QR CodeQR Code

ایران کے صدارتی انتخابات

7 Jul 2024 13:19

اسلام ٹائمز: انتخابی عمل انتہائی شفافیت کیساتھ انجام پایا اور نتائج جیسے تھے، ویسے پیش کیے گئے۔ اگر ایرانی ادارے چاہتے تو ووٹوں کی تعداد ساٹھ یا ستر فیصد کرنا مشکل نہیں تھا، جیسا کہ مشرق وسطیٰ کے انتخابات میں اکثر ہوتا ہے، جہاں ریفرنڈم کے نتائج اسی فیصد سے کبھی کم نہیں ہوتے۔ اسی طرح انتخابات کے انعقاد کے ذمہ دار ادارے چاہتے تو اصول پسند امیدوار سعید جلیلی کو آسانی سے کامیاب کروایا جا سکتا تھا۔ پہلے مرحلے میں سعید جلیلی نے تقریباً 94 لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے، ڈاکٹر قالیباف کے 33 لاکھ ووٹوں کو بھی سعید جلیلی کے ہمراہ شامل کیا جاتا تو سعید جلیلی کے ووٹوں کی تعداد کو ایک کروڑ سے اوپر بڑھایا جا سکتا تھا۔ تاہم نتائج کو ویسا ہی پیش کیا گیا، جیسا کہ وہ آئے تھے اور ان نتائج کو تمام امیدواروں نے قبول بھی کیا۔


تحریر: سید اسد عباس

ایران میں صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کے نتائج کے مطابق اصلاح پسند امیدوار مسعود پزشکیان اپنے حریف اور اصول پسند راہنماء سعید جلیلی کو شکست دے کر ایران کے نئے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کے نتائج کے مطابق تین کروڑ افراد نے الیکشن کے دوسرے مرحلے میں ووٹ ڈالے، جن میں سے ایک کروڑ 63 لاکھ سے زیادہ افراد نے مسعود پزشکیان کو ووٹ دیا جبکہ سعید جلیلی کو ایک کروڑ 35 لاکھ سے زیادہ ووٹ پڑے۔ الیکشن کے دوسرے مرحلے کے دوران ووٹر ٹرن آؤٹ 49 فیصد رہا جبکہ پہلے مرحلے میں تقریبا 40 فیصد ووٹرز نے ووٹ کاسٹ کیا۔ یاد رہے کہ ووٹنگ کا پہلا مرحلہ 28 جون کو منعقد ہوا تھا۔ پور محمدی، ایران کی قومی اسمبلی کے سپیکر ڈاکٹر قالیباف، اصول پسند امیدوار سعید جلیلی اور اصلاح پسند امیدوار ڈاکٹر مسعود پزشکیان میں سے کوئی بھی مطلوبہ 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل نہ کرسکا، جس کے بعد پانچ جولائی کو صدارتی انتخاب کا دوسرا مرحلہ منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایران میں صدارتی انتخابات 2025ء میں متوقع تھے، تاہم 2021ء میں منتخب ہونے والے ایرانی صدر شہید ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو ہونے والے حادثے کے سبب ایرانی قوم کو اپنے نئے صدر کا قبل از وقت انتخاب کرنا پڑا۔ انتخابات کے پہلے مرحلے میں چھے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کو شوریٰ نگہبان نامی ادارے نے قبول کیا۔ سابق سپیکر علی لاریجانی اور سابق صدر ڈاکٹر محمود احمدی نژاد کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے گئے۔ چھے امیدواروں میں ڈاکٹر مسعود پزشکیان کے علاوہ ڈاکٹر سعید جلیلی، ڈاکٹر باقر قالیباف، پور محمدی، ڈاکٹر زاکانی اور محمود قاضی زادہ ہاشمی شامل تھے۔ ڈاکٹر زاکانی اور محمود قاضی زادہ ہاشمی انتخابات کے انعقاد سے قبل ہی دستبردار ہوگئے اور پہلے مرحلے کا حتمی مقابلہ ڈاکٹر مسعود پزشکیان، ڈاکٹر سعید جلیلی، ڈاکٹر قالیباف اور پور محمدی کے مابین ہوا۔

