QR CodeQR Code

انصار الحسین علیہ السلام (2)

19 Jul 2024 12:01

اسلام ٹائمز: سعید کوفہ کے باسی تھے اور امام حسین ؑ کو خط لکھنے والے افراد میں سے ایک تھے۔ شب عاشور جب امام نے لوگوں کو جانے کی اجازت دی تو سعید بن عبداللہ کھڑے ہوگئے اور کہا اگر ستر مرتبہ بھی قتل ہوں تو آپ کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا۔ سعید نماز ظہر کے وقت امام ؑ کے سامنے کھڑے ہوگئے اور تیروں کو اپنے سینے پر لیتے رہے، تاکہ کوئی تیر امام ؑ تک نہ پہنچے۔ سعید جب زخموں سے چور زمین پر گرے تو رخ امام کی جانب کیا اور بولے، کیا میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے تو امام نے جواب دیا: ہاں تو جنت میں مجھ سے پہلے داخل ہوگا۔


تحریر: سید اسد عباس

اثر جائسی نے انصاران امام حسین علیہ السلام کے بارے میں کیا خوب لکھا:
کربلا کے تھے مجاہد دہر میں کیا بے بدل
کہا کہوں کس شان کا تھا وہ حسینی کارواں
تاقیامت ہوگئی ان کی وفا ضرب المثل
آج تک لہرا رہا ہے ہر جگہ اس کا نشاں

راقم نے اپنی گذشتہ دو تحریریوں بعنوان " کربلا کے شہید، اصحاب رسول ؐ" اور "انصار الحسین ؑ " میں امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کے حوالے سے گذارشات قلمبند کیں، یہ اس سلسلے کی تیسری تحریر ہے۔ کربلا کے شہید اصحاب رسول ؐ میں ان ساتھیوں کا ذکر کیا گیا، جن کو صحبت رسول ؐ کا شرف حاصل ہوا۔ اسی طرح انصار الحسین کی پہلی قسط میں ہم نے قبیلہ بنی اسد، بنی مذحج اور بنی ہمدان کے شہداء کا تذکرہ کیا۔ دیگر قبائل کے شہداء کا ذکر حسب ذیل ہے:

انصاری شہداء
یہ وہ شہداء ہیں، جن کا تعلق انصار یعنی بنی خزرج سے تھا۔

عمرو بن قرظه انصاری
علامہ سماوی نے ان کا شجرہ نسب یوں تحریر کیا ہے: عمرو بن قرظه بن کعب بن عمرو بن عائذ بن زید مناه بن ثعلبه بن کعب بن خزرج انصاری خزرجی کوفی۔عمرو اصحاب امیر المومنین ؑ میں سے تھے، عمر سعد سے ہونے والی گفتگو کے لیے امام ؑ عمرو کو ہی بھیجتے تھے۔ آپ نے کربلا میں جو رجز پڑھا یوں ہے:
قد علمت کتائب الأنصارأنّی سأحمی حوزه الذمار
فعل غلام غیر نکس شاردون حسین مهجتی و داری

"انصاری لشکر جانتا ہے کہ میں اس خاندان کا دفاع ایک بلند آہنگ اور سربلند جوان کی مانند کروں گا، میری جان مال اور زندگی امام حسین پر فدا ہو۔(سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:195)

عبدالرحمن بن عبد ربّ انصاری خزرجی
اس جانثار صحابی رسول ؐ کا تذکرہ "کربلا کے شہید، اصحاب رسول ؐ" میں گزر چکا۔

نعیم بن عجلان انصاری خزرجی
ان کا تذکرہ بھی " کربلا کے شہید ، اصحاب رسول ؐ" میں ہوچکا ہے۔

جنادہ بن کعب حارث انصاری
اس ہستی کا تذکرہ "کربلا کے شہید، اصحاب رسول ؐ" میں گزر چکا۔

عمر بن جناده بن کعب بن حارث انصاری خزرجی
یہ نوجوان اپنے والدین کے ہمراہ کربلا آیا، والد کی شہادت کے بعد ماں کی فرمائش پر اذن جہاد کے لیے آیا، امام ؑ نے اسے منع کر دیا، دوسری مرتبہ اذن شہادت ملا۔ اس نوجوان کی شہادت کے بعد دشمن نے اس کا سر خیام کی جانب پھینکا، عمر بن جنادہ کی والدہ نے سر اٹھایا اور ایک دشمن سپاہی کو دے مارا۔ یہ خاتون خیمے کا ایک ستون پکڑ کر میدان جنگ کی جانب گئیں،، مگر امام حسین ؑ نے واپس بلوا لیا۔(مقتل مقرم :۲۵۳)

