محرم میں امن اور سفیرانِ امن کا کردار
23 Jul 2024 09:18
اسلام ٹائمز: ماحول میں تبدیلی لانا صرف سرکاری سطح پر ہونیوالے اقدامات سے ممکن نہیں ہے بلکہ اس بڑے ہدف کے حصول کیلئے ادارہ امن و تعلیم جیسے فلاحی اور انسانی جذبوں سے سرشار اداروں سے تعاون لینا ہوگا اور انہیں اپنا دست و بازو بنانا ہوگا۔ کیونکہ اس ادارے کیساتھ مختلف مذاہب اور مسالک کے جتنے لوگ وابستہ ہیں، وہ معاشرے کی نبض بہترین طریقے سے پہچانتے ہیں اور معاشرے میں موجود امراض کیلئے شافی نسخہ جات انہیں لوگوں کے پاس ہیں۔ یہی لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان کی مذہبی و مسلکی فضاء کس طرح پرامن اور پرمحبت رکھی جاسکتی ہے۔ محرم الحرام کی تقریبات کا بغیر سنگینوں کے انعقاد صرف ایسے ہی اداروں کو فعال کرکے کیا جاسکتا ہے۔
تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
izharbukhari5@hotmail.com
پاکستان میں محرم الحرام کی آمد سے پہلے ہی ایک خاص ماحول بنا دیا جاتا ہے اور پاکستانی عوام کے ساتھ دنیا بھر کے لوگوں کو باور کرایا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ امن و امان کے نفاذ کے ذمہ دار ادارے اپنی اپنی منصوبہ بندی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ راستے بند کرنے کے انتظامات ہونے لگتے ہیں۔ نئے ٹریفک پلان جاری کرکے متبادل روٹس اور راستوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ جلوسوں کے راستوں میں آنے والی ہر گلی اور راستے کو بند کیا جاتا ہے، پورے روٹ کو خار دار تاروں سے گھیر لیا جاتا ہے۔ ایک یا دو مقامات پر داخلی راستے رکھے جاتے ہیں، جہاں سے سخت بلکہ اذیت ناک چیکنگ کے بعد لوگ داخل ہوسکتے ہیں۔ جلوسوں اور مجالس کے علاقے سے بہت دور پارکنگ کا بندوبست کیا جاتا ہے، جس کے سبب بوڑھوں، بچوں اور خواتین کو کئی کئی کلومیٹر پیدل چلنے کا عذاب برداشت کرنا پڑتا ہے۔
یہ سب کچھ بظاہر حفاظت اور تحفظ کے مدنظر کیا جاتا ہے، مگر اس میں دیگر پاکستانی شہریوں کے ساتھ ساتھ وہ لوگ پریشانی اور اذیت کا شکار ہو رہے ہوتے ہیں، جن کی حفاظت کے لیے یہ سارا انتظام ہو رہا ہوتا ہے۔ اگر ایسے سخت ترین انتظامات کی وجہ دریافت کی جائے تو کہا جاتا ہے کہ دہشت گردی کے بہت زیادہ خطرات ہیں، مذہبی جنونی دہشت گردوں اور غیر ملکی آلہ کاروں کی طرف سے محرم کی مجالس اور جلوسوں پر حملے کرنے کی دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں، اسی سبب سے ہمیں اتنے سخت اقدامات اٹھانے پڑ رہے ہیں۔ حالانکہ عقل و منطق یہی کہتی اور مانتی ہے کہ مجرم، شرپسند اور دہشت گرد کو روکا جائے، اسے تلاش کیا جائے، اسے گرفت میں لیا جائے اور پھر اسے قانون کے کٹہرے میں لا کر سزا سے دوچار کیا جائے، لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہے کہ حملہ آور کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی بجائے جس پر حملہ ہونے والا ہو، اسے گھیرے میں لے لیا جاتا ہے۔ حملہ آوروں کا خوف دل میں بٹھا کر اور حملہ آوروں کے نام پر مصنوعی دھمکیاں پھیلا کر شہریوں کی زندگی تنگ کر دی جاتی ہے۔
