QR CodeQR Code

غزہ سے لبنان ہم ایک ہیں

26 Jun 2024 20:32

اسلام ٹائمز: صیہونیوں کیساتھ ممکنہ جنگ میں اینٹی ٹینک اور اینٹی شپ میزائل صیہونیوں کیلئے ایک اور ڈراؤنا خواب ہے، جو 33 روزہ جنگ کی یادوں کو تازہ کرسکتا ہے۔ اس بنا پر اگرچہ صرف حزب اللہ ہی صیہونی حکومت کی جارحیت اور حملے کو پسپا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، لیکن اس جنگ میں دیگر مزاحمتی گروہوں کے داخل ہونے سے صیہونی حکومت کی شکست یقینی اور تیز ہو جائے گی۔ صہیونی اخبار معاریو کے مطابق یہ آنیوالی جنگ نہ صرف حزب اللہ گروپ کیساتھ بلکہ ملک لبنان کیساتھ بھی جنگ ہوگی، دوسری طرف یہ تمام اشارے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ جنگ ایک علاقائی جنگ بن جائے گی اور متعدد علاقائی ممالک بھی اس میں شریک ہو جائیں گے، کیونکہ لبنان کی صورتحال بہرحال غزہ پٹی کی صورتحال سے بہت مختلف ہے۔


تحریر: احمد کاظم زادہ

اسرائیل کی جانب سے لبنان پر حملے کی دھمکی کے بعد، خطے کے ہر مزاحمتی گروہ نے یکے بعد دیگرے حزب اللہ کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے لیے اپنی تیاری کا اعلان کیا ہے۔ حالانکہ حزب اللہ اکیلے ہی اس ممکنہ جارحیت کو پسپا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ عراق کی عصائب اہل الحق تحریک کے ایک سینیئر رکن نے سوشل نیٹ ورکس پر اپنے ایک پیغام میں لکھا ہے۔ عراق کی اسلامی مزاحمت کے لئے جو جغرافیائی رکاوٹ (آٹھ سو کلومیٹر سے زیادہ کی دوری پر) طوفان الاقصیٰ کی لڑائی میں حصہ لینے کے لیے مسلط کی گئی تھی، لبنان پر حملے کی صورت میں باقی نہیں رہے گی۔ صیہونی دشمن نے اگر لبنان کے ساتھ جنگ ​​کی حماقت کی تو یہ رکاوٹ صفر کے فاصلے پر پہنچ جائے گی، عراقی مزاحمت کا وار بڑا شدید ہوگا۔

قبل ازیں عراق کی عصائب اہل الحق تحریک کے سیکرٹری جنرل "قیس الخزائی" نے کہا تھا کہ اگر صیہونی حکومت نے لبنان پر حملہ کیا تو یہ مزاحمتی گروہ عراق میں واشنگٹن کے مفادات کو نشانہ بنائے گا۔ گذشتہ ہفتے کے دوران ایلات اور حیفا کی مقبوضہ بندرگاہوں کے ساتھ ساتھ مقبوضہ گولان میں اہداف کو عراقی مزاحمت کے آزادانہ ڈرون حملوں اور یمنی فوج کی طرف سے اسرائیل جانے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنانے سے خطے کی صورت حال بدل چکی ہے۔ ان حملوں کی وجہ سے اسرائیلی حکومت کو سمندری علاقے سے تقریباً غیر معمولی ناکہ بندی کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس نے قابضین پر اہم معاشی اثرات مرتب کئے ہیں۔

صیہونی حکومت کی مہم جوئی اور جنوبی لبنان پر حملے کے امکان کے بارے میں میڈیا اور سیاسی تشویشوں اور وسوسوں میں اضافے نے خطے کو ایک نئے چیلنج سے دوچار کر دیا ہے۔ اسرائیلی بکتر بند یونٹوں کی زمینی جارحیت سے نمٹنے کے لیے اسلامی مزاحمت کی تیاری کی سطح کے بارے میں قیاس آرائیاں عروج پر ہیں اور جوابی حملہ کرنے کے لیے اسلامی مقاومت آمادہ و تیار نظر آرہی ہے۔ صیہونی حکومت کے ذرائع ابلاغ نے مقبوضہ فلسطین کے شمال میں لبنان کی اسلامی مزاحمتی جنگجوؤں کی شدید ضربوں کے اثرات کو تسلیم کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ حزب اللہ کی کارروائی اس علاقے میں صیہونی بستیوں کی تباہی اور وہاں کے رہائیشیوں کے لئے وبال جان بن چکی ہے۔

