QR CodeQR Code

عیاں راز اور ایرانی انتخابات

نگاہ ھستی شناسانہ بہ انتخابات ایران

6 Jul 2024 22:59

اسلام ٹائمز: کسی ملک میں کروڑوں لوگوں کا نہ فقط زبان سے بلکہ اپنی چالیس سال سے زیادہ انقلابی تاریخ میں اس عیاں راز کو آشکار حقیقت میں بدلنا ایک ایسی بنیاد ہے، جو ایسی قوم کو  کمالات کیجانب گامزن رکھ سکتی ہے۔ یہ آئیڈیالوجی پوری اسلامی امت کیلئے جو توحید کو اپنی زندگی کی بنیاد قرار دیتے ہیں، نمونہ عمل ہے کہ وہ اس عیاں راز کو اپنی عملی زندگی میں آشکار حقیقت میں بدلے۔ دو چار ملکوں کے پنجرے سے نکل کر آفاقی آسمان کی بلندیوں کو چھوئیں اور بے پناہ ترقی کے اسباب فراہم کریں۔


تحریر: علی عباس کاظمی

یک جھان فرصت، یک ایران جھش
ہر ایرانی یک نقش پرشکوہ
جب یہ تحریر مرقوم ہو رہی تھی، اس وقت ایرانی عوام ووٹ کاسٹ کر رہی تھی اور آج کل ایک نعرہ ایران میں زبان زد خاص و عام ہے۔ جس کی اگر ایک جملے میں وضاحت دی جائے تو شائد یہ بنے کہ ہمارے سامنے اس جھان کے لا محدود وسائل اور نعمتیں ہیں، جو بنیادی تبدیلی اور ترقی کا پیش خیمہ ہیں۔ لیکن اس تبدیلی میں بنیادی کردار ایرانی قوم کے ایک ایک فرد کا ہے۔ عنوان میں ذکر ہوا عیاں راز۔ آشکار حقیقت اس وقت راز بن جاتی ہے، جب انسان کی توجہ اس حقیقت کی طرف نہ رہے، چاہے وہ حقیقت سورج کی روشنی ہی کیوں نہ ہو۔ بہت سارے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ کیسے ہوسکتا ہے کہ طاقتور ممالک سے رابطے کے بغیر آپ ترقی کر لیں؟ اور وہ اس بات کے قائل ہیں کہ ترقی، ٹیکنالوجی، خوشحالی تو صرف اس وقت ممکن ہے، جب آپ کا رابطہ ان ممالک سے ہو، جو سب سے زیادہ طاقتور ہیں اور اگر ایسا نہ ہوسکے تو ترقی کے تمام راستے بند ہو جاتے ہیں، کیونکہ آپ کے پاس خود تو کچھ ہے نہیں۔ لہذا وہ مذکورہ نعرے کو نہیں مانتے، جس کا ذکر ہوا۔ کیونکہ اس نعرہ کے پس منظر میں ان عیاں رازوں سے آگاہ نہیں، جو درحقیقت آشکار ہیں، لیکن حجابات ان کو دیکھنے نہیں دیتے۔

وہ عیاں راز کیا ہے؟ جو ہے تو عیاں لیکن بہت ساروں کے لئے راز ہے۔ یعنی جب ظاہری طور پر سب راستے بند ہوں تو زندہ رہنا مشکل ہو جاتا ہے، ترقی تو دور کی بات ہے۔ بہت سارے مفکرین جنہوں نے اس ہستی کی حقیقت کو سمجھنے میں پوری زندگی وقف کر دی، وہ اس بات کے قائل ہیں کہ یہ ہستی صرف ان حقائق میں محدود نہیں، جو ہمارے سامنے ظاہر ہیں بلکہ ایک لامحدود سفر ہے، ایک لامتناہی حقیقت کی جانب۔ لامحدود کمالات اس ہستی کا عین ذات ہیں، جو اس ہستی پر حاکم ہے اور اس کی طرف سے افاضہ شدہ لامحدود نعمتیں ہر آن اس ہستی پر جاری و ساری ہیں۔ کسی بھی تلاش اور کوشش کا حقیقی نتیجہ بھی صرف اس کی طرف سے ہے، یعنی اس کائنات میں کوئی حقیقت اس کے علاوہ حقیقی اثر نہیں رکھتی، اس کو اسلامی فلسفے میں یوں بیان کیا جاتا ہے۔ لا موثر فی الوجود الا اللہ تعالی۔

