QR CodeQR Code

حزب اللہ آمادہ ہے

13 Jun 2024 22:29

اسلام ٹائمز: اسرائیل کے شمالی محاذ میں داخل ہونے اور حزب اللہ کیساتھ براہ راست تصادم کو ایک اسٹریٹجک غلطی سمجھا جا رہا ہے اور اسکے تل ابیب کیلئے تباہ کن نتائج برآمد ہونگے۔ مزاحمتی محور کے طاقتور ارکان میں سے ایک کیساتھ براہ راست تصادم صیہونی حکومت کی انٹیلیجنس اور فوجی کوتاہیوں کی حقیقت کو پہلے سے زیادہ ظاہر کر دیگا۔ حزب اللہ اور تل ابیب کے درمیان براہ راست تصادم، گذشتہ دو دہائیوں میں حزب اللہ کی عسکری طاقت میں بہتری کو دیکھتے ہوئے، ایک ایسی دلدل ہوگی، جس سے نیتن یاہو کیلئے نکلنا تقریباً ناممکن ہوگا۔


ترتیب و تنظیم: علی واحدی

گذشتہ ہفتوں میں اسرائیل کے شمال میں فوجی نقل و حرکت میں اضافہ ہوا ہے، جس سے صیہونی حکومت اور حزب اللہ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسرائیل کے لیے شمالی محاذ ایک ایسی جگہ ہے، جہاں وہ غزہ سے پناہ گزینوں کو لبنان کی سرحد تک بھیج سکتا ہے اور کشیدگی کو مرکز سے لبنان کی طرف منتقل کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ، 7 اکتوبر کے بعد، اسرائیلی کی داخلی رائے عامہ ماضی کی طرح اسرائیلی فوج کی برتری پر یقین نہیں رکھتی، اس لئے غزہ سے باہر جنگ کا پھیلاؤ مزید پیچیدہ صورت حال کا باعث بنے گا۔

دوسری جانب حزب اللہ کے ساتھ حالیہ تصادم کی ماضی کی لڑائیوں سے کوئی مماثلت نہیں ہوگی۔ حزب اللہ کی عسکری اور سیاسی پیشرفت ایسی ہے کہ بعض اسرائیلی داخلی ماہرین کا خیال ہے کہ حزب اللہ کے ساتھ براہ راست تصادم میں داخل ہونے سے صیہونی حکومت کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور اس سے غیر متوقع فوجی و غیر فوجی نقصانات ہوں گے۔ حزب اللہ نے دو دہائیوں سے بھی کم عرصے میں دفاعی اور جارحانہ طاقت کو بہتر بنایا ہے۔ حزب اللہ کا وجودی فلسفہ صیہونی حکومت کی مخالفت ہے۔

درحقیقت حزب اللہ نے اسرائیل کی مخالفت میں اپنے وجود کی تعریف کی ہے۔ اس لیے اس گروہ کی فوجی طاقت میں اضافہ ہر صورت حال میں اسرائیل کے مفادات کے خلاف خطرہ ہی خطرہ ہے۔ 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں تل ابیب اور حزب اللہ کے درمیان تنازعات کے کئی ادوار رہے، 2000ء میں حزب اللہ، لبنان سے اسرائیلی فوجی دستوں کو نکالنے میں کامیاب ہوئی اور 2006ء میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ حزب اللہ کی برتری کے ساتھ ختم ہوئی۔2006ء سے حزب اللہ ایک مشکل لیکن تیز عمل سے گزری ہے اور اب اسے فوجی ہتھیاروں کی مقدار کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا غیر ریاستی گروپ سمجھا جاتا ہے۔

ان برسوں کے دوران حزب اللہ نے لبنان کے جنوب میں زیر زمین سرنگوں کا جال بچھا دیا ہے، جس کی وجہ سے اسرائیل مشکل میں ہے، خاص طور پر حماس کی طرف سے لڑائی کے اس طریقے کا تجربہ کرنے میں ناکامی کے بعد سرنگوں کا جال صیہونی حکومت کے لئے ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ مذکورہ بالا  دلائل کے علاوہ، شام میں جنگ کا تجربہ کرنے اور اس ملک میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف لڑنے کے بعد، حزب اللہ نے اپنی رسد کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے اور بہت سے جدید فوجی سازوسامان کو استعمال کرنا سیکھ لیا ہے۔

2006ء میں حزب اللہ کی میزائل صلاحیت مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں تک محدود تھی، لیکن اب، جارحانہ اور دفاعی دونوں جہتوں میں اپنی میزائل طاقت بڑھانے کے ساتھ ساتھ، اس جماعت نے تقریباً 200,000 طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے، جن سے وہ اسرائیل کی اہم فوجی پوزیشنوں پر حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اپنی فوجی طاقت کو بہتر بنانے کے علاوہ، حزب اللہ نے صیہونی حکومت کے ساتھ اپنی آخری براہ راست لڑائی کے بعد سیاسی طور پر بھی مثبت پیش رفت کی ہے اور اب اسے لبنانی سیاست کے میدان میں ایک اہم کردار سمجھا جاتا ہے۔

حزب اللہ لبنانی کابینہ میں سیاسی طور پر ایک فعال جماعت کے طور پر کردار ادا کرتی ہے۔ حزب اللہ کا موجودہ سیاسی وزن اسے وسیع کردار ادا کرنے اور لبنان کے اندر اور باہر فوجی اور سیاسی حمایت سے فائدہ اٹھانے کا موقع دے گا۔ دوسری طرف حزب اللہ کے میڈیا کے استعمال اور اس رجحان کی سافٹ پاور میں اضافے نے ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے کہ اسرائیل ماضی کی طرح اب بیانیہ کی جنگ نہیں جیت پائے گا۔

نتیجہ
اسرائیل کے شمالی محاذ میں داخل ہونے اور حزب اللہ کے ساتھ براہ راست تصادم کو ایک اسٹریٹجک غلطی سمجھا جا رہا ہے اور اس کے تل ابیب کے لیے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔ مزاحمتی محور کے طاقتور ارکان میں سے ایک کے ساتھ براہ راست تصادم صیہونی حکومت کی انٹیلی جنس اور فوجی کوتاہیوں کی حقیقت کو پہلے سے زیادہ ظاہر کر دے گا۔ حزب اللہ اور تل ابیب کے درمیان براہ راست تصادم، گذشتہ دو دہائیوں میں حزب اللہ کی عسکری طاقت میں بہتری کو دیکھتے ہوئے، ایک ایسی دلدل ہوگی، جس سے نیتن یاہو کے لیے نکلنا تقریباً ناممکن ہوگا۔


خبر کا کوڈ: 1141780

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1141780/حزب-اللہ-آمادہ-ہے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com