QR CodeQR Code

بجٹ 2024-25ء، کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، یہ بجٹ بُری بلا ہے

14 Jun 2024 12:49

اسلام ٹائمز: زیادہ دور کی نہیں صرف بیس پچیس سال پہلے تک سالانہ بجٹ کا لوگ انتظار کیا کرتے تھے، اخبارات خصوصی ضمیمے چھاپا کرتے تھے، اپوزیشن نے بجٹ کے متوازی بجٹ تیار کیا ہوتا تھا، بجلی، گیس، پیٹرول، مٹی کا تیل، ڈیزل، گھی، سیمنٹ، آٹا، چینی، سیگریٹ ایک ہی بار مہنگے ہوتے تھے، بجٹ کے بعد ایک ہی بار رو دھو لیا جاتا تھا اور پھر ایک سال تک مسلسل حکومتیں ان قیمتوں کو برقرار رکھنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیا کرتی تھیں اور یوں بجٹ عوام کے لیے کبھی خوشی کبھی غم کی صورت ایک بار ہی وارد ہوتا تھا۔


تحریر:  عامر رضا خان 

یہ بجٹ نہیں الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے، حکومت ملک کو معاشی دلدل میں دھکیل رہی ہے، قوم مزید قرضوں کے بوجھ تلے دب رہی ہے، عام آدمی کے لیے اس بجٹ میں کچھ نہیں، ہم بجٹ کے متوازی اپوزیشن کا بجٹ پیش کریں گے ، وزیر خزانہ نے اپوزیشن کے انتہائی شور شرابے میں بجٹ پیش کیا اراکین نے بجٹ کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اس کے پرزے اڑا دئیے، یہ منتخب حکومت ہی نہیں ووٹوں پر ڈاکہ ڈال کر حکومت بنائی گئی ہے وغیرہ وغیرہ اور وغیرہ۔ اگر آپ کو لگ رہا ہے کہ میں نے یہ بجٹ سال 2024/25 کے بجٹ کا احوال آپ کو بتایا ہے تو آپ غلط ہیں یہ تو گزشتہ دس سال کے ہر بجٹ کا احوال ہے جو نیٹ سے دیکھا جاسکتا ہے۔ اسحاق ڈار ہو، حفیظ شیخ، شوکت ترین، مفتاح اسماعیل یا اب محمد اورنگزیب، ہمارا بجٹ تبدیل ہوا یا نہیں، بجٹ کے اہداف اور محصولات زر کی شرح تبدیل ہوئی یا نہیں، قرض کی مالیت کتنی بڑھی کتنی گھٹی، سب کچھ بدلا لیکن اگر نہیں بدلا تو ہماری اپوزیشن کے منتخب اراکین اسمبلی کا رویہ ہے جو نہیں بدلا، یہ مسلم لیگ ن سے ہوں، پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف، اپوزیشن بنچز پر ایسے ہی رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں، معلوم نہیں کہ کیا ان بینچز پر کیل لگے ہیں یا کانٹے اُگے ہیں کہ کوئی ان پر ٹک کر بیٹھ نہیں سکتا، مہذب ملکوں میں تو اپوزیشن ایسی ایسی عوام دوست تجاویز حکومت اور عوام کے سامنے رکھتی ہیں کہ حکومت سے نا کھائے بنے نا چبائے بنے اور یوں اپوزیشن عوام میں اپنے ہمدردوں کی تعداد میں اضافہ کرتی ہے لیکن یہاں اپوزیشن کا رویہ ہمیشہ ہی منفی نظر آتا ہے جو کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔

قومی اسمبلی میں پیش ہونے والے بجٹ میں ایک بار پھر ایسا ہی رویہ دیکھنے کو ملا، وہی شور شرابا وہی چیخ و پکار اور وہی نو نو کی تکرار، عوام کو تو بجٹ سننا تھا جو اُن کے سر اوپر سے گذر گیا، سبھی اسی سوچ میں ہیں کہ یہ عوام دوست بہترین بجٹ ہے یا غریب مکاؤ بدترین بجٹ، زیادہ دور کی نہیں صرف بیس پچیس سال پہلے تک سالانہ بجٹ کا لوگ انتظار کیا کرتے تھے، اخبارات خصوصی ضمیمے چھاپا کرتے تھے، اپوزیشن نے بجٹ کے متوازی بجٹ تیار کیا ہوتا تھا، بجلی، گیس، پیٹرول، مٹی کا تیل، ڈیزل، گھی، سیمنٹ، آٹا، چینی، سیگریٹ ایک ہی بار مہنگے ہوتے تھے (کہ اس وقت تک اوگرا اور نیپرا جیسی بلاؤوں نے جنم نہیں لیا تھا جو ہر 15 دن کے بعد اور کبھی کبھی تو دو دو بار بھی انسانی خون چوستی ہیں) یا یوں کہیں ان کی قیمتوں کا تعین کیا جاتا تھا، بجٹ کے بعد ایک ہی بار رو دھو لیا جاتا تھا اور پھر ایک سال تک مسلسل حکومتیں ان قیمتوں کو برقرار رکھنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیا کرتی تھیں اور یوں بجٹ عوام کے لیے کبھی خوشی کبھی غم کی صورت ایک بار ہی وارد ہوتا تھا لیکن پھر کیا ہوا کہ ورلڈ اکانومی اُن کے ہاتھ آئی جو من و سلویٰ کے انکاری تھے اور ہیں۔

