QR CodeQR Code

ایران کے صدارتی انتخابات

7 Jul 2024 17:52

اسلام ٹائمز: ایران میں عوامی رائے کا بڑا احترام کیا جاتا ہے۔ عوام جسے منتخب کریں، اس میں کوئی ہیرا پھیری نہیں ہوتی۔ نہ ووٹ چوری ہوتا ہے۔ نہ انتخابات کے نتائج رکتے ہیں۔ نہ کسی پر دھاندلی کا الزام لگتا ہے، نہ ووٹر کے درمیان کوئی تلخ کلامی یا لڑائی جھگڑا ہوتا ہے۔ اسکے باوجود ہمارے سستے تجزیہ نگاروں کو نہیں معلوم ایسی سنسنی خیز خبریں کہاں سے ملتی ہیں، جبکہ ہمارے آئین میں 90 دنوں کے اندر ملک میں عام انتخابات کرانے کے پابند ہونے کے باجود الیکشن کمیشن فنڈ کا بہانہ بنا کر اسے ایک سال تک طول دے تو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔


تحریر: ایس ایم موسوی

یوں تو ایرانی صدارتی انتخابات کئی لحاظ سے ہمارے لیے اہمیت کے حامل ہے۔ ایک طرف اسلامی ملکی نظام دوسرے لحاظ سے ہمارے پڑوسی ہونے کے ناطے ہمیں ان کے معاملات میں دلچسپی رہتی ہے۔ یہاں کے انتخابی معاملات مغربی ممالک کے لیے بھی انتہائی اہم سمجھے جاتے ہیں۔ چند سالوں سے ایران میں مقیم ہونے کی بنا پر یہاں کے کچھ معاملات کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے، ایک طرف تعصب اور قوم پرستی کی انتہاء، دوسری جانب اعلیٰ اخلاق اور خوداری کی مالک قوم ہے۔ ان کی قوم پرستی پر بات کی جائے تو گویا دنیا اِدھر سے اُدھر ہو جائے، انہوں نے ہر صورت اپنے شہریوں کو ہی ترجیح دینی ہے۔ لیکن دوسری طرف اگر کوئی ان سے دوستی کا ہاتھ بڑھائے تو اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔

جس وقت راقم ایران آیا، اس وقت حسن روحانی کی حکومت تھی۔ بظاہر انہیں ایرانی انقلابی نظام کے مخالف سمجھا جاتا تھا۔ ایرانی صدارتی انتخابات میں دو گروہوں کا مقابلہ ہوتا ہے۔ ایک اصول گرا، دوسرا اصلاح پسند۔ اصول گرا گروہ کو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای اور انقلابی نظام کا حامی سمجھا جاتا ہے جبکہ اصلاح پسند گروہ کو انقلابی نظام کے مخالف سمجھا جاتا ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو ان کا اختلاف صرف سیاسی طور پر کچھ معاملات میں طریقہ کار پر ہوتا ہے۔ بنیادی اصول پر نظام سے کوئی اختلاف نہیں کرسکتا، کیونکہ یہاں کے آئین کے مطابق جو بھی صدر آئے، وہ سپریم لیڈر کے ماتحت ہوتا ہے۔ البتہ سپریم لیڈر کی حکومتی معاملات میں زیادہ مداخلت نہیں ہوتی۔ صرف اس صورت میں کہ اگر کوئی صدر آئین کی خلاف ورزی یا ملک کے ساتھ غداری کا مرتکب ہو تو سپریم لیڈر اسے معزول کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومتی معاملات چلانے میں صدر مکمل طور پر آزاد ہوتا ہے۔