چونکہ اس ہستی لایزال کی طرف سے جاری نعمتیں لامحدود ہیں، لہذا کمال کی جانب گامزن ہونے کے راستے بھی لامحدود ہیں اور کمالات بھی لامحدود ہیں۔ یہ اس ہستی کی ایسی حقیقت ہے، جنہوں نے اس کو سمجھ لیا، ان کے سامنے ہمیشہ لامحدود راستے کھلے رہے اور انہوں نے اسی دنیا میں بے پناہ کمالات حاصل کئے، جبکہ دنیا سمجھ رہی تھی کہ بس اب ان کے پاس کچھ نہیں رہا۔ یہی وہ حقیقت تھی جس کی وجہ سے حضرت ابراہیم ع کو آگ میں ڈالا گیا، وہ اس وقت بھی اپنے سامنے لامحدود جھان کے برابر مواقع دیکھ رہے تھے۔ ہاں جب حضرت موسی ع دریائے نیل پر پہنچے، آگے دریائے نیل اور پیچھے لشکر فرعون، لیکن اس نگاہ کی وجہ سے موسیٰ ع پرامید تھے کہ ان کے سامنے ترقی کی بے پناہ فرصتیں موجود ہیں۔

اگر اس نگاہ کا عروج و کمال دیکھنا ہو تو دختر مولائے کائنات حضرت زینبؑ کے وہ تاریخی کلمات کو دل کی گہرائیوں سے سمجھنے کی کوشش کریں کہ ظاہری طور پر سب کچھ کھو دینے کے بعد بھی آپ نے فرمایا، ما رایت الا جمیلا۔ میں نے اس پورے دوران سوائے جمال و خوبصورتی کے کچھ نہیں دیکھا۔ وہ کونسا جمال و کمال ہے، وہ کونسا عیاں راز ہے، جو ان ہستیوں کو نظر آتا ہے، جس کی وجہ سے ان کے سامنے کمال کی جانب گامزن ہونے کے بے پناہ راستے کھلے رہتے ہیں، جب دنیا سمجھتی ہے، اب سب راستے بند ہوگئے، ہاں وہ عیاں راز یہ ہے۔ بے پناہ کمالات عین ذات خالق ہستی ہے اور ان کمالات کی برسات ہر آن اس کائنات پر جاری و ساری ہے۔ کمالات تک پہنچنے کے راستے بھی لامحدود ہیں۔ لہذا اس نگاہ کی حامل ہستیاں نہ فرعون کے بند کئے راستوں سے گھبراتی ہیں، نہ نمرود و ابوجہل و ابولہب اور یزیدی ہتھکنڈوں سے، بلکہ نہ فقط خود بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے بے پناہ راستے کھول دیتی ہیں۔

ہمارے زمانے میں جس ہستی نے اس حقیقت کو سمجھا، اپنے وجود پر حاکم کیا اور اس کا اثر پوری دنیا پر چھوڑا، وہ خمینی بت شکن ہے، جو پورے وجود سے اس بات کے قائل تھے، لا موثر فی الوجود الا اللہ تعالی۔ لہذا اس فلسفی کی صحیح ہستی شناسانہ نگاہ کا نتیجہ ہے کہ 8 سال جنگ ہوئی، سخت ترین اقتصادی بائیکاٹ ہوا، اکثر بڑی شخصیات کو ٹارگٹ کر دیا گیا اور ترقی روکنے کے وہ تمام حربے جو سوچے جاسکتے ہیں، اپنائے گئے، لیکن آج بھی اس توحیدی نگاہ کی حامل عظیم شخصیت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی لیڈرشپ میں اہم ترین میدانوں میں ایران ترقی کی منازل چھو رہا ہے۔ عالمی سطح پر ایک آئیڈیالوجی اور موثر موقف رکھتا ہے۔ اسی لا موثر فی الوجود الا اللہ تعالی، کی گہری ترین فلسفی اساس کی بنیاد پر امام خمینی نے فرمایا، آمریکا ہیچ غلطی نمی تواند بکند۔ آمریکا کچھ بھی نہیں کرسکتا، آمریکا کوئی نقصان نہیں پہنچنا سکتا، کیونکہ وہ اس جھان میں حقیقی اثر کی حامل ذات صرف خدا کو سمجھتے تھے۔

