QR CodeQR Code

(سید ابراہیم رئیسی ؒ)

محبوب ترین صدر(2)

23 Jun 2024 07:44

اسلام ٹائمز: ان کے جنازے میں ہر صنف کے لوگ موجود تھے۔ مولا علی علیہ السلام کے فرمان کے مطابق کہ لوگوں میں اس طرح رہو کہ اگر تم زندہ رہو تو وہ تمہارے ملنے کے مشتاق ہوں اور اگر تم اس دنیا سے چلے جاؤ تو تمہیں یاد کرکے گریہ کریں۔" جی ہاں! نعمت کی قدر اسی وقت ہوتی ہے، جب وہ ہاتھوں سے چلی جاتی ہے۔ وہ کون سی فکر ہے، وہ کونسا مکتب ہے، جس نے ایسے سپوت کو پروان چڑھایا ہے۔ اس سوال کا جواب ہر اہل فکر تلاش کر رہا ہے۔ جہاں ان کے فراق میں ایک ملت نوحہ کناں تھی، وہاں پر کچھ ایسے لوگ بھی تھے، جو ان کے جانے پر خوشیاں منا رہے تھے۔ دنیا کی کسی بھی عظیم شخصیت کی (انبیاء سے لیکر آج تک) تاریخ دیکھیں تو سب لوگ ان کے دوست نہیں تھے۔


تحریر: مقدر عباس

جس زمانے میں وہ کرج شہر میں جج کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کے پاس ایک شخص آیا اور شھر میں موجود اپنے کچھ پلاٹس میں سے ایک پلاٹ وقف کرنے کی خواہش کی۔ اگر چاہیں تو اس کے پیسے ضرورت مند لوگوں میں تقسیم کر دیں۔ بہت اصرار کیا۔ کسی ریفرنس سے بھی بات چلانے کی کوشش کی، لیکن سید بالکل راضی نہیں ہوئے اور کہا میرے بھائی اگر وقف کرنا چاہتے تو امداد کی کمیٹی بنائی گئی ہے، اسی کے حوالے کرو۔ میری اس شہر میں کوئی ملکیت نہیں ہے۔ حتی کہ رات بھی اسی عدالت میں سوتا ہوں۔ اگر میں اس پلاٹ کو اپنی ملکیت میں لے لوں تو لوگوں کے درمیان اعتماد کی فضا ختم ہو جائے گی۔مولا علی علیہ السلام نے چند سال حکومت کی۔ اپنے گھر میں ایک اینٹ کا بھی اضافہ نہیں۔ بیت المال سے قرض نہیں لیا اور نہ ہی اپنے پیچھے سونا چاندی چھوڑ گئے۔ جب بصرہ کے بیت المال سے نکل رہے تھے تو کہہ رہے تھے اے لوگو گواہ رہنا میں جس لباس کے ساتھ آیا تھا، اسی سے واپس جارہا ہوں۔کسی چیز کا اضافہ نہیں اور اگر میری حکومت سے پہلے موجود اثاثوں میں اضافہ ہوا ہو تو سمجھ لینا خیانت کی ہے۔

ان کے جنازے میں ہر صنف کے لوگ موجود تھے۔ مولا علی علیہ السلام کے فرمان کے مطابق کہ لوگوں میں اس طرح رہو کہ اگر تم زندہ رہو تو وہ تمہارے ملنے کے مشتاق ہوں اور اگر تم اس دنیا سے چلے جاؤ تو تمہیں یاد کرکے گریہ کریں۔" جی ہاں! نعمت کی قدر اسی وقت ہوتی ہے، جب وہ ہاتھوں سے چلی جاتی ہے۔ وہ کون سی فکر ہے، وہ کونسا مکتب ہے، جس نے ایسے سپوت کو پروان چڑھایا ہے۔ اس سوال کا جواب ہر اہل فکر تلاش کر رہا ہے۔ جہاں ان کے فراق میں ایک ملت نوحہ کناں تھی، وہاں پر کچھ ایسے لوگ بھی تھے، جو ان کے جانے پر خوشیاں منا رہے تھے۔ دنیا کی کسی بھی عظیم شخصیت کی (انبیاء سے لیکر آج تک) تاریخ دیکھیں تو سب لوگ ان کے دوست نہیں تھے۔ جو عدل کا پرچم بلند کئے ہوئے تھے، ان کی محبت کرنے والے ایسے بھی تھے، جنہوں نے انگاروں پر لیٹ کر بھی احد احد کہا، دار پر بھی لٹکے، عشق میں زبانیں بھی کٹوائیں، محبوب کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے سینے پر تیر بھی لئے اور بجھے ہوئے چراغوں میں بھی ظلمت و تاریکی کے راستے کا انتخاب نہیں کیا۔

