QR CodeQR Code

پارلیمانی انتخابات کے بعد مسلمانوں کیخلاف ہجومی تشدد اور فرقہ وارانہ واقعات میں اضافہ

9 Jul 2024 15:16

اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم کہا کہ مسلمانوں کیساتھ طبقاتی امتیاز برتنا اور یہ سوچ کر کہ مسلمانوں نے بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا ہے متعصبانہ رویہ اختیار کرنا، غیر جمہوری و غیرانسانی عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمانی انتخابات کے نتائج آتے ہی ملک کے مختلف خطوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی، ہجومی تشدد اور انہدامی کاروائیوں میں اضافہ ہونے لگا ہے، اس پر سختی سے روک لگائی جانی چاہیئے۔


رپورٹ: جاوید عباس رضوی

ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) کی ایک رپورٹ کے مطابق 4 جون کو پارلیمانی انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد سے بھارت بھر میں مسلم مخالف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ 2 جولائی کو جاری ہوئی اس رپورٹ میں لنچنگ، فرقہ وارانہ تشدد اور ریاستی سرپرستی میں مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کرنے کے تفصیلی واقعات درج کئے گئے ہیں۔ غور طلب ہے کہ ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس ایک ایڈوکیسی گروپ ہے جو وکلاء، صحافیوں، محققین اور پیرا لیگل رضاکاروں پر مشتمل ہے۔

یہ گروپ بھارت میں شہری اور انسانی حقوق کی ترقی کے لئے کام کرتا ہے۔ اے پی سی آر کی رپورٹ میں 8 لنچنگ، 6 ہجومی تشدد اور تین مسماری کے واقعات پر روشنی ڈالی گئی ہے جو انتخابی نتائج کے بعد سے اب تک پیش آئے۔ گجرات میں 22 جون کو ایک 23 سالہ مسلم نوجوان، جس کی شناخت سلمان ووہرا کے طور پر کی گئی، جس پر ’انتہا پسندی‘ کا الزام لگاتے ہوئے ایک ہندو گروپ نے بے رحمی سے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا۔ جب یہ واقعہ پیش آیا تو مقتول چکھوڈرا میں کرکٹ میچ دیکھنے گیا تھا۔

وہیں چھتیس گڑھ کے رائے پور میں 7 جون کو ہندو انتہا پسند ہجوم نے تین مسلمانوں پر وحشیانہ حملہ کر کے قتل کر دیا۔ مقتولین کی شناخت صدام قریشی اور اس کے رشتہ دار چاند میاں خان کے طور پر کی گئی۔ دونوں ضلع سہارنپور کے رہنے والے ہیں جبکہ تیسرے مقتول گڈو خان ​​اترپردیش کے شاملی ضلع کے رہنے والے ہیں۔ یہ تینوں افراد مویشی لے جا رہے تھے جہاں رائے پور میں انتہا پسند ہجوم نے ان کا پیچھا کیا اور ان پر حملہ کر دیا۔ اس واقعہ میں دو کی موقعے پر ہی موت ہوگئی، جبکہ ایک تیسرا شخص کوما میں چلا گیا تھا جس نے دس دن بعد دم توڑ دیا۔

اس کے علاوہ علی گڑھ میں 18 جون کو اورنگزیب عرف فرید کے نام کے ایک 35 سالہ مسلم شخص کو ایک ہجوم نے بے دردی سے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا، جس سے مغربی اترپردیش کے اس حساس شہر میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل گئی۔ چونکانے والی بات یہ ہے کہ اس ماب لنچنگ کے 10 دن بعد پولیس نے مقتول پر ہی ڈکیتی کا مقدمہ درج کر دیا۔ جبکہ ہجومی تشدد کی کوئی جانچ نہیں کی گئی اور ملزمین آزاد گھوم پھر رہے ہیں۔ رپورٹ میں کولکاتا میں لنچنگ کے دو الگ الگ واقعات کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے، جس میں ارشاد عالم نام کے ایک شخص کو رسی سے باندھ کر مارا پیٹا گیا۔

ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس کی رپورٹ میں بھارت بھر میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے فرقہ وارانہ تصادم کے متعدد واقعات کا ذکر بھی کیا گیا ہے، خاص طور پر 17 جون کو عید الاضحٰی کے موقعے پر ہوئے واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق تلنگانہ کے میدک میں 15 جون کو ایک مدرسے پر ہوئے ہجومی حملے میں کئی لوگ زخمی ہوگئے۔ منہاج العلوم مدرسہ کی انتظامیہ نے عیدالاضحی پر قربانی کے لئے مویشی خریدے تھے۔

قربانی کے جانور لائے جانے کے بعد ہندو انتہا پسند تنظیموں کے مقامی ارکان نے مدرسہ کے قریب ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ اس کے علاوہ اڑیشہ کے بالاسور اور کھوردھا میں ریاستی انتظامیہ نے فرقہ وارانہ جھگڑوں کے بعد ایک ہفتے سے زیادہ کے لئے کرفیو نافذ کر دیا، جب کہ ایک انتہا پسند ہجوم اس علاقے میں جانوروں کی قربانی کی مخالفت کرنے کے لئے سڑکوں پر نکل آیا، ان لوگوں نے مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی۔

وہیں ہماچل پردیش کے ناہن میں 19 جون کو ایک مسلمان شخص نے اپنے واٹس ایپ اسٹیٹس پر قربانی کے جانوروں کی تصویر شیئر کی، جس کو لے کر ایک انتہا پسند گروپ نے اس شخص کی ٹیکسٹائل دکان میں توڑ پھوڑ کی اور دکان لوٹ لی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وائرل ہوئے ویڈیو میں پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں انتہا پسندوں کو دکان کھولتے ہوئے دیکھا گیا۔ وہ لوگ ہنستے ہوئے دکان سے کپڑے باہر پھینک رہے تھے۔ 22 جون کو جودھ پور کے جلوری گیٹ میں بھی فرقہ وارانہ کشیدگی بھڑک اٹھی، جس کے نتیجے میں ہوئے پتھراؤ میں کم از کم 16 لوگ زخمی ہوگئے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب محلے کے مکینوں نے عیدگاہ کے پچھلے حصے میں گیٹ کی تعمیر کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی کہ اس سے اس علاقے میں مسلمانوں کی نقل و حرکت میں اضافہ ہوگا۔

ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کیا گیا
ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس کی رپورٹ کے مطابق منڈلا ضلع میں مدھیہ پردیش کی اتھارٹی نے گائے کے گوشت کے شک میں کم از کم 11 مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کر دیا۔ بعد ازاں پولیس نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے مسماری کو جواز بنایا کہ مکانات سرکاری زمین پر بنائے گئے تھے۔ علاوہ ازیں 14 جون کو مدھیہ پردیش حکام نے چار مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کر دیا۔

حکام نے ان پر الزام لگایا کہ رتلام ضلع کے جوڑا کے ایک مندر میں انہوں نے گائے کی باقیات پھینکی تھیں۔ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے دوپہر تقریباً 2:30 بجے حکم امتناعی جاری کیا، لیکن اس سے قبل مکانات 12:30 سے ​​1:30 بجے کے درمیان منہدم کر دئے گئے تھے۔ وہیں اترپردیش کی مراد آباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) نے مسلم خاندانوں سے تعلق رکھنے والے چھ مکانات کو مسمار کر دیا، اس خاندان کے ایک فرد پر ہندو خاتون کو اغوا کرنے کی کوشش کا الزام ہے۔

مسلمانوں کی جائیدادیں بھی ضبط کر لی گئیں
اے پی سی آر کی رپورٹ کی ایک سیریز میں اترپردیش پولیس نے مویشیوں کی اسمگلنگ یا گائے کے گوشت کی فروخت کے الزام میں مسلمانوں کی جائیداد ضبط کر لی۔ ایک تازہ ترین معاملے میں پیلی بھیت ضلع میں اترپردیش کی اتھارٹی نے گائے کا گوشت فروخت کرنے کے الزام میں ایک مسلمان شخص کے گھر اور 15,89,000 روپے کی دیگر جائیداد ضبط کر لی۔ پیلی بھیت ضلع میں ہی ایک اور مسلمان پر مویشیوں کی اسمگلنگ کا الزام لگاتے ہوئے حکام نے اس کی 1,00,00,000 روپے سے زائد کی جائیداد ضبط کر لی۔ اسی طرح اترپردیش کے گونڈا ضلع میں پولیس نے مویشیوں کے ذبیحہ اور تجارت کے الزام میں پانچ مسلمانوں کی جائیدادیں ضبط کر لیں۔

