QR CodeQR Code

ملٹی پولر سسٹم اور امریکہ

21 Jul 2024 11:26

اسلام ٹائمز: بائیڈن انتظامیہ کے اعلیٰ فوجی اور سکیورٹی حکام نے بارہا چین کو امریکہ کیلئے سب سے اہم جیو پولیٹیکل چیلنج قرار دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ بیجنگ اور ماسکو بین الاقوامی نظام کو آزادانہ نظام کی بنیاد پر تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ روس کو ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ یوکرین میں روس کو جنگ جیتنے سے روکنے کیلئے امریکہ اور اسکے یورپی اتحادیوں کے سامنے روس نے اپنے عزم کا اظہار کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ اسوقت امریکہ کی سب سے اہم تشویش چین کا امریکہ کیساتھ بڑھتا ہوا مقابلہ اور بیجنگ کی دنیا کی پہلی اقتصادی طاقت اور بین الاقوامی کھلاڑی بننے کی فیصلہ کن کوششیں ہیں۔


تحریر: سید رضا میر طاہر
 
امریکہ میں روس کے سفیر اناتولی انتونوف نے کہا ہے کہ مغرب ایک منصفانہ اور زیادہ مستحکم کثیر قطبی (ملٹی پولر) عالمی نظام تشکیل دینے کی کوششوں میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔ انتونوف نے جرمن شلر انسٹی ٹیوٹ کے لیے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ روس اقوام متحدہ کے چارٹر اور ممالک کی خودمختاری کے برابری کے اصول پر مبنی ایک منصفانہ اور زیادہ مستحکم کثیر قطبی نظام بنانے کا حامی ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری اور مختلف ممالک میں استعمار کی باقیات کے خاتمے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ مغربی گروہ اب بھی نہ صرف کثیر قطبی نظام کی کوششوں کے خلاف مزاحمت کرتا ہے بلکہ "طاقت کا کنٹرول" اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور "دوسروں کی قسمت کے مالک" کے طور پر اپنی حیثیت برقرار رکھنے کے لئے کوشاں ہے۔" امریکہ کی قیادت میں نظام پر مبنی ایک نئے ورلڈ آرڈر کی تشکیل کے خلاف مغرب کے منفی نقطہ نظر پر روس کی تنقید ایک نئے ورلڈ آرڈر کی تشکیل کو روکنے میں مغرب کے موقف اور اقدامات کے خلاف ملٹی پولر ورلڈ آرڈر کی تشکیل کا اعلان ہے۔

مارچ 2023ء میں، دوسری چیزوں کے علاوہ، امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کے ڈائریکٹر نے عالمی خطرات کی سالانہ رپورٹ میں نئی ​​طاقتوں، خاص طور پر چین کی جانب سے عالمی نظام کو تبدیل کرنے کی کوششوں پر تشویش کا اظہار کیا، اس سے واشنگٹن کو درپیش سکیورٹی خطرات اور ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے انتباہ کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "عظیم طاقتیں، ابھرتی ہوئی علاقائی طاقتیں اور غیر ریاستی اداکار عالمی نظام پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور وہ ایسی شرائط اور قواعد بنانے کے لیے مقابلہ کریں گے، جو آنے والی دہائیوں کی طاقت کی ترتیب کو تشکیل دیں گے۔" رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے درمیان چین اور روس کے حوالے سے اس بات کا تعین کرنا اہم ہے کہ کس قسم کی دنیا ابھرے گی اور یوکرین میں روس کی کارروائیوں کے درمیان مغرب کا بیانیہ کیا شکل اختیار کرے گا۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جورپ بورل نے فروری 2022ء میں میونخ سکیورٹی کانفرنس میں اپنی تقریر میں، روس اور چین کے خلاف سخت موقف اختیار کیا اور ان دو بین الاقوامی طاقتوں کا مقابلہ کرنے اور مغربی "جمہوری ماڈل" کی حفاظت کا مطالبہ کیا۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے اہلکار نے اس بات پر زور دیا کہ مغرب کو افریقہ، لاطینی امریکہ، جنوب مشرقی ایشیا اور دیگر خطوں میں اپنے "جمہوری ماڈل" کے لیے کوشش کرنی چاہیئے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ روس اور چین ہیں، جو ریاستی جنگوں کے ساتھ 19ویں صدی میں واپس جانا چاہتے ہیں۔ یوکرین اور تائیوان کے تئیں روس و چین کے موقف اور اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے بورل نے دعویٰ کیا کہ یہ دونوں ممالک بین الاقوامی نظام کے خلاف کھڑے ہیں اور دنیا میں لبرل ڈیموکریٹک ماڈل کو کمزور کر رہے ہیں۔