یاد رہے کہ انقلاب کے بعد ایران کا حکومتی نظام پارلیمانی تھا۔ بعد میں آئینی ترامیم کے ذریعے صدارتی نظام بنایا گیا۔ ایرانی آئین کے تحت صدر چار سال کے لیے منتخب ہوتا ہے۔ راقم کی آمد کے وقت حسن روحانی حکومت کا آخری دور تھا، اس کے بعد نئے انتخابات میں سید ابراہیم رئیسی جیت گئے، جنہیں کٹر انقلابی سمجھا جاتا تھا۔ تاہم سید ابراہیم رئیسی نے اپنے تین سالہ دور میں واقعاً ایرانی انقلابی نظریئے کو دنیا بھر میں فروغ دیا۔ اقوام متحدہ کے اجلاس میں قرآن پاک ہاتھ میں اٹھا کر دنیا کو چیلنج کر دیا کہ یہ قرآن نہیں جلتا بلکہ اسے جلانے والے اور توہین کرنے والے خود جل جائیں گے۔ اسی طرح اسی جنرل اسمبلی میں دنیا بھر کے مظلومین خصوصاً فلسطین کے مظلومین کی حق میں غاصب اور طاغوتی قوتوں کے خلاف توانا آواز بن کر ابھرے اور ساتھ ہی مسلم ممالک خاص طور پر مملکت خداداد پاکستان سے تعلقات کی بہتری کے لیے انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔

آپ نے آخری مرتبہ پاکستان کے دو روزہ دورے کے دوران پاکستانی عوام سے براہ راست خطاب کرنے کی بھی خواہش کا اظہار کیا، مگر سکیورٹی بہانہ بناکر انہیں اجازت نہیں ملی۔ بعد ازاں حالیہ ہیلی کاپٹر حادثہ میں وہ اپنے کچھ خاص رفقاء سمیت شہید ہوگئے۔ جس کے بعد ایران میں نئے صدر کے انتخاب کے لیے میدان سج گیا۔ ایرانی آئین کے مطابق موجودہ صدر کی معزولی، استعفیٰ یا کسی حادثہ کی صورت میں 50 روز کے اندر نئے صدر کا انتخاب ضروری ہے۔ اس لیے قائم مقام صدر آقای محمد مخبر کے حکم پر ایرانی الیکش کمیشن نے شہید رئیسی کی شہادت کے چالیسویں روز ہی ملک بھر میں عام انتخابات کا اعلان کر دیا۔ کئی اہم شخصیات نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔ تاہم صرف 6 امیدواروں کے کاغذات قبول ہوئے، کیونکہ ایران میں صدر بننے کے لیے کچھ خاص شرائط ہیں، جن میں سب سے پہلے امیدوار کا چالیس سال سے زیادہ عمر ہونا ضروری ہے۔

اس کے علاوہ کم از کم چار سال تک کسی اہم عہدے پر کام کرچکا ہو، جس میں اس کی کارکردگی بہتر رہی ہو۔ بہترین مدیریت اور مدبر ہو، سیاسی فہم و فراست اور بصیرت کا مالک ہو، نظام ولایت فقیہ اور اسلامی جمہوریہ کا قائل ہو۔ ان شرائط پر پورا اترنے والے 6 امیدواروں کے لیے 28 جون بروز جمعہ انتخابات کا میدان سج گیا۔ تاہم ان میں سے دو شخصیات اپنے دوستانہ تعلقات کی بنا پر دوسرے دوستوں کی حمایت کرتے ہوئے انتخابات سے دستبردار ہوگئیں، باقی 4 لوگ میدان میں اترے۔ واضح رہے کہ یہاں الیکشن کے دوران سرے عام بڑے بڑے کوئی جلسے ہوتے ہیں، نہ کوئی بڑے جلوس اور نہ ہی پاکستان کی طرح انتخابی مہم میں شور شرابہ نظر آتا ہے۔ یہاں امیدواروں کو انتخابی نشانات الرٹ کرنے یا چھیننے کا سلسلہ بھی نہیں ہوتا، بلکہ انتخابات سے تقریباً دو ہفتے قبل تمام امیدواروں کو ٹیلی ویژن پر بلایا جاتا ہے اور انہیں اپنی اپنی پالیسیز کا اعلان کرنا ہوتا ہے۔ جس کے بعد امیدواروں کے درمیان بحث و مباحثہ ہوتا ہے اور ایک دوسرے کی پالیسیز پر کھلے دل سے تنقید بھی کرتے ہیں۔

