QR CodeQR Code

مسلم پرسنل لاء بورڈ کی مجلس عاملہ کا ایک اہم اجلاس نئی دہلی میں منعقد

گیانواپی مسجد، ماب لنچنگ، یونیفارم سول کوڈ سمیت متعدد مسائل پر غور و خوص

15 Jul 2024 00:33

اسلام ٹائمز: مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کہا کہ یہ اجلاس دنیا کے بیشتر ملکوں اور خود ہمارے ملک میں عام انسانوں نے ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر فلسطینوں بالخصوص غزہ کے مظلومین کی حمایت میں جس انسانی ہمدردی کا مظاہرہ پیش کیا ہے، اسکی ستائش کرتا ہے۔ اجلاس میں عالم اسلام سے بھی یہ اپیل کی گئی کہ وہ مشکل وقت میں جرات کا مظاہرہ کرے اور مظلوم فلسطینی بھائیوں کی ہر طرح سے مدد کرے، کیونکہ وہ حق کی لڑائی لڑ رہے ہیں اور حق کا ساتھ انسانی فریضہ ہے اور اسلامی فریضہ بھی۔


رپورٹ: جاوید عباس رضوی

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی مجلس عاملہ کا ایک اہم اجلاس نئی دہلی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں مسلم پرسنل لاء بورڈ سے وابستہ علماء کرام اور دانشوروں نے شرکت کی۔ اجلاس میں کہا گیا کہ مسلم مطلقہ کے نان و نفقہ سے متعلق سپریم کورٹ آف انڈیا کا حالیہ فیصلہ قانونِ شریعت سے راست متصادم ہے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اس بات کا اعادہ کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ نبی رحمت (ص) کے مطابق ’’اللہ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ نا پسندیدہ چیز طلاق ہے‘‘ لہٰذا حتی الامکان ازدواجی زندگی کو بنائے رکھنے کے لئے قرآن میں تاکید کی گئی ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کہا کہ طلاق سے پہلے معاملات کو درست رکھنے سے متعلق بھی قرآن مجید میں ہدایات موجود ہیں لیکن تمام کوششوں کے باوجود ساتھ رہنا دشوار ہوجائے، تو احسن طریقہ سے جدائی ہی ایک معقول اور قابل عمل راستہ رہ جاتا ہے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ مجلس عاملہ کا احساس ہے کہ اگر رشتہ سے نکلنے کو مشکل اور ناقابل عمل بنا دیا جائے تو وہ خواتین کے لئے ہی مسائل پیدا کرے گا، کہا یہ جا رہا ہے کہ یہ فیصلہ خواتین کے مفاد میں ہے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ نہ خواتین کے لئے مفید ہے اور نا ہی قابل عمل بلکہ اس سے اندیشہ ہے کہ ان کی زندگی مزید بدتر ہوجائے گی۔ ویسے بھی انسانی عقل میں یہ بات نہیں آسکتی کہ جب رشتہ ہی باقی نہ رہے، تو مرد پر مطلقہ کی کفالت کی ذمہ داری کیسے آسکتی ہے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ بھارت میں جس طرح ہندوؤں کو اپنے پرسنل لاء ( ہندو کوڈ لاء) کے مطابق زندگی گذارنے کا حق ہے اسی طرح مسلمانوں کے لئے شریعت اپلیکیشن ایکٹ 1937 موجود ہے۔