سعد بن حرث انصاری عجلانی اور انکے بھائی ابو الحتوف
علامہ سماوی کے مطابق یہ دونوں بھائی لشکر عمر سعد میں تھے، جس وقت امام حسین ؑ نے استغاثہ بلند کیا تو انھوں نے لشکر عمر سعد پر حملہ کر دیا اور شہید ہوگئے۔ (سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:199) حدائق الوردیہ کے مولف کے مطابق یہ تین افراد تھے۔

بجلی و خثعمی شہداء
بجلی ایک یمنی قبیلہ ہے، ان کی ایک شخصیت جریر کا شجرہ نسب حسب ذیل ہے: جریر بن عبد اللہ بن جابر بن مالک بن نضر بن ثعلبہ بن جشم بن عوف بن خزیمہ بن حرب بن علی بن مالک بن سعد بن نذریر قسر بن عبقر بن انمار بن اراش بن عمرو بن غوث بجلی۔خثعمی انماری اور بجلی قبیلے کی ایک شاخ ہے۔

زهیر بن قین بن قیس أنماری بجلی
زہیر حضرت عثمان خلیفہ سوم کے ساتھیوں میں سے ایک بہادر جنگجو تھے۔ 60 ہجری میں اپنی زوجہ کے ہمراہ حج کیا اور راستے میں امام حسین ؑ کے ہمراہ ہوگئے۔ ابو مخنف کہتے ہیں کہ یہ پورے راستے جان بوجھ کر امام حسین ؑ کے کاروان سے دور رہتے تھے۔ ابو مخنف زہیر کی زوجہ دلہم سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے اسے کہا کہ فرزند رسول ؐ تمھیں بلاتے ہیں اور تم نہیں جاتے، جاؤ ان کی بات سنو، واپس آجانا۔ زہیر بن قین کا تفصیلی واقعہ کتب تاریخ میں موجود ہے، جسے طوالت کے خوف سے یہاں نقل نہیں کر رہا۔ زہیر نے شب عاشور کہا کہ اگر مجھے ہزار مرتبہ آپ کی راہ میں قتل کیا جائے تو میں اس کے لیے آمادہ ہوں، مگر آپ سے دور نہیں ہوں گا۔ زہیر نے میدان کربلا میں یہ رجز پڑھا:
أنا زهیر و أنا ابن القین أذودکم بالسیف عن حسین
میں زہیر ہوں، قین کا فرزند اور اپنی تلوار سے تم کو حسین ؑ سے دور رکھوں گا۔(تاریخ طبری، ج ۳ ، ص۳۲۸)

سلمان بن مضارب بن قیس أنماری بجلی
سلمان، زہیر ابن قین کے حقیقی چچا زاد بھائی تھے، صاحب حدائق کے مطابق سلمان نماز ظہر کے قریب شہید ہوئے۔

سوید بن عمرو بن ابو المطاع انماری خثعمی
طبری کے مطابق سوید بزرگ، نماز گزار اور بہادر شخصیت تھے۔ سوید جب زخمی ہوگئے تو دشمن نے سمجھا کہ مارے گئے ہیں۔ سوید نے جب یہ صدا سنی کہ امام حسین ؑ کو قتل کر دیا گیا تو دوبارہ کھڑے ہوئے اور چاقو سے دشمن پر حملہ کیا اور شہید کر دیئے گئے۔ (لهوف: 165؛ مناقب: 4/ 102)

عبداللّه بن بشر خثعمی
علامہ سماوی کے مطابق ان کا شجرہ نسب حسب ذیل ہے: عبداللّه بن بشر بن ربیعه بن عمرو بن مناره بن قمیر بن عامر بن رائسه بن مالک بن واهب بن جلیحه بن کلب بن ربیعه بن عفوس بن خلف بن أقبل بن انمار انماری خثعمی (سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:211) عبد اللہ عمر سعد کے لشکر میں تھے، جنگ کے آغاز سے قبل امام کے لشکر میں شامل ہوگئے اور ظہر سے پہلے والے شہداء میں سے ایک تھے۔

کندی شہداء
کندہ ایک قدیم عرب قبیلہ ہے، جس کا ذکر دوسری صدی قبل مسیح کی المسند السبئيہ نصوص میں کیا گیا ہے۔ اس قبیلے کو تاریخ کی کتابوں میں "کندہ الملوک" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تجارت کے راستے کو محفوظ بنانے کے لیے نجد میں مملکت کندہ بادشاہی کا قیام عمل میں آیا۔ انھوں نے ساتویں صدی عیسوی میں اسلام قبول کیا اور وہ ان لوگوں میں سے تھے، جو عام الوفود (وفود کے سال) پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آئے۔