عوام ان کے بحث و مباحثے اور پالیسیز دیکھ کر اسی کے مطابق اپنا امیدوار منتخب کرتے ہیں۔ یہاں انتخابات کے لیے عام تعطیل کا اعلان بھی نہیں ہوتا۔ روز جمعہ ایران میں سرکاری طور پر ہفتہ وار چھٹی کا دن ہے۔ اسی دن کو ہی انتخابات کے لیے معین کرتے ہیں اور ووٹنگ کے لیے تعلیمی اداروں کے بجائے ہر گلی کوچے کی مساجد اور حسینیہ میں انتظامات ہوتے ہیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ عوام کے لیے آسانی ہو اور تعلیمی نظام بھی متاثر نہ ہو۔ پہلے مرحلے میں انتخابی عمل رات 12 بجے تک جاری رہا، اس کے بعد گنتی کا عمل شروع ہوا اور نتیجے کے مطابق چاروں میں سے کوئی بھی امیدوار صدارت کے لیے مطلوبہ 50 فیصد ووٹ حاصل نہ کرسکا۔ کیونکہ ایران کے آئین میں صدر بننے کے لیے کاسٹ ہونے والے ٹوٹل ووٹ میں سے کسی ایک امیدوار کو 50 فیصد ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔

اس الیکشن میں ماضی کی نسبت ٹرن آوٹ کم رہا جبکہ ماضی کے صدور خاتمی اور روحانی سمیت سابق وزیر داخلہ جواد ظریف اور دیگر کئی سیاسی گروہ مسعود پزشکیان کے ساتھ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں نظام مخالف سمجھا جاتا ہے، جبکہ سعید جلیلی سابق صدر سید ابراہیم رئیسی کی ہمنشینی کی بنا پر انقلابی سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کی توقعات کے مطابق کوئی بھی امیدوار مطلوبہ ووٹ حاصل نہ کرسکا۔ مسعود پزشکیان نے 43 فیصد، سعید جلیلی نے 38 فیصد اور قالیباف نے 13 فیصد جبکہ محمدی پور نے 3 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ یہاں کے آئین کے تحت کوئی بھی امیدوار 50 فیصد ووٹ حاصل نہ کرنے کی صورت میں ووٹنگ کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ جس میں پہلے مرحلے میں زیادہ ووٹ لینے والے دو افراد کے درمیان دوبارہ مقابلہ ہوتا ہے اور الیکشن کمیشن دوسرے مرحلے کے لیے ایک ہفتے میں ووٹنگ کرانے کا پابند ہوتا ہے۔

پہلا مرحلہ گزرنے کے بعد الیکشن کمیشن نے فوراً اگلے جمعہ 5 جولائی کو دوسرے مرحلے کی ووٹنگ کا اعلان کر دیا۔ اس بار مسعود پزشکیان اور سعید جلیلی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوا۔ مسعود پزشکیان اس وقت 69 سال کے ہیں اور ایران کے کئی اہم عہدوں پر کام کرچکے ہیں۔ وہ ایک ماہر قلب سرجن ہیں۔ اس سے قبل متعدد بار قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے، صدر خاتمی کے دور میں وہ وزیر صحت تھے۔ قومی اسمبلی کے نائب اسپیکر بھی رہ چکے ہیں، تبریز میں میڈیکل سائنس کالج میں پرنسپل کی ذمہ داری بھی ادا کی ہے۔ سعید جلیلی 59 سال کے ہیں، پولٹیکل سائنس میں ڈاکٹریٹ کرچکے ہیں، اٹامک مذاکراتی ٹیم کے سربراہ اور جنگی محاذ پر ان کی قابل قدر خدمات ہیں، نائب وزیر خارجہ اور تفتیشی کمیٹی کے سربراہ رہ چکے ہیں، اس کے علاوہ سپریم لیڈر کی طرف سے مجمع تشخیص کے رکن بھی ہیں۔

