QR CodeQR Code

(BDS (Boycott, Divestment, Sanction

16 Jun 2024 17:51

اسلام ٹائمز: سادہ مخالفت سے شروع ہونیوالی یہ تحریک سنجیدہ مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ اب لوگ اسرائیلی ادیبوں کی میزبانی سے ڈرتے ہیں اور انہیں داخلی اور خارجی دونوں جانب سے مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، انکے پروگرام آسانی سے منسوخ کر دیئے جاتے ہیں۔ غیر ملکی مصنفین، خاص طور پر نوجوان مصنفین کتابوں کو عبرانی میں ترجمہ کرنے اور انہیں مقبوضہ علاقوں میں شائع کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ ہاریٹز نے آخر میں لکھا ہے کہ مروجہ نقطہ نظر یہ ہے کہ اسرائیل کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ یہ دنیا کا ایک بے مثال واقعہ ہے، اس سے پہلے اسرائیل کا ہر ناقد اسرائیل کیخلاف کسی بھی تنقیدی تبصرے کے بعد بائیکاٹ کے خوف کا شکار رہتا تھا، لیکن آج اسرائیل کی حمایت کرنیوالوں کو بائیکاٹ کا سامنا ہے۔ آج، اسرائیلی سیاح اپنی شناخت چھپاتے ہیں، تاکہ انہیں راہ چلتے تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے۔


تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

بی ڈی ایس تحریک سن 2005ء میں فلسطینی سول سوسائٹی کی تنظیموں نے شروع کی تھی۔ سول سوسائٹی کی تنظیموں نے اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر اسرائیل کے خلاف سیاسی اور اقتصادی کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اسرائیل اور اس کے اہم اتحادی امریکہ نے بی ڈی ایس پر یہود دشمنی کا الزام لگایا تھا، جبکہ اس تنظیم کے شریک بانی عمر برغوتی نے کہا تھا کہ بی ڈی ایس اسلامو فوبیا اور یہود دشمنی سمیت تمام قسم کی نسل پرستی کے خلاف ہے۔ بی ڈی ایس کے تین اہم مطالبات میں اسرائیل کے 1967ء کے فوجی قبضے کا خاتمہ، اسرائیل کے نسل پرستی پر مبنی نظام کا خاتمہ اور فلسطینی پناہ گزینوں کی زمینوں کی واپسی اور معاوضہ وصول کرنے کے حق کا احترام شامل تھا۔

بی ایس ڈی گروپ اسرائیلی کھیلوں ، ثقافتی اور تعلیمی تقریبات کے بائیکاٹ پر بھی زور دیتا ہے اور ان کمپنیوں پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کرتا ہے، جو اسرائیل کے ساتھ تعاون کرتی ہیں۔ اس تنظیم نے غزہ کی موجودہ صورت حال میں ایک بار پھر اپنی سرکرمیوں کو تیز کر دیا ہے۔ فلسطینی سول سوسائٹی کی تنظمیوں کا کہنا ہے کہ بائیکاٹ مہم کا مقصد عدم تشدد کے ذریعے اپنے مطالبات منوانے پر زور دینا ہے، اس مہم کا ایک اور مقصد صیہونی حکومت کے جرائم کے بارے میں خاموش مشہور شخصیات کو اسرائیلی مظالم کی طرف متوجہ کرنا ہے۔بہرحال غزہ پٹی میں فلسطینیوں کے خلاف جرائم اور نسل کشی کے وسیع نتائج نے عالمی میدان میں صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمتی محاذ کو وسعت دے دی ہے۔

اگر مغربی اور عرب ممالک کی حکومتوں اور سیاستدانوں نے صہیونی جرائم کے خلاف ان جرائم کو روکنے کے لیے کوئی عملی اقدام نہ کیا تو دنیا میں موجود مغرب اور مشرق کی اقوام بے ساختہ اسرائیلی اشیاء اور کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی کوششین مزید تیز کر دیں گی۔ ان پابندیوں سے صیہونی حکومت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ bds "بائیکاٹ، ڈس انویسٹمنٹ اور پابندی" مہم کی تشکیل کے تقریباً بیس سال بعد، ایک بار پھر دنیا کے تمام حصوں میں اس کی فعالیت کو دیکھا گیا ہے۔ اس مہم میں نہ صرف اسرائیلی اشیاء کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا گیا ہے بلکہ اسرائیل کے بائیکاٹ، ڈس انویسٹمنٹ اور بائیکاٹ کی تحریک کے علاوہ اس میں صیہونی حکومت کے ثقافتی اداروں میں جانے سے گریز کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ اس مہم میں فلسطینیوں اور مقبوضہ علاقوں کے بارے میں غیر انسانی بیانیے کی حمایت کرنے والوں نیز اسرائیلی یونیورسٹیوں اور تحقیقی مراکز کے ساتھ عدم تعاون کا  بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔

بی ڈی ایس کی حکمت عملیوں میں سے ایک یہ ہے کہ موسیقاروں، فنکاروں اور دیگر مشہور لوگوں کو مقبوضہ علاقوں کا سفر نہ کرنے کی ترغیب دی جائے۔ Haaretz اخبار نے فلم اور ڈرامہ سیریز کی تیاری جیسے ثقافتی شعبوں میں اسرائیل کے خلاف عالمی پابندیوں کی توسیع کا ذکر کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ یہ حکومت ایک ناپسندیدہ عنصر بن چکی ہے اور اسے مسترد کیا جائے۔ گذشتہ سال نومبر کے اوائل میں ایمسٹرڈیم میں دستاویزی فلمی میلے کے افتتاح کے موقع پر تین فلسطینیوں نے اسٹیج پر جا کر ایک پلے کارڈ اٹھایا، جس پر لکھا تھا ’’فلسطین سمندر سے دریا تک آزاد ہوگا‘‘، اس فیسٹیول کے ڈائریکٹر نے بھی یہ منظر دیکھ کر حمایت میں تالیاں بجانا شروع کر دیں اور پھر تالیوں کی ایک لہر نے فیسٹیول ہال کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ "Haaretz" نے اس واقعہ کو مستقبل کی پیش رفت کی ابتدائی علامت کے طور پر دیکھا اور ایک رپورٹ میں لکھا "یہ رویہ پھیل رہا ہے کہ اسرائیل کو مسترد کر دیا جائے، ہم ناپسندیدہ عناصر بن رہے ہیں، تقریباً ہم برے افراد اعلان ہوچکے ہیں اور دنیا میں اسرائیل کا ثقافتی بائیکاٹ بڑھتا جا رہا ہے۔"
 
اسرائیل کے بائیکاٹ کی مہم کو فعال کرنے کے متوازی ایک اور مہم ان مشہور شخصیات اور اثر و رسوخ سے نمٹنے کے لیے شروع کی گئی ہے، جو صیہونی حکومت کے جرائم کے بارے میں خاموش ہیں۔ مشہور شخصیات یا سلیبریٹیز جو تلخ واقعات میں سرگرمی سے حصہ لیتے ہیں یا مغربی حکومتوں کے ذریعے انہیں اس مخصوص اہداف کے لئے تخلیق کیا جاتا ہے، وہ ان تلخ واقعات سے اپنے فین کلب میں اضافہ بھی کرتے ہیں، لیکن فلسطین کے مسئلے میں ان خاموش مشہور شخصیات کو un fallow ان فالو کرنا خود ان کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے۔ غزہ کے مسئلے کے بارے میں خاموشی اختیار کرنے والی مشہور شخصیات کے خلاف اس میڈیا مہم کا آغاز "میٹگالا" آرٹ فیسٹیول سے ہوا۔ میٹ گالا، فیشن کی دنیا کے فنکاروں اور ڈیزائنرز کے لیے ایک سالانہ تقریب ہے، جو نیویارک کے میٹروپولیٹن میوزیم آف آرٹ میں منعقد کی جاتی ہے۔

دنیا کے سب سے نمایاں سماجی پروگراموں میں سے ایک ہونے کے ناطے، یہ فیسٹیول ہر سال فلم اور موسیقی کی دنیا کی کئی سرکردہ شخصیات کی میزبانی کرتا ہے۔ یوں ان سرکردہ شخصیات کی موجودگی دنیا کے میڈیا کی طرف سے وسیع کوریج کا سبب بنتی ہے اور ہمیشہ بہت زیادہ توجہ حاصل کرتی ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا، جب اس سال کے "میٹ گالا" کے ریڈ کارپٹ پر قیمتی کپڑوں میں ہالی ووڈ اداکاروں اور عالمی شہرت یافتہ گلوکاروں کی تصاویر کی اشاعت نے سائبر اسپیس صارفین کے غصے کو بھڑکا دیا، کیونکہ عین اسی وقت جب یہ مہنگی تقریب منعقد ہوئی، "رفح" شہر پر صیہونی حکومت کے حملے کی تصاویر کی خبریں منظر عام پر آئیں۔ بہت سے لوگوں نے اس تقریب کے انعقاد کو غزہ میں ہونے والے جرائم کو چھپانے اور اس سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش قرار دیا۔

