QR CodeQR Code

بِنائے لا اِلٰہ اَست حُسینؑ

16 Jul 2024 08:00

اسلام ٹائمز: آج امام حسین ؑ کا نام اِنسانیت کی علامت اور اَمن کا مظہر بن گیا ہے۔ دُنیا کی باشعور قومیں امام حسین ؑ کی سیرت و کردار اور عزم و ہمّت کو سراہ رہی ہیں اور اُنکے نصب ُالعین کو اپنا رہی ہیں۔ آج معاشرتی مسائل، رنگ و نسل، علاقائیت و طبقہ واریت، عریانی و فحاشی اور ظلم و بربریت کی شکل میں ہمارے سامنے کھڑے ہیں۔اخلاقی اَقدار کے زوال نے ہم سے اور ہماری نسل سے ہماری شاندار روایات کو چھین لیا ہے۔ ہمیں معرفت ِخداوندی، شریعت ِمحمدیؐ کی سربلندی، اخلاقی اَقدار کی بحالی، دُنیا پر دِین کی حکمرانی، اِنسانیت کی برتری، نفس کی پاکیزگی، جذبہء ِحُریّت کی بیداری، دُنیا میں اَمن و آشتی، مظلوموں کی دادرَسی، مستضعفین کی مدد اور اِستعماری طاقتوں کے خاتمہ کیلئے سیرت ِحسین ؑ کو مکمل طور پر اپنانا چاہیئے اور حسین ؑشناسی کو رواج دینا چاہیئے۔


تحریر: مظہر حسین ہاشمی

تاریخ کی وہ زندہ جاوید شخصیت، جس نے باطل کے شبستانوں کو ڈھا کر حق کی شمع روشن کی، تاریخ ِانسانی کا وہ باب جسے قیامت تک مسلسل پڑھا جاتا رہے گا، وہ عظیم مسلک جسے اپنا کر ہر اہل ِفکر و نظر خوشی محسوس کرتا ہے۔ وہ درخشندہ سیرت جس کی اِتباع اِنسانیت کا مجدد شرف ہے، اُسے تاریخ ِانسانی امام حسین ؑ کہتی ہے۔ آپؑ ہادیء ِکائنات، ناشرِ اخلاقیات و دستورِ نجاتِ خدا کے برگزیدہ نبی حضرت محمد ؐ کے نواسے، امام ِاَوّلین، ناصرِ دِین اور آیہء مبین مولا علی ؑ کے فرزند، مرکزِ عصمت و طہارت، خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے لخت ِجگر اور اَمن ِعالم کے داعی و علمبردار حضرت امام حسن ؑ کے چھوٹے بھائی ہیں۔ آپ ؑکمال ِمعرفت ِخداوندی کے حامل، معراجِ کمال ِبندگی پر فائز، رسالت آشنا، اَمن پرور، اِنسانیت نواز، دین پناہ اور محافظ ِقران و شریعت تھے۔

آپؑ حسب و نسب میں دُنیا کے تمام انسانوں پر فوقیت رکھتے تھے۔ نسلی اعتبار سے حضرت ابراہیم ؑو حضرت اسمعیل ؑ کے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، جو ساری دنیا میں شرافت اور عظمت کا منبع و مینار ہے۔ آپ ؑبنی ہاشم کے گھرانے میں 8 جنوری 626ء کو مدینہ شہر میں پیدا ہوئے، جو عرب کا شریف ترین قبیلہ اور ممتاز خاندان تھا۔ آپ ؑکی پرورش میں خانوادہء رسالت اور آپ ؑکے پاک و پاکیزہ ماحول کو بڑا دخل ہے۔ آپ ؑنے تعلیم و تربیت اپنے نانا سے پائی، جو اُس عہد اور ہر زمانے کے سب سے بڑے معلم اور سیرت ساز مانے گئے ہیں۔ آپ ؑنے اُس ماں کی آغوش میں آنکھ کھولی جو شرافت ِاِنسانی کا پیکر تھیں۔ آپؑ کو حریت ِاِنسانی کے علمبردار مولا علی ؑ نے تعلیمات ِالٰہیہ اور صفات ِحسنہ سے بہرہ وَر کیا۔ آپ ؑاپنے بھائی امام حسن ؑ کے قوت ِبازو رہے، جنہوں نے تاج و تخت سے منہ موڑ کر مصائب و آلام کو گلے لگا لیا، لیکن حق کے دامن کو اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑا۔