درایں اثنا نئی دہلی میں جماعت اسلامی ہند نے بھی ایک پریس کانفرنس کے دوران مودی کی سربراہی والی ’این ڈی اے‘ حکومت کی تشکیل اور مسلمانوں پر تشدد پر شدید تنقید کی۔ میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ بھارت میں ’این ڈی اے‘ کی حکومت بننے کے بعد سے مسلمانوں کو انتہائی شرمناک اور غیر منصفانہ طریقے سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے ساتھ طبقاتی امتیاز برتنا اور یہ سوچ کر کہ مسلمانوں نے بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا ہے، متعصبانہ رویہ اختیار کرنا، غیر جمہوری و غیر انسانی عمل ہے۔

پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ پارلیمانی انتخابات کے نتائج آتے ہی ملک کے مختلف خطوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی، ہجومی تشدد اور انہدامی کاروائیوں میں اضافہ ہونے لگا ہے، اس پر سختی سے روک لگائی جانی چاہیئے۔ جماعت اسلامی ہند کے نیشنل سکریٹری شفیع مدنی نے کہا کہ عوام کی حفاظت کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے، مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح مختلف عوامی مقامات پر بڑے بڑے حادثات رونما ہوئے مگر حادثے کے اصل قصوروار اب بھی گرفت سے باہر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں پر تشدد بی جے پی کے تحت ریاستوں سمیت دیگر پارٹیوں کی ریاستی حکومتوں میں بھی جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں امن و امان کی بحالی کے لئے حکومت کو چاہیئے کہ وہ تشدد کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔

حالیہ دنوں پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے کہا کہ 4 جون کو پارلیمنٹ کے انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد سے مسلمانوں کے ہجومی تشدد میں اضافہ ہوا ہے اور دعویٰ کیا کہ اس تاریخ سے اب تک 11 مسلمانوں کو مارا گیا ہے۔ اس دوران ریاست بہار سے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن اسمبلی اختر الایمان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں پر ظلم زیادتی کرکے ہندوتوا کو متحد کرنے کا جو پرانا منصوبہ ہے اسی کی کڑی میں ہم ماب لنچنگ کو دیکھتے ہیں، ملک میں ذات پات پر مبنی سیاست ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو مسلسل نشانہ اس لئے بنایا جا رہا ہے کیونکہ موجودہ حکومت مسلمانوں کو ڈر اور خوف میں رکھ کر ہندو ووٹ کو اگھٹا کرنا چاہتی ہے اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان اپنی قیادت تیار کرے۔

میڈیا کے ایک سوال کے جواب میں اختر الایمان نے ضلع علیگڑھ میں اورنگزیب کی ماب لنچنگ پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ مجرموں کو جلد سزا سناکر ایک نظیر بنانے کے بجائے نامزد فرار ملزموں کو بھی علیگڑھ پولیس گرفتار نہیں کرپائی ہے اور حد تو یہ ہے کے ماب لنچنگ میں ہلاک ہونے والے اورنگزیب کے قتل کے تقریباً دس روز بعد اورنگزیب سمیت دیگر مسلمانوں کے خلاف ہی چوری اور ڈکیتی کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ اختر الایمان نے کہا کہ جب تک مسلمان اپنی مسلم قیادت تیار نہیں کرتا تب تک اسی طرح مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا رہے گا اور آخر کب تک مسلمان اپنی قیادت دیگر سیاسی جماعتوں میں ڈھونڈتا رہے گا، اس طرح کے واقعات سے پچنے کے لئے اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی مضبوط قیادت تیار کریں۔


خبر کا کوڈ: 1146135

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1146135/پارلیمانی-انتخابات-کے-بعد-مسلمانوں-کیخلاف-ہجومی-تشدد-اور-فرقہ-وارانہ-واقعات-میں-اضافہ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com