QR CodeQR Code

کانوائے کی آڑ میں کاروبار

16 Jun 2024 13:03

اسلام ٹائمز: صبح 7:30 بجے کوئٹہ علمدار روڈ کے نزدیک ایک مقام پر ہمیں الحمدللہ پہنچا دیا گیا اور اس طرح ہم قید سے آزاد ہوئے اور فیصلہ کیا کہ آئندہ یہاں سے نہیں آنا، یہ تجربہ بھی اس لیے ہوا کہ میں ایران کے ایک شہر میں موجود تھا، جہاں سے مجھے تہران جانا تھا، وہاں سے میری ماہان کی ٹکٹ تھی، جس سے مجھے لاہور آنا تھا، لیکن تہران کی فلائٹ پْر ہونے کی وجہ سے مجھے یہ دیکھنے اور لکھنے کا موقع ملا۔ امید کرتا ہوں کہ ہماری حکومت اس طرف توجہ کرے اور سکیورٹی اداروں کے تعاون سے ان مسائل کو محرم اور صفر سے پہلے حل کرنے کے لیے اقدامات کرے۔


تحریر: مرتضیٰ عباس

جب سے زائرین کی حفاظت کے لیے کانوائے نظام کا آغاز ہوا ہے، مختلف افراد سے شکایات سننے کو ملتی رہتی ہیں۔ خاص طور پر محرم الحرام اور اربعین امام حسین علیہ السلام کے موقع پر زیادہ تعداد میں پاکستانی زائرین وطن عزیز سے براستہ تفتان بارڈر ایران میں داخل ہوتے ہیں اور وہاں سے عراق جاتے ہیں، کانوائے میں تاخیر 8 گھنٹے کا سفر 18 گھنٹے میں طے ہونا تو معمول کی بات ہے، لیکن جب میں پہلی مرتبہ 14 جون کو خود اس کا شکار ہوا تو علم ہوا کہ ایک بہت بڑا مافیہ ہے، جو اس حفاظتی کانوائے کی آڑ میں کاروبار کر رہا ہے۔ عام طور پر تافتان اور کوئٹہ کے مابین سفر کی ٹکٹ 2000 روپے عمومی سیٹ اور 2500 روپے وی آئی پی سیٹ کا کرایہ ہے جبکہ زائرین سے کانوائے کے موقع پر 5000 فی نفر کرایہ وصول کیا جاتا ہے اور اوپر سے ظلم کی انتہاء یہ ہے کہ 5000 وصول کرکے بسوں کا منشی کہتا ہے گلی میں (یعنی دونوں اطراف کی سیٹوں کے مابین گزرنے کا راستہ) بیٹھنا ہے اور اگر احتجاج کریں تو کہتا ہے کہ جانا ہے تو جاؤ نہیں تو پیسے پکڑو، اگلے کانوائے میں عید کے بعد دیکھیں گے، یعنی پیسے بھی دو اور کھڑے ہوکر جاؤ۔

پاکستان ہاؤس (قید خانہ) کے بارے میں تو بہت سے لوگوں نے لکھا ہے اور آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے، میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس جیل میں پیسے دے کر رہنا پڑتا ہے اور ہر ضرورت کی چیز کے لیے دوگنا پیسے ادا کرنے پڑیں گے اور اس کے معیاری ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ اپنا ہی پاسپورٹ جو آپ بارڈر کے گیٹ پر سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو دے کر آئیں ہیں اور جب آپ اس قید خانے سے روانہ ہونے والے ہوں گے تو ان کے نمائندے سے واپس لینے کے لیے بھی فی پاسپورٹ 100 روپے رشوت کے طور پر ادا کرنے ہوں گے، ورنہ وہ پاسپورٹ واپس نہیں کرے گا۔ دن 11 بجے اعلانات شروع ہوئے کہ بسوں میں بیٹھنا شروع کریں۔ اب سامان رکھنے کی باری آئی تو پتہ چلا کہ بسوں کی ڈگی میں تو اسمگلنگ کا سامان مالکان نے بھرا ہوا ہے اور چھت پر کچھ زائرین کا سامان ہے اور باقی وہی اسمگلنگ والا۔