بین الاقوامی میدان میں سرد جنگ کے بعد ہونے والی پیشرفت کی وجہ سے عالمی نظام میں بنیادی تبدیلیوں پر مغرب اور امریکہ کی واضح تشویش اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ نئی بین الاقوامی طاقتوں بالخصوص چین کے ظہور کے ساتھ ساتھ روس کے دوبارہ وجود میں آنے سے عالمی معیشت میں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ایک نیا عالمی نظام تشکیل پاسکتا ہے۔ اس تبدیلی کی علامت عالمی اقتصادی طاقتوں اور علاقائی اقتصادی طاقتوں کے ساتھ ساتھ ابھرتی ہوئی معیشتوں پر مشتمل گروپ آف 20 کی بتدریج تبدیلی ہے، جس کا مطلب مغرب کے معاشی تسلط کا خاتمہ اور عالمی اور علاقائی معاملات میں نئی ​​اقتصادی طاقتوں کا عروج ہے۔ چین اور روس، بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ جیسی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے ساتھ ملکر (جو کہ BRICS گروپ کے رکن ہیں) یک قطبی نظام کی بجائے ایک کثیر قطبی نظام بنانا چاہتے ہیں اور اس کا مطلب ہے بین الاقوامی نظام میں امریکی تسلط کا خاتمہ ہے۔

11 جولائی 2024ء کو، روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے سینٹ پیٹرزبرگ میں برکس کی 10ویں پارلیمانی اسمبلی میں رکن ممالک کے پارلیمانوں کے سربراہوں کی موجودگی میں کہا: "ہم بخوبی سمجھتے ہیں کہ عالمی نظام کی تشکیل، جس میں طاقت کا حقیقی توازن، نئی اقتصادی و جغرافیائی آبادیاتی حقیقتیں شامل ہیں، ایک پیچیدہ عمل ہے۔ پوٹن نے مزید کہا برکس کے ارکان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کی کوششوں کو نام نہاد گولڈن بلین کی حکمران اشرافیہ کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ "گولڈن بلین"، تاریخی منطق کے برعکس حتی اپنے لوگوں کے طویل المدتی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے ہے۔ آج وہ جن نام نہاد اصولوں کے مطابق ایک خاص ترتیب بنانا چاہتے ہیں، انہیں نہ کسی نے دیکھا اور نہ کسی نے اس پربحث کی ہے اور نہ اسے قبول کیا گیا ہے۔ روس کے صدر نے کہا: "اس طرح کے قوانین ہر بار ان لوگوں کے فائدے کے لیے لکھے اور ایڈجسٹ کیے جاتے ہیں، جو خود کو غیر معمولی سمجھتے ہیں اور دوسروں کو اپنی مرضی کا حکم دینے کا حق رکھتے ہیں۔"

 انہوں نے اس نقطہ نظر کو کلاسیکی نوآبادیات سے تعبیر کیا اور اسے بین الاقوامی قوانین سے بدلنے کی ایک تباہ کن کوشش قرار دیا۔ پیوٹن نے کہا: "بین الاقوامی قانون کے اصولوں کے برعکس، وہ طاقت کا استعمال، یکطرفہ پابندیاں، تجارتی قوانین کا انتخابی اطلاق اور بین الاقوامی میدان میں ممالک کے سلسلے میں بلیک میلنگ کرتے ہیں۔ جن ممالک کو آج بشتز ابھرتی ہوئی معیشتوں سے تعبیر کیا جا رہا ہے، ان میں چین، بھارت، برازیل، جنوبی افریقہ اور روس کے ساتھ ساتھ، ایران اور وینزویلا کا نام بھی شامل ہے۔ یہ نیا سلسلہ اور بین الاقوامی ترقی اور عالمی نظام مین تبدیلی ایسی حقیقتیں ہیں، جو کثیر قطبی نظام کے لیے مثبت ہیں۔ مغرب کی قیادت امریکہ کر رہا ہے، وہ اب بھی یکطرفہ نظام کو برقرار رکھنے اور عالمی پولیس کا کردار ادا کرنے پر اصرار کرکے اپنے مقاصد اور مطالبات کی پیروی کرتا ہے۔

ان ابھرتی ہوئی طاقتوں کے بڑھتے ہوئے تعاون اور شراکت کو امریکہ کی قیادت کے خلاف مغربی بلاک کے منفی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ امریکہ جو ان ممالک بالخصوص چین اور روس کے علاقائی اور بین الاقوامی اثر و رسوخ میں مسلسل اضافے سے پریشان ہے، ان دو مشرقی طاقتوں کی دھمکی آمیز تصویر پیش کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔ جسے مختصراً چینو فوبیا اور روسو فوبیا کہا جا سکتا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے اعلیٰ فوجی اور سکیورٹی حکام نے بارہا چین کو امریکہ کے لیے سب سے اہم جیو پولیٹیکل چیلنج قرار دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ بیجنگ اور ماسکو بین الاقوامی نظام کو آزادانہ نظام کی بنیاد پر تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ روس کو ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ یوکرین میں روس کو جنگ جیتنے سے روکنے کے لیے امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کے سامنے روس نے اپنے عزم کا اظہار کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس وقت امریکہ کی سب سے اہم تشویش چین کا امریکہ کے ساتھ بڑھتا ہوا مقابلہ اور بیجنگ کی دنیا کی پہلی اقتصادی طاقت اور بین الاقوامی کھلاڑی بننے کی فیصلہ کن کوششیں ہیں۔


خبر کا کوڈ: 1149003

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1149003/ملٹی-پولر-سسٹم-اور-امریکہ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com