جو اُن کے دشمن تھے، وہ بھی اتنے شدید تھے کہ جنہوں نے انہیں ساحر، مجنون اور ابتر کہا، انہیں ہجرت کرنے پر مجبور کیا، ان پر کفر کے فتوے لگائے، دشمنی اتنی زیادہ تھی کہ ان کی قبر کو ایک عرصے تک مخفی رکھا گیا، ان کے جنازوں کو پامال کیا گیا۔ اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ انسان سعادت کا رستہ اختیار کرے اور سب اس کے دوست ہونگے تو یہ درست سوچ نہیں ہے۔ ہر وقت کے موسیٰ ؑسے فرعون خوف زدہ رہا ہے اور ہر وقت کے حسینؑ سے یزید نے دشمنی کی ہے۔ جب ان کی شہادت کی خبر پر کچھ بدخواہوں نے جھوٹی خبریں پھیلانا شروع کی تو قرآن کی آیات سامنے آئیں۔ سورہ نور کی آیات تھیں۔ "جو لوگ بہتان باندھ لائے، وہ یقیناً تمہارا ہی ایک دھڑا ہے، اسے اپنے لیے برا نہ سمجھنا بلکہ وہ تمہارے لیے اچھا ہے، ان میں سے جس نے جتنا گناہ کمایا، اس کے لیے اتنا ہی حصہ ہے اور ان میں سے جس نے بڑا حصہ لیا ہے، اس کے لیے بڑا عذاب ہے۔"

جب تم اس جھوٹی خبر کو اپنی زبانوں پر لیتے جا رہے تھے اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہہ رہے تھے، جس کا تمہیں کوئی علم نہ تھا اور تم اسے ایک معمولی بات خیال کر رہے تھے، جبکہ اللہ کے نزدیک وہ بڑی بات ہے۔(نور آیہ 11,15) گذشتہ تحریر میں زہد و فقر کے بارے عرض کیا ہے۔ مولا علی علیہ السلام نے اپنے خطبات میں دنیا کو تین طلاقیں دینے کی بات کی تو بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ یہی زہد ہے کہ انسان دنیا سے کنارہ کش ہوکر بیٹھ جائے۔ نہیں بالکل ایسا نہیں ہے۔ اگر ہم تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو مولا علی علیہ السلام نے یہ جملات اس وقت فرمائے ہیں، جب بیت المال کے سکوں کی چمک پڑ رہی تھی اور سب کچھ ان کے ہاتھ میں تھا، لیکن ایک درہم و دینار کو کبھی ناحق استعمال نہیں کیا۔ مولا ایسے نہیں تھے کہ وہ دنیا کے امور کو چھوڑ کر جا کر خانقاہ میں رہنے لگے تھے، نہیں! ایسا نہیں ہے، وہ اسی دنیا کی آباد کاری میں مصروف رہے۔ باغات لگائے، پانی کے لئے کنویں کھودے، لوگوں کی معیشت کی گرہیں کھولیں، اقتصادی مشکلات کو حل کیا۔ جو کام ایک اسلامی سربراہ کو کرنے چاہئیں، سب امور انجام دیئے۔ حکومت و خلافت ہونے کے باوجود خشک روٹی اور ایک لباس پر گذارہ کیا۔

آیت اللہ شھید رئیسی کو عدلیہ کے انسپکشن ادارے کا سربراہ بنایا گیا۔ دفتر میں داخل ہوتے ہوئے قالین سے پاؤں الجھنے کی وجہ سے گر گئے، اپنے آپ کو سنبھالا ،کھڑے ہوئے اور کہا یہ عوام کے آنے کی جگہ ہے، اس قالین کو یہاں سے اٹھوا دو، تاکہ آنے والوں کو مشکل پیش نہ آئے۔ ساتھیوں میں سے ایک نے کہا! بہتر ہے انہیں کہتے ہیں کہ قالین کی جگہ نیا قالین رکھوا دیں اور کمرے کی بھی مرمت کروا دیں۔ جھکی ہوئی نگاہوں سے نہایت سنجیدہ لہجے میں بولے"جن لوگوں کا سربراہ ہوں، وہ ایک وقت کی روٹی کے منتظر ہیں اور میں یہاں اپنے کمرے کی maintenance کرواتا رہوں۔" دس سال بعد جب اس دفتر کو چھوڑا تو باقی عمارت کی تزئین کی گئی تھی، لیکن ان کا دفتر اسی طرح بالکل سادہ اور قالین کے بغیر تھا۔ شہید کی زندگی کا دارومدار جس تفکر اور آئیڈیالوجی پر تھا، وہ قرآن و اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات تھیں۔

