QR CodeQR Code

نہضت امام مہدی علیہ السلام تسلسل قیام امام حسین علیہ السلام

19 Jul 2024 10:30

اسلام ٹائمز: امام مہدی علیہ السلام کی آواز کی گونج ویسی ہی ہوگی، جیسی امام حسین علیہ السلام کی تھی۔ امام مہدی علیہ السلام کا پیغام وہی ہے، جو امام حسین علیہ السلام کا تھا، فرمائیں گے: "اے لوگو! کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ حق کی پیروی نہیں کی جا رہی اور باطل سے خود کو دور نہیں کیا جارہا۔۔۔۔ امربالمعروف و نہی عن المنکر کو چھوڑ دیا گیا ہے اور خدا اور رسول اکرمﷺ کے احکام کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے اور۔۔۔ ظہور کے وقت لوگوں کے درمیان اس پیغام اور تنبیہ کی گونج ہوگی، جیسا کہ عاشور کے دن امام حسین علیہ السلام نے بھی اسی لب و لہجے کے ساتھ پکارا تھا: "إنّ صوت القائم یشبه بصوت الحسینؑ"، "قائمؑ کی آواز بالکل امام حسین علیہ السلام کی آواز جیسی ہے۔"


تحریر: سید حیدر نقوی

حق و باطل کی داستان تو جب سے حضرت آدم علیہ السلام کو خلق کیا گیا، اسی وقت سے ہے۔ ماضی میں حق کے ماننے والے ہمیشہ مستقبل کے حق پرستوں کے لیے مشعل راہ رہے اور مستقبل کے حق پرست ماضی کے حق پرستوں کے راستے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حق پرستوں کی ہدایت اور سعادت کے اس تسلسل کو جاری رکھنے میں خدا کے بھیجے ہوئے نمائندوں کا اثر بہت گہرا اور مضبوط ہے، کیونکہ ہر پیغمبر اور خدا کا ولی، اپنے دور کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جس میں وہ رہتا ہے، اپنے سے پہلے انبیاء اور اولیاء کے راستے کو جاری رکھتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، تمام انبیاء اور اولیاء ہدایت کے روشن چراغ ہیں، ان میں سے ہر ایک اپنے وجود کی کرنوں سے اس دور کے تقاضوں کے مطابق روشنی بخشتا ہے۔ ائمہ اطہار علیہم السلام پیغمبر اکرمﷺ کی جانشینی کے لحاظ سے نور واحد ہیں اور ان کا ہدف ایک ہی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا وجود روشن چراغ کی مانند ہے، جو صحیح راستے اور بہترین ہدایت کو اللہ کے بندوں کو پہنچاتے ہیں اور انھیں گمراہی کی دلدل میں جانے سے بچاتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کی استغاثہ کی آواز سالہا سال گزرنے کے باوجود وقت کے ہر گزرے لمحے کے ساتھ ساتھ ایسے ہی سنائی دے رہی ہے جیسے وہ ابھی پکار رہے ہوں، ان کا استغاثہ بلند کرنا آزاد لوگوں کے جوش و ولولہ میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔

امام حسین علیہ السلام سالوں کے گزرنے کے باوجود ابھی بھی اس انتظار میں ہیں کہ امام مہدی علیہ السلام ان کی استغاثہ کا جواب دیں۔ ان کے زمین پر گرے پرچم کو اٹھائیں، ان کے زخموں پر مرہم رکھیں اور ان کے الہیٰ قیام کے اہداف کو حقیقت بنائیں۔ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا دن ہی امام حسین علیہ السلام کے استغاثہ کے جواب کا دن ہوگا۔ ایسا کیوں ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے ذکر کے ساتھ امام مہدی علیہ السلام کی یاد آتی ہے؟ کیوں جہاں بھی امام حسین علیہ السلام کا تذکر ہو رہا ہو، ساتھ ہی امام مہدی علیہ السلام کا نام آجاتا ہے۔؟ کیوں ظہور کا دن عاشور ہی ہے اور امام مہدی علیہ السلام کی بات کا آغاز ہی امام حسین علیہ السلام کی یاد ہے۔؟ بلاشبہ امام حسین علیہ السلام اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کے درمیان تعلق بہت گہرا و عمیق ہے، کیونکہ جب ہم مختلف جہات سے ان کے باہمی تعلق کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کیسے دنیا بھر میں الہیٰ اصولوں اور اقدار کی حاکمیت کی بنیاد فراہم کی گئی ہے۔ اس مضمون میں اسی تعلق و تسلسل کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔

الف: امام مہدیؑ، امام حسینؑ کی نسل سے:
پیغمبر اکرمﷺ اور ائمہ اطہار علیہم السلام سے منقول روایات کے مجموعے میں متعدد بار یہ بات بیان کی گئی ہے کہ نوع انسانی کے نجات دہندہ امام مہدی علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ نبی اکرمﷺ نے اپنی  زندگی کے آخری ایام میں سے ایک دن امام حسین علیہ السلام کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اپنی پیاری بیٹی حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کو مخاطب کیا: "اس اُمت کا مہدی میرے اس بیٹے کی نسل سے ہے۔ دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی، جب تک حسین (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ایک مرد قیام کرکے دنیا کو عدل و انصاف سے نہ بھر دے۔"(۱) آئمہ اطہار علیہم السلام کے تعارف کے ضمن میں ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں: "میرے بعد بارہ امام ہیں، جن میں سے نو میرے فرزند حسین (علیہ السلام) کے نسل سے ہیں، ان میں سے نویں قائم ہیں۔ ان بارہ کا گوشت میرا گوشت ہے اور ان کا خون میرا خون ہے۔"(۲) امیر المومنین علیہ السلام نے ایک مرتبہ امام حسین علیہ السلام سے فرمایا: "حسین (علیہ السلام) آپ کی نسل سے نواں فرزند، قائم آل محمد(ﷺ) ہے، وہ خدا کے دین کی صحیح پہچان کرائے گا اور پوری زمین پر عدل کی حکمرانی قائم کرے گا۔"(۳) خود امام حسین علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: "میری نسل سے نواں فرزند قائم بالحق ہے، اس کے ذریعے خدا مردہ زمین کو زندہ اور دین کی حکمرانی قائم کرے گا، وہ مشرکوں اور دشمنوں کی مرضی کے خلاف حق کو قائم رکھے گا۔"(۴)

ب: ظہور امام مہدی علیہ السلام، عاشورا کے اہداف کا مکمل ہونا:
امام حسین علیہ السلام کے قیام کا ہدف قرآن کے احکام اور سنت رسولﷺ کو زندہ کرنا اور جو بدعتیں بنی اُمیہ کی حکمرانی کے نتیجے میں آئیں، ان کا خاتمہ تھا، ان اہداف کا تذکرہ مدینہ سے کربلا کے سفر کے دوران مسلسل کیا، فرمایا: "میں اپنے جد رسول اکرمﷺ کی اُمت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور اپنے جد حضرت محمدﷺ اور والد علی بن ابی طالب علیہ السلام کی سیرت پر چلنے کا ارادہ کیا ہے۔"(۵) امام حسین علیہ السلام بزرگان بصرہ کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں: "میں تم لوگوں کو کتاب خدا اور پیغمبر خداﷺ کی سنت کی جانب دعوت دیتا ہوں، کیونکہ پیغمبرﷺ کی سنت مٹ چکی ہے اور بدعتوں نے اس کی جگہ لے لی ہے، اگر تم لوگ میری باتوں کو سنو اور میری اطاعت و پیروی کرو تو تمہیں راہ راست کی جانب ہدایت کروں گا۔"(۶) امام حسین علیہ السلام کے اس طرح کے اقوال سے عاشورا کے بلند و بالا اہداف واضح ہو جاتے ہیں، جو کہ قرآن و سنت نبویؐ کا احیاء، علوی طرز زندگی، انحرافات کا خاتمہ، حق کی حکمرانی،  ظالموں کے تسلط کا خاتمہ اور معاشرتی و معاشی میدانوں میں عدل و انصاف کی فراہمی وغیرہ شامل ہیں۔ دوسری جانب جب ہم نجات دہندہ کے اہداف اور ان کی عالمی حکومت کی خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ درحقیقت وہی اہداف اور محرکات ہیں، جو قیام حسینی میں تھے۔

