QR CodeQR Code

انصار الحسین علیہ السلام(1)

15 Jul 2024 12:05

اسلام ٹائمز: نافع بن ہلال بن نافع بن جمل بن سعد امیر المومنین علیہ السلام کے ساتھیوں میں سے تھے۔ قبیلہ بنی مذحج کی اہم شخصیات میں انکا شمار ہوتا تھا۔ جنگ جمل، جنگ صفین، جنگ نہروان میں امیر المومنین کے ہمراہ جنگ کی۔ نافع قاری قرآن، حامل حدیث اور کاتب تھے۔ طبری کے مطابق پانی لانے کی پہلی کاوش ہلال بن نافع کی سربراہی میں انجام پائی، اس لشکر میں تیس گھوڑے سوار اور بیس پیادہ لوگ تھے۔ نافع نے کربلا میں جنگ کے وقت یہ رجز پڑھا: "أنا الهزبر الجملی أنا علی دین علیّ"، "میں جمل کا شیر ہوں اور علی کے دین پر ہوں"


تحریر: سید اسد عباس

لشکر امام حسین علیہ السلام انسانوں کی وہ بے مثال جماعت تھی، جن کی خصوصیات آج بھی انسانیت کے لیے مشعل راہ ہیں۔ یہ لوگ بھولے سے کربلا جمع ہونے والے افراد نہیں تھے، نہ ہی "چلو چلو کربلا چلو" کی آواز سن کر کربلا پہنچے تھے۔ مخلصین کی یہ جماعت بہت سی مشکلات اور صعوبتیں جھیل کر میدان کربلا میں پہنچی تھی۔ ویسے تو اس جماعت میں کوئی صحابی رسولؐ و امیر المومنین ؑتھا، کوئی حافظ قرآن تھا، کوئی محدث تھا، کوئی شب زندہ دار تھا، کوئی عابد بے بدل تھا، کوئی شجاعت کا پیکر تھا، کوئی پرانا رفیق تھا، کوئی حق کا متلاشی تھا، کوئی جنت کا طلبگار تھا، کوئی رسول اللہ ؐ سے ملاقات کا مشتاق تھا۔ تاہم اس جماعت میں پائی جانے والی چند مشترکہ خصوصیات جو ان کو اس زمانے اور ہر دور کے انسانوں سے ممتاز کرتی ہیں میرے خیال میں "خدا پرستی و حق جوئی"، "معرفت و اطاعت امام"، "سیاسی بصیرت"، "قوت فیصلہ" اور "مضبوط ارادہ" تھا۔ انہی بنیادی صفات کے سبب یہ گروہ کربلا پہنچا اور امام حسین ؑ کے قدموں میں اپنی جانیں قربان کرکے اخروی سعادت سے ہمکنار ہوا۔ آج بھی اگر کوئی لشکر امام میں شامل ہونا چاہے تو اس میں کم از کم ان بنیادی صفات کا ہونا ازحد ضروری ہے۔ ورنہ اہل حجاز، اہل کوفہ اور اہل بصرہ کی مانند ہم بھی دعووں سے آگے نہ بڑھ سکیں گے۔