یزید بن زیاد بن مهاصر، ابو شعثاء کندی بهدلی
علامہ سماوی لکھتے ہیں کہ یزید بن زیاد الکندی قابل احترام، بہادر مرد تھے اور حر کے کاروان امام حسین ؑ کو روکنے سے قبل کوفہ سے امام حسین ؑ سے آن ملے۔ امام حسین ؑ نے یزید بن زیاد کندی کے لیے دعا کی کہ اے خدایا! اس کے تیروں کو ہدف تک پہنچا اور اس کے عوض اسے جنت کا ثواب عطا فرما۔ تیر ختم ہوئے تو ابو شعثا نے یہ رجز پڑھ کر دشمن پر حملہ کیا:
أنا یزید و أبی مهاصرکأننی لیث بغیل خادر
یا ربّ إنّی للحسین ناصرو لا بن سعد تارک و هاجر

میں یزید ہوں اور میرا باپ مھاصر ہے، میں کچھار میں بیٹھا شیر سے زیادہ بہادر ہوں، اے پروردگار میں حسین کا مددگار ہوں اور ابن سعد کو ترک کرنے والا اور اسے چھوڑنے والا ہوں۔ (تاریخ طبری، جلد ۳، ص۳۰۹)

حارث بن امرئ القیس کندی
حارث عمر سعد کے لشکر کے ہمراہ میدان کربلا میں آیا، تاہم جب لشکر عمر سعد نے امام حسین ؑ کی باتوں کو نہ سنا تو حارث لشکر کو چھوڑ کر امام کی جانب آگئے اور پہلے حملے میں شہید ہوئے۔ (سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:214)

زاهر بن عمرو کندی
زاہر معروف محب اہل بیت ؑ تھے، 60 ہجری میں حج کیا اور امام حسین ؑ کے کاروان میں شامل ہوگئے۔ زاہر پہلے حملے میں شہید ہوئے۔

بشر بن عمرو بن احدوث حضرمی کندی
بشر حضر موت کے باسی تھے اور قبیلہ کندہ سے تعلق رکھتے تھے۔ بشر بھی جنگ کے آغاز سے قبل امام حسین ؑ کی خدمت میں پہنچے۔ بشر کو دوران جنگ اطلاع ملی کہ ان کا فرزند ری کی سرحد پر پکڑا گیا ہے۔ امام حسین ؑ نے بشر سے کہا: رحمک اللّه أنت فی حلّ من بیعتی، فاذهب و اعمل فی فکاک ابنک "بشر اللہ تجھ پر رحم کرے، جاؤ تم سے اپنی بیعت اٹھا لی، اپنے فرزند کی آزادی کے لیے اقدام کرو" بشر نے جواب دیا، مولا اگر آپ کو چھوڑ کر جاؤں تو بیابان کے درندے مجھے زندہ چیر پھاڑ کھائیں۔ (سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:215)

جندب بن حجیر کندی خولانی
اس شہید کا تذکرہ "کربلا کے شہید، اصحاب رسول ؐ"میں گزر چکا۔

غفاری شہداء
یہ حضرت ابو ذر غفاری صحابی رسول ؐ و امیر المومنین کا قبیلہ ہے، جن کا  شجرہ نسب حسب ذیل ہے: جندب بن جنادہ ابن قیس بن عمرو بن ملیل بن صعیر بن حزام بن غفار بن ملیل بن حمزہ بکر بن عبد مناۃ بن کنانہ بن خزیمہ بن مدر کہ غفاری۔

عبداللّه بن عروه بن حرّاق غفاری اور ان کے بھائی عبدالرحمن
علامہ سماوی کے مطابق حراق امیر المومنین علی علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے، جنھوں نے جنگ صفین، نہروان اور جمل میں شرکت کی۔ ان دونوں بھائیوں نے امام حسین ؑ سے گزارش کی کہ ہمیں اپنے قریب رہ کر جنگ کرنے کا موقع دیں، تاکہ آپ کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوں۔ امام نے قبول کیا اور کہا: مرحبا بکما أدنوا منّی (مرحبا آؤ دونوں میرے پاس آجاؤ)۔ ایک بھائی رجز پڑھتا، دوسرا اسے مکمل کرتا تھا:
قد علمت حقّا بنو غفّارو خندف بعد بنی نزار
لنضربنّ معشر الفجّاربکلّ عضب صارم بتّار
یا قوم ذودوا عن بنی الأطهار
بالمشرفیّ و القنا الخطّار

