QR CodeQR Code

غزہ نسل کشی میں انڈیا کے شریک ہونے کی وجوہات

6 Jul 2024 18:59

اسلام ٹائمز: سرد جنگ کے خاتمے اور سابق سوویت یونین کے زوال کے بعد انڈیا کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آنے لگی اور دھیرے دھیرے اس کا جھکاو امریکہ کی جانب بڑھتا چلا گیا۔ اسی طرح انڈیا نے سرکاری طور پر 1992ء میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کر لئے اور وزیراعظم نرسیما راو کے زمانے میں تل ابیب میں اپنا سفارتخانہ بھی کھول دیا۔ اسی وقت صیہونی رژیم نے بھی نئی دہلی میں اپنے سفارتخانے کا افتتاح کر دیا۔ گذشتہ چند عشروں کے دوران انڈیا نے غاصب صیہونی رژیم سے فوجی ہتھیار خرید کر اپنے تعلقات مزید مضبوط بنا لئے۔ نریندرا مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے اب تک انڈیا اسرائیل سے 66 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا اسلحہ خرید چکا ہے۔ امریکہ میں اسرائیلی اور انڈین لابیز مل کر کام کر رہی ہیں اور انہوں نے امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو امریکہ ساختہ فوجی ٹیکنالوجیز انڈیا بیچنے کی اجازت دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔


تحریر: علی احمدی
 
حال ہی میں یہ بات منظرعام پر آئی ہے کہ غزہ میں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی میں انڈیا بھی غاصب صیہونی رژیم کو مدد فراہم کرنے میں مصروف ہے۔ یہ حقیقت سب سے پہلے صیہونی اخبار یدیعوت آحارنوٹ نے فاش کی ہے۔ عبری زبان میں شائع ہونے والے اس صیہونی اخبار نے اعلان کیا ہے کہ انڈیا حکومت غزہ کے خلاف جنگ میں اسرائیل کو اسلحہ اور فوجی سامان فراہم کرنے میں مصروف ہے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک انڈیا اسرائیل کو مختلف قسم کے ہتھیار جیسے مارٹر گولے، توپ کے گولے اور ہلکے ہتھیار فراہم کر چکا ہے۔ صیہونی اخبار نے مزید لکھا کہ جون کے مہینے میں انڈیا سے ایک کشتی 27 ٹن بارودی مواد لے کر تل ابیب کی جانب جا رہی تھی جسے اسپین نے روک لیا ہے۔ انڈیا کے ذرائع ابلاغ کے مطابق حیدرآباد میں انڈیا کے ایک اسلحہ سازی کے کارخانے نے اسرائیل کو 20 ڈرون طیارے فراہم کئے ہیں۔
 
انڈیا کیوں اور کیسے صیہونی رژیم کا شریک بن گیا؟
تاریخ کا جائزہ لینے سے واضح ہو جاتا ہے کہ انڈیا اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کی جانب کیسے جھک گیا۔ نئی دہلی کی پالیسی غاصبانہ قبضے کا شکار قوم کی حمایت سے غاصب صیہونی رژیم کی حمایت میں تبدیل ہو گئی ہے۔ ایسی حمایت جو صرف سیاسی اور اقتصادی پہلووں تک محدود نہیں رہی بلکہ فوجی پہلو بھی اختیار کر چکی ہے۔ 1947ء میں انڈیا نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کی تقسیم کے خلاف ووٹ دیا تھا اور یوں وہ پہلا غیر عرب ملک بن گیا تھا جس نے پی ایل او (تنظیم آزادی فلسطین) کو فلسطینی قوم کے واحد قانونی نمائندے کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ اسی طرح انڈیا ان پہلے ممالک میں سے ایک تھا جنہوں نے 1988ء میں فلسطین کو تسلیم کیا تھا۔ اگرچہ انڈیا نے 1950ء میں اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا لیکن 1992ء تک انڈیا اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم نہیں ہوئے تھے۔
 
