QR CodeQR Code

ایک محرم ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے ساتھ

18 Jul 2024 10:54

اسلام ٹائمز: باہر آتے ہی شہید نے جلدی جلدی کا نعرہ لگایا اور گاڑی تیز بھگائی۔ کہا کہ علی رضا آباد پہنچنا ہے، وہاں بھی جلوس ہے، وقت کم ہے، اس لیے جلدی کی ہے۔ وہاں ماتمیوں کو طبی امداد دینی ہوتی ہے۔ کہنے لگے کہ کیا جذبہ اور عقیدت ہے کہ جہاں بھی دیکھیں لوگ ہی لوگ ہیں۔ آج کے دن تشیع اپنے وجود کا احساس دلاتی ہے۔ کاش ہم یہ جذبہ پورے سال برقرار رکھ سکتے ہمیں شہید نے سکیم موڑ پر اتارا اور خود آگے نکل گئے۔ واقعی شہید بہت ہی آگے نکل گئے۔ میرا کزن جو اس پورے وقت میں ساتھ رہا، آج کل فالج کا مریض ہے اور بول بھی نہیں سکتا۔ جب میں اس سے ڈاکٹر شہید کا اس مقدس لمحات میں ساتھ کا تذکرہ کرتا ہوں تو وہ ہاتھ کے اشارے سے اس سعادت ملنے پر اظہار پسندیدگی کرتا ہے۔


تحریر: سید نثار علی ترمذی

میرے کزن حسنین اصغر تبسم، جو صاحب کتاب شاعر بھی ہیں، وہ کبیر والا سے لاہور آئے ہوئے تھے۔ اس نے کہا کہ آج ڈاکٹر ضمیر اختر نقوی صاحب کو سننے جائیں گے۔ وہ ان دنوں زینبیہ، لٹن روڈ لاہور پر عشرہ محرم الحرام پڑھ رہے تھے۔ مغربین کے بعد یہاں مجلس شروع ہوتی ہے۔ سوز خوانی کے بعد مقرر زیب منبر ہو جاتے ہیں۔ کسی دور میں یہاں علامہ صفدر حسین نجفی مرحوم خطاب کیا کرتے تھے۔ سابقین و موجودین امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کثیر تعداد میں شریک ہوتے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی اور انجینئرنگ یونیورسٹی سے بسیں آتی تھیں۔ مجلس کے بعد سڑک پر سب مل کر دعاء وحدت پڑھتے تھے۔ پھر بلند آواز سے تکبیر بلند کی جاتی۔ یہ شب عاشور تھی، جب ہم مجلس سن کر باہر آئے تو گیٹ پر ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید سے اچانک ملاقات ہوگئی۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا ڈاکٹر صاحب آپ۔؟ انہوں نے کہا پڑھتا تو کوئی خاص نہیں لیکن لفاظی خوب کرتا ہے۔

پوچھنے لگے کہ عاشور پر گاؤں نہیں گئے۔ بتایا کہ اس مرتبہ نہیں جا سکا۔ کہنے لگے چلو بھاٹی چلتے ہیں۔ میں نے بتایا کہ کزن بھی ساتھ ہے، کہنے لگے انہیں بھی ساتھ لے لیں۔ ہم دونوں شہید کی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ ہم وہاں سے امام بارگاہ مبارک بیگم، اندرون بھاٹی گیٹ پہنچے۔ مجلس جاری تھی۔ کوئی عالم دین خطاب فرما رہے تھے۔ اس امام بارگاہ میں داخل ہوتے ہی انسان عہد رفتہ میں پہنچ جاتا ہے۔ وسیع و عریض صحن، پرانی مگر سادہ عمارت، سبیل پر پرانے طرز کے کانسی کے برتن، دیگر چیزوں سے بھی اپنی کہن سالی ٹپک رہی ہوتی ہے۔ بس بغیر تصنع و بٹاوٹ کے بروقت مجلس کا آغاز، برسوں سے   سلام و منقبت پڑھنے والے سوز خوان اور ایک عالم دین اور ماتم حسین۔ محرم کے پہلے دس دن یہاں مجالس ہوتی ہیں۔ اس امام بارگاہ میں ایک طرف سر مراتب علی شاہ اور ان کی اہلیہ مبارک بیگم جن کے نام سے یہ امام بارگاہ منسوب ہے، کی قبور ہیں۔ وقت اور جگہ کی مناسبت سے شرکاء مومنین کی اچھی خاصی شرکت ہوتی ہے۔

