QR CodeQR Code

عراق میں نئی امریکی سازش

16 Jun 2024 18:17

اسلام ٹائمز: اسوقت ایران کو عراق کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار سمجھا جاتا ہے اور وسیع تجارتی تعلقات اور دونوں طرف سے اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانے کی خواہش کے علاوہ، تہران عراق کو درآمد کی جانیوالی گیس اور بجلی کا سب سے اہم فراہم کنندہ بھی ہے۔ عراق کی غیر ملکی تجارت اور ملک کے مالیاتی اور بینکنگ نظام پر مزید کنٹرول حاصل کرنے کی امریکی کوشش عراقی حکومت کے ترقیاتی اور اقتصادی منصوبوں پر تباہ کن اثر ڈال سکتی ہے۔ مجموعی طور پر ایسا لگتا ہے کہ مکمل اختیارات کیساتھ امریکی سفیر کے انتخاب کا مقصد عراق میں سیاسی، اقتصادی اور سکیورٹی عدم استحکام پیدا کرنا اور عراق میں کشیدگی کے انتظام کی پالیسی کو جاری رکھنا ہے۔


ترتیب و تنظیم: علی واحدی

ٹریسی جیکبسن کے عراق میں نئے امریکی سفیر کے طور پر اعلان کیے جانے کے کئی ماہ بعد، امریکی سفارت کار نے بغداد جانے کے لئے امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی سے خطاب کیا ہے اور یوں اس نے عراق جانے کے لئے اپنے مشن کی حتمی تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ بائیڈن حکومت کے نئے سفیر نے ابھی عراق میں اپنے قدم نہیں رکھے، لیکن اس نے مزاحمتی گروپوں کے خلاف تلوار سونپ لی ہے۔ ٹریسی جیکبسن نے اس ملک کے اندرونی حالات میں مداخلت کرتے ہوئے، عدم استحکام اور کشیدگی پیدا کرنے والی پالیسیوں کے ایک نئے دور کی خبر دے دی ہے۔ سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی میں اس نے یہ اعلان کیا ہے کہ ایران عراق میں امریکہ کا سب سے اہم دشمن ہے، جیکبسن نے عراق میں امریکی اڈوں پر حملوں کے بارے میں دھمکی دی کہ "امریکہ کو ضرورت پڑنے پر فوجی حملے کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیئے۔"

عراق کے لیے نئے امریکی ایلچی کے یہ دھمکی آمیز بیانات لا جواب نہیں رہے اور عراق کی النجبہ تحریک کی سیاسی کونسل کے سربراہ نے اس ملک میں نئے امریکی سفیر کو خبردار کیا ہے کہ عراق میں امریکی اڈوں پر حملوں کی لہر جاری رہے گی۔ عراق کی اسلامی مزاحمتی تحریک نجبہ کی سیاسی کونسل کے سربراہ شیخ علی الاسدی نے اپنے ایک پیغام میں اعلان کیا ہے کہ "نئی امریکی سفیر کے بیانات، جنہوں نے کانگریس کے اجلاس میں ہمارے ملک کے بارے میں دھمکی آمیز بیانات دیئے ہیں، یہ ہمارے لیے نئے نہیں؛ لیکن نئی بات یہ ہے کہ ہم عراقی سیاست دانوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ امریکہ کے عزائم سے باخبر رہیں، وہ جارحیت میں ملوث ہے۔

آپ یا تو ہماری آزادی کے حق اور قومی خود مختاری کی حمایت کو نظر انداز کرتے ہیں، یا آپ نے اس حقیقت کو قبول کر لیا ہے کہ آپ امریکی مجرموں کی مسلسل جارحیت کو روکنے میں بے بس ہیں۔ شیخ "علی الاسدی" نے تاکید کی کہ سب کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ہمارا نقطہ نظر نہ بدلا ہے اور نہ بدلے گا۔ امریکہ قابض ہے اور صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔ انہوں نے امریکی سفیر کو متنبہ کیا کہ اپنی توجہ مبذول کرو اور جان لو کہ آنے والے دنوں میں ہمارے اگلے تھپڑ آپ کے منہ پر لگیں گے اور آپ دیکھیں گے کہ آخری بات کس کی ہوتی ہے۔

