میدان بھی حاضر، گھوڑے بھی حاضر
1 Jul 2024 22:02
اسلام ٹائمز: ڈونلڈ ٹرمپ ہر قسم کی جنگ بند کرنا چاہتے ہیں لیکن ایران کے خلاف پہلے سے بڑا محاذ کھولنا چاہتے ہیں اور اسرائیل کے لیے وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں جو وہ اپنے سابقہ دور میں نہیں کر سکے لہذا عین ممکن ہے کہ آئندہ وہ پاکستان سے بھی وہ کچھ حاصل کر لیں جسے وہ اب تک حاصل نہیں کر پائے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہم اس سے قبل امریکہ کی چھیڑی ہوئی جنگوں میں استعمال ہو چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے اب کی بار گھوڑوں کی تجارت منڈی کے نئے رجحان کو دیکھ کر کی جائے۔
تحریر: سید تنویر حیدر
ایک طرف جمہوری اسلامی ایران میں انتخابات کا دوسرا مرحلہ سر پر آن پہنچا ہے۔ دنیا بھر میں ایران کے حامی اور مخالف حلقے ان انتخابات کو اپنے اپنے زاویہ نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ امریکہ، اسرائیل اور یورپ ہمیشہ کی طرح حسب روایت ایران کے سیاسی نظام میں بعض جوہری قسم کی تبدیلیوں کی آس لگائے ہوئے اپنی اپنی جمع تفریق میں لگے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف امریکہ بھی اپنی تاریخ کے اس انتخاب کی طرف بڑھ رہا ہے جو بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے میں اس کے بوڑھے نظام اور اس کی بوڑھی قیادت کے لڑکھڑاتے وجود کے عدم توازن کو ظاہر کر رہا ہے۔ موجودہ صدر جوبائیڈن اور سابقہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین سی این این پر صدارتی دوڑ کی جو
لفظی میراتھن ہوئی اس میں صدر جوبائیڈن کی کارکردگی نے نہ صرف ان کے حامیوں کو بلکہ ان کے مخالف تماشائیوں کو بھی حددرجہ مایوس کیا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے ہاں ہونے والے گذشتہ الیکشن میں حزب اختلاف تو پریشان تھی ہی، حزب اقتدار بھی حیران ہوئی۔ امریکہ کے صدارتی امیدواروں کے مباحثے کی وجہ سے امریکی عوام کو جو پریشانی لاحق ہے وہ یہ کہ اس مشق سخن نے اس مرد بیمار جوبائیڈن کے لڑکھڑاتے وجود کی طرح امریکی ریاست کے سیاسی نظام کے ڈھانچے کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جس طرح امام خمینی نے سوویت یونین کو اس کے بکھرنے سے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ اس کے وجود کے چٹخنے کی آواز کو دنیا نے سن لیا ہے، اسی طرح امریکہ کے سامراجی نظام کے کھوکھلے پن کا بھی دنیا نے مشاہدہ کر لیا ہے۔
امریکہ کی صدارت کے دو امیدواروں کے مابین ہونے والے مباحثے کے بعد امریکی عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے انتخابات سے قبل ہی جوبائیڈن سے چھٹکارا حاصل کرلیا جائے۔ مجھے اس موقع پر اسرائیل کا ایک سابق وزیراعظم ایریل شیرون یاد آگیا ہے۔ صابرہ اور شتیلا کے اس قصائی نے ایران پر باقاعدہ حملے کا اعلان کردیا تھا اور اس کے لیے مارچ کا مہینہ مختص بھی کر دیا تھا لیکن اپنے اعلان سے چند دن بعد ہی اس پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ کومے میں چلا گیا اور کئی سال تک کومے میں رہنے کے بعد موت سے ہمکنار ہوا۔ یوں لگتا ہے جس طرح ایران میں صدر ابراہیم رئیسی کی شہادت کے بعد ایران میں وقت سے قبل انتخابات کا مرحلہ آگیا ہے اسی طرح جوبائیڈن کی سیاسی موت کے بعد امریکہ بھی وقت سے پہلے انتخابات کے مرحلے سے گزرے گا۔
موجودہ عالمی صورتحال میں ایران اور امریکہ کے انتخابات مختلف ممالک پر مختلف نوعیت کے اثرات مرتب کریں گے۔ پاکستان کی سیاست چونکہ امریکہ کے گرد طواف کرتی ہے اس لیے یہاں کا میڈیا اپنا زیادہ تر فوکس امریکی انتخابات پر ہی کیے ہوئے ہے۔ ایران کی طرف اس کا دھیان کم ہی ہے۔ پاکستان کی حکومت ہو یا اپوزیشن وہ امریکہ میں ہونے والی تبدیلی کے مطابق ہی اپنے اندر کوئی تبدیلی لانے کی کوشش کرتی ہے۔ امریکہ بھی پاکستان کی حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو اپنے بدلتے ہوئے مفادات کے مطابق استعمال کرتا ہے۔ امریکہ ایک وقت میں جس کے نیچے سے اقتدار کی بساط کھینچتا ہے، اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے آنے والے وقت میں اس کے سر پر اپنا دست شفقت رکھ دیتا ہے۔ امریکہ نے کل جنہیں ایک "سائفر" کے ذریعے تخت نشیں کیا تھا آج ایک قرارداد کے ذریعے انہی کے سر پر سائیفر کی تلوار لٹکا دی ہے۔ عمران خان صاحب ایک عرصے سے کوشش میں تھے کہ امریکہ میں متوقع طور پر آنے والی حکومت کی ابھی سے آشیرباد حاصل کر لیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی قربت کا اظہار تو وہ کئی بار کرچکے ہیں۔ نئے حالات میں امریکہ میں کسی بھی تبدیلی سے پاکستانی سیاست کا نقشہ بھی بدل سکتا ہے۔ آج جو مغلوب ہیں، کل غالب ہو سکتے ہیں۔ آج جو معتوب ہیں، کل وہ لیلیء اقتدار کے محبوب بن سکتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ ہر قسم کی جنگ بند کرنا چاہتے ہیں لیکن ایران کے خلاف پہلے سے بڑا محاذ کھولنا چاہتے ہیں اور اسرائیل کے لیے وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں جو وہ اپنے سابقہ دور میں نہیں کر سکے لہذا عین ممکن ہے کہ آئندہ وہ پاکستان سے بھی وہ کچھ حاصل کر لیں جسے وہ اب تک حاصل نہیں کر پائے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہم اس سے قبل امریکہ کی چھیڑی ہوئی جنگوں میں استعمال ہو چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے اب کی بار گھوڑوں کی تجارت منڈی کے نئے رجحان کو دیکھ کر کی جائے۔
خبر کا کوڈ: 1145059