خیر اندر تشریف لے کر گئے تو معلوم ہوا اندر ہر سیٹ کے نیچے بھی کارٹن موجود ہیں اور آخری سیٹ کے عقب میں کارٹنز لگے ہوئے ہیں، اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ آپ نے اپنا سامان راہداری میں یا سیٹ میں اپنی ٹانگیں اوپر کرکے سامنے رکھنا ہے اور آخری سیٹ پر جانے کے لیے راہداری میں پڑے زائرین کے سامان پر پاؤں رکھ کر جانا ہوگا۔ ایک مقام پر ایک بیگ پر پاؤں آگیا اور کہیں رکھنے کا چارہ ہی نہیں تھا تو ایک فرد بول پڑا بھائی اس میں قرآن اور اسلامی کتب ہیں، معلوم ہوا محترم ایران میں طالب علم ہیں اور بیگ راستے میں رکھا ہے، بحث کرنے سے معلوم ہوا کہ بس کی چھت پر رکھا تھا، لیکن وہاں سے سامان گرنے کی وجہ سے ڈرائیور نے انہیں تھما دیا کہ نیچے رکھ لو اسے، اب وہ قرآن یا اسلامی کتب کو اپنی سیٹ پر تو رکھ نہیں سکتے تھے، لہٰذا انہوں نے اسے اسی گلی میں رکھنے کا فیصلہ کیا۔

بہرحال ان سے بحث کرنا لاحاصل تھا، اس لیے فیصلہ کیا کہ سیٹ پر بیٹھنے کے لیے کوشش کی جائے۔ میرے ساتھ بارڈر پر کچھ لوگ جڑ گئے، وہ ایسے کہ بارڈر گیٹ والے جوانوں نے کہا کہ آپ لوگ لسٹ بنائیں تو یہاں سے باہر نکلیں گے، میں نے کافی اصرار کیا کہ میں اکیلا آیا ہوں، میرے ساتھ کوئی نہیں، مجھے جانے، دو لیکن وہ نہ مانا۔ اس نے کہا کہ بھائی آپ پنجاب والے 5 افراد اکٹھے ہو جاؤ اور ایک لسٹ بنا لو، خیر مجھے ان کا سالار بننا پڑا اور ایک لسٹ میں نے تیار کی، جس سے ہم 5 کا گروپ بن گیا۔ وہ اہلکار محترم کے ہاتھ میں تھما دی، اس طرح یہ افراد میرے ساتھ "جڑ" گئے۔ جب ٹکٹیں کروائیں تو منشی نے ٹکٹ پر لکھ دیا "گلی میں 5 افراد" اب سیٹ حاصل کرنے والا مرحلہ تھا، ہمارے ساتھ ایک بزرگ بھی تھے، اس لیے سیٹ ضروری تھی اور میں بھی مسلسل سفر میں ہونے کی وجہ سے تھکا ہوا تھا، پھر مجبوراً پاکستانی طریقہ کار اختیار کیا گیا، کنڈیکٹر کی جیب گرم کی گئی تو معلوم ہوا 2 سیٹوں کی آخر میں گنجائش موجود ہے، وہ حاصل کی گئیں، وہی اسلامی کتابوں والے بیگ کو پھلانگ کر جو کہ 4 سے 5 فٹ پر راہداری پر پھیلا ہوا پڑا تھا۔