اجلاس میں کہا گیا کہ بھارت جیسے کثیر مذہبی اور کثیر ثقافتی ملک کے لئے ’یونیفارم سول کوڈ‘ بالکل موزوں اور مناسب نہیں ہے، نیز اس طرح کی کوششیں ملک کے دستور کی روح کے بھی منافی ہیں۔ اقلیتوں کو دستور میں جو ضمانتیں دی گئی ہیں، یونیفارم سول کوڈ اس کو ختم کر کے رکھ دے گا، اس لئے نہ بھارت کی بی جے پی حکومت کو نہ کسی ریاستی حکومت کو یونیفارم سول کوڈ کو نافذ کرنے کی بات کرنی چاہیئے، یہ مسلمانوں کے لئے ناقابل قبول ہوگا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ ہم اتراکھنڈ اسمبلی سے منظور یونیفارم سول کوڈ کو غلط، غیر ضروری اور دستور ہند میں دی گئی ضمانتوں کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اجلاس میں کہا گیا کہ اتراکھنڈ یو سی سی میں لیون ریلیشن شپ کو بھی جائز قرار دیا گیا ہے جو نہ صرف اخلاقاََ بلکہ مذہباََ بھی غلط ہے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس قانون کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرے گا، بورڈ کی لیگل کمیٹی اس کی تیاری کر رہی ہے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ اوقاف دینی اور خیراتی مقاصد کے لئے مسلمانوں کے دیئے ہوئے مقدس اثاثے ہیں اور مسلمان ہی اس کے متولی و منتظم ہوتے ہیں اور وہی اس سے استفادہ کے مستحق بھی ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اوقاف کی بہت سی اراضی حکومت کے استعمال میں ہیں، اس لئے یہ اجلاس حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ بازار کی شرح (مارکیٹ ریٹ) کے لحاظ سے ان املاک کا کرایہ ادا کرے اور منشاء وقف اور قانون شریعت کے مطابق اس رقم کو خرچ کرے تاکہ مسلمان اپنے بزرگوں کی محفوظ کی ہوئی اس دولت سے فائدہ اٹھا سکیں۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کہا کہ اسلام کا تصور یہ ہے کہ جب کوئی چیز وقف کر دی جاتی ہے تو وہ اللہ تعالٰی کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے، مسلمان خود بھی اس کو اپنی خواہش کے مطابق اپنی ذات پر استعمال نہیں کر سکتا، بلکہ اس کو مقررہ مصرف میں ہی استعمال کرنا واجب ہے۔ یہ شریعت کا حکم بھی ہے اور ملکی قانون بھی اس کو تسلیم کرتا ہے، چنانچہ آزادی کے پہلے ہی وقف کا قانون بنا، مختلف مواقع پر اس میں ترمیمات ہوتی رہیں، یہاں تک کہ 2013ء میں قانون نے آخری شکل اختیار کی۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کہا کہ یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وقف کے اس قانون پر نیک نیتی کے ساتھ عمل کیا جائے اور وقف بورڈ کو اپنی املاک کے حصول کے لئے عدالتی اختیارات دئے جائیں، تاکہ وہ وقف کی املاک پر ناجائز قبضوں کو ہٹا سکیں۔ نیز یہ اجلاس قانون وقف کو منسوخ کرنے کے ہر اقدام کی سختی سے مذمت کرتا ہے۔ اجلاس میں اوقاف کے متولیوں سے بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ خود بھی اوقافی جائیدادوں کے استعمال سے بچیں، دوسروں سے بھی ان کو بچائیں اور وقف کی املاک کے سلسلہ میں خاص طور پر اللہ سے ڈریں۔

اجلاس میں بھارت کے تمام مسلمانوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ عائلی اور سماجی معاملات میں احکام شریعت کے پابند رہیں، شوہر و بیوی اور رشتہ دار کے درمیان کوئی نزاع پیدا ہوجائے تو دارالقضاء سے ہی رجوع کریں اور قرآن و حدیث اور اسلامی شریعت کے مطابق کوئی فیصلہ ہو تو اسے خوش دلی سے قبول کرتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہوں۔ علماء اور ائمہ مساجد سے بھی اپیل کی جاتی ہے کہ وہ بورڈ کے نکاح نامہ کو زیادہ سے زیادہ عام کر نے پر توجہ دیں۔ اجلاس میں مسلم خواتین سے بھی اپیل کی گئی کہ وہ معاشرہ کی اصلاح میں اہم رول ادا کریں، خاص کر طلاق کے واقعات کو کم کر نے، بیٹے اور بہو کے درمیان تعلقات کو خوشگور بنانے، غیر شرعی رسوم رواج کو روکنے، بیٹوں کو حق میراث دلانے اور نئی نسل کی دینی تربیت کرنے میں، اس لئے سماج اور خاندان کی اصلاح میں ان کا ایک مثالی کردار ادا کریں۔