جب یہ صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اسلامی مسالک کے درمیان نفرت پھیلانے والے عناصر فعال ہونے لگتے ہیں اور فرقہ وارانہ فضاء کو نفرت اور عداوت میں بدلنا شروع کر دیتے ہیں۔ سادہ لوح عوام اور مذہبی پیروکار اس منفی پروپیگنڈے کا شکار ہو کر ان عناصر کا ساتھ دینے لگتے ہیں، جس سے امن و امان اور باہمی محبت کا ماحول کشیدہ ہو جاتا ہے۔ حکومتی اور ریاستی سطح پر یہ سارا منظر بنانے کے باوجود امن و امان کی برقراری اور مختلف مذاہب اور مسالک کے درمیان محبت کے فروغ کے لیے سرگرم عناصر اور جماعتیں اپنا کردار ادا کرتی رہتی ہیں۔ اگرچہ سرکاری سطح پر امن کمیٹیاں بھی موجود ہیں، جن کی کسی حد تک نفی نہیں کی جاسکتی، لیکن پھر بھی یہ سرکاری کمیٹیوں کے انداز میں کام کرتی ہیں اور سرکاری کمیٹیوں کے کام کے انداز سے پاکستانی شہری بخوبی واقف ہیں، جبکہ عوام کے اندر رہ کر اور عوام کی براہ راست نمائندگی کے حامل افراد اور شخصیات جب اپنے طور پر امن و امان کے قیام اور محبت و رواداری کے فروغ کے لیے جو کام کرتے ہیں، ان کی حیثیت بہت بلند ہوتی ہے اور ان کے اقدامات بھی بہت موثر ہوتے ہیں۔
پاکستان کی فرقہ وارانہ فضاء کو خوشگوار بنانے اور مذہبی کشیدگی کم کرنے کے لیے اگرچہ بہت سارے اداروں اور جماعتوں کا کردار نمایاں ہے، لیکن ”ادارہ امن و تعلیم پاکستان“ کی خدمات نہ صرف نمایاں بلکہ قابل توجہ اور لائق تحسین ہیں۔ تقریباً گذشتہ بیس سال سے اس ادارے نے پاکستان کے مختلف مسالک کی نمائندگی کرنے والی مذہبی جماعتوں کے عہدیداران کو مختلف تربیتی ورکشاپس میں جمع کرکے تحمل اور رواداری کا راستہ دکھایا اور اپنی توانائیوں کو امن و امان کے قیام، تعلیم کے پھیلاؤ اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال و لحاظ رکھنے کی نہ فقط تکنیک سکھائی بلکہ عملی میدان میں کام کرنے کا حوصلہ بھی عطاء کیا۔ اسی طرح مختلف مسالک کے مدارس میں جا کر اساتذہ اور طلباء کو ایک دوسرے کے خلاف شدت پسندی اختیار نہ کرنے کی ترغیب دی۔ دینی مدارس کے نصاب میں بین المسالک ہم آہنگی کا اہم موضوع شامل کرایا، جس کے مطالعہ کے بعد دینی مدارس کے اساتذہ اور طلباء کے اندر دوسرے مسالک کو سمجھنے اور ان کے عقائد کو برداشت کرنے کی ہمت پیدا ہوئی۔
اس کے نتیجے میں یہ ممکن ہوا کہ ماضی میں باہمی نفرت کا شکار مدارس کے اساتذہ و طلباء مشترکہ محافل میں اکٹھے بیٹھے۔ دن رات اکٹھے ایک ہی ماحول میں گذارے، ایک دوسرے کے ساتھ علمی مباحث کرکے باہمی تفہیم کا ماحول پیدا کیا اور نفرتوں کی سطح بہت نیچے لائے۔ دینی مدارس کے اساتذہ و طلباء کے علاوہ مختلف مسالک کی مساجد کے اماموں اور آئمہ جمعہ و جماعت کو ایک پلیٹ فارم پر بٹھانے کا اعزاز بھی ادارہ امن و تعلیم پاکستان کے حصے میں آتا ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں تمام مسالک کے امام ہائے مساجد کو جمع کیا۔ دس دس روز ایک ہی چھت کے تلے رہنے کا موقع فراہم کیا۔ ان کو قربت دے کر ایک دوسرے کو جاننے کا موقع دیا۔ ہزاروں عوام کو خطبہ جمعہ کے ذریعے قائل کرنے والے اور اپنی مسلکی لائن پر چلانے والے حضرات جب ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے تو سب کو اپنے اپنے گریبان میں جھانکنے کی توفیق ملی اور انہوں نے سوچا کہ ہم کن غلط فہمیوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف عوام کو اکساتے رہے ہیں اور باہم دست و گریبان کراتے رہے ہیں۔ ان مشترکہ محافل کے بعد بلاشبہ پاکستان میں سینکڑوں آئمہ جمعہ اور خطباء نے اپنا رویہ تبدیل کیا اور اپنے خطابات کا رخ امن و ہم آہنگی کی سمت رکھا۔