یہ بات سو فیصد دُرست اور سچ ہے کہ سیرت ِاِنسانی، تاریخ کے دھارے کا رُخ موڑ دیتی ہے۔ سیرت ِحسین ؑ ایک ایسے ہمہ گیر انقلاب کا نام اور ایک ایسا ابدی پیغام ہے، جو حیات ِاِنسانی کو اوّل تا آخر خدا پرستی کی بنیاد پر اُستوار کرتا ہے۔ آپ ؑکی سیرت ایک ایسا اُسوہ حسنہ ہے، جو تمام نوع ِانسانی، تمام مذاہب اور تمام فرقوں کیلئے یکساں طور پر مشعل ِراہ ہے۔ آپ ؑکی سیرت تاجدار ِنبوت کی سیرت کی آئینہ دار ہے۔امام حسین ؑاور اِسلام کے درمیان اَٹوٹ رشتہ ہے۔ امام حسین ؑخدا کی سرزمین پر خدا کے دین کو سربلند دیکھنا چاہتے تھے۔ تاریخ ِاِنسانی کے اوراق پر اِس حیرت انگیز اِنسان کی عظیم سیرت اور بلند و بالا شخصیت کے نقوش اِتنے گہرے نظر آتے ہیں کہ اِبتدائے آفرینش سے تاحال، تاریخ کی قدآور شخصیات جن کو دُنیا ہیروز میں شمار کرتی ہے، امام حسین ؑ کی سیرت و کردار کے مقابلہ میں وہ کوتاہ قامت نظر آتی ہیں۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ امام حسین ؑ نے زمانے کے ساتھ چلنے کی کوشش نہیں کی بلکہ تاریخ کا رُخ اپنی طرف موڑ دیا۔ امام حسین ؑتاریخ کے بنائے ہوئے نہیں بلکہ امام حسین ؑ اپنی سیرت، اپنے کردار اور اپنے عمل کی وجہ سے تاریخ ساز یا Maker of History ہیں۔ عصرِ حاضر میں یزید کے منقبت گزاروں نے امام حسین ؑ کی عظمت کو کم کرنے اور اُن کی سیرت کو چھپانے کی بہت کوشش کی، لیکن اُن کی سعیء لاحاصل اُن کے آباؤ اَجداد کی طرح ناکام رہی۔ اب اپنے بیگانے سب امام حسین ؑ کی شخصیت و ہستی کو سلام پیش کر رہے ہیں۔ تاریخ ِ انسانی کے بے مثال ہیرو کیلئے دُنیا کی مذہبی، سیاسی اور ادبی شخصیات کچھ اِس طرح سے معترف ہوئی ہیں۔مہاتما گاندھی کا قول ہے کہ اسلام کا یہ پھلنا پھولنا، ولیء خدا حسین ابن علی ؑکی قربانی کا نتیجہ ہے۔ امام حسین ؑ کی تعریف میں جواہر لعل نہرو بھی کہتے ہیں کہ امام ِحسین ؑکی قربانی، صراطِ مستقیم کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔

انگلش کے نامور ادیب اور مورخ سرولیم مور نے یوں تعریف کی کہ سانحہء ِکربلا نے تاریخ ِ محمدؐ میں اِسلام کو اِنسانی ذہنوں میں زندہ رکھا ہوا ہے اور نامور اور مشہور انگلش سکالر اور مورخ ایڈوڈ گبن امام حسین ؑ کی مظلومانہ تاریخ پڑھتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے اور تاریخ میں لکھ گئے کہ "حسین ؑکی مظلومانہ شہادت نے آنکھوں میں آنسو اور دِلوں میں ہمدردی پیدا کر دی۔" ایک عیسائی سکالر تھامس کارلائل نے یہ بات کہہ کر کہ "حسین ؑاور اُن کے رُفقاء۔۔۔۔ خدا کے سچے پیروکار تھے۔" نے یزید ِوقت کو جھوٹا ثابت کر دیا اور چارلس ڈکنز کہتے ہیں: "اگر حسین ؑاپنی دُنیاوی خواہشات کی تکمیل کیلئے لڑ رہے تھے تو پھر مَیں نہیں سمجھ پاتا کہ اُن کی بہن، بیوی اور بچے اُن کے ساتھ کیوں چلے؟ پس مجھے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف اور صرف اِسلام کی خاطر قربان ہوئے۔" جوش ملیح آبادی نے مندرجہ بالا شخصیات کو ابھی ناکافی سمجھتے ہوئے کہا تھا کہ
اِنسان کو بیدار تو ہو لینے دو ۔۔۔۔۔۔ ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین ؑ
 ؑاور علامہ اقبال بھی اِس شعر میں تسلیم کرتے ہیں کہ
 رمز ِقرآن از حسین ؑ آموختیم۔۔۔۔۔  زآتش ِاو شعلہ ہا اندوختیم
ہم نے قرآن کے رمز کو حسین ؑسے سیکھا ہے اور اِس کی گرمی سے حرارتِ اِیمانی حاصل کی ہے۔

عہدِ یزیدیت میں خدا کی پرستش کی بجائے مفادات کی پرستش ہو رہی تھی۔ خود غرض اور طالع آزمائوں کا ایک بہت بڑا طبقہ اِسلام کے مقابلہ میں ملوکیت کا حلقہ بگوش بنا ہوا تھا۔ طاقتور، کمزور پر دِل کھول کر مظالم ڈھا رہا تھا۔ اِنسانیت کی اَعلیٰ و اَرفع اَقدار تباہ ہوکر رہ گئی تھیں۔ علامہ اِقبال نے اِس خلافت نما ملوکیت کو کچھ ایسے بیان کیا کہ
چوں خلافت رشتہ از قرآں گسیخت۔۔۔ حرّیت را زہر اندر کام ریخت
جب خلافت نے اپنا رشتہ قرآن سے توڑ لیا (تو گویا) حریت و آزادی کے حلق میں (غلامی) کا زہر انڈیل دیا۔ یہ تو ثابت ہے کہ امام حسین ؑنے امامت کی عظمت کو اُجاگر کرنے، قوم کے شیرازہ کو یکجا کرنے، شریعت کی بالادستی، تحفظ اِنسانیت، اَخلاقی اقدار کی بحالی اور مظلوموں کی دادرسی کیلئے کربلا کے تپتے صحرا میں اِسلام کو ملوکیت کی مسموم ہوا اور دھوپ سے بچانے کیلئے 10 اکتوبر 680ء کو اپنی اور اپنے رُفقاء کی جانیں قربان کردیں۔

