اس حملے میں محمد بن مسلم شہید ہوئے۔ (مقاتل طالبین ۹۷)

محمد بن ابو سعید بن عقیل بن أبی طالب علیهم السّلام
علامہ سماوی کے مطابق محمد کی والدہ بھی کنیز تھیں، سیرت نگار حمید بن مسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب امام حسین ؑ گھوڑے سے گرے تو ایک نوعمر خیام سے دوڑتا ہوا باہر آیا اور ادھر ادھر بھاگ رہا تھا، ایک دشمن نے حملہ کرکے اس نوعمر کو قتل کر دیا۔ حمید کہتا ہے، یہ کون تھا تو جواب ملا محمد بن ابو سعید۔ (سلحشوران طف ترجمہ ابصار العین، سماوی، ص۱۱۶)

عبد الرحمن بن عقیل بن ابی طالب علیهم السّلام
علامہ سماوی کے مطابق عبد الرحمن کی والدہ بھی کنیز تھیں۔ ابن شہر آشوب نقل کرتے ہیں کہ امام حسین ؑ کے انصار کی شہادت کے بعد اولاد ابو طالب ؑ کے ایک گروہ نے مل کر دشمن پر حملہ کیا، عبد الرحمن بن عقیل اسی دستے میں تھے۔ آپ نے رجز پڑھا: "أبی عقیل فاعرفوا مکانی من هاشم و هاشم إخوانی"، "میرے بابا عقیل ہیں، میں ہاشمی ہوں اور بنی ہاشم میرے بھائی ہیں۔" (مقاتل الطالبین، ۹۶)

جعفر بن عقیل بن أبی طالب علیهم السّلام
علامہ سماوی کی تحقیق کے مطابق جعفر کی والدہ حوصاء ہیں، جو عمرو، معروف به ثغر بن عامر بن هصان بن کعب بن عبد بن ابو بکر بن کلاب عامری کی بیٹی تھیں۔ (مقاتل طالبین ۹۷) جعفر بن عقیل نے میدان جنگ میں یہ رجز پڑھا: "انا الغلام الأبطحی الطالبی من معشر فی هاشم من غالب"، "میں مکی اور طالبی جوان ہوں، میرا شمار ہاشمیوں اور غالبیوں میں ہوتا ہے۔" (سلحشوران طف ترجمہ ابصار العین، سماوی، ص۱۱۸)

غلامان بنی ہاشم
سلیمان بن رزین، غلام حسین بن علی بن أبی طالب علیهما السّلام
سلیمان امام حسین ؑ کے غلام تھے، امام ؑ جس وقت مکہ میں تھے تو ان کے ذریعے مختلف قبائل کے سرداروں کو ان کی وساطت سے خطوط بھیجے۔ بصرہ کے ان افراد میں مالک بن مسمع بکری، احنف بن قیس تمیمی، منذر بن جارود عبدی، مسعود بن عمرو ازدی، قیس بن هیثم و عمرو بن عبیداللّه بن معمّر شامل تھے۔ ان افراد میں سے اکثر نے اس خط کو خفیہ رکھا، کچھ نے معذرت کی اور منذر بن جارود نے خط عبید اللہ ابن زیاد کو دے دیا، جو کہ اس کا داماد تھا۔ عبیداللہ نے سلیمان کو بلوایا اور قتل کروا دیا۔

اسلم بن عمرو، غلام حسین بن علی علیهما السّلام
علامہ سماوی مولف ابصار العین فی انصار الحسین کی تحقیق کے مطابق اسلم امیر المومنینؑ اور امام حسین ؑ کا کاتب تھا اور ترک نژاد تھا۔ ان کا تذکرہ واضح ترک غلام کے عنوان سے گزر چکا ہے۔ (سلحشوران طف ترجمہ ابصار العین، سماوی، ص۱۲۱)

قارب بن عبداللّه دئلی غلام حسین بن علی علیهما السّلام
قارب کی والدہ امام حسین ؑ کی کنیز تھیں، عبداللہ دئلی نے ان کی والدہ سے عقد کیا اور قارب متولد ہوئے۔ قارب امام حسین ؑ کے ہمراہ مدینہ سے مکہ اور پھر مکہ سے کربلا آئے۔ قارب پہلے حملے میں شہید ہوئے۔ (سلحشوران طف ترجمہ ابصار العین، سماوی، ص۱۲۲)

منجح بن سهم غلام حسن بن علی علیه السّلام
علامہ سماوی کے مطابق منجح امام حسن ؑ کے غلام تھے، مدینہ سے امام ؑ کے ہمراہ رہے اور بے جگری سے جنگ لڑی۔ حدائق الوردیہ کے مولف کے مطابق حسان بن بکر حنظلی نے منجح کو شہید کیا۔ (حدائق الوردیہ،۱۲۱)

سعد بن حارث غلام علی بن أبی طالب علیه السّلام
سعد امام علی ؑ کے غلام تھے، پھر امام حسن ؑ کی غلامی میں آئے اور آخرکار امام حسین ؑ کے غلام بنے۔ یہ غلام مدینہ سے امام حسین ؑ کے ہمراہ رہے اور کربلا میں پہلے حملے میں شہید ہوئے۔ (سلحشوران طف ترجمہ ابصار العین، سماوی، ص۱۲۳)

نصر بن ابو نیزر، غلام علی بن أبی طالب علیه السّلام
علامہ سماوی کے مطابق ابو نیزر نجاشی کی اولاد سے تھے، انھوں نے رسول اللہ ؐ کا زمانہ دیکھا، پھر امیر المومنین ؑ کے ہمراہ رہے۔ ابو نیزر نے امام علی ؑ سے ایک روایت بھی نقل کی ہے۔ نصر ابو نیزر کے بیٹے تھے، جو مدینہ سے امام حسین ؑ کے ہمراہ رہا اور کربلا میں پہلے حملے میں شہید ہوئے۔

حارث بن نبهان، غلام حمزه بن عبد المطلب علیهما السّلام
اس ہستی کا تذکرہ "کربلا کے شہید، اصحاب رسول ؐ"  میں گزر چکا ہے۔

خدائے سخن میر انیس کے اس کلام کے ہمراہ میں اپنی اس حقیر سی کاوش کو اختتام تک پہنچاتا ہوں اور اردو دان محققین و لکھاریوں کو دعوت دیتا ہوں کہ امام حسین ؑ کے ان اصحاب و انصار کا تعارف جس قدر ممکن ہو، اس کو عام کریں، تاکہ ہم بہتر سے بہتر انداز میں کربلا کو سمجھ سکیں۔
کیا غازیان فوج خدا نام کر گئے
لاکھوں سے تشنہ کام لڑے کام کر گئے
فیض اپنا مثل ابر کرم عام کر گئے
امت کی مغفرت کا سر انجام کر گئے
پڑھتے ہیں سب درود جو ذکر ان کے ہوتے ہیں
ایسے بشر وہ تھے کہ ملک جن کو روتے ہیں


خبر کا کوڈ: 1149495

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1149495/عاشورائی-مقاتل-الطالبین

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com