QR CodeQR Code

پاکستان کا احتجاج

18 Jul 2024 18:53

اسلام ٹائمز: پاکستان نے بارہا افغانستان کے اندر ایسے دہشتگرد گروہوں کی موجودگی کے نتائج کے بارے میں اپنی شدید تشویش کا اظہار کیا ہے، جو پاکستان کی سلامتی کو مسلسل خطرات سے دوچار کر رہے ہیں۔ پاکستان کا ماننا ہے کہ اس طرح کے واقعات دونوں برادر ممالک کے تعلقات کی روح کیخلاف ہیں۔ پاکستان کیلئے اس سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ افغان طالبان دہشتگرد گروہ تحریک طالبان کو اسلام آباد کیخلاف دباؤ کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔


تحریر: ایم وقاری

پاکستان کی وزارت خارجہ نے صوبہ خیبرپختونخوا میں ایک فوجی چھاونی پر دہشت گرد گروہ تحریک طالبان پاکستان کے حالیہ حملے کے سلسلے میں افغان سفارت خانے کے سربراہ کو وزارت خارجہ طلب کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دہشت گردی اور پاکستان کے سرکاری اور فوجی مراکز پر دہشت گردانہ حملوں کے مرتکب افراد کے حوالے سے دونوں فریقوں کے درمیان چیلنج اور اختلافات بدستور جاری ہیں۔ پاکستان اب بھی دعویٰ کرتا ہے کہ افغانستان میں مقیم پاکستان تحریک طالبان گروپ کے افراد افغانستان میں بیٹھ کر دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور اور فوجی بیرکوں پر حالیہ حملہ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔

دہشت گرد گروہوں کی شناخت کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے نے حال ہی میں تصدیق کی ہے کہ افغانستان میں سرگرم سب سے بڑے دہشت گرد گروپ تحریک طالبان پاکستان کے ارکان کی تعداد 6000 سے زائد ہے۔ سیاسی امور کے ماہر علی شریفی پور کہتے ہیں: "پاکستان کا خیال ہے کہ تحریک طالبان اور افغان طالبان کے درمیان تنظیمی تعلق ہے۔ طالبان کے افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ٹی ٹی پی پاکستان میں طالبان طرز حکمرانی کا ماڈل تشکیل دینا چاہتی ہے۔ پاکستان کا گورننس ماڈل افغانستان سے بالکل مختلف ہے۔ اسی طرح اسلام آباد افغان طالبان کو اپنا پروردہ سمجھتا ہے اور تحریک طالبان کے ساتھ افغان طالبان کے تعاون کی توقع نہیں رکھتا۔"

بنوں شہر میں فوجی چھاونی پر ہونے والے حالیہ دہشت گردانہ حملے، جس کے نتیجے میں آٹھ فوجی اہلکار جاں بحق ہوئے، پر پاکستان نے شدید احتجاج کرتے ہوئے، افغان سفارت خانے کے سربراہ کو طلب کرکے طالبان کو براہ راست مخاطب کیا اور اس حملے میں افغان طالبان کو گویا خبردار کیا ہے۔ پاکستان کے مطابق فوجی چھاونی پر دہشت گردانہ حملہ دہشت گرد گروپ "حافظ گل بہادر" نے کیا ہے۔ جو افغانستان میں مقیم تحریک طالبان پاکستان کی ایک شاخ ہے۔ یہ دہشت گرد عناصر پاکستان کے اندر متعدد حملوں میں سینکڑوں شہریوں اور پولیس اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے بھی ذمہ دار ہیں۔ لہٰذا پاکستان نے طالبان سے کہا ہے کہ وہ حالیہ حملے کی نوعیت کی مکمل طور پر چھان بین کریں اور اس کے مرتکب افراد کے خلاف فوری، مضبوط اور موثر اقدامات کریں۔ پاکستان نے افغان طالبان سے کہا ہے کہ افغانستان سے پاکستان کے خلاف ایسے حملوں کی تکرار کو روکا جائے۔

دوسری جانب افغان طالبان، پاکستان کے ایسے دعوے کو مسترد کرتے ہیں، لیکن اسلام آباد سے یہ اہم سوال اٹھایا جاتا ہے کہ افغان طالبان کب تک افغانستان میں تحریک طالبان کی موجودگی سے انکار کرسکتے ہیں؟ جبکہ بین الاقوامی ادارے اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ پاکستان نے بارہا افغانستان کے اندر ایسے دہشت گرد گروہوں کی موجودگی کے نتائج کے بارے میں اپنی شدید تشویش کا اظہار کیا ہے، جو پاکستان کی سلامتی کو مسلسل خطرات سے دوچار کر رہے ہیں۔ پاکستان کا ماننا ہے کہ اس طرح کے واقعات دونوں برادر ممالک کے تعلقات کی روح کے خلاف ہیں۔ پاکستان کے لیے اس سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ افغان طالبان دہشت گرد گروہ تحریک طالبان کو اسلام آباد کے خلاف دباؤ کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔


خبر کا کوڈ: 1148418

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1148418/پاکستان-کا-احتجاج

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com