راستے میں ایک اور ساتھی کو اپنی نشست دیتا رہا، کچھ دیر وہ بیٹھ جاتا، کچھ دیر میں بیٹھ جاتا، باقی کے 2 افراد چونکہ نسبتاً جوان تھے، انہوں نے کچھ گلی میں بیٹھ کر کچھ دیر لیٹ کر اور کچھ دیر کھڑے ہو کر سفر کاٹ ہی لیا، حالانکہ تمام مسافر برابر کرایہ ادا کرکے آئے تھے۔ کانوائے میں گاڑی کی رفتار سکیورٹی اداروں کے جوانوں کی گاڑیوں کے مطابق ہی رکھنی پڑتی ہے، 12 بجے جب سیٹوں پر بیٹھ گئے، بسیں پاکستان ہاؤس سے باہر آگئیں، لیکن باہر آ کر پھر کھڑی ہوگئیں۔ 3 بجے تک تو ڈرائیور نے گاڑی اے سی چلا کر جو بس پنکھے کی مانند چل رہا تھا، سٹارٹ کھڑی رکھی، لیکن 3 گھنٹے بعد وہ بھی تنگ آگیا اور گاڑی بند کر دی کہ سب نیچے اتر جائیں، میرے پاس فالتو ڈیزل نہیں ہے۔ تاخیر کی وجہ جاننے کہ لیے معلومات حاصل کی گئیں تو پتہ چلا ایف سی کے کچھ جوان عید پر چھٹی جانا چاہتے ہیں، بغیر کرایہ دیئے کانوائے کے ساتھ انہیں بسوں والے سیٹیں نہیں دے رہے اور فوجیوں کی گاڑی میں اتنی جگہ نہیں ہے کہ وہ اس پر سب بیٹھ جائیں۔

دوسری وجہ یہ سامنے آئی کہ بعض سکیورٹی فورسز کے جوان ڈیوٹی پر مختلف مقامات پر بارڈر لائن پر موجود ہیں، وہ سب جمع ہو جائیں گے تو ہم یہاں سے روانہ ہوں گے۔ گرمی کی شدت، پینے کا پانی ختم ہوچکا تھا، جو بس والوں کہ پاس گاڑی میں موجود تھا، وہ گرم تھا، ان کا کہنا تھا کہ برف کا اہتمام کیا ہے، لیکن وہ بازار میں ہے، یہاں سے روانہ ہوں تو حاصل کریں گے اور اسے ٹھنڈا کریں گے، زائرین گرمی، پیاس کی شدت اور اب تو بھوک بھی کچھ لوگوں کو ستا رہی تھی۔ ہمارے ساتھ والے بزرگ بی پی اور شوگر کے مریض تھے، ان کے بسکٹ کیک اور پانی بھی ختم ہوگیا تھا۔ چھوٹے بچے گرمی کی شدت سے بے ہوش ہو رہے تھے۔ ایک خاتون اپنے بچوں کے ہمراہ فریاد کر رہی تھی کہ میری بچی کی حالت دیکھیں اور رحم کریں، قافلہ روانہ کریں۔

چوکی سے ایک صوبیدار آیا، اس نے کہا کہ 25 کلومیٹر کے فاصلے پر ہمارے ساتھی پہنچ چکے ہیں، وہ آجائیں تو روانہ ہوتے ہیں، خیر اسی شور شرابے گہما گہمی میں 6 بج گئے اور گاڑیوں کو صفوں میں ایک مرتبہ پھر اکٹھا کیا گیا اور ہم بالآخر روانہ ہوئے۔ مغرب کے قریب کانوائے رک گیا۔ معلوم ہوا کچھ فوجی جوان نماز ادا کر رہے ہیں، ہم نے بھی کوشش کی، لیکن ہمیں بسوں سے اترنے کی اجازت نہیں ملی۔ ہم نے پوچھا ہمارے لیے کب روکیں گے، بتایا گیا معلوم نہیں فی الحال آپ لوگ اپنی نشستوں پر تشریف رکھیں۔ کچھ دیر میں کانوائے روانہ ہوا۔ اسی طرح کبھی بعض مقامات پر رکتے اور پھر چند منٹ بعد چل پڑتے۔ رات تقریباً 10:30 بجے ایک مقام پر روکا گیا، عملے نے کہا 5 منٹ کی اجازت ہے، اس میں جو چاہے کرلیں، نیچے اترے تو معلوم ہوا ایک کھلے مقام پر چار دیواری لگی ہوئی ہے، جس کے چاروں طرف فوجی جوان موجود ہیں اور ہر طرف اندھیرا ہی ہے۔