بنو غفار کی شاخ خندف اور بنی نزار بخوبی جانتی ہے کہ ہم اپنی تیز دھار شمشیر سے کافروں اور فاجروں پر ضربیں لگاتے ہیں، اے لوگو اپنی تلواروں اور نیزوں سے پاک نبی کی اولاد کا دفاع کرو۔ (سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:219)

جون بن حوی، غلام آزاد شده ابوذر غفاری
ان کا تذکرہ اگرچہ "کربلا کے شہید، اصحاب رسول ؐ" میں گزر چکا ہے، تاہم علامہ سماوی نے ان کے بارے لکھا کہ امام حسین ؑ نے انھیں جنگ سے قبل کہا کہ میں اپنی بیعت آپ پر سے اٹھاتا ہوں، آپ چلے جائیں۔ جون قدموں میں گر گیا اور کہا میرا بدن بدبو دار اور خاندان نامعلوم ہے، لیکن میں آپ سے گذارش کرتا ہوں کہ جنت میں میرا بدن خوشبودار، رنگت سفید اور خاندان سرفراز ہو، میں اس وقت تک آپ کو نہیں چھوڑوں گا، جب تک اپنا خون آپ پر بہا نہ دوں۔ (سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:220)

کلبی شہداء
بنو کلب ایک عرب قبیلہ ہے، جو بنیادی طور پر شمال مغربی عرب اور وسطی شام کے صحرا اور میدان میں رہتا تھا۔ یہ بازنطینی سلطنت کے مشرقی سرحدوں کی قبائلی سیاست میں شامل تھا۔ کلبی قبیلہ زیادہ تر عیسائی تھا۔ رسول اکرم ؐ کے چند قریبی ساتھی کلبی تھے، جن میں سب سے نمایاں طور پر زید بن حارثہ اور دحیہ تھے۔ رسول اکرم ؐ کی وفات تک قبیلہ عیسائی ہی رہا۔

عبداللّه بن عمیر کلبی
علامہ سماوی نے ان کا شجرہ نسب حسب ذیل بیان کیا ہے: "ابو وهب عبد اللّه بن عمیر بن عباس بن عبد قیس بن علیم  بن جناب کلبی علیمی" عبد اللہ ایک بہادر انسان تھے، کوفہ میں بنی ہمدان کے علاقے میں رہائش پذیر تھے۔ جب عبداللہ نے کوفہ سے لوگوں کو نکلتے دیکھا تو پوچھا کہ یہ کہاں جا رہے ہیں۔؟ جواب ملا یہ لوگ امام حسین ؑ فرزند فاطمہ بنت رسول اللہ ؐ کی مدد کے لیے جا رہے ہیں۔ عبداللہ کلبی نے کہا کہ میری شدید خواہش تھی کہ کفار سے جنگ کروں، فرزند رسولؐ کے دشمنوں سے جنگ کرنا کفار سے جنگ کرنے سے کم نہیں۔ عبداللہ اپنی زوجہ کے ہمراہ خدمت امام میں پہنچے اور شہدائے کربلا میں شامل ہوئے۔

عبد الاعلی بن یزید کلبی علیمی
یہ بھی کلبی قبیلہ سے تھے اور کوفہ کے شیعوں میں سے تھے۔ حضرت مسلم بن عقیل کے ہمراہ قیام کیا اور گرفتار ہوئے، ابن زیاد نے بلایا اور کہا کہ قسم کھاؤ کہ مسلم کے ساتھی نہیں ہو۔ عبد الاعلی نے قسم نہ کھائی، مقبرہ سبیع کے مقام پر انھیں شہید کر دیا گیا۔ (تاریخ طبری ج ۳ ص ۲۹۲)

سالم بن عمرو، غلام بنی مدینه کلبی
یہ بنی مدینہ کلبی کے غلام تھے، جنگ سے قبل امام علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور شہید ہوئے۔ زیارت ناحیہ میں آپ پر درود بھیجا گیا ہے۔

ازدی شہداء
قبیلہ الازد کو الاسد اور الذعر بھی کہا گیا، جس کی نسبت" الأزد بن نبت بن مالك بن زيد بن كهلان" کی طرف کی جاتی ہے۔ سدیمن کے ایک قبیلہ کے مورث اعلیٰ کا نام ہے اور یہ قبیلہ اسی کے نام سے مشہور و متعارف ہوا، اسی قبیلہ کو "ازد" اور "ازد شنوہ" بھی کہا جاتا ہے، تمام انصار مدینہ اسی قبیلہ سے نسلی تعلق رکھتے تھے۔