مجلس عاملہ کے اجلاس میں وارانسی کی گیان واپی مسجد، متھرا کی شاہی عیدگاہ کے تعلق سے نچلی عدالتوں میں پیدا کئے گئے نئے تنازعات کو تشویش کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ عبادت گاہوں سے متعلق 1991ء کے قانون کے ذریعہ ملک کی مقننہ نے ہر نئے تنازعہ کا دروازہ بند کر دیا تھا۔ بورڈ نے کہا کہ اس اجلاس کو اس بات پر شدید تشویش ہے کہ سپریم کورٹ، جس نے بابری مسجد کا فیصلہ دیتے وقت اس قانون کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ اس کے ذریعہ ہر نئے تنازعہ کا راستہ بند کر دیا گیا ہے، وہی مسلمانوں کی متھرا اور کاشی سے متعلق اپیلوں کو نظر انداز کر رہا ہے، اگر ان چور دروازوں کو بند نہیں کیا گیا تو پھر اس بات کا اندیشہ ہے کہ شرپسند قوتیں ملک کے مختلف علاقوں میں نئے نئے فتنے اور تنازعات کھڑے کرتی رہیں گی۔ متھرا کی عیدگاہ سے متعلق 1968ء میں کرشنا جنم بھومی ٹرسٹ اور شاہی عیدگاہ ٹرسٹ کے درمیان ایک معاہدہ کے ذریعہ اس تنازعہ کو حل کر لیا گیا تھا۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ عدالت عظمٰی سے یہ حسن ظن رکھتا ہے کہ وہ ان نئے فتنوں کا دروازہ بند کر کے ملک میں امن و امان اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائے گا۔ اسی طرح دہلی کی سنہری مسجد کے تعلق سے ’این ڈی ایم سی‘ نے ٹرافک کا بہانہ بناکر اس کی شہادت کا جو ناپاک منصوبہ بنایا تھا، سردست عدالت نے اس پر روک لگا دی ہے تاہم سنہری مسجد اور لنٹن زون میں دیگر 6 مساجد شرپسندوں کے نشانے پر ہیں۔

اجلاس میں کہا گیا کہ مسلم لاء بورڈ یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہے کہ یہ تمام مساجد اوقاف کی ان 123 جائیدادوں میں شامل ہیں، جن پر عدالت نے اسٹے لگا رکھا ہے۔ اسی طرح سنہری مسجد اور دیگر مساجد ہیری ٹیج تعمیرات میں بھی شامل ہیں، لہذا ان سے چھیڑ چھاڑ ملک کی تاریخی وراثت کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہوگی۔ اجلاس میں کہا گیا کہ مجلس عاملہ کو اس پر شدید تشویش ہے کہ ملک میں ہجومی تشدد کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ پارلیمانی انتخاب کے نتائج نے یہ عندیہ دیا تھا کہ ملک کے عوام نے نفرت و بغض و عناد پر مبنی ایجنڈے پر اپنی شدید ناراضگی برملا اظہار کیا ہے اور یہ توقع بنی تھی کہ شاید یہ ہیجانی دور اب ختم ہوجائے گا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ اگر ملک میں قانون کی بالادستی کے ساتھ اسی طرح کھلواڑ ہوتا رہا تو ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا ماحول بن جائے گا، اور لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر پولس اور انتظامیہ سے بے نیاز ہوجائیں گے۔ بورڈ مرکزی و ریاستی حکومتوں، پولس و سیکورٹی ایجنسیوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس فتنہ سے سختی سے نمٹیں اور ملک میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائیں۔

اجلاس میں کہا گیا کہ فلسطین کا مسئلہ ایک انسانی مسئلہ ہے، جہاں اسرائیل کی شکل میں ایک غاصب قوت ملک کے اصل باشندوں کو جلا وطن کرنے پر تلی ہوئی ہے، اس نے جبر و ظلم کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ وہ مسلسل نسل کشی اور وحشیانہ مظالم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ اس جنگ کی ابتداء 7 اکتوبر 2023ء سے نہیں، بلکہ جون 1967ء سے ہوئی ہے، جب اسرائیل کسی قانونی جواز کے بغیر پورے فلسطین، مغربی کنارہ، غزہ اور مسلمانوں کی مقدس مسجد ’مسجد اقصیٰ‘ پر بھی قابض ہوگیا تھا۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل بارہا فیصلہ کرچکی ہے کہ اسرائیل مقبوضہ علاقوں کو خالی کر دے، مگر امریکہ اور برطانیہ جیسی استعاری طاقتوں کی شہہ پر اسرائیل نے اب تک اس پر عمل نہیں کیا۔ اجلاس میں اسرائیل اور اس کی پشت پناہی کرنے والی عالمی طاقتوں کی سخت مذمت کی گئی، ان مسلم ملکوں کی بھی جنہوں نے فلسطینیوں کو بچانے کے لئے مدد کا ہاتھ نہیں بڑھایا اور حد درجہ بزدلی کا ثبوت دیتے ہوئے ظلم پر خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دی۔