اِمام حسین ؑ کی یہ قربانی تخت و تاج کے اِستحقاق کیلئے نہ تھی بلکہ ایک اعلیٰ نصب ُالعین کیلئے تھی۔ امام حسین ؑ، یزید پلید کو احکام ِخدا و رسولؐ کا باغی سمجھتے تھے۔ آپ ؑنے جسے ناحق سمجھا، اُسے بطور حق قبول نہ کیا۔ اپنے والد ِگرامی حضرت علی ؑ کی سنت پر چلتے ہوئے بیعت کے طلبگاروں کو "نہیں" کہہ دیا۔علامہ اقبال نے اِس بات کو یوں بیان کیا کہ
تیغ ِ لا چوں از میاں بیروں کشید۔۔۔۔ اَز رگِ ارباب ِباطل خوں کشید
جب اُنہوں نے "لا" کی تلوار میان سے نکالی تو باطل پر کاربند لوگوں کی رگوں سے خون نچوڑ لیا۔ کیونکہ علامہ اقبال کا یہ عقیدہ اور نظریہ تھا کہ
موسیٰ ؑ و فرعون و شبیر ؑو یزید۔۔۔۔ ایں دو قوت از حیات آید پدید
موسی ٰ ؑ و فرعون اور شبیر ؑو یزید، حق و باطل کی دو ایسی قوتیں ہیں، جو ابتداء سے متواتر چلی آرہی ہیں۔ چونکہ امام حسین ؑ تو خود حق اور باطل کا معیار اور پہچان ہیں، اس لئے علامہ اِقبال تمام مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ
ماسوی اللہ را مسلماں بندہء ِنیست۔۔۔ پیش ِفرعونے سرش افگندہ نیست
مسلمان غیر اللہ کا بندہ نہیں بن سکتا اور کسی فرعون ِ وقت کے آگے اُس کا سر نہیں جھک سکتا۔

تاریخ شاہد ہے کہ شہادت ِحسین ؑ کے بعد فکر و نظر کا معیار بدل گیا۔ زندگی کی غایت اور وَجدان کی اساس بدل گئی۔ حیات ِاِنسانی کے انداز اور خیر و شر کے معیاربدل گئے۔ علامہ اقبال آگے کہتے ہیں کہ
خون ِاو تفسیر ِاین اسرار کرد۔۔۔۔ ملت ِخوابیدہ را بیدار کرد
اُن کے خون نے اُن رازوں کو کھول کر بیان کر دیا اور اُنہوں نے سوئی ہوئی قوم کو بیدار کر دیا۔ آج امام حسین ؑ کا نام اِنسانیت کی علامت اور اَمن کا مظہر بن گیا ہے۔ دُنیا کی باشعور قومیں امام حسین ؑ کی سیرت و کردار اور عزم و ہمّت کو سراہ رہی ہیں اور اُن کے نصب ُالعین کو اپنا رہی ہیں۔ آج معاشرتی مسائل، رنگ و نسل، علاقائیت و طبقہ واریت، عریانی و فحاشی اور ظلم و بربریت کی شکل میں ہمارے سامنے کھڑے ہیں۔اخلاقی اَقدار کے زوال نے ہم سے اور ہماری نسل سے ہماری شاندار روایات کو چھین لیا ہے۔ ہمیں معرفت ِخداوندی، شریعت ِمحمدیؐ کی سربلندی، اخلاقی اَقدار کی بحالی، دُنیا پر دِین کی حکمرانی، اِنسانیت کی برتری، نفس کی پاکیزگی، جذبہء ِحُریّت کی بیداری، دُنیا میں اَمن و آشتی، مظلوموں کی دادرَسی، مستضعفین کی مدد اور اِستعماری طاقتوں کے خاتمہ کیلئے سیرت ِحسین ؑ کو مکمل طور پر اپنانا چاہیئے اور حسین ؑشناسی کو رواج دینا چاہیئے۔ کیونکہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے بقول
شاہ اَست حسین ؑبادشاہ اَست حسین ؑ 
دِیں اَست حسین ؑدیں پناہ اَست حسین ؑ
سرداد نہ داد دَست در دَست  ِیزید
حقّا کہ بِنائے لا اِلٰہ اَست حسین ؑ


خبر کا کوڈ: 1147971

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1147971/ب-نائے-لا-ا-ل-ہ-ا-ست-ح-سین

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com