مجلس کے بعد اعلان ہوا کہ ہفت روزہ رضا کار کے اہلکار عبد الحمید کی اہلیہ انتقال کر گئی ہیں، جن کا ابھی جنازہ ہے۔ ہم جنازہ کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ اب یہ معلوم نہیں ڈاکٹر شہید کو فوتیدگی کا پہلے سے علم تھا یا یہاں آکر ہوا۔ بہرحال جلد میت کو غسل و کفن دے کر جنازہ تیار کیا گیا۔ نماز جنازہ ادا کی۔ عبد الحمید صاحب سے تعزیت کی اور امام بارگاہ سے باہر آگئے۔ اب رخ موچی دروازے کی طرف تھا، جہاں مرکزی جلوس ذوالجناح برآمد ہونا تھا۔ موچی دروازے کے اندر داخل ہوتے ہی رش ہی رش نظر آیا۔ جس طرف نظر پڑتی سیاہ لباس میں مرد و زن و بچے دیوانہ وار آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ اس مجمع میں ڈاکٹر شہید بھی تیزی سے راستہ بناتے ہوئے آگے بڑھنے لگے اور ہم دونوں بھی ان کے تعاقب میں چل رہے تھے۔ مجمع سے زیادہ ہماری نظریں شہید پر تھیں کہ اگر یہ آنکھوں سے اوجھل ہوگئے پھر کیسے تلاش کیا جائے گا۔

اللہ اللہ کرکے "نثار حویلی" جلوس تو برآمد ہوچکا تھا۔ لوگ تھے کہ نیاز کھانے میں سبقت لے رہے تھے۔ ڈاکٹر شہید کو دیکھ کر بہت سے لوگ دعوت دینے لگے کہ اتنے میں وہاں سید اعجاز علی شاہ مرحوم و مغفور مل گئے، وہ تو شہید کا بازو پکڑ کر بلکہ دھکیلتے ہوئے ایک جگہ لے گئے، تاکہ نیاز تناول کرسکیں۔ اسی تگ و دو میں تھے کہ شہید نے واپسی کا اشارہ کر دیا۔ بس پھر کیا تھا کہ آگے آگے ڈاکٹر شہید، پیچھے پیچھے ہم اور ہجوم ماتمیان، ایک جگہ دور سے ذوالجناح کی زیارت بھی ہوگئی۔ اب ڈاکٹر شہید اسٹیشن کی طرف چل پڑے۔ گاڑی واشنگ لائن امام بارگاہ کے پاس آ رکی۔ سو دو سو افراد حلقہ بنائے ماتم کر رہے تھے۔ اس وقت امام بارگاہ فقط ایک سفید زمین کا ٹکڑا تھا، جس پر ایک طرف علم عباس علمدار لہرا رہا تھا۔ 1986ء میں فسادات کا آغاز اسی جگہ پر پتھراؤ اور گھیراؤ سے ہوا تھا۔ ڈاکٹر شہید تو حلقہ ماتم میں شریک ہوگئے۔

کم و بیش دو گھنٹے ڈاکٹر شہید نے ماتم کیا۔ ہم بھی شامل حلقہ رہے، مگر ڈاکٹر شہید کی ماتم داری قابل دید تھی۔ ابھی ماتم جاری تھا کہ شہید حلقہ سے باہر آئے اور چل پڑے۔ رات کے دو اڑھائی بجے تھے، کہنے لگے کہ لوگوں کا جذبہ قابل رشک ہے۔ ہم جو آئیڈیل عزاداری کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔میری رائے ہے کہ جب تک آئیڈیل عزاداری کا قیام ممکن نہ ہو، اس وقت تک یہ روائیتی عزاداری جاری رہنی چاہیئے اور اسی میں اپنی شرکت کو لازمی قرار دینا چاہیئے۔ دوران سفر پوچھنے لگے کہ آپ لوگوں کو کہاں اتارنا ہے۔ سکیم موڑ، میں نے بتایا۔ کہنے لگے کہ بہت اچھا ہؤا۔ میں نے علی رضا آباد جانا ہے، وہاں بھی ماتم داری ہے، جس میں شریک ہونا ہے۔ سکیم موڑ راستہ میں ہی پڑتا ہے، اتار دوں گا۔