اجلاس میں بھارتی حکومت سے بھی مطالبہ کیا گیا کہ مہاتما گاندھی سے لے کر اٹل بہاری واجپائی اور بعد کی حکومتوں میں بھی ہمیشہ ہندوستان نے فلسطینی کاز کی حمایت کی ہے۔ بھارتی حکومت کو اپنے اسی دیرینہ موقف پر قائم رہنا چاہیئے، کیونکہ فلسطینیوں کی لڑائی اپنے ملک کی آزادی کی لڑائی ہے نہ کہ کسی دوسرے ملک پر قبضہ کی اور اپنے آپ پر ظلم کو روکنے کی جدوجہد ہے نہ کہ دوسروں پر ظلم کے لئے۔ یہ اجلاس غزہ کے مرد و خواتین، بچوں، بزرگوں اور نوجوانوں کے عزم و استقلال، پامردی و شجاعت اور صبر استقامت کے جذبوں کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کہا کہ یہ اجلاس دنیا کے بیشتر ملکوں اور خود ہمارے ملک میں عام انسانوں نے ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر فلسطینوں بالخصوص غزہ کے مظلومین کی حمایت میں جس انسانی ہمدردی کا مظاہرہ پیش کیا ہے، اسکی ستائش کرتا ہے۔ اجلاس میں عالم اسلام سے بھی یہ اپیل کی گئی کہ وہ مشکل وقت میں جرات کا مظاہرہ کرے اور مظلوم فلسطینی بھائیوں کی ہر طرح سے مدد کرے، کیونکہ وہ حق کی لڑائی لڑ رہے ہیں اور حق کا ساتھ انسانی فریضہ ہے اور اسلامی فریضہ بھی۔

اجلاس میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدور مولانا سید ارشد مدنی، سید سعادت اللہ حسینی، پروفیسر ڈاکٹر سید علی محمد نقوی اور بورڈ کے سکریٹریز مولانا احمد ولی فیصل رحمانی (بہار) اور مولانا محمد یسین علی عثمانی (بدایوں) بورڈ کے خازن پروفیسر محمد ریاض عمر کے علاوہ صدر جمعیت علماء ہند مولانا سید محمود اسعد مدنی، امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، سینیئر ایڈووکیٹ یوسف حاتم مچھالہ، ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس ترجمان بورڈ (دہلی)، مولانا عتیق احمد بستوی، ممبر پارلیمنٹ اسدالدین اویسی، مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی، ایڈووکیٹ ایم آر شمشاد، ڈاکٹر ظہیر آئی قاضی (ممبئی)، محترمہ عطیہ صدیقہ، پروفیسر مونسہ بشریٰ عابدی، محترمہ نگہت پروین خان صاحبہ اور ملک بھر سے کئی اہم شخصیات نے شرکت کی۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی مجلس عاملہ کے اجلاس سے مولانا محمد فضل الرحیم مجددی جنرل سکریٹری بورڈ، مولانا احمد ولی فیصل رحمانی سکریٹری، مولانا ڈاکٹر یاسین علی عثمانی سکریٹری، ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس ترجمان، پروفیسر مونسہ بشریٰ عابدی ممبر ورکنگ کمیٹی اور محترمہ عطیہ صدیقہ ممبر ورکنگ کمیٹی نے خطاب کیا۔


خبر کا کوڈ: 1147667

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1147667/مسلم-پرسنل-لاء-بورڈ-کی-مجلس-عاملہ-کا-ایک-اہم-اجلاس-نئی-دہلی-میں-منعقد

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com