QR CodeQR Code

اسرائیل اور لبنان کے مابین کشیدگی

19 Jun 2024 15:24

اسلام ٹائمز: اسرائیل اور حزب اللہ کی حالیہ کشیدگی کسی بڑی جنگ کی صورت نہیں اختیار کرے گی، تاہم چھوٹی جھڑپوں کا سلسلہ بدستور جاری رہے گا۔ اگر اسرائیل حزب اللہ پر زمینی حملے کی غلطی کرتا ہے تو یہ اس کے لیے ایک ناقابل تلافی غلطی ہوگی، کیونکہ حزب اللہ پر زمینی حملے کی صورت میں ویسا ہی وار گیٹ کھل جائے گا، جیسا کہ داعش کے شام پر حملے کے وقت کھل گیا تھا، جسے کنٹرول کرنا کسی بھی طاقت کے بس میں نہیں ہوگا۔


تحریر: سید اسد عباس

اسرائیل لبنان میں مکمل جنگ کے لیے آمادہ ہے، اسرائیل کی شمالی کمانڈ نے اس حملے کی منظوری دے دی ہے، اسرائیلی وزیر خارجہ اور فوج کی جانب سے اعلان، جس کے بعد حزب اللہ نے اسرائیلی بندرگاہ حیفا کی ڈرون ویڈیو جاری کی۔ یاد رہے کہ اسرائیل اور حزب اللہ لبنان کے مابین 7 اکتوبر 2023ء حماس کے حملے کے بعد سے سرحدی علاقوں میں چھوٹی جھڑپیں مسلسل جاری ہیں، جس میں دونوں طرف جانی و مالی نقصانات کی اطلاعات ہیں۔ حزب اللہ کی جانب سے جاری کی جانی والی نو منٹ کی ڈرون فوٹیج میں حیفا کی بندرگاہ کے علاوہ اردگرد کی سول آبادیاں، فوجی تنصیبات، میزائل بیٹری اور شاپنگ مال دیکھے جا سکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ڈرون فوٹیج دن کی روشنی میں بنائی گئی۔ اسرائیل کا دفاعی نظام نہ تو اس ڈرون کو دیکھ سکا اور نہ ہی اسے گرا سکا۔ یہ حزب اللہ لبنان کی جانب سے واضح اعلان تھا کہ ہمارے پاس ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے، جس کو اسرائیلی دفاعی نظام نہیں پکڑ سکتا اور اگر اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا تو ڈرون میں دکھائی جانے والے مقامات ہمارے نشانے پر ہوں گے۔

اسرائیلی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم لبنان کے بارے میں غور و فکر کر رہے ہیں اور وقت آن پہنچا ہے کہ ہم حزب اللہ کے بارے فیصلہ کریں، اگر اسرائیل نے حملہ کیا تو حزب اللہ کے لیے یہ ایک شدید حملہ ہوگا۔ حسن نصر اللہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ حزب اللہ فقط اسی صورت میں اسرائیل پر حملے بند کرے گی، جب اسرائیل غزہ میں جارحیت ختم کرے گا۔ حزب اللہ کے دعوے کے مطابق جنگ کے آغاز سے اب تک اسرائیل کے خلاف 2100 فوجی آپریشن انجام دے چکی ہے۔ لبنان پر ہونے والے اسرائیلی میزائل حملوں میں اب تک 400 کے قریب افراد شہید ہوچکے ہیں، جن میں حزب اللہ کے اراکین کے علاوہ صحافی، طبی امداد کے عملے کے اراکین شامل ہیں۔ اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین ہونے والی ان جھڑپوں کی وجہ سے لبنان میں تقریباً 90 ہزار اور اسرائیل میں 60 ہزار افراد محفوظ مقامات پر پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔

امریکا اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین وسیع تر جنگ کے امکانات کو کم کرنے کے لیے سفارتی کوششیں کر رہا ہے۔ اس حوالے سے امریکی وائٹ ہاوس کے نمائندے نے لبنان کے دورے کے موقع پر بتایا کہ بائیڈن انتظامیہ فریقین میں جاری کشیدگی کو روکنا چاہتی ہے، تاکہ خطے میں کوئی بڑی جنگ نہ ہو۔ حزب اللہ نے اپنے کمانڈر طالب عبداللہ کی شہادت کے بعد اسرائیل پر حملوں میں اضافہ کیا تھا، جس کو روکنے کے لیے امریکی وائٹ ہاؤس کے نمائندے نے اسرائیل اور لبنان کا دورہ کیا اور اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ دوسری جانب فرانس نے بھی جنگ کو بڑھاوا نہ دینے کے حوالے سے اسرائیلی وزیر دفاع سے رابطہ کیا ہے۔ فرانسیسی وزیر دفاع نے اس جنگ کو پھیلنے سے روکنے کے لیے سہ فریقی مذاکرات کی بات کی، جسے اسرائیلی وزیر دفاع نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ فرانس کی اسرائیل کے حوالے سے پالیسی جارحانہ ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع گیلنٹ کو عالمی عدالت انصاف جنگی مجرم قرار دے چکی ہے، اسرائیلی میڈیا کے مطابق وزارت خارجہ، وزیر دفاع کے بیان کی تائید نہیں کرتا ہے۔