لوگوں نے دیکھا کہ میٹ گالا کے ریڈ کارپٹ پر کیٹ واک کرنے والی مشہور شخصیات کی تصاویر اسی وقت نشر ہوئیں، جب فلسطینی بچوں کی لاشوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئیں۔ سابق امریکی ماڈل ہیلی قلیل نے غزہ کے بچوں کی بھوک پر تبصرہ کرتے ہوئے طنز کی اور کہا ’’انہیں کھانے کے لئےکیک دو۔‘‘ ان کے اس بیان کو فلسطینی بچوں اور خواتین کے قتل عام کی بے عزتی اور یہاں تک کہ زہریلہ مذاق سمجھا گیا اور بہت سے آن لائن صارفین نے سخت غم و غصے کا اظہار کیا۔ ہیلی قلیل کا تذکرہ ڈیجیٹل گیلوٹین تحریک کے پہلے فرد کے طور پر کیا گیا۔ ہیلی قلیل ایک متاثر کن ماڈل ہیں، جنہوں نے میٹ گالا سے پہلے 18ویں صدی کی میری اینٹونیٹ طرز کا لباس پہنے ہوئے اپنی ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی۔

انقلاب فرانس سے پہلے فرانس کی آخری ملکہ میری اینٹونیٹ کو لوئس کی معزولی کے بعد فرانسیسی انقلابیوں نے گیلوٹین کے ذریعے پھانسی دے دی تھی۔ سوشل میڈیا صارفین کو جس چیز نے ناراض کیا، وہ ہیلی قلیل اور میری اینٹونیٹ کے درمیان لباس اور میک اپ کا امتزاج نہیں تھا بلکہ، ہیلی کا میری اینٹونیٹ سے منسوب الفاظ کا تکرار تھا۔ فرانس کے انقلاب کی تاریخ سے متعلق کتابوں میں مذکور ہے کہ جب بھوک سے مرنے والے فرانسیسیوں کی بھوک کے بارے میں محل کی خوش حالی اور عیش و عشرت میں ڈوبی ماری اینٹونیٹ کو بتایا گیا کہ لوگوں کے پاس کھانے کے لئے خشک روٹی تک نہیں ہے تو ملکہ نے کہا وہ بسکٹ کیوں نہیں کھا لیتے۔

دریں اثناء، سائبر اسپیس صارفین نے ایک دوسرے کو "ڈیجیٹل گیلوٹین" مہم میں نام شامل کرنے کی دعوت دی۔ ایک ٹک ٹاک صارف نے ایک ویڈیو شیئر کی، جس میں اس نے میٹ گالا کے ریڈ کارپٹ پر غزہ کے لوگوں پر بمباری اور ہلاکتوں کی فوٹیج کے ساتھ مشہور شخصیات کی تصاویر کو آپس میں جوڑ دیا۔ امریکی یونیورسٹی کے طلبہ کے احتجاج کے ساتھ اس مہم کے اتفاق سے اس کی طاقت اور اثر و رسوخ میں مزید اضافہ ہوا اور اب ٹک ٹاک اور انسٹاگرام اور ایکس سمیت دیگر سوشل پلیٹ فارمز پر درجنوں صارفین  عوام کو "جدید بت پرستی"  یعنی ایسی سلیبریٹی کو فالو نہ کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا پر فالورز کی زیادہ سے زیادہ تعداد آرٹ سٹارز کے لئے نہ صرف ان کے اثر و رسوخ اور مقبولیت کی علامت ہوتی ہے، بلکہ یہ مشہور لوگوں کے لیے آمدنی کا زریعہ بھی ہوتا ہے۔ ان کی یہ شہرت ان کو ایک برانڈ میں تبدیل کر دیتی ہے۔ اس لیے اکاؤنٹس کو بلاک یا ان فالو کرکے انہیں ان کی اخلاقی اور انسانی ذمہ داری سے آگاہ کیا جا سکتا ہے۔

صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف خاموشی اختیار کرنے کی وجہ سے صرف امریکی مشہور شخصیات ہی نہیں بلکہ کئی ممالک کی شخصیات کو سوشل نیٹ ورکس پر ان فالو کیا جا رہا ہے اور ان کو مخالفت کی لہر کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر مقبوضہ فلسطین میں مشہور شخصیات اور یہودی فنکاروں اور فلم سازوں کو اسرائیلی فوجیوں کے وسیع جرائم کے بعد ہر طرح کے فیسٹیول کے انعقاد اور اپنی فنکارانہ سرگرمیوں پر پابندیوں کے بحران کا سامنا ہے۔ دنیا کے تمام بڑے فلمی میلوں میں فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہروں پر غور کیا جا رہا ہے، جو اسرائیل کی ثقافتی موت کی مانند ہے۔ اخبار ہاریٹز نے اسرائیلی ڈائریکٹر ایوی نیچر کے حوالے سے کہا ہے کہ اسرائیل کو اس وقت بائیکاٹ کی تحریکوں، سرمائے کی واپسی، پابندیوں اور فلسطینی حامی تنظیموں کی طرف سے دیگر اختلافی اعتراضات کا سامنا ہے۔

ثقافتی میدان میں طاقتور اور مؤثر طریقے سے مختلف فیسٹیول کے ڈائریکٹرز پر اسرائیلی فلمیں نہ دکھانے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ فلسطین کے حامی اداروں اور حامیوں نے فلم سازوں سے بھی کہا ہے کہ وہ نہ صرف ایسے فیسٹیولز میں شرکت سے گریز کریں، جہاں اسرائیلی فلم ہوں بلکہ ان فیسٹیولز کے خلاف مظاہرے اور احتجاج بھی کریں، یہی وجہ ہے کہ فیسٹیول کے منتظمین اسرائیلی فلموں کی موجودگی سے پیدا ہونے والی کشیدگی سے بچنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ہاریٹز نے غزہ کی پٹی پر حملے اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے بعد اسرائیلی ٹی وی سیریز کی صورتحال کے بارے میں لکھا ہے کہ ٹی وی سیریز کے میدان میں بھی، جہاں گذشتہ برسوں میں اسرائیل کی نمایاں موجودگی رہی ہے، صورت حال بدل گئی ہے۔ ایپل جیسے ادارے نے اسرائیلی ڈرامہ سیریز کی نشریات کو ملتوی کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ اب تو عام مسائل کا ذکر بھی آسان نہیں رہا۔

اس عبرانی اخبار کے مطابق مئی کے اواخر میں مقبوضہ علاقوں میں سب سے بڑے اور نمایاں ادبی پروگرام کے طور پر سالانہ قدس رائٹرز فیسٹیول میں مہمانوں کو مدعو کرنا مشکلات کا شکار ہے، حالانکہ اس سے قبل اس فیسٹیول کے منتظمین کے لیے وسیع پیمانے پر ہونے والی شرکت کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ ہاریٹز اخبار نے اسرائیلی ادیبوں کے بیرون ملک استقبال کے بارے میں بھی لکھا ہے کہ اب حالات بدل گئے ہیں۔ سادہ مخالفت سے شروع ہونے والی یہ تحریک سنجیدہ مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ اب لوگ اسرائیلی ادیبوں کی میزبانی سے ڈرتے ہیں اور انہیں داخلی اور خارجی دونوں جانب سے مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے پروگرام آسانی سے منسوخ کر دیئے جاتے ہیں۔

غیر ملکی مصنفین، خاص طور پر نوجوان مصنفین کتابوں کو عبرانی میں ترجمہ کرنے اور انہیں مقبوضہ علاقوں میں شائع کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ ہاریٹز نے آخر میں لکھا ہے کہ مروجہ نقطہ نظر یہ ہے کہ اسرائیل کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ یہ دنیا کا ایک بے مثال واقعہ ہے، اس سے پہلے اسرائیل کا ہر ناقد اسرائیل کے خلاف کسی بھی تنقیدی تبصرے کے بعد بائیکاٹ کے خوف کا شکار رہتا تھا، لیکن آج اسرائیل کی حمایت کرنے والوں کو بائیکاٹ کا سامنا ہے۔ آج، اسرائیلی سیاح اپنی شناخت چھپاتے ہیں، تاکہ انہیں راہ چلتے تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے۔


خبر کا کوڈ: 1142236

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1142236/bds-boycott-divestment-sanction

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com