حضرت علی علیہ السلام، امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے بارے میں یوں فرماتے ہیں: "(امام مہدی علیہ السلام جب ظہور کریں گے) نفسانی خواہشات کو ہدایت اور راستگاری کی طرف لوٹائیں گےـ جب لوگ ہدایت الہیٰ اور تقویٰ و پارسائی کو نفسانی خواہشات کی پیروی میں تبدیل کرچکے ہوں گے۔ لوگوں کے آراء و افکار کو قرآن کے تابع کر دیں گے، جبکہ لوگ قرآن کو اپنے آراء و افکار کا تابع بنا چکے ہوں گے۔وہ تمھیں دکھا دیں گے کہ مملکت داری اور حکمرانی میں عدل کس طرح لاگو ہوتا ہے۔؟ اسی طرح قرآن و سنت کے بھولی ہوئی تعلیمات کو زندہ کریں گے۔"(۷) امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ امام مہدی علیہ السلام نبی اکرمﷺ کی سیرت پر چلتے ہوئے تمام کاموں کو انجام دیں گے، آپؑ اس سلسلے میں فرماتے ہیں:"قائم آل محمدﷺ بھی ویسا ہی برتاؤ کریں گے، جیسا کہ حضورﷺ کا برتاؤ تھا، وہ جاہلیت کی جو نشانیاں، اقدار اور طریقے رہ گئے تھے، ان کو دُور کر دیں گے اور بدعتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے گے۔ اس کے بعد اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لائیں گے۔"(۸) قیام عاشورا نے ہی قیام امام مہدی علیہ السلام کی بابرکت بنیاد رکھی، یہی تعلق اور اشتراک جو ان کے درمیان ہے، اسی تعلق کی بنیاد پر امام مہدی علیہ السلام الہیٰ حکومت کو قائم کریں گے۔ جس کے نتیجے میں دنیا میں عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا اور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی پاکﷺ کے تمام مقاصد کا تسلسل بطور احسن مکمل ہوگا اور دنیا کو صحیح معنوں میں امن و سلامتی کا ادارک ہوگا۔

ج: امام مہدی علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام  کے خون کے منتقم
امام مہدی علیہ السلام کے القاب میں سے ایک "منتقم" ہے۔ امامؑ کے لیے اس لقب کے انتخاب پر اہل بیت علیہم السلام سے روایات میں متعدد اسباب بیان ہوئے ہیں۔ امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ اللہ کے آخری ولی اور حجت کو قائم کیوں کہا جاتا ہے۔؟ امامؑ نے فرمایا: "کیونکہ جب دشمنوں نے میرے جد امجد امام حسین (علیہ السلام) کو شہید کیا تو فرشتے مغموم ہوئے اور روتے اور آہ و نالہ کرتے ہوئے بارگاہ الہیٰ میں عرض کیا: خداوندا! پروردگارا! کیا تو ان لوگوں سے درگذر کرے گا، جنھوں نے تیرے برگزیدہ بندے اور تیرے برگزیدہ بندے کے فرزند کو بزدلانہ طریقے سے قتل کیا۔؟ تو خداوند متعال نے فرشتوں کو جواب میں ارشاد فرمایا: "اے میرے فرشتو! میری عزت و جلال کی قسم! میں ان سے انتقام لوں گا، گو کہ اس میں کافی طویل عرصہ لگے گا۔ اس کے بعد خداوند متعال نے امام حسین (علیہ السلام) کے فرزندوں کا سایہ دکھایا اور پھر ان میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا، جو حالت قیام میں تھے اور فرمایا: "میں اس قائم کے ذریعے امام حسین (علیہ السلام) کے دشمنوں سے انتقام لوں گا۔"(۹)

آیت کریمہ "وَمَنْ قُتِلَ مظلوماً فقد جَعَلْنا لِوَلیّه سلطاناً..."(۱۰) "اور جو مظلومیت کے ساتھ قتل ہو، ہم نے اس کے وارث کو تسلط عطا کیا ہے" کی تفسیر میں امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: "اس آیت میں مظلوم سے مراد امام حسین علیہ السلام ہیں، جو مظلومیت کے ساتھ قتل کیے گئے اور "جَعَلنا لِوَلیِّه سلطاناً" سے مراد حضرت امام مہدی (علیہ السلام) ہیں۔"(۱۱) امام محمد باقر علیہ السلام بھی فرماتے ہیں: "ہم امام حسین (علیہ السلام) کے خون کے وارث ہیں۔ جب ہمارے قائم قیام کریں گے، خون امام حسین (علیہ السلام) کا معاملہ اٹھائیں گے۔" دعائے ندبہ میں بھی اس حقیقت کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے: "أینَ الطالِبُ بِدَمِ المَقتولِ بِکَربَلا"، "کہاں ہے (وہ جو ظہور کے بعد) مقتولین کربلا کے خون کا انتقام لینے والا ہے؟"(۱۲) ظہور کے بعد امام مہدی علیہ السلام رکن و مقام کے درمیان لوگوں کو خطبہ دیں گے اور اس خطبہ کے سب سے اہم حصے میں امام حسین علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت کا بار بار ذکر کریں گے، فرمائیں گے: "أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَا الامامُ القائمُ الثانی عَشَرَ، أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَا الصّمْضامُ المُنْتَقِم ،أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَّ جَدّیَ الْحُسَیْن قَتَلوهُ عَطْشاناً ، أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَّ جَدّیَ الْحُسَیْنطَرَحوهُ عُریاناً ، أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَّ جَدّیَ الْحُسَیْن سَحَقوهُ عُدواناً‘‘(۱۳)