نیتن یاہو کی حکومت اس وقت اندرونی اور بیرونی دباؤ کا شکار ہے، ملک میں نوے ہزار پناہ گزین موجود ہیں۔ ایک سروے کے مطابق اسرائیلی عوام نہیں چاہتے کہ اسرائیل حزب اللہ کے قریب جائے، جبکہ اسرائیلی ذمہ دار مسلسل حزب اللہ کے خلاف جنگ کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ حزب اللہ نے بھی کہا ہے کہ وہ جنگ کے لیے آمادہ ہے۔ سترہ جون کو غزہ میں اسرائیلی فوج نے اعلان کیا تھا کہ وہ جنوبی غزہ میں جاری فوجی کارروائیوں میں روزانہ کی بنیاد پر وقفہ دے گی، تاکہ مزید انسانی امداد غزہ پہنچائی جا سکے۔ اطلاعات کے مطابق ان وقفوں کا اطلاق سنیچر سے شروع ہوچکا ہے۔ اس اعلان کے فوری بعد اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے حکومتی وزراء کی جانب سے شدید سیاسی ردِعمل سامنے آیا اور اسی طرح اس کے خلاف اسرائیلی فوج کی جانب سے فوری دفاع بھی کیا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ یہ جنوبی غزہ میں جنگ کے خاتمے کی جانب اشارہ نہیں اور نہ انسانی بنیادوں پر غزہ میں داخل ہونے والی امداد کے طریقہ کار میں کوئی تبدیلی ہے۔

اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین حالات کی کشیدگی ایک مکمل جنگ کی نشاندہی کر رہی ہے، تاہم اسرائیل سیاسی اور معاشی طور پر اس کیفیت میں نہیں ہے کہ وہ حزب اللہ جیسے طاقتور عسکری گروہ کے ساتھ ایک نیا محاذ جنگ کھول دے، جس سے اس کی توجہ غزہ کی جنگ سے ہٹ جائے اور اندرونی طور پر مزید پناہ گزینوں کا بوجھ ریاست پر پڑے۔ دوسری جانب دائیں بازو کے حکومتی وزراء غزہ جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے اپنا دباؤ استعمال کر رہے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ غزہ میں حملوں میں تعطل آئے اور جنگ اس وقت تک روکی جائے، جب تک جنگ کے مقاصد یعنی حماس کا خاتمہ اور یرغمالیوں کی واپسی حاصل نہیں کیے جاتے۔

نیتن یاہو حکومت متعدد جہتوں سے مشکلات کا شکار ہے، جس میں ایک جانب جنگ کا معاشی بوجھ، پناہ گزینوں کے مسائل، آٹھ ماہ گزرنے کے باوجود جنگی اہداف کے حصول میں ناکامی، دائیں بازو کے شدت پسند وزراء کا جنگ کو مکمل کرنے پر اصرار، جنگ کے حوالے سے عالمی دباؤ، عالمی عدالت انصاف کا غزہ حملوں کو جنگی جرائم کی فہرست میں ڈالنا شامل ہیں۔ اس میں اگر نیتن یاہو کے کرپشن کیسز اور عوامی مقبولیت کے گراف کو بھی مدنظر رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ نیتن یاہو اس وقت "تتے توے" پر بیٹھا ہے۔ ایسی صورتحال میں لبنان میں ایک نیا محاذ کھولنا کسی صورت بھی درست نہیں ہوگا جبکہ اسرائیل حزب اللہ سے پہلے بھی شکست کا مزہ چکھ چکا ہے۔

میرے خیال میں اسرائیل اور حزب اللہ کی حالیہ کشیدگی کسی بڑی جنگ کی صورت نہیں اختیار کرے گی، تاہم چھوٹی جھڑپوں کا سلسلہ بدستور جاری رہے گا۔ اگر اسرائیل حزب اللہ پر زمینی حملے کی غلطی کرتا ہے تو یہ اس کے لیے ایک ناقابل تلافی غلطی ہوگی، کیونکہ حزب اللہ پر زمینی حملے کی صورت میں ویسا ہی وار گیٹ کھل جائے گا، جیسا کہ داعش کے شام پر حملے کے وقت کھل گیا تھا، جسے کنٹرول کرنا کسی بھی طاقت کے بس میں نہیں ہوگا۔


خبر کا کوڈ: 1142657

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1142657/اسرائیل-اور-لبنان-کے-مابین-کشیدگی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com