راستہ میں پوچھنے لگے صبح کا کیا پروگرام ہے۔ میں نے بلا تکلف کہہ دیا کہ آپ کے ساتھ ہیں۔ سیکم موڑ پر ہمیں اتارتے ہوئے کہا کہ گیارہ بجے "شجر بلڈنگ" پر پہنچ جانا، وہاں سے آگے چلیں گے۔ گھر جانے کے راستے میں کزن نے پوچھا کہ یہ شجر بلڈنگ کہاں ہے؟ میں نے بتایا کہ گیا تو میں بھی کبھی نہیں، پر ہے میو ہسپتال کے قریب۔ موسم بھی نمناک تھا۔ بوندا باندی ہوتی رہی مگر ہم وقت مقررہ پر شجر بلڈنگ پہنچ گئے۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج جو اب یونیورسٹی بن چکا ہے، اس کے ساتھ ایک سڑک جسے دھنی رام روڈ کہتے ہیں، ٹینٹ لگے ہوئے تھے۔ مرد و خواتین تقریباً ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔ مختلف چیزیں بیچنے والے چھابڑیاں لگا کر کھڑے تھے۔ ذاکرین ایک بعد ایک آتے گئے اور مختصر وقت کے لیے پڑھتے گے۔ ہم ایسی جگہ بیٹھے، جہاں مجلس میں شرکت بھی ہو اور ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی آمد کی اطلاع ملتی رہے۔ کئی واقف کار بھی ملے، جو ہماری شرکت سے حیران ہو رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ بعد ظہرین یہاں شبیہ ذوالجناح برآمد ہوگی اور نیاز بھی تقسیم ہوگئی۔ مجلس کون کرواتا ہے، اس کے بارے میں تاحال لاعلم ہوں۔

کوئی ساڑھے گیارہ بجے کا وقت ہوگا کہ گاڑی آ کر رکی اور فوراً شہید اس میں سے نکل کر کھڑے ہوگئے۔ ہم بھی لپک کر پہنچ گئے۔ منزل شاہ عالمی میں نماز ظہرین میں شرکت تھی۔ لاہور میں 1980ء میں جلوس عزاء میں نماز باجماعت شروع ہوئی تھی، جو ابھی تک جاری ساری ہے، الحمدللہ۔ یہ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا وہ کارنامہ ہے، جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ گاڑی جلوس سے کافی دور پارک کی گئی۔ جب ہم جلوس کی طرف جا رہے تھے کہ میری نظر شہید کے پاؤں کی طرف گئی، آپ پا برہنہ تھے، جو راستہ کی کیچڑ سے لے پت ہوچکے تھے۔ ہمیں تو بہت شرمندگی ہوئی کہ ہم جوتے پہن کر چل رہے تھے۔ راستہ میں ایک نل نظر آیا۔ شہید نے کہا کہ یہاں وضو کر لیتے ہیں۔ وضو میں شہید نے انہی پاؤں پر مسح کیا۔ میں نے متوجہ کیا کہ آپ پاؤں تو دھو لیتے۔ میری طرف قدرے غصے سے دیکھتے ہوئے پوچھا کہ اس میں کیا چیز نجس ہے؟ میں تو لاجواب ہوگیا۔ ظاہر ہے مٹی اور بارش کا پانی مل کر گارا بن چکا تھا اور وہی پاؤں پر لگا ہوا تھا۔ ان میں تو کوئی چیز نجاسات میں سے نہ تھی۔