گذشتہ تحریر بعنوان "کربلا کے شہید، اصحاب رسول ؐ " میں ہم نے شہدائے کربلا میں سے ان ہستیوں کا اجمالی تعارف دیکھا، جن کو نبی اکرم ؐ کی زیارت نصیب ہوئی، جنھوں نے نبی اکرم ؐ کو سنا اور معروف معنوں میں جو اصحاب رسول ؐ تھے۔ یہ ہستیاں اصحاب امیر المومنین ؑ بھی تھیں اور ہمیشہ ان کے ہم قدم رہیں۔ ان ہستیوں میں الادھم بن امیہ العبدی، اسلم بن کثیر الازدی، انس بن حرث کاہلی، بکر بن حی تیمی، جابر بن عروہ غفاری، جنادۃ بن کعب الانصاری، جندب بن حجیر الخولانی الکوفی، حبیب بن مظاہر الاسدی، زاہر بن عمرو الاسلمی، زیاد بن عریب ابو عمرو، سعد بن الحرث الخزاعی، شبیب بن عبد اللہ، شوذب بن عبد اللہ الہمدانی الشاکری، عبد الرحمٰن الارحبی، عبداللہ بن ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب، عبد اللہ بن یقطر، عمار بن ابی سلامہ الدالانی، عمرو بن ضبیعۃ، عون بن جعفر طیار، کنانہ بن عتیق، مجمّع بن زیاد جہنّی، مجمع بن عائذ العائذی، نعیم بن عجلان، حارث بن نبہان، جون بن حوی، حبشی بن قیس، قرة بن أبی قرّة الغفاری، یزید بن مغفل الجفعمی کا تذکرہ ہم کرچکے۔

دل چاہتا ہے کہ ان شخصیات کے تذکرے کو بار بار قلمبند کیا جائے، ان کی سوانح پر تحقیق ہو، تاکہ آنے والی نسلیں ان وفا شعاروں کو جان سکیں اور ان جیسی خصوصیات اپنانے کی کوشش کریں۔ میر انیس مرحوم  نے لشکر امام حسین ؑکی عکاسی کیا خوبصورت الفاظ میں کی:
آگے کبھی نہ دیکھی تھی اس حسن کی سپاہ
دنیا بھی خوبیوں کا مرقع ہے! واہ، واہ
دیکھیں کسے کسے کہ ہے ایک ایک رشک ماہ
جاتی ہے جس کے رخ پہ تو پھرتی نہیں نگاہ
دیکھو انہی دنوں سے ہے رونق زمین کو
چن کر حسین لائے ہیں کس کس حسین کو

محدث الفضیل بن زبیر بن عمر بن درھم الکوفی الاسدی کی کتاب "تسمیۃ من قتل مع الحسین" انصار حسین علیہ السلام پر تحریر کی جانے والی قدیم ترین کتاب ہے۔ اسی طرح "ابصار العین فی انصار الحسین" تیرھویں صدی ہجری کے عالم محمد بن طاہر سماوی کی کتاب ہے، جس میں انصار امام حسین علیہ السلام کا تذکرہ موجود ہے۔

گذشتہ تحریر میں راقم نے ایک کتاب "انصار الحسین الثورۃ الثوار" کا تعارف پیش کیا، جو عتبات حسینیہ کی جانب سے شائع ہوئی۔ یہ کتاب محمد علی الحلو کی تحقیق ہے۔ محمد باقر روشن دل کی کتاب "شہدای کربلا"، محمد علی الحلو کی کتاب "نساء الطفوف"، حسین انصاریان کی کتاب "باکاروان نور"، حسین دوستی کی کتاب "زنان عاشورایی"، مسجد جمکران کی تحقیق "یاران باوفا و شہیدان بی ھمتا"، مصلح الدین مہدوی کی کتاب "یاران باوفای حسین"، محمد محمدی ری شہری کی کتاب "الصحیح من مقتل سید الشھداء و اصحابہ"، محمد بن شیخ طاہر سماوی کی کتاب "حماسہ سازان دشت نینوا"، ذبیح اللہ محلاتی کی کتاب "فرسان الہیجا"، گروہ مصنفین کی تحقیق "شہدائے کربلا " اور دیگر کتابیں بھی اس ضمن میں مطالعہ کی جاسکتی ہیں۔ شیخ طوسی نے اپنی رجال کی کتاب میں اصحاب ابی عبدالله الحسین بن علیؑ کے ذیل میں 101 افراد کا نام ذکر کیا ہے۔ بعض نے امام حسینؑ کے 146 اور بعض نے 266 اصحاب کا نام ذکر کیا ہے، جن میں سے بعض  اصحاب نے امام حسینؑ سے بالواسطہ روایت نقل کی ہے۔

