QR CodeQR Code

لبیک اللھم لبیک۔۔۔۔ کیا واقعی؟

14 Jun 2024 19:59

اسلام ٹائمز: مجھے نہیں معلوم لوگ کس طرح خدا کی بارگاہ سے نبی کریم ؐ کی بارگاہ میں جائیں گے۔ کس طرح غزوہ احد اور غزوہ بدر کے شہداء کی قبور پر فاتحہ پڑھیں گے۔ کیسے جنت البقیع میں شہداء، اصحاب رسول ؐ اور ائمہ اہلبیت ؑ کے حضور پیش ہونگے۔ میرے پاس ان سوالات کا کوئی جواب نہیں ہے۔ ہم نے اسلام کی ہر تعلیم اور عمل کو ایک رسم کا درجہ دیدیا ہے۔ رسوم معاشرے کی تشکیل میں کوئی کردار نہیں ادا کرسکیں۔ آج اذانین تو ہیں مگر روح بلالی نہیں ہے، آج نمازیں تو ہیں تو مگر سجدہ شبیری نہیں ہے، آج حج، عمرہ، روزے، خمس، زکواۃ سب کچھ ہے مگر اس میں روح اسلام کا فقدان ہے۔


تحریر: سید اسد عباس

امت مسلمہ کے صاحب استطاعت افراد کا ایک نمائندہ اجتماع سرزمین حجاز پر اسلام کے ایک اہم رکن حج کے لیے جمع ہوچکا ہے۔ یہ صاحب استطاعت مسلمان اس سرزمین پر حج کے ایام میں اعلان کریں گے کہ اے اللہ ہم تیری خدمت میں حاضر ہیں، تمام تعریفیں تجھے ہی سزاوار ہیں، ہم تیری خدمت میں حاضر ہیں اور اے اللہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ یہ حجاج کرام حج کے ایام میں شیطان کو کنکریاں ماریں گے اور حضرت ابراہیم کے اس عمل کی یاد تازہ کریں گے، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شیطان کے بہکاوے سے بچنے کے لیے انجام دیا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ شیطان نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل میں وسوسہ ڈالنے کی کوشش کی کہ اسماعیل کی قربانی کا حکم خواب ہے، بوڑھا باپ کیسے جوان بیٹے کو قربان کرسکتا ہے۔؟ کونسی شریعت میں بیٹوں کو ذبح کرنا جائز ہے۔؟

اگر آج بیٹا ذبح کر دیا تو یہ ہمیشہ کے لیے روایت پڑ جائے گی، حاجرہ کو کیا جواب دو گے کہ اس کے بیٹے کو کہاں کیا اور اس حکم خدا کی کیا دلیل پیش کرو گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی وادی میں شیطان کو کنکریاں مار کر اپنے پاس سے دور دوڑایا اور آج دنیا بھر سے مسلمان اسی رسم کو ادا کرتے ہیں، جس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ دین کی تعلیمات اور احکام خدا کی پیروی کے دوران میں ہم بھی شیطان کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔ مسلمان صفا و مرویٰ پر دوڑ کر حضرت حاجرہ کی پیاسے اسماعیل کی پیاس کو بجھانے کی سعی کی یاد کو تازہ کرتے ہیں۔ ایک لباس میں ملبوس وحدت کا رنگ لیے حجاج بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں اور اس امر کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم ایک قوم ہیں اور بیت اللہ کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات و احکامات کے پروانے ہیں اور ہمارا جان، مال، عیش و آرام سب خدا کے حکم پر قربان ہے۔

حج کے موقع پر حجاج قربانی کی یاد کو تازہ کرتے ہیں اور تمام حجاج اپنے اپنے حصے کا جانور راہ خدا میں قربان کرتے ہیں۔ یقیناً ان افراد میں کئی ایک مسلمان ممالک کے سربراہان مملکت، اہم وزراء، سفارتی اہلکار، حکومتی نمائندے، حاضر سروس و ریٹائرڈ فوجی و سول افسران، تاجر، پالیسی ساز اداروں کے سربراہان غرضیکہ ہر گوشہ زندگی سے تعلق رکھنے والے اہم افراد موجود ہوتے ہیں۔ اس اجتماع کو معاشرے کے موثر افراد کا اجتماع کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، تاہم اہم سوال یہ ہے کہ حج ان افراد کے لیے کیا حیثیت رکھتا ہے۔؟ یہ لوگ حج کے اعمال کو کس نیت، سوچ اور ضمیر کے ساتھ انجام دیں گے۔ جب یہ حجاج اللھم لبیک کی صدا بلند کریں گے تو کیا ان کو علم ہوگا کہ مظلوم فلسطینیوں پر گذشتہ آٹھ ماہ سے آگ و خون کی بارش ہو رہی ہے۔؟

کیا یہ موثر افراد جب اس بات کا اعلان کریں گے کہ "نعمتیں تیری جانب سے ہیں اور بادشاہی تجھ کو ہی زیبا ہے" تو اس بات پر یقین بھی رکھتے ہوں گے۔؟ جب یہ موثر مسلمان لا شریک لک لبیک کی صدائیں بلند کریں گے تو کیا واقعی یہ سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی، نفسانی خداؤں کا انکار کرکے یہ آوازیں بلند کر رہے ہوں گے۔؟ عالم اسلام کے یہ چنیدہ افراد جب صفا و مرویٰ کی وادیوں میں حضرت اسماعیل ؑ کی پیاس اور حاجرہ کی تڑپ کو یاد کرتے ہوئے سعی کر رہے ہوں گے تو کیا ان کے ذہنوں میں مظلوم فلسطینی بچوں کی چیخوں کی آوازیں اور ان کی لاچار ماؤں کی آہیں موجود ہوں گی۔؟ کیا حجاج کو چودہ سالہ فلسطینی بچے مصطفیٰ حجازی کا چہرہ دکھائی دے گا، جو چند روز قبل خوراک کی کمی کے باعث رفح کے ہسپتال میں دم توڑ گیا۔