ان کی کوشش ہوتی تھی کہ عوامی رابطہ برقرار رہے۔ عوام سے دوری کسی صورت بھی قبول نہیں تھی۔ ان کے سامنے مالک اشتر کے نام مولا علی علیہ السلام کی وہ نصیحت ہوتی کہ جس میں فرمایا: "رعایا سے عرصے تک روپوشی نہ کرنا، کیونکہ حکمرانوں کا رعایا سے چھپ کر رہنا ایک طرح کی تنگ دلی اور معاملات سے بے خبر رہنے کا سبب ہے اور یہ روپوشی انہیں ان امور کے بارے مطلع ہونے سے روکتی ہے، جن سے وہ ناواقف ہیں۔۔" وہ جس عہدے پر بھی رہے، اپنی عوام سے رابطہ برقرار رکھا۔ قوم و ملت کے مسائل حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے۔ انہوں نے لوگوں کی مشکلات کو حل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جب انسان اخلاص کیساتھ کام کرتا ہے تو دلوں کا خالق اس کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے۔ اس کا اظہار ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔

ابھی ملکی انسپکشن ادارے کے سربراہ کی ذمہ سنبھالی ہی تھی کہ خبر ملی سابقہ دفتر میں کوئی حادثہ پیش آیا ہے۔ اطلاع تھی کہ کچھ لوگ زخمی اور شھید بھی ہوئے ہیں۔ ان زخمیوں میں سے ایک حاج عباس شیرازی بھی تھے۔ جو اس وقت ان کے دفتر کے مدیر تھے۔ جب ان کی ملاقات کو پہنچے تو درد دل بیان کرنے لگے کہ جب آپ کا دور تھا! آپ ہفتے میں تین بار ہمارے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کیا کرتے تھے اور پھر اپنے کمرے میں جاتے تھے۔ لیکن جب سے آپ گئے ہیں، ابھی تو اسسٹنٹ بھی ہمیں نظر نہیں آتا۔ انسپکشن کی ذمہ داری کے دوران نزاع و باہمی چپقلش کی فضا کو ختم کیا۔ آپس میں باہمی الفت و محبت اور تعاون کی فضا ایجاد کی۔ جب بھی کوئی رپورٹ عدلیہ کو ارسال کی جاتی تو اس کی ہر پہلو سے چھان بین کی جاتی۔

مُرتضوی مقدّم، آقای رئیسی کی خدمات کے سلسلے میں بیان کرتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک شخص کی فائل پیش کی گئی، جس میں مجرم کی پھانسی کا حکم ذکر تھا۔ آقای رئیسی کو فائل دی گئی، جب انہیں معلوم ہوا کہ اس حکم میں نقائص ہیں۔ اگرچہ پھانسی کا حکم عملی نہیں ہوا تھا۔ جس شخص نے اس حکم کو صادر کیا تھا، اس کو بلوا کر سرزنش کی۔ کیوں ان نقائص کے ہوتے ہوئے اس حکم کو جاری کیا.؟ عدلیہ میں اگر کوئی مالی یا اخلاقی کرپٹ عنصر ہوتا، اسے ذرا بھر بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی پوری کوشش کی کہ عدلیہ کو ایسے افراد سے پاک کیا جائے۔ ان کی کوشش تھی کہ ایسے ججز آئیں، جو بغیر کسی خوف و ہراس کے قانون پر عملدرآمد کروا سکیں۔ ان کو ملکی خدمت کا جہاں بھی موقع ملا، چاہے وہ عدلیہ ہو یا دوسرے عہدے! ان تمام عہدوں پر انہوں نے جہاں بھی کرپٹ عناصر کو پایا، ان سے ایسی جگہوں کو پاک کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خبر کا کوڈ: 1143237

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1143237/محبوب-ترین-صدر-2

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com