نئی امریکی سفیر جیکبسن کا سفارتی ریکارڈ
26 جنوری 2024ء کو، جو بائیڈن نے ٹریسی این جیکبسن کو ایلینا رومانسکی کی جگہ عراق میں امریکہ کی غیر معمولی اختیارات اور مکمل طاقت کی سفیر کے طور پر نامزد کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا۔ جیکبسن کا امریکی محکمہ خارجہ میں کیریئر (2000-2003ء) سے لٹویا میں امریکی سفارت خانے میں کام کرنے سے شروع ہوا، انہوں نے جمہوریہ کوسوو (2015-2012ء)، تاجکستان (2009-2006ء) اور ترکمانستان میں سفیر کے طور پر کام کیا گیا۔ (2009-2006ء) میں ایتھوپیا میں امریکی عارضی سفارت خانے کی ذمہ داری جیکبسن کا آخری سفارتی مشن سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، 2021ء میں، جیکبسن کو جو بائیڈن نے افغانستان میں وزارت خارجہ کے خصوصی گروپ کے ڈائریکٹر کے طور پر منتخب کیا تھا اور طالبان کے ہاتھوں کابل کے سقوط کے بعد غیر ملکی افواج کے ساتھ کام کرنے والے افغانوں کی منتقلی کی ذمہ داری بھی انہیں سونپی گئی۔ اس حوالے سے مخالفین کی طرف سے ان پر کچھ تنقید بھی کی گئی۔بہرحال اب وہ عراق میں نئے سفیر کے طور پر تعینات ہوئی ہیں۔

وائٹ ہاؤس نے بغداد میں غیر معمولی اختیارات والا سفیر کیوں بھیجا؟
عراق میں نئے امریکی سفیر کے مشن میں اہم نکتہ جیکبسن کی بغداد میں "غیر معمولی اختیارات" والے سفیر کے طور پر تعیناتی ہے، جو  ذمہ داری عام طور پر اس سفیر کو دی جاتی ہے، جسے کچھ خصوصی مشن سونپے جاتے ہیں۔ یہ اختیارت اکثر ایسے شخص کو دیئے جاتے ہیں، جو اپنے مشن کو انجام دینے میں غیر معمولی صلاحیت کا حامل ہو۔ ایک "سفیر غیر معمولی" اور "سفیر عام" کے درمیان فرق صرف یہ ہے کہ مؤخر الذکر ایک خاص مقصد کی تکمیل کرتا ہے، جبکہ سابق کو "وسیع اختیارات" حاصل ہوتے ہیں اور وہ حکومت کے نام پر میزبان ملک کے ساتھ معاہدے کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔ جیکبسن کو اپنے کیرئیر میں خصوصی سفیر کا استحقاق حاصل کرنے کا ماضی کا تجربہ ہے اور اس نے ایتھوپیا میں خانہ جنگی کے بعد کئی نئے معاہدوں کو شروع کرنے اور کئی معاہدوں کو ختم کرنے اور جنگ کے بعد وائٹ ہاؤس کی نئی حکمت عملی تیار کرنے میں حصہ لیا۔

نئے سفیر کو یہ اختیارات دینے سے عراقی مبصرین اور تجزیہ کاروں میں مختلف سوالات پیدا ہوگئے ہیں کہ کیا ابتدائی پارلیمانی انتخابات کے سال میں امریکی سفارتخانہ عراقی سیاسی پیشرفت اور یہاں تک کہ انتخابی بغاوت کے انجینئر کی تلاش میں ہے؟ کیا وہ قاتلانہ مہم کی قیادت کرے گا؟ مزاحمتی قوتوں کے لیے دھمکی امیز رویہ کو مدنظر رکھتے ہوئے، کیا نئے امریکی سفیر اقتصادی مسائل میں اضافے اور نئی پابندیوں کے تناظر میں مزاحمت کی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف بحران پیدا کرنے کا انتظام کریں گے؟ کیا جیکبسن امریکی صدارتی انتخابات کے موقع پر اور غزہ جنگ کے تناظر میں عراق میں امریکی اڈوں کی فوجی پوزیشن اور سکیورٹی کو مضبوط بنانا چاہتی ہیں۔؟

رومانسکی کے بعد جیکبسن دوسری خاتون ہیں، جو ایک سفیر کے طور پر بغداد آرہی ہیں۔ جیکبسن کی حقوق نسواں اور ہم جنس پرستی کی حمایت پہلے ثابت شدہ ہے، ماہرین اس انتخاب کو عراق کی موجودہ صورتحال کے لیے امریکہ کے منصوبوں سے جوڑتے ہیں۔ اس سلسلے میں عراقی ماہر صالح العقیلی کا خیال ہے: "عراق میں امریکی سفیر کی تبدیلی اور ایک خاتون کی بطور غیر معمولی سفیر تقرری، عراق کے لیے امریکی حکومت کی جانب سے ایک نئی حکمت عملی کی نشاندہی کرتی ہے۔ نئی امریکی سفیر ہم جنس پرستوں کی حمایت کرتی ہے اور فرقہ وارانہ اختلافات نیز تنازعات کو بڑھانے میں تجربہ کار لگتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا: "توقع کی جاتی ہے کہ یہ سفیر اندرونی معاملات میں بہت زیادہ مداخلت اور عراق کی سیاسی صورتحال پر اثر انداز ہونے کی وسیع کوشش کرے گی، تاکہ سکیورٹی کو غیر مستحکم کرنے اور عراقی معاشرے کی ثقافت کو متاثر کیا جا سکے۔"