پاکستان میں یہ کریڈٹ بھی ادارہ امن و تعلیم کو جاتا ہے کہ اس نے جہاں مدارس کے طلباء و اساتذہ، دینی جماعتوں کے عہدیداران و کارکنان اور آئمہ جمعہ و جماعت کو اعتدال و امن کے راستے پر ڈالا، وہاں دینی جرائد سے وابستہ قلمکاروں، دینی مجلات کے لکھاریوں اور مذہبی ماحول میں مسلکی تحریریں لکھنے والوں کو بھی ان کے اصل ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا۔ اس کے لیے پاکستان بھر میں تربیتی ورکشاپس کا انعقاد ہوا۔ صدائے امن کے نام سے درجنوں نہیں بلکہ دینی صحافت سے وابستہ بیسیووں لوگوں کے ذریعے شاندار خدمات انجام دیں۔ چونکہ دینی صحافت سے وابستہ لوگ اپنے مضامین اور اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں کی رائے بھی متعین کرتے ہیں اور لوگوں کے جذبات سے بھی کھیلتے ہیں۔ ماضی میں مذہبی فرقہ واریت کے اسباب میں سے ایک بڑا یہی طبقہ بھی رہا ہے۔ لیکن ادارہ امن و تعلیم نے اسی طبقے کو الگ سے جمع کیا اور انہیں نفرتوں اور مسلکی عداوتوں سے نکال کر امن و محبت اور باہمی ہم آہنگی کے موضوعات پر لکھنے اور شاعری کرنے کی ترغیب دلائی، اس کے نتیجے میں تمام لکھاریوں نے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے بہترین قلمی و تحریری خدمات انجام دیں، جو یقیناً پاکستان کی مذہبی فضاء کو خوشگوار بنانے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔
فقط مسلکی ہم آہنگی نہیں بلکہ مذہبی ہم آہنگی کے وسیع مگر خطرناک موضوع پر بھی ادارہ امن و تعلیم نے لاجواب اور تاریخی کام کیا ہے۔ بالخصوص اسلامی فرقوں کے علماء اور غیر مسلم طبقات کے درمیان تعلقات کا قیام، ان کے درمیان نفرتوں کے خاتمے، ان کے درمیان غلط فہمیوں کے ازالے اور ان کی مذہبی تعلیمات و عقائد کو سمجھنے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کیا۔ مختلف مذاہب کے لوگ پہلے ہوٹلوں میں جمع ہوئے اور محبت بھرے رابطوں کا آغاز ہوا۔ پھر غیر مسلم مذہبی رہنماؤں نے مساجد، مدارس، امام بارگاہوں اور درگاہوں کے دورہ جات کئے اور مختلف تقاریب میں شریک ہوئے۔ اس کے بعد مسلم علماء و اکابرین نے چرچز، کلیساؤں، گردواروں اور مندروں و عبادت خانوں کے دورے کرکے مختلف مذہبی تقاریب میں نہ صرف شرکت کی بلکہ اپنے خطابات کے ذریعے امن و محبت کا پیغام بھی دیا۔
محرم الحرام کے حوالے سے ہم نے بالا سطور میں جس ماحول کا تذکرہ کیا ہے، اس میں تبدیلی لانا صرف سرکاری سطح پر ہونے والے اقدامات سے ممکن نہیں ہے بلکہ اس بڑے ہدف کے حصول کے لیے ادارہ امن و تعلیم جیسے فلاحی اور انسانی جذبوں سے سرشار اداروں سے تعاون لینا ہوگا اور انہیں اپنا دست و بازو بنانا ہوگا۔ کیونکہ اس ادارے کے ساتھ مختلف مذاہب اور مسالک کے جتنے لوگ وابستہ ہیں، وہ معاشرے کی نبض بہترین طریقے سے پہچانتے ہیں اور معاشرے میں موجود امراض کے لیے شافی نسخہ جات انہیں لوگوں کے پاس ہیں۔ یہی لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان کی مذہبی و مسلکی فضاء کس طرح پرامن اور پرمحبت رکھی جاسکتی ہے۔ محرم الحرام کی تقریبات کا بغیر سنگینوں کے انعقاد صرف ایسے ہی اداروں کو فعال کرکے کیا جاسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ: 1149355