لیکن ایک اہم نکتہ جس کی طرف توجہ لازم ہے، وہ امام خمینی رض کا انقلاب کے شروع سے ہی اس بات پر اصرار ہے کہ توحیدی نگاہ اور یہ حقیقت اس وقت تک معاشرے کا حصہ نہیں بن سکتی، جب تک ایک ایک فرد اس میں اپنا کردار ادا نہ کرے، یعنی توحیدی نگاہ کو معاشرے میں قائم کرنے میں ہر شخص اپنے اس حق اختیار کو جو اللہ نے اسے دیا ہوا ہے، ایک صالح نظام اور صالح شخص کو ووٹ کے ذریعے انتخاب کرے اور یہ جمہوریت کا وہ معنی ہے کہ اس گہری توحیدی اور اسلامی نگاہ سے نکلا ہے اور اس کا جمہوریت کے کسی اور معنی سے کوئی تعلق نہیں، اسی نگاہ کی بنیاد پر امام خمینی رض نے فرمایا تھا، میزان رای ملت است۔ عوامی رائے ہے، جو  میزان و معیار ہے۔ لہذا توحیدی نگاہ اس وقت معاشرے میں برقرار ہوتی ہے، جب انسان اپنے اختیار کو استعمال کرے اور توحیدی انداز سے توحیدی احکام کے نفاذ میں اپنا کردار ادا کرے۔

لہذا ترقی کو دوچار راستوں میں محدود نہ سمجھنا ایک گہری توحیدی نگاہ ہے، جو آپ کے سامنے بے پناہ راستے کھولتی ہے، جب آپ اس واجب الوجود ذات سے متصل ہوجائیں کہ حقیقی نتیجہ صرف اس کے ہاتھ میں ہے تو وہ اپ کے سامنے بے پناہ راستے کھول دے گا، چونکہ لامحدود کمالات کی حامل صرف وہ ذات ہے۔ پرودگار نے اس حقیقت کو بالکل آشکارا اس آیہ کریمہ میں بیان فرمایا، والذین جاھدوفینا لنھدینھم سبلنا، اور جو ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں، ہم انہیں ضرور اپنے راستے کی ہدایت کریں گے۔ یہ ایک نگاہ اور جہان ہے، جس جہان کی طرف علامہ اقبال نے بھی اشارہ کیا کہ کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور۔ ہاں اقبال اسی تفکر کے حامل تھے کہ جو کمالات اور ترقی کو محدود راستوں میں ڈھونڈے اس کی نگاہ کرگس کی نگاہ ہے، لیکن شاہین کی نگاہ لامحدود راستوں سے ترقی کی منازل کو چھونا ہے۔

کسی ملک میں کروڑوں لوگوں کا نہ فقط زبان سے بلکہ اپنی چالیس سال سے زیادہ انقلابی تاریخ میں اس عیاں راز کو آشکار حقیقت میں بدلنا ایک ایسی بنیاد ہے، جو ایسی قوم کو  کمالات کی جانب گامزن رکھ سکتی ہے۔ یہ آئیڈیالوجی پوری اسلامی امت کے لئے جو توحید کو اپنی زندگی کی بنیاد قرار دیتے ہیں، نمونہ عمل ہے کہ وہ اس عیاں راز کو اپنی عملی زندگی میں آشکار حقیقت میں بدلے۔ دو چار ملکوں کے پنجرے سے نکل کر آفاقی آسمان کی بلندیوں کو چھوئیں اور بے پناہ ترقی کے اسباب فراہم کریں۔


خبر کا کوڈ: 1145959

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1145959/عیاں-راز-اور-ایرانی-انتخابات

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com