مسلم بن کثیر اعرج ازدی کوفی
اس بزرگوار کا تذکرہ "کربلا کے شہید، اصحاب رسول ؐ"  میں گزر چکا ہے۔

رافع بن عبداللّه، غلام مسلم ازدی
رافع مسلم یا اسلم بن کثیر کے غلام تھے اور اپنے آقا کے ہمراہ کربلا پہنچے (تنقیح المقال: ۱/ ۴۲۲)

قاسم بن حبیب بن ابو بشر ازدی
علامہ سماوی کی تحقیق کے مطابق قاسم لشکر عمر سعد کے ہمراہ کوفہ سے کربلا آئے اور جنگ سے قبل امام حسین ؑ سے پیوست ہوگئے اور پہلے حملے میں شہید ہوئے۔ (سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:۲۳۱)

زهیر بن سلیم ازدی
علامہ سماوی کی تحقیق کے مطابق زہیر بن سلیم ازدی دس محرم کی رات امام حسین ؑ کے لشکر میں شریک ہوئے۔ زہیر لشکر امام حسین ؑ پر ہونے والے پہلے حملے میں شہید ہوگئے۔ (حدائق الوردیه: ۱۲۲)

نعمان بن عمرو ازدی راسبی اور انکے بھائی حلاس ازدی
یہ دونوں بھائی کوفہ میں امیر المومنین ؑ کے اصحاب میں سے تھے، حلاس امام ؑ کی نگہبانی کے فرائض انجام دیتے تھے۔ صاحب حدائق کے مطابق یہ دونوں بھائی لشکر عمر سعد کے ہمراہ کوفہ سے نکلے، تاہم جب عمر سعد نے امام ؑ کی شرائط کو قبول نہ کیا تو یہ دونوں امام ؑ کی خدمت میں پہنچ گئے۔ یہ دونوں بھائی لشکر امام پر پہلے حملے میں شہید ہوئے۔ (سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:۲۳۱)

عماره بن صلخب ازدی
عمارہ نے حضرت مسلم بن عقیل کی بیعت کی اور ان کے ہمراہ قیام کیا، دوران قیام گرفتار ہوئے اور ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا۔ ابن زیاد نے پوچھا کس قبیلے سے ہو تو عمارہ نے جواب دیا ازد، ابن زیاد نے حکم دیا کہ اسے اس کے قبیلے والوں کے سامنے لے جا کر قتل کر دو۔ عمارہ واقعہ کربلا سے قبل شہید ہوئے۔ (طبری، ج۳، ص۲۹۲)

عبدی شہداء
یہ قبیلہ عبد قیس کے عنوان سے معروف ہے، بصرہ کے رہنے والے تھے۔

یزید بن ثبیط عبدی، عبد قیس بصری و پسرانش عبداللّه و عبیداللّه
یزید کے دس فرزند تھے، یہ لوگ ایک مومنہ ماریہ بنت منقذ عبدی کے گھر جمع ہوتے تھے، جب ان کو علم ہوا کہ امام حسین ؑ عراق کی جانب سفر کر رہے ہیں تو یزید بن ثبیط نے اپنے فرزندوں سے پوچھا کہ کون کون اس سفر میں میرے ہمراہ جانے کے لیے آمادہ ہے۔ دو بیٹے چلنے کے لیے آمادہ ہوئے، باقی لوگ ابن زیاد کی پہروں سے خوفزدہ ہو کر بصرہ میں رک گئے۔ (سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:۲۳۲)

عامر بن مسلم عبدی بصری اور غلام سالم
عامر یزید بن ثبیط عبدی کے ہمراہ بصرہ سے نکلے اور امام کی خدمت میں پہنچے۔ عامر اور ان کے غلام سالم کربلا میں ہونے والے پہلے حملے میں شہید ہوئے۔ (سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:۲۳۵)

سیف بن مالک عبدی بصری
سیف بھی اسی گروہ میں شامل تھے، ماریہ بنت منقذ عبدی کے گھر جمع ہوا کرتے تھے۔ یہ اسی گروہ میں شامل تھے، جو بصرہ سے کربلا کی جانب گیا۔ سیف نماز ظہر کے حملے میں شہید ہوئے۔ (سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:۲۳۵)

ادهم بن امیّه عبدی بصری
اس ہستی کا تذکرہ  "کربلا کے شہید، اصحاب رسول ؐ" میں گزر چکا ہے۔