نماز کی ادائیگی میں دیر تھی، انتظامات ہو رہے تھے۔ سفید تھان بچھائے جا رہے تھے۔ ایک جگہ ہم بھی جم کر بیٹھ گئے۔ آئی ایس او کے کارکنان، موچی گیٹ کے احباب اور دیگر تنظیمی افراد بار بار شہید کے پاس آتے اور تقاضا کرتے کہ اگلی صف میں تشریف لے آئیں، مگر شہید نے سب سے معزرت کر لی اور کہا یہیں ٹھیک ہوں، جبکہ میرے مشاہدے میں یہ بات تھی کہ لیڈران کے پہلی صف میں بیٹھنے پر خاصی تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ بہرحال شہید کئی صفیں پیچھے ہی بیٹھے رہے۔ آغا علی الموسوی مرحوم نے نماز کے دوران خطاب بھی فرمایا۔ نماز کے فوراً بعد ہم وہاں سے نکل آئے۔ اب منزل گلستان زہراء، ایبٹ روڈ تھی۔ وہاں بھی اتنا ہی ہجوم تھا۔ امام بارگاہ کی دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑے ہوگئے۔ اس وقت مولانا صاحب مصائب پڑھ رہے تھے۔ گریہ بھی خوب ہوا۔

مجلس ختم ہوتے ہی ایک منبر صحن میں لا کر رکھ دیا گیا۔ جس پر خلیفہ سعادت حسین مرحوم بلند ہوئے اور اپنے ہاتھ میں پکڑی چاندی کی صندوقچی کو کھولا اور اس میں سے خاک شفاء کی تسبیح نکال کر مجمع کو دکھائی۔ اس کے کئی دانے سرخ ہوچکے تھے۔ جیسے ہی تسبیح ہوا میں نمودار ہوئی تو اردگرد کھڑے ماتمی زنجیر زنی کرنے لگے۔ عزادار دور سے ہی زیارت کرسکتے تھے۔ ایک دور تھا، جب تسبیح کی زیارت کروائی جاتی تو یہ زنجیر زنی نہیں ہوتی تھی بلکہ سب لوگ قریب سے آرام سے تسبیح زیارت کرسکتے تھے۔ مگر یہ نیا کام شروع ہوگیا تھا۔ دور سے ہی زیارت ممکن ہوسکی۔ چند منٹ بعد ہی شہید نے کوچ کا اشارہ کر دیا۔ ہم خون کے چھینٹوں سے بچتے ہوئے بمشکل باہر نکل سکے، کیونکہ ابھی مرد و عورتیں و بچے متواتر آرہے تھے جبکہ امام بارگاہ پہلے ہی کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔

باہر آتے ہی شہید نے جلدی جلدی کا نعرہ لگایا اور گاڑی تیز بھگائی۔ کہا کہ علی رضا آباد پہنچنا ہے، وہاں بھی جلوس ہے، وقت کم ہے، اس لیے جلدی کی ہے۔ وہاں ماتمیوں کو طبی امداد دینی ہوتی ہے۔ کہنے لگے کہ کیا جذبہ اور عقیدت ہے کہ جہاں بھی دیکھیں لوگ ہی لوگ ہیں۔ آج کے دن تشیع اپنے وجود کا احساس دلاتی ہے۔ کاش ہم یہ جذبہ پورے سال برقرار رکھ سکتے ہمیں شہید نے سکیم موڑ پر اتارا اور خود آگے نکل گئے۔ واقعی شہید بہت ہی آگے نکل گئے۔ میرا کزن جو اس پورے وقت میں ساتھ  رہا، آج کل فالج کا مریض ہے اور بول بھی نہیں سکتا۔ جب میں اس سے ڈاکٹر شہید کا اس مقدس لمحات میں ساتھ کا تذکرہ کرتا ہوں تو وہ ہاتھ کے اشارے سے اس سعادت ملنے پر اظہار پسندیدگی کرتا ہے۔ سال گذشتہ میرا کزن سید حسنین اصغر تبسم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پہنچ گئے۔ یہ پہلا محرم ہے کہ ان کے بغیر گزرے گا۔ اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائے، آمین ثم آمین۔


خبر کا کوڈ: 1148357

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1148357/ایک-محرم-ڈاکٹر-محمد-علی-نقوی-شہید-کے-ساتھ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com