کیا یہ حجاج حاجرہ سلام اللہ علیہا کی تڑپ کی یاد کو زندہ کرتے ہوئے ان سینکڑوں فلسطینی بچوں کے بارے میں سوچیں گے، جن کی مائیں خوراک اور ادویات کی منتظر ہیں۔؟ کیا سعی کرنے والے ان حجاج کو 7 اکتوبر سے آج تک شہید ہونے والے فلسطینی بچوں کی یاد آئے گی۔؟ عالم اسلام کا یہ موثر ترین اجتماع جب عرفات میں قیام کرے گا اور شیطان کو کنکریاں مارنے کے لیے پتھر جمع کرے گا تو ان کے ذہنوں میں شیطان سے مراد سیمنٹ کی دیوار ہوگی یا وہ شیطانی وسوسے جو انسان کو احکام الہیٰ کی پیروی اور ان پر عمل سے روکتے ہیں۔ کیا ان حجاج کرام کے بیت اللہ کے پھیرے اس امت کی تقدیر کے چکروں کی مانند تو نہیں ہوں گے، جس کا حاصل حصول جسمانی تھکن کے علاوہ کچھ نہیں، کیونکہ دل نے نہ بیت اللہ کی عظمت کو قبول کیا ہے اور نہ صاحب بیت کی عظمت اور اس کے دین کی حرمت کو۔

مجھے یہاں مولا حسین ؑ کا وہ جملہ یاد آرہا ہے کہ جو آپ نے ۵۹ ھ میں حجاج بیت اللہ کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ آپ کا کہنا تھا کہ مومن کے خون کی حرمت اس بیت اللہ سے زیادہ ہے۔ آج جب ہم فلسطین میں بہتا ہوا خون مسلم دیکھتے ہیں تو سمجھ نہیں آتی کہ مسلم امہ کو بیدار کرنے والے کہاں گئے، کہاں گئے حسین ؑ اور ابنائے حسین ؑ جنھوں نے ہمیشہ مسلم امہ کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور اس دین کی بقاء کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کیا۔ دنیا کے مسلمانوں کی عید الاضحیٰ کے موقع پر  قربانیاں تو اپنی جگہ امت مسلمہ کا نمائندہ اجتماع سرزمین حجاز پر جو قربانی کرتا ہے، نہیں معلوم ان کی نظر میں اس کی کیا حکمت ہوتی ہے۔ یہ جس عظیم عمل کی یادگار ہے، وہ تو یہی بتاتا ہے کہ مقصد کی راہ میں اگر اپنی عزیز ترین چیز بھی قربان کرنی پڑے تو انسان کو اس کے لیے آمادہ رہنا چاہیئے، تاہم آج مسلمان کا نہ کوئی اجتماعی مقصد و ہدف ہے اور نہ کوئی منزل۔

مجھے نہیں معلوم لوگ کس طرح خدا کی بارگاہ سے نبی کریم ؐ کی بارگاہ میں جائیں گے۔ کس طرح غزوہ احد اور غزوہ بدر کے شہداء کی قبور پر فاتحہ پڑھیں گے۔ کیسے جنت البقیع میں شہداء، اصحاب رسول ؐ اور ائمہ اہل بیت ؑ کے حضور پیش ہوں گے۔ میرے پاس ان سوالات کا کوئی جواب نہیں ہے۔ ہم نے اسلام کی ہر تعلیم اور عمل کو ایک رسم کا درجہ دے دیا ہے۔ رسوم معاشرے کی تشکیل میں کوئی کردار نہیں ادا کرسکیں۔ آج اذانین تو ہیں مگر روح بلالی نہیں ہے، آج نمازیں تو ہیں تو مگر سجدہ شبیری نہیں ہے، آج حج، عمرہ، روزے، خمس، زکواۃ سب کچھ ہے مگر اس میں روح اسلام کا فقدان ہے۔

مسلمان ممالک تو ہیں مگر اسلام کا نام و نشان نہیں ہے۔ بے تقویٰ عبادات، اعمال اور دعا، وظائف کسی کام کے نہیں ہیں۔ یہ ان نمازوں کی مانند پڑھنے والوں کے منہ پر دے مارے جائیں گے، جن میں خشوع و خزوع نہ ہو۔ خداوند کریم ہماری حالتوں پر رحم فرمائے۔ آج وہی دور ہے، جس سے امام زین العابدین علیہ السلام گزرے اور اس کا حل فقط اور فقط رجوع الی اللہ میں ہے۔ ہمیں صحیفہ کاملہ کی دعاؤں کو اپنے روز و شب کا معمول بنانا ہوگا۔ اسے امت مسلمہ کو تعلیم کرنا ہوگا، تاکہ اپنی حالت پر غور کرسکیں۔ خداوند کریم مظلوم فلسطینیوں اور دنیا بھر کے مظلوم انسانوں کی مدد و نصرت فرمائے اور منجی بشریت فرزند زہراء کے ظہور میں تعجیل فرمائے۔ آمین


خبر کا کوڈ: 1141765

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1141765/لبیک-اللھم-لبیک-کیا-واقعی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com