اس ماہر نے نئے سفیر کے انتخاب کو عراق میں نئے امریکی بحرانوں کا اشارہ قرار دیا اور تاکید کی ہے کہ "واشنگٹن، جس نے پہلے عراقی حکومت کی سیاسی حمایت ترک کرنے کی بات کی تھی، وہ اس وقت اندرونی تقسیم کی حمایت کرکے عدم استحکام کے لیے دہشت گرد گروہوں کو فعال کر رہا ہے۔امریکہ اپنی پالیسی میں تبدیلی لا کر سکیورٹی کی صورتحال کو تبدیل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔" عراق میں امریکی سفیر کے نئے مشنوں کے بارے میں یہ مایوس کن نظریہ اور تجزیہ واضح طور پر جیکبسن کے بغداد کے سفیر بننے اور گرین زون میں آباد ہونے سے مزید واضح ہو جائے گا۔

جمعرات کو سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے سامنے ہونے والی ایک سماعت میں، جیکبسن نے داعش کی طرف سے عراق کو لاحق خطرے کو یاد کیا اور شام میں الہول کیمپ سے پناہ گزینوں کے لیے اپنے منصوبوں کے بارے میں بتایا۔ انھوں نے کہا: شمال مشرقی شام میں الہول کیمپ، جس میں داعش کے جنگجوؤں کے خاندان موجود ہیں، "دہشت گردی کے لیے بھرتی کی جگہ" ہو سکتے ہیں۔ جیکبسن نے کیمپ کو بند کرنے اور خواتین اور بچوں کی "بحالی اور انہیں زیادہ تیزی سے عراق لانے کے لیے فوری کام کرنے کا وعدہ کیا۔"

شہید سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی عراق میں داعش کو شکست دینے کے آپریشن کے کمانڈر کے طور پر شہادت کے بعد عراقی عوام اور سیاست دانوں نے امریکہ کے گھناؤنے جرم کے جواب میں ایک اہم فیصلہ کیا تھا۔ عراقی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر عراق سے امریکی فوج کے مکمل انخلاء کا مطالبہ کیا تھا، لیکن وائٹ ہاؤس نے داعش کے زندہ بچ جانے والوں کی نقل و حرکت کا حوالہ دیتے ہوئے عراقی حکومت کے مطالبات ماننے سے انکار کردیا۔ اس کارروائی نے بہت سے عراقی حکام کو یہ ماننے پر مجبور کیا ہے کہ داعش کے زندہ بچ جانے والوں کی نقل و حرکت اس ملک میں امریکی فوج کی مسلسل موجودگی کو جواز فراہم کرنے کے لیے امریکہ کے عدم استحکام کے منصوبوں کے عین مطابق ہے، خاص طور پر ان کیمپوں اور جیلوں کی انتظامیہ جہاں داعش کے عناصر موجود ہیں، وہ امریکی اتحادی گروپوں کے کنٹرول میں ہیں۔

شام کے شمال اور شمال مشرق میں تکفیری جنگجوؤں کے کیمپ کردوں کے پاس ہیں، جو واشنگٹن کے اتحادی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شامی اور روسی حکومتوں نے ان عناصر کی جان بوجھ کر رہائی کو امریکی قابض فوج سے متعلق ایک سکیورٹی چیلنج کے طور پر لیا ہے اور اس بارے بارہا خبردار کیا ہے۔ عراق کی اقتصادی صورت حال کو بہتر بنانے میں مدد کا دعویٰ کرتے ہوئے جیکبسن نے عراق کے بینکنگ اور مالیاتی نظام پر امریکی کنٹرول کو جاری رکھنے کا اہم مسئلہ بھی اٹھایا اور کہا ہے کہ میں عراق کے مالیاتی شعبے کو جدید بنانے اور اس کو امریک وزارت خزانہ سے منسلک کرنے کے لیے وزارت خزانہ کے اہم کام کی حمایت کروں گی۔ ایسا بین الاقوامی مالیاتی نظام جو ایران اور عراق کے درمیان بینکوں کو استعمال کرنے کی صلاحیت کو تباہ کرسکتا ہے۔

اس وقت ایران کو عراق کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار سمجھا جاتا ہے اور وسیع تجارتی تعلقات اور دونوں طرف سے اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانے کی خواہش کے علاوہ، تہران عراق کو درآمد کی جانے والی گیس اور بجلی کا سب سے اہم فراہم کنندہ بھی ہے۔ عراق کی غیر ملکی تجارت اور ملک کے مالیاتی اور بینکنگ نظام پر مزید کنٹرول حاصل کرنے کی امریکی کوشش عراقی حکومت کے ترقیاتی اور اقتصادی منصوبوں پر تباہ کن اثر ڈال سکتی ہے۔ مجموعی طور پر ایسا لگتا ہے کہ مکمل اختیارات کے ساتھ امریکی سفیر کے انتخاب کا مقصد عراق میں سیاسی، اقتصادی اور سکیورٹی عدم استحکام پیدا کرنا اور عراق میں کشیدگی کے انتظام کی پالیسی کو جاری رکھنا ہے۔


خبر کا کوڈ: 1142237

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1142237/عراق-میں-نئی-امریکی-سازش

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com