اصحاب امام حسین علیہ السلام میں ان شخصیات کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے، جو کوفہ اور بصرہ میں عاشورہ سے قبل اور عاشورہ کے بعد شہید ہوئے۔ ان کتب میں ان اصحاب امام حسین علیہ السلام کے احوال زندگی کے ساتھ ساتھ ان کے قبائل اور انساب کا بھی تعارف پیش کیا گیا ہے۔ بعض کتب میں شہداء کو قبائل کے زیر عنوان جمع کیا گیا ہے۔ ان قبائل میں بنی اسد، بنی تمیم، بنی غفار، بنی سعد، بنی تغلب، بنی قیس بن ثعلبۃ، بنی  عبد القیس بصرہ، انصار، بنی حارث بن کعب، بنی خثعم، طی، مراد، بنی شیبان بن ثعلبہ، بنی حنیفۃ، بنو ہمدان، بنو الازد وغیرہ شامل ہیں۔ اس تحریر میں ہم دیگر اصحاب امام حسین علیہ السلام کا اجمالی تذکرہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ مجالس اور محافل کے ذریعے بعض افراد سے تو ہم متعارف ہیں، تاہم بعض کا ہمیں نام تک نہیں معلوم۔ میرا زیادہ انحصار محمد علی حلو کی تحقیق جو عتبات حسینیہ کی جانب سے شائع ہوئی ہے، اس پر ہوگا، تاہم سماوی کی ابصار العین اور فضیل بن زبیر کی "تسمیۃ من قتل مع الحسین" کو بھی ضرور مدنظر رکھوں گا۔

شہدائے بنی اسد اور ان کے غلام
ہم اپنی گذشتہ تحریر بعنوان "کربلا کے شہید، اصحاب رسول ؐ" میں انس بن حارث کاہلی، حبیب ابن مظاہر اسدی، مسلم بن عوسجہ اسدی کا تذکرہ کرچکے۔ علامہ سماوی نے ان شہداء کو بنی اسد میں سے قرار دیا ہے۔ اس تحریر میں ہم ان شہداء کا تذکرہ کریں گے، جن کا قبل ازیں تذکرہ نہیں کیا گیا۔ بنی اسد عرب دنیا کا ایک معروف قبیلہ ہے۔ یہ عدنانی ہیں اور ان کا شجرہ نسب حسب ذیل ہے :اسد بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن الیاس بن مدر بن نذر بن معد بن عدنان۔۔۔ اسماعیل بن ابراہیم۔

قیس بن مسھر صیداوی
قیس بن مسهّر بن خالد بن جندب بن منقذ بن عمرو بن قعین بن حارث بن ثعلبه بن دودان بن اسد بن خزیمه اسدی صیداوی ہیں۔ قیس کوفہ کے شیعوں کے خطوط لے کر امام علیہ السلام کی خدمت میں مکہ پہنچے۔ ابو مخنف کہتا ہے کہ جب امام حسین ؑ حاجر کے مقام پر پہنچے تو اپنے سفیر مسلم بن عقیل اور کوفہ کے شیعوں کو خط تحریر کیا، جو قیس کے ذریعے بھیجا۔ قیس حصین بن تمیم کے ہاتھوں گرفتار ہوئے، گرفتاری کا یہ واقعہ حضرت مسلم کی بن عقیل کی شہادت کے بعد ہوا۔ مولف تنقیح المقال تحریر کرتے ہیں کہ آپ بنی صیدا کے شرفاء میں سے تھے، جب گرفتار ہوئے تو خط کے بارے پوچھا گیا، کہا کھا لیا، تاکہ تم نہ جان سکو، پوچھا گیا کس کے لیے تھا، تو کہا ان کے نام نہیں جانتا، حصین بن نمیر تمیمی نے کہا کہ ممبر پر جاؤ اور امام علی ؑ پر سب و شتم کرو، قیس منبر پر گئے اور محمد و آل محمد کی تعریف بیان کی، نیز عبید اللہ ابن زیاد، بنو امیہ اور یزید پر لعنت کی۔ حصین نے ان کے قتل کا حکم جاری کیا۔(تنقیح المقال، ج۲، ص۳۴)