حزب اللہ کی جانب سے جدید ہتھیاروں، اینٹی آرمر اور صحیح نشانے پر مارنے والے میزائلوں کے استعمال سے قابضین میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور مقبوضہ فلسطین کے شمال میں واقع زیادہ تر صہیونی بستیوں کو خالی کرا لیا گیا ہے۔ صیہونی حکومت کے عسکری ماہرین کے مطابق لبنان کی حزب اللہ نے تن تنہاء اس حکومت کی فوج کی نصف طاقت کو شمالی محاذ پر لگا دیا ہے اور جنوبی محاذ میں قابض فوج کی طاقتور موجودگی کو کم کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ 33 روزہ جنگ کے دوران، حزب اللہ کے پاس پندرہ ہزار میزائل تھے۔ یہ میزائل اسرائیلی فوج کی پیش قدمی کو روکنے اور قابضین کی پسپائی کا باعث بنے۔ لیکن اس وقت حزب اللہ کے پاس پہلے کی تعداد سے زیادہ میزائل موجود ہیں۔ ہزاروں میزائلوں اور جدید ڈرونز سے لیس ہو کر نیز اپنی ایلیٹ فورسز پر انحصار کرتے ہوئے وہ ایک بار پھر صیہونی حکومت کو دھول چٹوا کر پیچھے ہٹنے پر مجبور کرسکتا ہے۔

غزہ جنگ کے آغاز کو آٹھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، حزب اللہ صہیونی فوج کے خلاف نئی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ آج میدان جنگ میں مختلف حالات غالب ہیں اور لبنانی مزاحمت کو ہر قسم کے جارحانہ اور دفاعی ہتھیار رکھنے اور شام میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کا موقع ہے۔ حزب اللہ کے پاس لبنان اور مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر سرنگوں اور خندقوں کا جال موجود ہے، جو جنگ کے دوران مختلف سرحدی مقامات پر دشمن کو حیران کرسکتا ہے۔ یہ خفیہ سرنگیں حزب اللہ کو اسرائیلی ٹینکوں اور سنائپرز، اینٹی آرمر میزائلوں اور ہلکے ڈرونز کے ساتھ بکتر بند اہلکاروں کی گاڑیوں کو نشانہ بنانے کا موقع فراہم کرسکتی ہیں۔

اس پوشیدہ نیٹ ورک کی ایک اور صلاحیت حزب اللہ کی افواج کا مقبوضہ علاقوں میں گہرائی تک رسائی اور اسرائیلی فوج کے قافلے کے راستے میں سڑک پر بارودی سرنگوں کی تعیناتی ہے۔ شمالی محاذ کی قدرتی صورت حال کو استعمال کرتے ہوئے، حزب اللہ کی غیر متناسب قوتیں 17 سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ مؤثر طریقے سے اسرائیلی دشمن کو نشانہ بنا سکتی ہیں۔حزب اللہ کی طرف سے شائع کردہ معلومات کی بنیاد پر اس تحریک کی افواج کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ گذشتہ چند دنوں کے دوران، حزب اللہ کے "الماس" میزائلوں کے ذریعے آئرن ڈوم سسٹم کو نشانہ بنانے کی تصاویر کا اجراء صیہونی حکومت کے دفاعی یونٹوں کے لیے مزاحمت کی تازہ ترین حیرتوں میں سے ایک ہے۔

صیہونیوں کے ساتھ ممکنہ جنگ میں اینٹی ٹینک اور اینٹی شپ میزائل صیہونیوں کے لئے ایک اور ڈراؤنا خواب ہے، جو 33 روزہ جنگ کی یادوں کو تازہ کرسکتا ہے۔ اس بنا پر اگرچہ صرف حزب اللہ ہی صیہونی حکومت کی جارحیت اور حملے کو پسپا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، لیکن اس جنگ میں دیگر مزاحمتی گروہوں کے داخل ہونے سے صیہونی حکومت کی شکست یقینی اور تیز ہو جائے گی۔ صہیونی اخبار معاریو کے مطابق یہ آنے والی جنگ نہ صرف حزب اللہ گروپ کے ساتھ بلکہ ملک لبنان کے ساتھ بھی جنگ ہوگی، دوسری طرف یہ تمام اشارے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ جنگ ایک علاقائی جنگ بن جائے گی اور متعدد علاقائی ممالک بھی اس میں شریک ہو جائیں گے، کیونکہ لبنان کی صورتحال بہرحال غزہ پٹی کی صورتحال سے بہت مختلف ہے۔


خبر کا کوڈ: 1144068

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1144068/غزہ-سے-لبنان-ہم-ایک-ہیں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com