تیمی شہداء
بنو تیم قریش کی ایک شاخ ہے، ان کا شجرہ نسب حضرت مرۃ سے رسول اکرم ؐ سے مشترک ہو جاتا ہے۔ ان کا شجرہ نسب حسب ذیل ہے: "تیم بن مرة بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر بن مالک بن النضربن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مدر بن نزار بن معاد بن عدنان۔۔۔ اسماعیل بن ابراہیم علیھم السلام"

جابر بن حجّاج، غلام عامر بن نهشل تیمی تیم اللّه بن ثعلبه
علامہ سماوی کی تحقیق کے مطابق جابر کربلا میں امام حسین ؑ کے ہمراہ تھے اور پہلے حملے میں شہید ہوئے۔ (حدائق الوردیہ :۱۲۲)

مسعود بن حجّاج تیمی تیم اللّه بن ثعلبه و پسرش عبد الرحمن
مسعود اور ان کے فرزند دلاور اور جنگجو معروف تھے۔ علامہ سماوی کی تحقیق کے مطابق یہ دونوں افراد عمر سعد کے لشکر کے ہمراہ کربلا پہنچے اور بعد میں امام حسین ؑ کی خدمت میں پہنچے اور انہی کی معیت میں جام شہادت نوش کیا۔ یہ دونوں پہلے حملے میں شہید ہوئے۔ (سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:۲۳۶)

بکر بن حیّ بن تیم اللّه بن ثعلبه تیمی
اس جانثار امام کا تذکرہ "کربلا کے شہید، اصحاب رسول ؐ" میں گزر چکا ہے۔

جوین بن مالک بن قیس بن ثعلبه تیمی
علامہ سماوی کے مطابق جوین بھی لشکر عمر سعد کے ہمراہ کوفہ سے کربلا آئے، تاہم جب امام حسین ؑ کی شرائط کو قبول نہ کیا گیا تو یہ ایک جماعت کے ہمراہ لشکر امام حسین ؑ میں شامل ہوگئے اور مولا کے قدموں میں جان نچھاور کی۔ جوین پہلے حملے میں شہید ہوئے۔ (سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:۲۳۷)
 
 عمر بن ضبیعه بن قیس بن ثعلبه ضبعی تیمی
علامہ سماوی کے مطابق یہ بھی لشکر عمر سعد کے ہمراہ کربلا آئے اور شرائط امام قبول نہ ہونے پر الگ ہونے والی جماعت میں سے تھے۔ امام حسین ؑ کی طرف سے جنگ لڑتے ہوئے شہادت کا جام پیا۔ (سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:۲۳۷)

حبّاب بن عامر بن کعب بن تیم اللات بن ثعلبه تیمی
علامہ سماوی کی تحقیق کے مطابق انھوں نے حضرت مسلم بن عقیل کی بیعت کی، اہل کوفہ کی خیانت کے بعد یہ عازم کربلا ہوئے اور امام علیہ السلام کی خدمت میں جام شہادت نوش کیا۔ (سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:۲۳۹)

بنی طے کے شہداء
یمن کے عربوں کا ایک قبیلہ۔ حاتم طائی اسی قبیلے کا سردار تھا۔ فتح مکہ کے بعد جنگ حنین میں اس قبیلے کے لوگ بھی مسلمانوں کے خلاف نکلے تھے۔ شکست کے بعد ان کے کئی سردار گرفتار ہو کر حضور (ص) کے سامنے پیش ہوئے۔ ان میں حاتم طائی کا بیٹا عدی اور بیٹی بھی شامل تھے۔ حضور نے حاتم کی سخاوت کے پیش نظر ان سے بہت اچھا سلوک کیا۔ 9 ہجری میں اس قبیلے نے اسلام قبول کر لیا۔

عمار بن حسان طایی
علامہ سماوی ان کا شجرہ یوں درج فرماتے ہیں: "عمّار بن حسّان بن شریح بن سعد بن حارثه بن لام بن عمرو بن ظریف بن عمرو بن ثمامه بن ذهل بن جذعان بن سعد بن طیّ طایی" عمار ایک مخلص شیعہ اور بہادر انسان تھے، ان کے والد حسان امام علی ؑ کے ساتھیوں میں سے تھے۔ حسان جنگ صفین میں شہید ہوئے، عمار مکہ سے امام حسین ؑ کے ہمراہ آئے۔ عمار کربلا کے پہلے حملے میں شہید ہوئے۔ (سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:۲۴۰)