ابو خالد، عمرو بن خالد اسدی صیداوی
ابو خالد کوفہ کے شیعوں میں سے تھے، حضرت مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر بیعت کی، اہل کوفہ کی خیانت اور قیس بن مسہر صیداوی کی شہادت کی اطلاع کے بعد اپنے غلام سعد، مجمع عائذی ان کے بیٹے اور جنادہ بن حارث سلمانی کے ہمراہ امام حسین ؑ سے ملحق ہونے کے لیے کوفہ سے نکل گئے۔ سماوی کے مطابق یہ افراد "عذیب الھجنات " کے مقام پر امام حسین ؑ تک پہنچ گئے۔ حر نے ان کے کوفی ہونے کے سبب واپسی کا مطالبہ کیا۔ امام نے فرمایا یہ میرے انصار اور حامی ہیں اور جیسے میں اپنا دفاع کروں گا، ویسے ہی ان کا دفاع کروں گا۔ (طبری، ج۳،ص۳۰۸) کوفہ سے آنے والی اس جماعت نے مل کر جنگ لڑی اور شہید ہوئے۔ (طبری ج ۳، ص۳۰۸) امام حسین ؑ نے ان کی مغفرت کی دعا کی۔

سعد غلام عمرو بن خالد اسدی صیداوی
یہ غلام اپنے آقا کے ہمراہ کوفہ سے نکلا اور ان کی ہمراہی میں جنگ لڑتے ہوئے شہید ہوا۔

ابو موسیٰ، موقّع بن ثمامه اسدی صیداوی
علامہ سماوی، ابی مخنف سے روایت کرتے ہیں کہ ابو موسیٰ کربلا میں زخمی ہوئے، ان کے قبیلے والے ان کو چھپا کر کوفہ لے گئے، تاہم کوفہ میں گرفتار ہوگئے، اسی اسیری اور بیماری کے عالم میں شہید ہوئے۔ (سلحشوران طف، ترجمہ ابصار العین، ص ۱۴۹)

بنو ہمدانی کے شہداء اور ان کے غلام
بنو ہمدان یمن کا ایک قبیلہ ہے، جو رسول اکرم ؐ کے دور میں امیر المومنین علی علیہ االسلام کے ہاتھوں پر اسلام لایا۔ امیر المومنین نے اس قبیلے کی متعدد مقامات پر تعریف کی۔ کربلا میں متعدد شہداء کا تعلق اسی قبیلے سے تھا۔

ابو ثمامہ، عمرو صائدی
عمرو بن عبد اللّه بن کعب، صائد بن شرحبیل بن شراحیل بن عمرو بن جشم بن حاشد بن جشم بن حیزون بن عوف بن همدان۔ امام علی علیہ السلام کے انصار میں سے ایک شجاع اور جنگجو شخص تھے۔ ابصار العین کے مطابق یہ کوفہ میں رہائش پذیر تھے اور امام حسین ؑ کو خطوط لکھنے والوں میں سے ایک تھے۔ حضرت مسلم سے خیانت کے بعد ابو ثمامہ مخفی ہوگئے اور نافع بن ہلال کے ہمراہ امام حسین ؑ کی جانب مخفی طور پر روانہ ہوئے۔ کربلا میں جب ظہر کا وقت قریب ہوا تو ابو ثمامہ نے امام حسین ؑ سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ آخری نماز آپ کی اقتداء میں ادا کروں تو امام علیہ السلام نے کہا "تم نے نما ز کو یاد رکھا خدا تم کو نماز گزاروں میں سے قرار دے۔ ہاں یہ اول وقت ہے۔" نماز کے بعد ابو ثمامہ نے جنگ کی اجازت چاہی، امام نے فرمایا جلد ہم تم سے آن ملیں گے۔ابو ثمامہ حر کی شہادت کے بعد شہید ہوئے۔ (سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:152)