"اے دنیا والو! میں آپ کا وہ امام ہوں، جس کے قیام کا آپ سے وعدہ کیا گیا ہے، میں ظالموں کے خلاف انتقام لینے والی تیز دھارتلوار ہوں، میرے جد امجد حسین (علیہ السلام) کو پیاسا شہید کر دیا گیا، انؑ کے جسم مطہر کو عریاں کربلا کی خاک پر چھوڑ دیا گیا! میرے جد ؑکے پاک و مطہر بدن کو دشمنی کی خاطر گھوڑوں کے سموں تلے پائمال کردیا گیا۔" درحقیقت اس طرح کے الفاظ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ  اے دنیا والو جان لو کہ جو امام حسین ؑ کا ناحق خون بہایا گیا ہے، اس کا انتقام لیا جائے گا۔ اسی طرح بہت سی روایات بھی بتاتی ہیں کہ امام مہدی علیہ السلام کے اصحاب یہ نعرہ جو دلوں کو چُھو رہا ہوگا، بلند کریں گے: "یالثارات الحُسَینؑ"(۱۴) "اے خون حُسین علیہ السلام کا انتقام لینے والو!" یہ جملہ اس معنی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اے وہ لوگو! جو امام حسین علیہ السلام کے ناحق بہائے گئے پاک خون کا بدلہ لینے چاہتے ہیں، وہ سب آجائیں کہ اب اس کا وقت آگیا ہے۔

د: امام مہدی علیہ السلام ہمیشہ امام حسین علیہ السلام کی یاد میں:
امام حسین علیہ السلام نے اسلام کو جو بنیادی خطرات لاحق تھے، اس کو بچانے کے لیے جو بھی مصیبتیں اور قربانیاں دینی پڑیں، خدا کے راستے میں دے دیں۔ آخری حجت خدا جو مصائب و الآم امام حسین علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام پر آئے، ان پر ہمیشہ خون کے آنسو روتے ہیں۔ زیارت ناحیہ مقدسہ میں حضرت امام مہدی علیہ السلام اپنے جدّ مظلوم امام حسین ؑکو مخاطب کرکے فرماتے ہیں:"لأَندُبَنَّكَ صَباحا و مَساءً و لأَبكِيَنَّ عَلَيكَ بَدَلَ الدُّمُوعِ دَما"، "(اے جد بزرگوار! کربلا میں عاشور کے دن آپؑ کی نصرت میرے نصیب میں نہ ہوئی مگر) ہر صبح و شام آپ ؑپہ گریہ کرتا ہوں اور آنسو کے بجائے آپؑ پہ خون کے آنسو بہاتا ہوں۔" اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کے جملے سے امام مہدی علیہ السلام کی سید الشہداء علیہ السلام سے دلی وابستگی ظاہر ہوتی ہے بلکہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کس طرح امامؑ نے امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کو زندہ رکھا ہوا ہے اور انسانوں پر بنی اُمیہ کی طرف سے کربلا میں جو ظلم و ستم کیے گئے کو بیان کرتے ہیں۔