واش روم اور مسجد کی تلاش میں اطراف میں دیکھا تو ایک مقام کی طرف لوگ جا رہے تھے، میں بھی اس طرف چل پڑا۔ واش روم کے پاس پہنچے تو اس میں خواتین کا رش لگا تھا۔ 4 واش روم تھے اور ہم کانوائے میں 1900 کے قریب افراد موجود تھے۔ مرد حضرات سب باہر دیوار کی طرف منہ کرکے طہارت کرنے میں مشغول تھے، البتہ وضو کرنے کی لیے لگ بھگ 15 نلکے موجود تھے۔ میں نے وضو کرکے نماز ادا کی، اتنی دیر میں بسوں نے ہارن دینا شروع کر دیئے۔ ارد گرد کوئی دکان موجود نہیں تھی، البتہ ایک میڈیکل کیمپ فوجی جوانوں نے لگا رکھا ٹھا۔ وہاں پر ایک غیر ملکی جوڑے کو جو بظاہر کسی یورپی ملک کے باشندے معلوم ہو رہے تھے، بائیک پر آئے ہوئے تھے، وہ بھی کانوائے میں ہمارے ساتھ موجود تھے۔ بہرحال اسی پیاس اور بھوک کی حالت میں بسوں پر بیٹھ گئے۔ البتہ ایک اچھی خبر کانوں سے گزری کہ 100 کلومیٹر کے مزید سفر کے بعد کسی مقام پر کھانے کے لیے روکا جائے گا۔

دلبدین کے مقام پر رات 12:30 بجے کے قریب کانوائے رکا، ہم بسوں سے اترے واش روم تلاش کیا تو 4 عدد واش روم جس میں اسی طرح مرد و خواتین سب جا رہے تھے، اپنے نمبر کا انتظار کیا۔ ہوٹل کے ساتھ ایک دکان تھی، اس پر پانی لینے گئے تو پتہ چلا پانی اور بوتلیں جتنی ٹھنڈک تھیں، ختم ہوچکی ہیں۔ بسکٹ بچے ہوئے ہیں اور گرم پانی موجود ہے۔ ساتھ ہوٹل میں داخل ہوئے، جس کا بھی کوئی حال نہیں تھا۔ وہاں پر روٹی مانگی تو معلوم ہوا روٹیاں اور ہر طرح کا سالن سب ختم ہوچکا ہے، جو پہلے پہنچے، وہ سب کھا چکے تھے، البتہ ریٹ معلوم ہوئے 500 روپے میں دال کی ایک مختصر سی پلیٹ کے ساتھ 2 عدد روٹیاں ملتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اتنے سارے افراد کے لیے کھانے اور پانی وغیرہ کا انتظام ان کے پاس موجود نہیں تھا، جو اچانک وہاں پر پہنچ گئے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کانوائے کے لیے راستے میں کوئی انتظام موجود نہیں ہوتا۔ کسی کو پہلے سے اطلاع نہیں ہوتی، نہ ہی حکومتی سطح پر اس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

صبح 7:30 بجے کوئٹہ علمدار روڈ کے نزدیک ایک مقام پر ہمیں الحمدللہ پہنچا دیا گیا اور اس طرح ہم قید سے آزاد ہوئے اور فیصلہ کیا کہ آئندہ یہاں سے نہیں آنا، یہ تجربہ بھی اس لیے ہوا کہ میں ایران کے ایک شہر میں موجود تھا، جہاں سے مجھے تہران جانا تھا، وہاں سے میری ماہان کی ٹکٹ تھی، جس سے مجھے لاہور آنا تھا، لیکن تہران کی فلائٹ پْر ہونے کی وجہ سے مجھے یہ دیکھنے اور لکھنے کا موقع ملا۔ امید کرتا ہوں کہ ہماری حکومت اس طرف توجہ کرے اور سکیورٹی اداروں کے تعاون سے ان مسائل کو محرم اور صفر سے پہلے حل کرنے کے لیے اقدامات کرے۔


خبر کا کوڈ: 1142268

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1142268/کانوائے-کی-آڑ-میں-کاروبار

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com