بریر بن خضیر ہمدانی مشرقی
کوفہ کے ہمدانیوں کے بزرگ اور سردار تھے، آپ امیر المومنین علی علیہ السلام کے صحابی ،قاری قرآن تھے اور قراء کے استاد تھے۔ انھوں نے جب امام علیہ السلام کی مکہ کی جانب ہجرت کا سنا تو کوفہ سے مکہ کی جانب روانہ ہوگئے۔ بریر نے نویں کی شب امام حسین ؑ کے خطاب کے بعد کھڑے ہوکر بات کی اور کہا کہ آپ کی ہمراہی میں ٹکڑے ٹکرے ہوکر مرنا ہمارے لیے سعادت ہے، تاکہ آپ کے جد کی شفاعت حاصل کرسکیں۔ بریر نے جب امام حسین ؑ کی تشنگی کو دیکھا تو اجازت چاہی کہ مجھے دشمن سے بات کرنے کی اجازت دیں۔ بریر نے لشکر شام سے گفتگو کی، ان کی گفتگو کو قطع کیا گیا اور دشمن ان پر حملہ آور ہوا۔ بریر جنگ کرتے ہوئے مقام شہادت پر فائز ہوئے۔ میرا مقصد یہاں فقط شہداء کا تعارف پیش کرنا ہے، ان ہستیوں کی تفصیل کتب مقاتل میں دیکھی جاسکتی ہے۔

عابس بن ابو شبیب شاکری
عابس بن ابو شبیب بن شاکر بن ربیعه بن مالک بن صعب بن معاویه بن کثیر بن مالک بن جشم بن حاشد همدانی شاکری۔ یہ بنو ہمدان کی ایک شاخ ہے۔ عابس امیر المومنین علیہ السلام کے باوفا ساتھیوں سے تھے۔ ان کو امیرالمومنین نے "فتیان الصباح" کا لقب دیا۔ جناب مسلم جب کوفہ آئے تو عابس بن ابو شبیب نے کہا کہ میں نہیں جانتا لوگوں کے دلوں میں کیا ہے، مگر میں اپنی آمادگی کا اظہار کرتا ہوں، آپ کے دشمنوں سے اس وقت تک جنگ کروں گا، جب تک خدا کا دیدار نہ کر لوں اور اس سلسلے میں مجھے خدا سے اجر کے سواء کوئی لالچ نہیں ہے۔ (طبری ج۳، ص۲۷۹) عابس جب میدان کربلا میں اترے تو کوفہ والے انھیں پہچان گئے اور آوازیں آنے لگیں، یہ عابس بن ابو شبیب ہے، اس کے مقابل کوئی نہ جائے۔ عمر سعد نے ان پر پتھر پھینکنے کا حکم دیا۔ عابس نے شدید جنگ کی اور متعدد اشقیاء کو قتل کیا۔ شوذب بن عبداللہ ہمدانی الشاکری کا تذکرہ اصحاب پیغمبر میں گزر چکا ہے۔

حنظلہ بن اسعد شبامی
سماوی کے مطابق ان کا شجرہ نسب یوں ہے: حنظله بن اسعد بن شبام بن عبد اللّه بن اسعد بن حاشد بن همدان همدانی شبامی۔ بنی شبام بنو ہمدان کی ایک شاخ ہے۔ حنظلہ ایک برجستہ شیعہ، قادر الکلام شخصیت، قاری قرآن اور جری شخص تھے۔ حنظلہ امام حسین علیہ السلام کے پاس میدان کربلا میں پہنچے اور امام کی اجازت سے دشمن سے لڑتے ہوئے مقام شہادت سے سرفراز ہوئے۔

