QR CodeQR Code

(سید ابراہیم رئیسی ؒ)

محبوب ترین صدر(1)

22 Jun 2024 14:53

اسلام ٹائمز: جس طرح مولا علی علیہ السلام کے عدل کی وجہ سے بہت سارے لوگ مخالف ہوگئے، اسی طرح ان کے قانونی فیصلوں کی چیخیں آج بھی دشمنوں کی طرف سے سنائی دے رہی ہیں۔ جو کرپٹ اور بدعنوانیوں میں شامل تھے، وہ ان کے فیصلوں سے شدید نالاں تھے۔ جس نے اپنے ہاتھوں کو اس ملک کی خیانت سے رنگا تھا، اس کے لئے قانون کے سائے میں عمل کرتے۔ جب اسپیشلسٹ ڈاکٹر کسی موذی مرض کی وجہ سے مریض کا ہاتھ کاٹتا ہے تو وہ ظلم نہیں ہوتا بلکہ عین عدل ہے۔ اگر اس عضو کو نہیں کاٹیں گے تو وہ بیماری پورے جسم میں سرایت کرے گی۔


تحریر: مقدر عباس

قہاّری و غفاّری و قدّوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں قرآن!

پانچ سال کے تھے کہ درد یتیمی سے آشنا ہوئے، حکمت پروردگار تھی کہ یتیموں اور بے سہارا لوگوں کے درد کا احساس کریں اور ان کا حق ادا کریں۔ انہوں نے اس ذمہ داری کو بڑے اچھے طریقے سے نبھایا۔ اسلامی انقلاب کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ معاشرے کے پسے ہوئے اور محروم، مگر باصلاحیت لوگوں کو نکھار عطا کیا۔ انہیں آگے آنے کا موقع فراہم کیا۔ موروثی سیاست کی بجائے استعداد کی بناپر ذمہ داری سونپی۔ چاہے وہ قاسم سلیمانی ہوں، ابراہیم رئیسی ہوں یا موجودہ سپریم لیڈر حفظہ اللہ۔ سب نے ثابت کیا کہ ہم کرسکتے ہیں۔ محنت مزدوری کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم کو جاری رکھا۔ جب دینی تعلیم کا آغاز کیا تو گرمیوں کی چھٹیوں میں بھی کام کاج کیا کرتے تھے۔

انقلاب کی کامیابی کے بعد بیس سال کی عمر کرج شہر کی عدالتی شعبے کی ذمہ داری سنبھالی اور جج بنے۔ انقلاب مخالف عناصر کی بیخ کنی کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا اور بغیر کسی خوف کے دلیرانہ اقدامات کئے۔ ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اس وقت کے چیف جسٹس نے انہیں کرج شہر کے ساتھ ساتھ ہمدان شہر کی بھی ذمہ داری سونپ دی۔ اس وقت کے صدر (بنی صدر) کے سیکرٹری کی کال آتی ہے اور بیس سالہ جوان فون سنتا ہے۔ تم نے فلاں شخص کو جیل میں ڈالا ہے۔ صدر کا حکم اسے فی الفور رہا کر دو۔ انہیں یاد آیا کہ اس کا جرم تو بہت بڑا ہے۔ سیکرٹری سے کہا صدر محترم کو ہمارا سلام پہنچائیے گا اور کہئے گا کہ یہ عدالت کے قاضی کا فیصلہ ہے اور کسی کو بھی حق حاصل نہیں کہ وہ عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہو۔

سیکرٹری سخت ناراض ہوا! تمہیں معلوم ہے تم کیا کہہ رہے ہو۔؟ یہ صدر صاحب کا حکم ہے۔ بڑے آرام سے جواب دیا، صدر صاحب کی یہ خواہش عدالتی امور میں مداخلت ہے اور قانون انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ سیکرٹری نے جب دوٹوک جواب سنا تو غصے سے بغیر خدا حافظی کئے فون بند کر دیا اور صدر صاحب کی طرف سے بھی پھر اس مجرم کی دادرسی کی اپیل نہ آئی۔ اگرچہ عدالتی ماحول تھا، لیکن سب کے ساتھ اخلاقی اقدار کے ساتھ برادرانہ رویہ تھا۔عدالتی امور کی انجام دہی میں کوئی ان کا ثانی نہیں تھا۔ صبح سویرے اپنی ڈیوٹی پر پہنچ جاتے تھے۔ ان کے کام کرنے کا دورانیہ اٹھارہ گھنٹے تھا۔ ایک دوست کے بقول "کام کی زیادتی کی وجہ سے بعض اوقات رات دفتر میں ہی گزار دیتے۔ دل کیساتھ کام کرتے تھے اور مشکل کام اپنے ذمے لیتے تھے۔ قانون کے سائے میں مدعی و ملزم و مجرم سے رویہ رکھتے تھے۔

جس طرح مولا علی علیہ السلام کے عدل کی وجہ سے بہت سارے لوگ مخالف ہوگئے، اسی طرح ان کے قانونی فیصلوں کی چیخیں آج بھی دشمنوں کی طرف سے سنائی دے رہی ہیں۔ جو کرپٹ اور بدعنوانیوں میں شامل تھے، وہ ان کے فیصلوں سے شدید نالاں تھے۔ جس نے اپنے ہاتھوں کو اس ملک کی خیانت سے رنگا تھا، اس کے لئے قانون کے سائے میں عمل کرتے۔ جب اسپیشلسٹ ڈاکٹر کسی موذی مرض کی وجہ سے مریض کا ہاتھ کاٹتا ہے تو وہ ظلم نہیں ہوتا بلکہ عین عدل ہے۔ اگر اس عضو کو نہیں کاٹیں گے تو وہ بیماری پورے جسم میں سرایت کرے گی۔ امام حسین علیہ السلام کے فرمان کے مطابق امام وہ ہوتا ہے، جو کتاب خدا کے مطابق حکومت کرے، عدل و انصاف کا احیاء کرے، دین حق کا پابند ہو اور اپنے آپ کو خدا کی راہ میں وقف کردے۔