پہلے مرحلے میں مسعود پزشکیان نے ایک کروڑ کے قریب ووٹ حاصل کیے، سعید جلیلی کو 94 لاکھ کے قریب ووٹ ملے، قومی اسمبلی کے سپیکر ڈاکٹر قالیباف کو 33 لاکھ اور پور محمدی کو دو لاکھ کے قریب ووٹ ملے۔ کل کاسٹ شدہ ووٹوں کی تعداد 2 کروڑ 34 لاکھ کے قریب تھی، جو رجسٹرڈ ووٹرز کا تقریباً 40 فیصد حصہ ہیں۔ تقریباً 60 فیصد ووٹرز نے اپنے حق کا استعمال نہیں کیا۔ ایران کے صدارتی انتخابات میں ووٹنگ کی یہ کم ترین سطح ہے۔ انتخابات سے قبل ایران میں تمام امیدواروں کے ملکی مسائل کے حوالے سے آراء کو جاننے کے لیے ٹی وی شوز کا انعقاد کیا گیا، جس میں تمام امیدواروں نے اپنے مجوزہ منصوبے، ایران کو مشکلات سے نکالنے، اقتصادی مسائل کے حل اور دیگر سیاسی اور سکیورٹی مسائل پر سیر حاصل گفتگو کی۔ مناظروں کے دوران امیدواروں کی جانب سے ایک دوسرے پر شدید اعتراضات بھی سامنے آئے، تاہم یہ فضاء ایسی نہ تھی جیسا کہ پاکستان یا دیگر ایشیائی جمہوریتوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔

مسعود پزشکیان کو اصلاح پسندوں کا امیدوار سمجھا جاتا ہے، ان کو دو سابق صدور حسن روحانی اور سید خاتمی کی بھی حمایت حاصل تھی۔ حسن روحانی اور سید خاتمی بھی انقلاب ایران میں اصلاحات کے داعی ہیں، جبکہ اصول پسندوں اگرچہ اصلاحات کو قبول کرتے ہیں، تاہم انقلاب کے بنیادی تصور سے متصادم اصلاحات کے قائل نہیں۔ ٹی وی مباحثوں کے دوران اصلاح پسندوں کی گذشتہ حکومتوں پر کھل کر تنقید کی گئی، بالخصوص اصلاح پسند صدر حسن روحانی کے دور حکومت میں ڈالر کی قیمت، مغربی ممالک سے روابط کی بحالی کے لیے ملکی معیشت میں ٹھہراؤ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اصول پسندوں کی جانب سے یہ بات بھی کی گئی کے پزشکیان کی حکومت اسی آٹھ سالہ دور کا تسلسل ہوگا۔ مسعود پزشکیان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک کو دنیا کے تمام ممالک سے روابط کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہمیں پابندیوں سے جیسے بھی ہو چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔

شہید صدر رئیسی جو کہ ایک اصول پسند صدر تھے، انہوں نے اپنے دور حکومت میں اگرچہ مذاکرات سے کبھی بھی انکار نہ کیا، تاہم ان کی زیادہ توجہ ہمسایہ ممالک سے روابط کو مضبوط کرنے اور ان سے تجارتی تعلقات کو استوار کرنے پر رہی۔ مسعود پزشکیان کا کہنا تھا کہ اس پالیسی میں ایران مجبور ہوتا ہے کہ اپنے وسائل کو سستے داموں میں فروخت کرے، جس سے ملک میں مہنگائی اور روزگار کی کمی واقع ہوتی ہے۔ بہرحال اب عوام نے مسعود پزشکیان کو اپنے صدر کے طور پر منتخب کر لیا ہے۔ 70 سالہ مسعود پزشکیان ایران کے علاقے مہا آباد میں پیدا ہوئے۔ صوبہ ارومیہ میں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، انھوں نے ایران کے اسلامی انقلاب سے پہلے تبریز یونیورسٹی سے طب کی تعلیم حاصل کی۔ وہ ایک ہارٹ سرجن ہیں اور سابق وزیر صحت بھی رہ چکے ہیں۔ عراق کے خلاف لڑی جانے والی آٹھ سالہ دفاعی جنگ میں مسعود پزشکیان طبی شعبے میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اس کے بعد وہ متعدد ادوار میں رکن اسمبلی بھی منتخب ہوئے۔

مسعود پزشکیان نے اپنے ٹی وی مباحثوں کے دوران اعلان کیا کہ وہ اپنی عوام سے جھوٹ نہیں بولیں گے، جو وعدے کیے ہیں، ان کو پورا کریں گے اور اگر وہ یہ وعدے پورے نہ کرسکے تو اپنے عہدے سے سبکدوش ہو جائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ وہ مغرب سے تعلقات بہتر کریں گے اور جوہری مذاکرات کو بحال کریں گے، تاکہ ملک کی معیشت کو کمزور کرنے والی عالمی پابندیوں کا خاتمہ کیا جاسکے۔ مسعود پزشکیان خواتین کے لیے حجاب کے قائل ہیں اور اسے مذہبی ضرورت سمجھتے ہیں، تاہم وہ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ یہ کام وعظ و نصیحت سے انجام دیا جانا چاہیئے، سختی برتنا غلط ہے۔ مسعود پزشکیان دوسری اصلاحاتی حکومت میں صحت اور طبی تعلیم کے وزیر تھے۔ وہ پانچ بار ایران کی پارلیمنٹ کے رکن اور ایک بار اس کے نائب صدر بھی رہ چکے ہیں۔انتخابی مہم کے دوران مسعود پزشکیان کے وعدے سماجی انصاف، متوازن ترقی اور اصلاحات پر مرکوز رہے۔

انھوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا کہ وہ ایک شفاف معاشی نظام تشکیل دیں گے، بدعنوانی سے مقابلہ کریں گے اور اقتصادی ترقی کے لیے بنیاد فراہم کریں گے۔ انھوں نے اپنی انتخابی مہم میں صحت کے نظام میں اصلاحات، طبی خدمات کے معیار کو بہتر بنانا اور علاج کے اخراجات کو کم کرنے سمیت ملک میں تعلیمی حالات کو بہتر کرنے اور سکولوں اور یونیورسٹیوں کے معیار کو بڑھانے کے وعدے بھی کیے ہیں۔ مسعود پزشکیان کا کہنا ہے کہ ہمیں ملکی مسائل کے حل کے لیے ماہرین کی خدمات حاصل کرنی چاہییں، وہ ایرانی جو بیرون ملک مقیم ہیں، ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنا چاہیئے، طلبہ کو ان کے حقوق مہیا کیے جانے چاہئیں۔ لوگوں کو احتجاج کا حق دیا جانا چاہیئے اور ان سے سختی سے نہیں نمٹنا چاہیئے۔

مسعود پزشکیان کے انتخابی حریف سعید جلیلی کا کہنا تھا کہ ہمارے محترم امیدوار کے پاس کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں ہے، فقط چند آرزوئیں، خواہشات اور وعدے ہیں۔ ان کو بعض مسائل کے حوالے سے بنیادی معلومات بھی نہیں ہیں۔ مسعود پزشکیان نے اس اعتراض کا بہت سخت جواب دیا۔ ایران میں ہونے والے انتخابات میں بعض اخبارات، ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا گروپس کا واضح جھکاؤ سعید جلیلی کی جانب محسوس ہو رہا تھا۔ اخبارات کی شہ سرخیاں اس امر کی غماز تھیں کہ یہ اخبارات پزشکیان اور اصلاح پسندوں کی گذشتہ حکومتوں کی ناکامیوں کو عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ مثلاً عوام ڈالر کی قیمتوں کو نہیں بھولے، عوام ملکی معیشت کو معلق نہیں کریں گے؟ ایسی شہ سرخیاں واضح طور پر بیان کر رہی تھیں کہ اخبار کا واضح جھکاؤ سعید جلیلی اور اصول پسندی کی جانب ہے۔ بعض افراد کی جانب سے دھاندلی کے امکانات کا بھی اظہار کیا، جسے وزارت داخلہ جو ان انتخابات کے انعقاد کی ذمہ دار تھی، اس نے یکسر مسترد کیا۔

انتخابی عمل انتہائی شفافیت کے ساتھ انجام پایا اور نتائج جیسے تھے، ویسے پیش کیے گئے۔ اگر ایرانی ادارے چاہتے تو ووٹوں کی تعداد ساٹھ یا ستر فیصد کرنا مشکل نہیں تھا، جیسا کہ مشرق وسطیٰ کے انتخابات میں اکثر ہوتا ہے، جہاں ریفرنڈم کے نتائج اسی فیصد سے کبھی کم نہیں ہوتے۔ اسی طرح انتخابات کے انعقاد کے ذمہ دار ادارے چاہتے تو اصول پسند امیدوار سعید جلیلی کو آسانی سے کامیاب کروایا جا سکتا تھا۔ پہلے مرحلے میں سعید جلیلی نے تقریباً 94 لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے، ڈاکٹر قالیباف کے 33 لاکھ ووٹوں کو بھی سعید جلیلی کے ہمراہ شامل کیا جاتا تو سعید جلیلی کے ووٹوں کی تعداد کو ایک کروڑ سے اوپر بڑھایا جا سکتا تھا۔ تاہم نتائج کو ویسا ہی پیش کیا گیا، جیسا کہ وہ آئے تھے اور ان نتائج کو تمام امیدواروں نے قبول بھی کیا۔

میری نظر میں ایرانی انتخابات کا یہ سب سے اہم تاثر ہے کہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ تھے اور نتائج میں کوئی ردو بدل نہیں کیا گیا ہے۔ امیدواروں کے مابین پالیسی کے حوالے سے اختلاف اپنی جگہ، تاہم تمام امیدوار نظام اور ایران کے ہمراہ مخلص دکھائی دیئے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ایران میں نئے صدر کا انتخاب اس ملک کی ترقی اور پیشرفت میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ خداوند کریم پاکستان میں ہمارے ذمہ دار اداروں کو بھی انتخابات میں شفافیت کو یقینی بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 


خبر کا کوڈ: 1146302

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1146302/ایران-کے-صدارتی-انتخابات

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com