عبدالرحمن ارحبی
محمد سماوی کے مطابق ان کا شجرہ نسب حسب ذیل ہے۔ عبد الرحمن بن عبد اللّه بن کدن بن ارحب بن دعام بن مالک بن معاویه بن صعب بن رومان بن بکیر همدانی۔ بنی ارحب قبیله ہمدان کی ایک شاخ ہے۔ عبد الرحمن ارحبی کا تذکرہ گذشتہ تحریر میں گزر چکا ہے۔ عبد الرحمن نے میدان جنگ میں اترتے ہوئے یہ رجز پڑھا۔ "صبرا علی الأسیاف و الأسنّه صبرا علیها لدخول الجنّه"، "میں بہشت میں داخل ہونے کے لئے تلواروں اور نیزوں پر صبر کروں گا۔"

سیف بن حارث بن سریع بن جابر همدانی جابری و مالک بن عبد اللّه
محمد سماوی کے مطابق بنی جابر بھی بنو ہمدان کی ایک شاخ ہے۔ سیف بن حارث اور ان کے چچیرے بھائی مالک بن عبد اللہ اپنے غلام شبیب کے ہمراہ اتفاقاً کربلا پہنچے اور لشکر امام حسین علیہ السلام کا حصہ بن گئے۔ انھوں نے جب امام حسین ؑ کو دشمنوں کے نرغے میں دیکھا تو گریہ کرنے لگے۔ امام حسین ؑ نے کہا، اے میرے چچا زاد بھائیو، کیوں گریہ کرتے ہو۔ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم آپ کو دشمنوں کے نرغے میں دیکھتے ہیں اور اپنی جان کے علاوہ کوئی چیز نہیں رکھتے کہ آپ کا دفاع کریں۔ ان دونوں نے حنظلہ بن سعد کے بعد اذن جہاد مانگا اور ایک دوسرے کی ہمراہی میں شہید ہوگئے۔ (طبری، تاریخ: 3/ 328، به مثیر الاحزان: 66)

ابو سلامہ ہمدانی دالانی
علامہ محمد سماوی کی تحقیق کے مطابق ابو سلامه همدانی دالانی کا شجرہ نسب حسب ذیل ہے: عمّار بن ابو سلامه بن عبد اللّه بن عمران بن راس بن دالان ہے۔ بنی دالان بھی بنو ہمدان کی ایک شاخ ہے۔ ابو سلامہ صحابی رسول ؐ تھے، ان کا تذکرہ گذشتہ تحریر میں گزر چکا ہے۔

حبشی بن قیس نهمی
علامہ محمد سماوی کے بقول اس جانثار صحابی کا شجرہ حسب ذیل ہے: حبشی بن قیس بن سلمه بن طریف بن ابان بن سلمه بن حارثه همدانی نهم۔بنی نہم قبیلہ ہمدان کی ایک شاخ ہے۔ حبشی بن قیس کا تذکرہ بھی اصحاب رسول ؐ کے ذیل میں گزر چکا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ ان غیر مذکور شخصیات پر بہت لکھوں، مگر طوالت کے خوف سے اپنی تحریر کو مختصر رکھنے پر مجبور ہوں۔

ابو عمره زیاد همدانی صائدی
علامہ محمد سماوی کے مطابق ان کا شجرہ نسب حسب ذیل ہے: ابو عمره همدانی صائدی زیاد بن عریب بن حنظله بن دارم بن عبد اللّه بن کعب، صائد بن شرحبیل بن شراحیل بن عمرو بن جشم بن حاشد بن خیرون بن عوف همدانی۔ بنی صائد، بنو ہمدان کی ایک شاخ ہے۔ ابو عمرہ شب زندہ دار اور شجاع انسان تھے۔ دوران جنگ امام حسین ؑ سے مخاطب ہوکر کہتے تھے: "أبشر هدیت الرشد یا بن أحمدا فی جنّه الفردوس تعلوا صعّدا"، "اے ابن احمد آپ کو بشارت ہو کہ آپ نے لوگوں کی ہدایت کی جانب راہنمائی کی اور جنت میں بہترین مقام تک پہنچایا۔" (تنقیح المقال: 1/ 456)