اب کے بجٹ تو پھیکا روکھا اعداد وشمار کا ایک ریاضی کدہ ہوتا ہے جس میں ایسے ایسے فگرز لکھی ہیں جن کا عام آدمی کی زندگی سے کوئی لینا دینا نہیں جس خوش کُن انداز میں بجٹ تقریر پڑھی اور سُنی گئی ہے اُسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے سال میں بھی خوشی کی کوئی خبر ایسی نا ہوگی کہ انسان حقیقی خوشی کا اظہار کرسکے، عام اور متوسط طبقہ ہر روز ایک بجٹ کے عذاب سے گزرتا ہے، کبھی دال کی قیمت بڑھتی ہے تو کبھی چاول ستم ڈھاتے ہیں اور کبھی پیٹرول بجلی انسانی گوشت کو جلاتے ہیں۔ یہ پہلا بجٹ ہے منی بجٹ آنا باقی ہیں، آپ کو بجٹ کے مندرجات بتانے سے پہلے چچا غالب کا شعر سنانا چاہتا ہوں کہ کہیں آپ بھی میری طرح کسی خوش فہمی میں مبتلا نا ہوجائیں، بجٹ میں سب کچھ مہنگا ہوگا بس سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں گریڈ ایک سے سولہ تک 25 فیصد اور اس سے اوپر گریڈ کے ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد پینشن میں 15 فیصد اضافہ لیکن نجی ملازمین اور عام عوام کو بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا ہے اور جو ملکی ترقی کے وعدے کیے جارہے ہیں اس کے بارے میں چچا غالب کہہ گئے۔

تِرے وعدے پر جِئے ہم، تو یہ جان، جُھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا


اور جو بجٹ پیش کیا گیا ہے یہ الفاظ کا ایسا گورکھ دھندہ ہے جس کے بارے میں مرزا غالب سے معزرت کے ساتھ ایک شعر میں تحریف کے

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، یہ بجٹ بُری بلا ہے
مجھے کیا بُرا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا


اب آئیں بجٹ کی جانب تو وفاقی وزیر سینیٹر محمد اورنگزیب نے اٹھارہ ہزار ارب سے زائدحجم کا بجٹ پیش کردیا ہے، بجٹ میں ایف بی آر کو تاریخ کا سب بڑا ٹیکس ہدف 12 ہزار 900 ارب تجویز کیا گیا ہے، ٹیکس آمدن کا تخمینہ 13 ہزار 320 ارب روپے لگایا گیا ہے، قرض اور سود کی مد میں ادائیگیوں کیلئے 9 ہزار 700 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، دفاع کے لئے 1252 ارب روپے کا بجٹ مختص کرنے کی تجویز ہے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 یا 20 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے، بجٹ خسارہ ساڑھے 9 ہزار ارب روپے سے زائد ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ آئندہ مالی سال کا وفاقی ترقیاتی بجٹ 1400 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت الگ سے 100 ارب روپے رکھنے کی تجویز آئندہ مالی سال کا مجموعی وفاقی ترقیاتی پروگرام 1500 ارب روپے کا ہوگا، آئندہ مالی سال انفرا اسٹکچر کے لیے 824 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ رکھنے کی تجویز، نئے مالی سال توانائی کے لیے 253 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ رکھنے کی تجویز، ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے لیے 279 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ ہوگا۔

آئندہ مالی سال پانی کے منصوبوں کے لیے 206 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تجویز، سماجی شعبہ 280 ارب اورصحت کے لیے 45 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تجویز، نئے مالی سال تعلیم اور ایچ ای سی کے لیے93 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تجویز، سائنس اور آئی ٹی کے لیے79 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تجویز، پارلیمنٹرینر کی اسکیموں کے لیے 75 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ مختص کرنے کی تجویز، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے 75 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تجویز، کے پی میں انضمام شدہ اضلاع کے لیے64 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تجویز، خوراک اور زراعت کے لیے 42 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ رکھنے کی تجویز، گورننس کے لیے28 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ مختص کرنے کی تجویز، آئندہ مالی سال پیداواری شعبے کے لیے50 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ رکھنے کی تجویز، نئے مالی سال انڈسٹریز کے لیے 8 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ رکھا گیا ہے۔ رہی عوام تو اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ بجٹ غمگسار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا


خبر کا کوڈ: 1141511

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1141511/بجٹ-2024-25ء-کہوں-کس-سے-میں-کہ-کیا-ہے-یہ-ب-ری-بلا

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com