امیّه بن سعد طایی
امیہ امیر المومنین ؑ کے ساتھیوں اور تابعین میں سے تھے۔ کربلا کی جنگ کے آغاز سے قبل امام حسین ؑ کی خدمت میں پہنچے اور پہلے حملے میں شہید ہوئے۔ (سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:۲۴۰)

تغلبی شہداء
بنو تغلب نجد کا ایک قبیلہ ہے۔ ان کا ایک وفد 8 ھ میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا، اس میں بنو تغلب کے 16 افراد موجود تھے، جن میں کچھ مسلمان اور کچھ نصاریٰ تھے، نصاریٰ نے سونے کی صلیبیں پہن رکھی تھیں۔ یہ لوگ رملہ بن الحارث کے مکان پر اترے۔ رسول اللہ نے عیسائیوں سے اس شرط پر صلح کرلی کہ وہ نصرانیت پر قائم رہیں گے اور یہ لوگ اپنی اولادوں کو نصرانیت میں رنگین نہیں کریں گے۔ ان میں سے مسلمانوں کو ہدیہ و تحائف دیکر رخصت کیا گیا۔

ضرغامه بن مالک تغلبی
ضرغامہ اپنے نام کی مانند شیر تھے۔ مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر امام کی بیعت کی، جب مسلم تنہا رہ گئے تو لشکر سعد کے ہمراہ کوفہ سے نکلے اور امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں پہنچ گئے۔ نماز ظہر کے بعد دو بدو لڑائی میں امام حسین ؑ کے ہمراہ شہید ہوئے۔ (سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:۲۴۲)

کنانہ بن عتیق تغلبی
علامہ سماوی کے مطابق کنانہ کا شمار کوفہ کے قاریوں میں ہوتا تھا۔ آپ کربلا میں امام حسین ؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر پہلے حملے میں شہادت سے سرفراز ہوئے۔ (سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:۲۴۲)

قاسط بن زهیر بن حارث تغلبی اور ان کے بھائی کردوس و مقسط
علامہ سماوی کی تحقیق کے مطابق یہ تینوں بزرگ ہستیاں امیر المومنین کے ساتھیوں میں سے تھیں، کربلا میں امام حسین ؑ کی خدمت میں پہنچے اور پہلے حملے میں شہید ہوئے۔ (سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:۲۴۳)

جھنی شہداء
علامہ سماوی کے مطابق مدینہ منورہ کے اطراف میں خطہ جھنیہ کے باسیوں کو جھنی کہا جاتا ہے۔

مجمّع بن زیاد بن عمرو جهنی
اس جانثار امام کا تذکرہ "کربلا کے شہید، اصحاب رسول ؐ" میں گزر چکا ہے۔

عبّاد بن مهاجر بن ابو مهاجر جهنی
علامہ سماوی لکھتے ہیں کہ صاحب حدائق کے مطابق عباد جھنیہ کے علاقے سے ہی امام کے ہمراہ تھے اور کربلا میں شہید ہوئے۔ (حدائق الوردیہ ، ص ۱۲۲)

عقبه بن صلت جهنی
علامہ سماوی کے مطابق صاحب حدائق نے ان کو بھی شہدائے کربلا میں سے لکھا ہے۔ یہ بھی خطہ جھنیہ سے امام حسین ؑ کے ہمراہ تھے اور تادم آخر تنہا نہ چھوڑا۔ (حدائق الوردیہ؛ تسمیۃ من قتل مع الحسین، ص ۱۵۵)

تمیمی شہداء
عرب کا ایک مشہور قبیلہ جس کی کئی شاخیں تھیں۔ اس قبیلے کے لوگ نجد کے علاوہ بصرہ اور یمامہ تک پھیلے ہوئے ہیں۔ بنو تمیم بھی بنو عدنان ہیں، ان کا شجرہ نسب حسب ذیل ہیں: "تمیم بن مر بن عد بن طابخہ بن الیاس بن مدر بن نزر بن معد بن عدنان۔۔۔۔ اسماعیل بن ابراہیم علیہ السلام" رسول اکرم ؐ اور امیر المومنین ؑ بنو تمیم سے خصوصی محبت کا اظہار کرتے تھے۔ ان کے بارے حدیث بھی ہے کہ یہ لوگ دجال کے مقابل سب سے سخت قیام کریں گے۔