سوّار بن منعم بن حابس بن ابو عمیر بن نهم همدانی نهدی
جنگ کے آغاز سے قبل امام حسین ؑ کی خدمت میں پہنچنے والے افراد میں سے ایک ہیں۔ سوار نے شدید جنگ کی اور زخمی ہوکر گرفتار ہوئے۔ عمر سعد انھیں قتل کرنا چاہتا تھا، تاہم ان کے اہل قبیلہ نے مداخلت کی۔ سوار بن منعم انہی زخموں کے سبب چھے ماہ بعد شہید ہوئے۔ (سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:172)

عمرو بن عبد اللہ ہمدانی جندعی
علامہ سماوی کے مطابق بنی جندع بھی بنو ہمدان کی ایک شاخ ہے۔ عبداللہ ہمدانی جندعی بھی جنگ کے آغاز سے قبل ایک گروہ کے ہمراہ امام حسین ؑ کی خدمت میں پہنچے۔ عمرو بن عبداللہ ہمدانی نے کربلا میں جنگ لڑی اور زخمی ہوئے، ان کے اہل قبیلہ ان کو اٹھا کر لے گئے۔ اس زخم کی وجہ سے ایک سال بعد آپ شہید ہوئے۔ (سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:173)

قبیلہ مذحج کے شہداء اور ان کے غلام
قبیلہ مذحج قحطانی یمنی قبیلہ ہے، جس کی بہت سی شخصیات قبول اسلام کے بعد مکہ، مدینہ اور کوفہ میں آباد ہوئیں۔ قبیلہ مذحج نے بھی امیر المومنینؑ کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا۔ امیر المومنین کے لشکر میں مذحجی قبیلہ کی بہت سی شخصیات شریک رہیں۔ عمار یاسر اور اویس قرنی کا تعلق اسی قبیلہ سے تھا۔

ہانی بن عروہ مرادی
ہانی وہ شخصیت ہیں، جن کے گھر حضرت مسلم بن عقیل نے قیام کیا۔ ہانی بن عروہ اہل کوفہ کی عمومی خیانت کے بعد ابن زیاد کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ علامہ سماوی کے مطابق ان کا شجرہ نسب حسب ذیل ہے: ابو یحییٰ مذحجی مرادی غطیفی، هانی بن عروه بن نمران بن عمرو بن قعاس بن عبد یغوث بن مخدش بن حصر بن غنم بن مالک بن عوف بن منبّه بن غطیف بن مراد بن مذحج۔(سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص: 174) ہانی بن عروہ اپنے والد کی مانند اصحاب رسول ؐ میں سے تھے اور پیری کی حالت میں ابن زیاد کے مظالم کے سبب واقعہ کربلا سے قبل شہید ہوئے۔

جناده بن حارث مذحجی مرادی سلمانی
اس عظیم شخصیت کا تذکرہ "کربلا کے شہید ، اصحاب رسول" ؐ میں گزر چکا۔

واضح ترک (غلام حارث مذحجی سلمانی)
یہ ہستی حارث سلمانی مذحجی کے غلام تھے، مولف حدائق وردیہ کے مطابق یہ جنادہ بن حارث کے ہمراہ امام حسین ؑ کی خدمت میں پہنچے۔ جب واضح زمین پر گرے تو امام حسین ؑ نے اپنا چہرہ اقدس ان کے چہرے کے ساتھ جوڑا، جس پر واضح نے تبسم کیا۔ واضح قاری قرآن اور عربی پر عبور رکھتے تھے۔(سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:180)