ائمہ اطہار علیہم السلام جب امام حسین علیہ السلام کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہیں تو ساتھ ہی امام مہدی علیہ السلام کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں۔ جیسے کہ دعائے ندبہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام، سید الشہداء علیہ السلام کی یاد امام مہدی علیہ السلام کی یاد کے ساتھ کرتے ہیں، حقیقت میں وہ امام مہدی علیہ السلام سے امام حسین علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت کی شکایت کر رہے ہیں اور پروردگار سے دعا کر رہے ہیں کہ جلد ظہور امام ؑ کا زمینہ فراہم ہو اور وہ امام حسین  علیہ السلام کے خون کا انتقام ان کے دشمنوں سے لیں۔ اہل بیت علیہم السلام کے چاہنے والوں کو وصیت کی گئی کہ شب ولادت امام مہدی علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو پڑھنا نہ بھولیں۔ البتہ اسی طرح امام حسین علیہ السلام کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ وہ یعنی امام حسین علیہ السلام ہمیشہ مہدی موعود کا ذکر کرتے تھے۔ امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے دن جو دعا پڑھی جاتی ہے، اس میں بھی امام مہدی علیہ السلام کو یاد کیا گیا ہے اور اسی طرح عاشور کے دن بھی جو زیارت عاشورا پڑھی جاتی ہے، اس میں امام مہدی علیہ السلام کی یاد ہی اہل بیت علیہم السلام کے چاہنے والوں کے بے قرار دلوں کو سکون دیتی ہے۔ یہ سب باتیں روز روشن کی طرح بیان کرتی نظر آتی ہیں کہ کس طرح امام مہدی علیہ السلام کا قیام عاشور ا اور امام حسین علیہ السلام سے جڑا ہوا ہے۔

بیان کی گئی باتوں کے علاوہ بھی معصومین علیہم السلام سے نقل کی گئی بہت سی روایات کے مطابق امام حسین علیہ السلام اور امام مہدی علیہ السلام کی اور باتوں میں بھی آپس میں ایک دوسرے سے تعلق و وابستگی رکھتے ہیں، جو قابل غور ہیں، ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
۱) امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا دن، عاشور کا دن ہی ہوگا، امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: "روز عاشورا، ہفتہ کے دن حضرت قائم (علیہ السلام) قیام کریں گے، یعنی جس دن امام حسین (علیہ السلام) شہید ہوئے ہیں۔"(۱۵)
۲) روایات کے مجموعے سے آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنی تحریک کا آغاز مکہ سے کیا، یعنی مدینہ سے نکلنے کے بعد مکہ تشریف لائے اور اپنے قیام کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا اور پھر کوفہ کی طرف حرکت کی۔ امام مہدی علیہ السلام بھی اللہ کے گھر کا قریب کھڑے ہوکر دنیا والوں کو اپنی بیعت کی دعوت دیں گے، پھر اپنی تحریک کا آغاز کریں گے اور اپنی حکومت کا دارالحکومت کوفہ کو بنائیں گے۔

۳) امام مہدی علیہ السلام کی آواز کی گونج ویسی ہی ہوگی، جیسی امام حسین علیہ السلام کی تھی۔ امام مہدی علیہ السلام کا پیغام وہی ہے، جو امام حسین علیہ السلام کا تھا، فرمائیں گے: "اے لوگو! کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ حق کی پیروی نہیں کی جا رہی اور باطل سے خود کو دور نہیں کیا جارہا۔۔۔۔ امربالمعروف و نہی عن المنکر کو چھوڑ دیا گیا ہے اور خدا اور رسول اکرمﷺ کے احکام کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے اور۔۔۔ ظہور کے وقت لوگوں کے درمیان اس پیغام اور تنبیہ کی گونج ہوگی، جیسا کہ عاشور کے دن امام حسین علیہ السلام نے بھی اسی لب و لہجے کے ساتھ پکارا تھا: "إنّ صوت القائم یشبه بصوت الحسینؑ"، "قائمؑ کی آواز بالکل امام حسین علیہ السلام کی آواز جیسی ہے۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱) بحارالانوار، ج۵۱، ص۹۱
۲) کشف الغمۃ، ج3، ص۲۹۴
۳) منتخب الاثر، ص۴۶۷
۴) اعلام الوری، ۳۸۴
۵) بحارالانوار، ج۴۵، ص۶
۶) حیاة الإمام الحسین(علیہ السلام)، ج۲، ص۲۶۴
۷) بحارالانوار، ج۵۱، ص۱۳۰
۸) بحارالانوار، ج۵۲، ص۳۵۲
۹)  سورہ اسراء آیت ۳۳
۱۰)  البرهان فى تفسیر القرآن، ج۴، ص۵۵۹
۱۱)  البرهان فى تفسیر القرآن ،ج ۴ ص ۵۶۰
۱۲) دعائے ندبہ
۱۳) الزام الناصب، ج۲، ص۲۸۲، سید ابن طاووس،لہوف،ص۱۱
۱۴) النجم الثاقب، ص۴۶۹
۱۵) بحارالانوار، ج۵۲، ص ۲۸۵


خبر کا کوڈ: 1148497

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1148497/نہضت-امام-مہدی-علیہ-السلام-تسلسل-قیام-حسین

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com