کسی کو قانون سے ماوراء نہیں سمجھتے تھے۔ منشّیات کی روک تھام کے لئے جب اقدامات کئے تو بہت سے حکومتی اراکین جب منشیات کے سمگلروں کی حمایت کرتے تھے تو کہتے تھے کہ سب کیساتھ قانونی برتاؤ ہوگا۔ جو افراد غیر قانونی اسلحہ سے لیس تھے، ان کے خلاف کارروائی کی۔ بڑے عہدہ دار کا فون آیا کہ بڑے بڑے یہ کام نہیں کرسکے تو کہا کہ میں اس کام کا ذمہ دار ہوں اور اس کی انجام دہی میرے ذمہ ہے۔ میں کوئی بھی غیر قانونی کام نہیں ہونے دوں گا۔ اس کیساتھ ساتھ جب جنگ کے زمانے میں کچھ لوگ بے گھر ہوئے اور کرج شھر میں کسمپرسی کی حالت میں رہنے لگے تو شھید رئیسی نے ان کے لئے گھر مہیا کرنے کا بندوبست کیا۔ اگرچہ اس وقت لوگوں کو ایک نوجوان قاضی سے اس کی بالکل توقع نہیں تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کے لئے مشکل ہے، لیکن وہ اس علاقے کے مسئول تھے اور انہوں نے یہ کام کر دکھایا۔

لوگوں کی خدمت کرنا، لوگوں کے کام آنا، ان کے لئے تکلیفیں اٹھانا، امانت و دیانت داری کی حفاظت کرنا، سچ بات کرنا، یہ تمام باتیں علی مولا علیہ السلام کے ایک سچے پیروکار کی نشانی ہے۔ یہی رستہ علی مولا کا رستہ ہے۔ جب کوئی شخص کسی بھی رستے کا انتخاب کرتا ہے تو اس کے انتخاب میں اس کی فکر، شناخت اور نظریئے کا عمل دخل ہوتا ہے۔ تمام اعمال اسی تفکر کے گرد گھومتے ہیں۔ شھیدابراہیم رئیسی اپنے فیصلوں میں قرآن و اہل بیت علیہم السلام کی آئیڈیالوجی کو فالو کرتے تھے۔ اس آیت کے مطابق "کسی قوم کی دشمنی تمہاری بے انصافی کا سبب نہ بنے، (ہر حال میں) عدل کرو! یہی تقویٰ کے قریب ترین ہے اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔"

بعض مخالفین کی طرف سے انہیں برے القابات بھی دیئے گئے، لیکن انہوں نے اپنے ملک و نظام کی بقاء کی خاطر قانون کا احیاء کیا۔ صرف اتنی بات عرض خدمت ہے کہ جب ہم شھید کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو معلوم یہی ہوتا ہے کہ اگر  شھید بدعنوان اور کرپٹ ہوتے تو تیس سال ان کی والدہ ایک سادہ مکان میں گمنامی کی زندگی بسر نہ کرتیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے معاشرے میں کسی ایک کو بھی وزارت مل جائے تو سارا خاندان اس سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ لیکن ان کی والدہ نے بیت المال کو استعمال نہیں کیا۔ شھید نے اپنی شہادت کے بعد دنیا کو یہ بھی دکھا دیا کہ عدالت علوی کا عکس یہی ہے۔ جب قاضی تھے تو ایک کارخانے کے مالک کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا اور مزدور اس کے خلاف سراپا احتجاج ہوئے کہ یہ شاہ کا ایجنٹ ہے۔ اس کے کارخانے کو خراب کرنا چاہتے تھے۔ ملک میں باقی جگہوں پر بھی ایسے واقعات پیش آئے، لیکن شھید نے عدالتی پراسیس کے بعد کارخانہ اس کے مالک کو واپس دلوایا۔

لوگوں کے حقوق کے لئے ڈٹ جایا کیا کرتے تھے۔ کرپٹ عناصر کے خلاف تھے، اسی لئے آج وہ عناصر مختلف انداز میں ان کی کردارکشی میں مصروف نظر آتے ہیں۔ بہت سے لوگ عہدہ ملنے سے پہلے عاجز و انکسار ہوتے ہیں، لیکن عہدہ ملتے ہی ان کی اصلیت ظاہر ہونے لگتی ہے۔ لیکن شھید رئیسی نے زندگی میں جتنے بھی عہدے حاصل کئے، اپنا معیار زندگی تبدیل نہیں کیا۔ حرم امام رضا علیہ السلام کے متولی ہوں یا چیف جسٹس یا پھر ملک کے منتخب صدر۔ ہر دور میں عوام کی خدمت کی۔ بعض لوگوں کا زہد خشک ہوتا ہے، کیونکہ کہیں ہاتھ نہیں پڑتا، اس لئے اپنے آپ کو متقی کا لباس پہنا لیتے ہیں۔ لیکن جونہی طاقت و قدرت ملتی ہے، اقدار کو بھول جاتے ہیں۔ لیکن شھید نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ زہد کسی چیز کا نہ ہونا نہیں بلکہ حقیقی زہد یہ ہے کہ آپ کے پاس قدرت ہو لیکن فقیرانہ زندگی گزاریں۔
دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اَولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بُوئے اسَد اللّٰہی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خبر کا کوڈ: 1143184

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1143184/محبوب-ترین-صدر-1

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com