مجمع بن عبد اللہ عائذی
علامہ سماوی کے مطابق ان کا شجرہ نسب حسب ذیل ہے: مجمّع بن عبداللّه بن مجمّع بن مالک بن ایاس بن عبد مناه بن عبید اللّه بن سعد العشیره مذحجی عائذی۔ ان کا تذکرہ گذشتہ تحریر "کربلا کے شہید ، اصحاب رسول" ؐ میں گزر چکا ہے۔

عائذ بن مجمّع بن عبداللّه مذحجی عائذی
یہ مجمع بن عبداللہ مذحجی کے فرزند ہیں، جو اپنے والد کے ہمراہ امام حسین ؑ کے انصاران کا حصہ بنے۔ عائذ اپنے والد کے ہمراہ شہید ہوئے، یہ ان افراد میں سے ہیں، جو کوفہ سے خفیہ طور پر کربلا پہنچے اور حر نے امام حسین ؑ سے ان کی سپردگی کا مطالبہ کیا۔

نافع بن ہلال جملی
نافع بن ہلال بن نافع بن جمل بن سعد امیر المومنین علیہ السلام کے ساتھیوں میں سے تھے۔ قبیلہ بنی مذحج کی اہم شخصیات میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ جنگ جمل، جنگ صفین، جنگ نہروان میں امیر المومنین کے ہمراہ جنگ کی۔ نافع قاری قرآن، حامل حدیث اور کاتب تھے۔ طبری کے مطابق پانی لانے کی پہلی کاوش ہلال بن نافع کی سربراہی میں انجام پائی، اس لشکر میں تیس گھوڑے سوار اور بیس پیادہ لوگ تھے۔ (طبری، تاریخ: 3/ 312) نافع نے کربلا میں جنگ کے وقت یہ رجز پڑھا: "أنا الهزبر الجملی أنا علی دین علیّ"، "میں جمل کا شیر ہوں اور علی کے دین پر ہوں"

حجّاج بن مسروق بن جعف بن سعد العشیره مذحجی جعفی
حجاج امیر المومنین کے ساتھیوں میں سے تھے، جب امام نے مدینہ سے رخت سفر باندھا تو حجاج مکہ میں امام علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے اور ان کے ہمراہ موذن کی خدمات انجام دیتے رہے۔ حجاج نے روز عاشور جنگ کی اجازت چاہی اور زخمی بدن کے ہمراہ امام کی خدمت میں حاضر ہوکر یہ شعر پڑھا: "فدتک نفسی هادیا مهدیّاالیوم ألقی جدّک النبیّا، ثمّ أباک ذی الندی علیّاذاک الذی نعرفه الوصیّا"، "میری جان آپ پر فدا ہو، اے ہادی و مھدی، آج آپ کے جد کی زیارت کے لیے بے چین ہوں اور پھر آپ کے والد علی کا مشتاق ہوں، جن کو نبی کا وصی سمجھتا ہوں۔" (سلحشوران طف، ترجمه إبصار العین ،ص:191)

یزید بن مغفل بن جعف بن سعد العشیره مذحجی جعفی
اس ہستی کا تذکرہ گذشتہ تحریر "کربلا کے شہید ، اصحاب رسول" میں کیا جا چکا ہے۔

علامہ نجم آفندی نے انصار امام حسین ؑ کی شان میں کیا خوب لکھا:
کیا ربط آج موت کو ہے زندگی کے ساتھ
کتنے ادا شناس ہیں سبط نبی کے ساتھ
پھر یہ ہجوم شوق نہ ہوگا کسی کے ساتھ
مرنے کو یوں نہ جائیں گے انساں خوشی کے ساتھ
سن کر سفیر مرگ کے قدموں کی آہٹیں
ہونٹوں پہ جمع ہوں گی نہ پھر مسکراہٹیں

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خبر کا کوڈ: 1147802

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1147802/انصار-الحسین-علیہ-السلام-1

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com