حر بن یزید ریاحی
علامہ سماوی نے جمھرۃ الانساب سے ان کا شجرہ یوں نقل کیا ہے: "حرّ بن یزید بن ناجیه بن قعنب بن عتّاب [الردف] بن هرمّی بن ریاح بن یربوع بن حنظله بن مالک بن زید مناه بن تمیم تمیمی یربوعی ریاحی" حر کہتے ہیں کہ جب میں جنگ کے لیے نکلا تو مجھے آواز آئی کہ تجھے جنت کی بشارت ہے، حر کہتا ہے کہ میں حیران ہوا کہ میں حسین ؑ سے جنگ کرنے جا رہا ہوں اور مجھے جنت کی بشارت۔ یہی بات حر نے امام حسین ؑ سے کی تو امام نے جواب دیا۔ لقد اصبت اجرا خیرا "تو نے اپنی نیکیوں کا اجر پایا ہے" علامہ سماوی نے اپنی کتاب "ابصار العین میں حضرت حر کا تذکرہ تفصیل سے کیا ہے۔ طوالت کے خوف سے پورا تذکرہ نقل نہیں کر رہا۔ بہرحال حر امام سے یہی کہتا رہا کہ میں آپ سے جنگ کے لیے نہیں آیا، میرا حکم آپ کے ہمراہ رہنا ہے، میں آپ کی اقتداء میں نماز پڑھوں گا۔ عمر سعد کے لشکر کے آنے کے بعد حر لشکر امام سے پیوست ہوگئے۔

حجاج بن بدر تمیمی سعدی
یہ بصرہ میں بنی تمیم کی شاخ سے تھے۔ صاحب حدائق کے مطابق یہ بعد ظہر دو بدو جنگ میں شہید ہوئے جبکہ باقی مورخین کے مطابق یہ پہلے حملے میں شہید ہوئے۔ (سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:۲۶۱)

متفرق شہید
جبله بن علی شیبانی
جبلہ کوفہ میں تھے، سفیر امام کے ہاتھ پر بیعت کی اور اس کے بعد امام ؑ کی خدمت میں پہنچے اور شہادت کے منصب پر فائز ہوئے۔

قعنب بن عمر نمری
قعنب حجاج سعدی کے ہمراہ بصرہ سے کربلا آئے اور شہدائے کربلا میں سے ہونے کی سعادت پائی۔ زیارت ناحیہ میں آپ کا تذکرہ موجود ہے۔

سعید بن عبداللہ حنفی
سعید کوفہ کے باسی تھے اور امام حسین ؑ کو خط لکھنے والے افراد میں سے ایک تھے۔ شب عاشور جب امام نے لوگوں کو جانے کی اجازت دی تو سعید بن عبداللہ کھڑے ہوگئے اور کہا اگر ستر مرتبہ بھی قتل ہوں تو آپ کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا۔ سعید نماز ظہر کے وقت امام ؑ کے سامنے کھڑے ہوگئے اور تیروں کو اپنے سینے پر لیتے رہے، تاکہ کوئی تیر امام ؑ تک نہ پہنچے۔ سعید جب زخموں سے چور زمین پر گرے تو رخ امام کی جانب کیا اور بولے، کیا میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے تو امام نے جواب دیا: ہاں تو جنت میں مجھ سے پہلے داخل ہوگا۔ (سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:۲۶۱)

میں نے درج بالا سطور میں جو کچھ تحریر کیا، ناکافی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ کتب تاریخ، مقاتل و رجال سے ان ہستیوں کی تفاصیل کو جمع کیا جائے اور ایک تفصیلی تحریر اردو زبان میں شائع کی جائے، تاکہ ہم اصحاب امام حسین ؑ کو جان سکیں۔ یہ مقالہ تحریر کرنے کے بعد میرے علم میں آیا کہ  علامہ حسین بخش جاڑا نے ایک کتاب اصحاب یمین کے عنوان سے تحریر کی ہے، جو انصاران امام حسین ؑ پر ایک مفصل تحقیق ہے۔ اس کتاب کو از سر نو شائع ہونا چاہیئے، تاکہ ہم کربلا کے حقائق کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکیں۔

میر انیس کے ان اشعار پر اپنی اس کاوش کا اختتام کرتا ہوں:
سوکھے لبوں پہ حمد الہیٰ، رخوں پہ نور
خوف و ہراس، رنج و کدورت دلوں سے دور
فیاض و حق شناس، اولو العزم و ذی شعور
خوش فکر، بذلہ سنج، ہنر پرور و غیور
کانوں کو حسن صورت سے حظ برملا ملے
باتوں میں وہ نمک کہ دلوں کو مزا ملے


خبر کا کوڈ: 1148580

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1148580/انصار-الحسین-علیہ-السلام-2

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com