ماضی کے برعکس جب 7 اکتوبر 2023ء کے دن فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس نے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف طوفان الاقصی آپریشن انجام دیا تو انڈیا نے فوراً ہی غاصب صیہونی رژیم کی وسیع پیمانے پر سیاسی حمایت کرنا شروع کر دی۔ صرف چند گھنٹے بعد ہی انڈیا کے وزیراعظم نریندرا مودی نے طوفان الاقصی آپریشن کی مذمت کی اور انڈیا کے وزیر خارجہ نے بھی یہی موقف اختیار کیا۔ انڈیا نے ایک طرف تو طوفان الاقصی آپریشن کے بعد فوراً حماس کی مذمت کر دی لیکن دوسری طرف گذشتہ نو ماہ سے زیادہ عرصے سے غزہ کی پٹی میں صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی مذمت تو دور کی بات حتی صیہونی رژیم کے خلاف ہلکا سا موقف بھی اختیار نہیں کیا۔ اس دوران نریندرا مودی بارہا صیہونی ہم منصب بنجمن نیتن یاہو کو "میرا دوست" خطاب کر چکے ہیں۔
 
انڈیا کی جانب سے امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم کا ساتھ دینے کا سلسلہ اس حد تک آگے بڑھا کہ 27 اکتوبر کے دن اس نے اقوام متحدہ میں غزہ میں جنگ بندی کے حق میں ووٹ دینے سے بھی گریز کیا۔ انڈیا حکومت کا یہ اقدام جو عالمی برادری حتی یورپی ممالک کے اقدام کے بھی خلاف تھا خود انڈیا کے تجزیہ نگاروں کی تنقید کا نشانہ بننے لگا۔ ابھیجت مترا نے ٹویٹر پر لکھا: "مسٹر مودی نے فلسطین کا وجود ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ اسرائیل کی واضح حمایت کا مطلب یہ ہے کہ انڈیا اسرائیل کی اپنے مفادات کی خاطر ہر اقدام انجام دینے کی حمایت کرتا ہے۔" اردو زبان میں شائع ہونے والے اخبارات نے بھی اس بارے میں ردعمل کا اظہار کیا اور مودی کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کی حمایت کو مشرق وسطی سے متعلق ملکی پالیسیوں میں اہم تبدیلی قرار دیا ہے۔
 
صیہونی رژیم کی جانب انڈیا کے جھکاو کے پس پردہ عوامل
سرد جنگ کے خاتمے اور سابق سوویت یونین کے زوال کے بعد انڈیا کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آنے لگی اور دھیرے دھیرے اس کا جھکاو امریکہ کی جانب بڑھتا چلا گیا۔ اسی طرح انڈیا نے سرکاری طور پر 1992ء میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کر لئے اور وزیراعظم نرسیما راو کے زمانے میں تل ابیب میں اپنا سفارتخانہ بھی کھول دیا۔ اسی وقت صیہونی رژیم نے بھی نئی دہلی میں اپنے سفارتخانے کا افتتاح کر دیا۔ گذشتہ چند عشروں کے دوران انڈیا نے غاصب صیہونی رژیم سے فوجی ہتھیار خرید کر اپنے تعلقات مزید مضبوط بنا لئے۔ نریندرا مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے اب تک انڈیا اسرائیل سے 66 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا اسلحہ خرید چکا ہے۔ امریکہ میں اسرائیلی اور انڈین لابیز مل کر کام کر رہی ہیں اور انہوں نے امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو امریکہ ساختہ فوجی ٹیکنالوجیز انڈیا بیچنے کی اجازت دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
 
دوسری طرف غزہ جنگ نے انڈین مزدوروں کیلئے اسرائیل میں وسیع مواقع پیدا کر دیے ہیں۔ اس وقت اسرائیل جانے کیلئے انڈین مزدوروں میں ڈیمانڈ بڑھ گئی ہے اور انہیں روزگار کے مواقع میسر آ گئے ہیں۔ اسرائیلی اخبار ہارٹز نے اعلان کیا ہے کہ لاکھوں انڈین شہری اسرائیل کا ورک ویزا لینے کیلئے درخواستیں دے چکے ہیں۔ انڈیا سے صرف مزدور ہی اسرائیل نہیں جا رہے بلکہ ایسے ٹھوس شواہد پائے جاتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ انڈین سپاہی غزہ جنگ میں صیہونی فوج کے شانہ بشانہ فلسطینیوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ کیلی فورنیا یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر خالد ابوالفضل اس بارے میں کہتے ہیں: "انڈین سپاہی غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام میں براہ راست ملوث ہیں۔" لہذا انڈین حکمرانوں نے غاصب صیہونی رژیم کے ہاتھوں غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی پر آنکھیں موند رکھی ہیں۔


خبر کا کوڈ: 1146133

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1146133/غزہ-نسل-کشی-میں-انڈیا-کے-شریک-ہونے-کی-وجوہات

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com