ان دونوں کے لیے اس دفعہ رات 12 بجے تک ووٹنگ کا عمل جاری رہا۔ جس کے بعد گنتی اور نتیجہ کا اعلان شروع ہوا۔ اگلے دن صبح 7 بجے سرکاری طور پر مسعود پزشکیان کی جیت کا اعلان ہوا۔ اس مرتبہ پہلے ہفتے کی نسبت ٹرن آوٹ زیادہ رہا، پہلے مرحلے میں 40 فیصد ٹرن آوٹ تھا جبکہ اس دفعہ 49.8 ریکارڈ کیا گیا۔ ٹوٹل 3 کروڑ 5 لاکھ کے قریب ووٹ کاسٹ ہوئے تھے، جن میں سے مسعود پزشکیان کو ایک کروڑ 63 لاکھ 543 ووٹ پڑے جبکہ ان کے مدمقابل سعید جلیلی کو ایک کروڑ 35 لاکھ کچھ سو ووٹ پڑے، باقی ہزار کے قریب ووٹ مسترد ہوئے تھے۔ یوں مسعود پزشکیان زیادہ ووٹ کے ساتھ ایران کے نویں صدر منتخب ہوگئے۔ جمہوریت کا حسن یہاں دیکھنے کو ملا، جب ان کی جیت کا اعلان ہوا تو سب سے پہلے ان کے مدمقابل مخالف امیدوار سعید جلیلی کی طرف سے مبارک بادی کا پیغام دیا گیا اور کہا عوام نے جس کو منتخب کیا، وہ ہمارے لیے محترم ہے، لہذا پوری طاقت کے ساتھ اس کا ساتھ دینا چاہیئے۔

سعید جلیلی ووٹرز بھی بغیر کسی مخالفت اور فساد کے نومنتخب صدر کو دل و جان سے قبول کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں کچھ حضرات بڑے بڑے تجزیوں میں مصروف ہیں کہ اب ایران میں انقلاب کمزور ہوچکا ہے۔ ایرانی عوام نے انقلابیوں کو مسترد کیا ہے وغیرہ، جبکہ دیکھا جائے تو مسعود پزشکیان نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کئی دفعہ ٹیلی ویژن پر اس بات کا برملا اظہار کیا ہے کہ میں روحانیوں کا مخالف نہیں ہوں، میں بسیج میں رہ چکا ہوں، عوام نے صدر منتخب کیا تو رہبر معظم کے فرمان کے مطابق عمل کروں گا۔صدارتی انتخابات میں کامیابی کے بعد انہوں نے سب سے پہلے ہفتے کی سہ پہر سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کی، اس دوران رہبر معظم نے انہیں انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد پیش کی اور امید ظاہر کی کہ ڈاکٹر پزشکیان عوامی اور ملکی وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے ملک کو تعمیر وترقی کی راہ پر ڈال دیں گے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے ان کی مزید کامیابی کے لیے دعا کے ساتھ ضروری نصیحتیں بھی کیں۔

اس کے بعد نومنتخب صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے حرم امام خمینی پر حاضری دی اور امام سے تجدید عہد کیا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ایران میں عوامی رائے کا بڑا احترام کیا جاتا ہے۔ عوام جسے منتخب کریں، اس میں کوئی ہیرا پھیری نہیں ہوتی۔ نہ ووٹ چوری ہوتا ہے۔ نہ انتخابات کے نتائج رکتے ہیں۔ نہ کسی پر دھاندلی کا الزام لگتا ہے، نہ ووٹر کے درمیان کوئی تلخ کلامی یا لڑائی جھگڑا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ہمارے سستے تجزیہ نگاروں کو نہیں معلوم ایسی سنسنی خیز خبریں کہاں سے ملتی ہیں، جبکہ ہمارے آئین میں 90 دنوں کے اندر ملک میں عام انتخابات کرانے کے پابند ہونے کے باجود الیکشن کمیشن فنڈ کا بہانہ بنا کر اسے ایک سال تک طول دے تو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ عوامی رائے کو پاوں تلے روند کر کھلے عام ووٹ چوری کرے تو کوئی سوال نہیں کرتا، واضح نتائج کو کئی دنوں بلکہ مہینوں تک روک کر رکھے اور پھر یکسر نتائج تبدیل کرکے پیش کرے تو کسی میں ہمت نہیں ہوتی، لیکن انہیں ایرانی انقلاب کی بڑی فکر لگی ہوتی ہے۔
وطن کی فکر کر نادان مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں


خبر کا کوڈ: 1146733

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1146733/ایران-کے-صدارتی-انتخابات

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com